’محمد علی‘ کرداروں میں حقیقت کا رنگ بھرنے والا عظیم فنکار

غلام محی الدین  اتوار 21 مارچ 2021
طویل کیرئیر کے دوران ریڈیو سے لے کر فلم تک فنکاری کے انمٹ نقوش چھوڑے۔ فوٹو؛ فائل

طویل کیرئیر کے دوران ریڈیو سے لے کر فلم تک فنکاری کے انمٹ نقوش چھوڑے۔ فوٹو؛ فائل

معروف اداکار محمد علی شہنشاہ جذبات کے لقب سے ممتاز ہوئے۔ پاکستان فلم انڈسٹری کے سنہرے دور کی جب بھی تاریخ لکھی جائے گی تو شہنشاہ جذبات محمد علی کا نام سنہرے حروف میں لکھا جائے گا۔

محمد علی ایک بہت بڑے فنکار اور عظیم انسان تھے۔ انہوں نے اداکاری میں اَنمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔19 مارچ کو اداکار محمد علی کو اپنے مداحوں سے بچھڑے 14 برس ہوگئے۔

محمد علی 19 اپریل، 1931ء میں بھارت کے شہر رام پور میں پیدا ہوئے۔ چار بھائی بہنوں میں وہ سب سے چھوٹے تھے۔ محمد علی ابھی صرف تین سال کے تھے کہ ان کی والدہ اللہ کو پیاری ہو گئیں۔ ان کے والد سید مرشد علی نے بچاں کی پرورش کی خاطر دوسری شادی نہیں کی حالانکہ اس وقت ان کی عمر صرف 35 برس تھی۔

محمد علی کا خاندان بہت مذہبی تھا۔ ان کے ہاں انگریزی تعلیم کو اچھا نہیں سمجھا جاتا تھا۔ محمد علی کے والد سید مرشد علی بہت بڑے دینی عالم تھے۔ محمد علی نے 14 سال تک اسکول کی شکل نہ دیکھی وہ صرف مدرسے میں اردو، عربی، فارسی وغیرہ کی تعلیم حاصل کرتے رہے۔

1943ء میں اپنے خاندان کے ساتھ ہجرت کر کے ملتان آ گئے۔ ملتان کے علاقے گڑ منڈی کی ایک مسجد میں محمد علی کے والد خطیب ہو گئے اور محمد علی اپنے والد کے ساتھ اس مسجد سے ملحق گھر میں مقیم رہے۔

ملتان آنے کے کچھ عرصے بعد سید مرشد علی کی سوچ میں تبدیلی آئی کہ وقت کے ساتھ چلنے کے لیے انگریزی تعلیم ضروری ہے اس لیے انہوں نے 1949ء میں محمد علی کو اسلامیہ اسکول ملتان میں داخل کرا دیا۔ ان کا ساتویں کلاس میں داخلہ ہوا اس کے ایک برس بعد ملت ہائی اسکول ملتان میں انہیں نویں کلاس میں داخلہ مل گیا۔

محمد علی کے خاندان کے زیادہ تر لوگ حیدرآباد سندھ میں رہتے تھے اس لیے 1955 ء میں وہ اپنے خاندان کے ساتھ حیدرآباد منتقل ہو گئے۔ اور سٹی کالج حیدرآباد سے انٹر پاس کیا۔

محمد علی کو پائلٹ بننے کا شوق تھا اور وہ پائلٹ بن کر ایئر فورس جوائن کرنا چاہتے تھے۔ مگر معاشی حالات خراب تھے ان کے پاس اتنے پیسے نہیں تھے کہ وہ ایبٹ آباد جاکر ٹرینینگ حاصل کرسکیں۔

انہیں تعلیم کا سلسلہ جاری رکھنا مشکل نظر آ رہا تھا۔ ذریعہ معاش کے لیے انہوں نے کوئی کام کرنے کا سوچا۔ ان کے بڑے بھائی ارشاد علی ریڈیو پاکستان حیدرآباد میں بطور ڈراما آرٹسٹ کام کر رہے تھے۔ انہوں نے ڈائریکٹر قیوم صاحب سے محمد علی کا تعارف کرایا۔

محمد علی نے اپنے کیرئر کا آغاز ریڈیو پاکستان حیدرآباد، سندھ سے کیا۔ ان کی بھرپور آواز نے انہیں ایک بہترین ریڈیو صداکار کی حیثیت سے منوایا اور انہیں فلمی دنیا تک پہنچانے میں بھی ان کی آواز نے ہی اہم کردار ادا کیا۔

اس وقت ایک ڈرامے کی صدا کاری کے دس روپے ملا کر تے تھے۔ انہوں نے ریڈیو پاکستان بہاولپور سے بھی پروگرام کیے۔ ان کی آواز سن کر ریڈیو پاکستان کے  ڈائریکٹر جرنل زیڈ۔ اے بخاری نے انہیں کراچی بلا لیا۔ محمد علی کی تربیت میں زیڈ۔ اے بخاری مرحوم کا بہت ہاتھ تھا۔ انہوں نے محمد علی کو آواز کے اتار چڑھاؤ، مکالموں کی ادائیگی، جذبات کے اظہار کا انداز بیاں اور مائکرو فون کے استعمال کے نشیب و فراز کے گُر سکھائے۔ زیڈ۔ اے بخاری نے ان کی آواز کی وہ تراش خراش کی کہ صدا کاری میں کوئی ان کا مدمقابل نہ رہا۔

1962ء میں فِلم ’ چراغ جلتا رہا‘ سے فلمی کیرئر کا آغاز کیا۔ اس فلم کا افتتاح کراچی کے نشاط سینما میں مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح نے اپنے ہاتھوں سے کیا تھا۔ فلم تو کامیاب نہ ہوئی لیکن محمد علی کی اداکاری اور مکالمے بولنے کے انداز نے دوسرے فلم سازوں اور ہدایتکاروں کو متوجہ کر لیا۔ جلد ہی ان کا شمار ملک کے معروف فلمی اداکاروں میں کیا جانے لگا۔ پہلی فلم کے بعد محمد علی نے ابتدائی پانچ فلموں میں بطور ولن کام کیا۔ محمد علی کو شہرت 1963 ء میں عید الاضحی پر ریلیز ہونے والی فلم “شرارت” سے ملی۔ انہوں نے درجنوں فلموں میں بحیثیت ہیرو کے کام کیا۔ ان کی فلموں کی زیادہ تر ہیروئن ان کی اپنی اہلیہ زیبا تھیں۔ انہوں نے 300 فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے۔ “علی زیب” کی جوڑی اتنی کامیاب تھی کہ انہوں تقریباً 75 فلموں میں اکٹھے کام کیا۔

محمد علی اور زیبا کی پہلی فلم “چراغ جلتا رہا” تھی۔ اس فلم کے پہلے ٹیک سے ہی محمد علی زیبا کی محبت میں گرفتار ہو گئے۔ لیکن  زیبا کی شادی اداکار سدھیر سے ہوگئی جو پہلے سے زیبا کی محبت میں گرفتار تھے۔ لالا سدھیر نے زیبا کو فلموں میں کام کرنے سے منع کر دیا۔ مگر زیبا نے اس پابندی کو قبول نہیں کیا۔ کچھ فلمی دوستوں کی مدد سے وہ سدھیر کو چھوڑ کر لاہور واپس آ گئیں اور کچھ عرصے بعد ان میں طلاق ہو گئی۔

فلم “تم ملے پیار ملا” کی شوٹنگ کے دوران ہی بروز جمعرات 29ستمبر، 1966 ء کی سہ پہر تین بجے اداکار آزاد کے گھر ناظم آباد میں محمد علی نے زیبا سے نکاح کر لیا۔ علی زیب نے ایک انتہائی خوش گوار بھر پور ازدواجی زندگی گزاری، کئی یادگار فلموں میں اپنی یادگاری کے جوہر دکھائے، نہ صرف پاکستان، بلکہ دوسرے ممالک میں بھی علی زیب ایک قابل احترام جوڑی کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ دونوں نے حج بھی کیا اور کئی عمرے بھی ادا کیے۔ اللہ نے انھیں بے شمار دولت، عزت اور شہرت عطا کی، لیکن اولاد جیسی نعمت سے محروم رکھا۔

محمد علی نے زیبا کی بیٹی ثمینہ کو ’جو لالا سدھیر سے تھی‘ اپنی سگی بیٹی کی طرح پالا اسے اپنا نام دیا۔ پندرہ سال تک وہ اپنا ایک خیراتی ادارہ چلاتے رہے۔ شادی کے بعد محمد علی اور زیبا نے “علی زیب” کے نام سے اپنا پروڈکشن ہاؤس قائم کیا اور “علی زیب” کے بینر تلے کامیاب فلمیں بنائیں۔

محمد علی نے کبھی بھی سیاست میں حصہ نہیں لیا۔ ان کے ذو الفقار بھٹو کے ساتھ دوستانہ تعلقات تھے۔ 1974ء میں مسلم سربراہی کانفرنس میں شرکت کے لیے آئے ہوئے سلطان قابوس اور شاہ فیصل شہید نے علی زیب ہاؤس میں ہی قیام کیا تھا، اسی دوران فلسطین کی تحریک آزادی کے رہنما یاسر عرفات مرحوم نے بھی محمد علی سے ملنے کی خواہش کی تھی اور مسقط عمان کے سلطان قابوس نے انھیں غیر سرکاری سفیر کی حیثیت سے تعریفی شیلڈ پیش کی، ایران کے شہنشاہ نے پہلوی ایوارڈ دیا۔ اس طرح عالمی سطح پر محمد علی کو مقبولیت حاصل رہی۔ پاکستان میں ہر سربراہ حکومت سے ان کے اچھے اور قریبی تعلقات قائم رہے۔ بھٹو کی حمایت کرنے پر 1977ء میں جنرل ضیاء الحق کے دور حکومت میں انھیں جیل بھی کاٹنی پڑی۔ بعد میں حالات ٹھک ہونے کے بعد جنرل ضیاء ا لحق سے محمد علی کے اچھے اور قریبی تعلقات ہو گئے۔ وہ ضیاء الحق کے ساتھ 1983ء میں بھارت کے دور پر بھی گئے۔ نواز شریف سے ان کے بہت قریبی تعلقات رہے، وہ ان کے ایڈوائز بھی رہے، محمد علی کو اسی طرح ہمیشہ قومی سطح پر اولیت دی جاتی رہی۔

محمد علی نے 277 فلموں میں کام کیا جن میں 248 اردو، 17 پنجابی، 8 پشتو، 2 ڈبل وریڑن انڈین، 1 بنگالی۔ 28 فلموں میں بطور مہمان اداکار اور ایک ڈاکو منٹری فلم میں کام کیا۔

1983ء میں بھارت کے دورے پر گئے۔ اس دورے کے دوران اندرا گاندھی نے ان کے ہمراہی جنرل ضیاء الحق سے خواہش ظاہر کی کہ محمد علی ہماری فلموں میں کام کریں، تاکہ فلموں کے ذریعے ہمارے تعلقات بہتر ہو سکیں، لہٰذا پاکستان آنے کے بعد ضیاء الحق نے خصوصی طور پر محمد علی کو ملاقات کے لیے بلایا اور بھارتی فلموں میں کا م کرنے کے لیے راضی کیا، یوں انھوں نے اپنی بیوی زیبا کے ساتھ منوج کمار کی فلم “کلرک” میں کام کیا لیکن جب منوج کمار نے فلم دیکھی تو محمد علی کی اداکاری کے سامنے خود کو بونا محسوس کیا اس لیے اپنے تعصب کی بنا پرمحمد علی کا سارا اہم کام کاٹ کر ان کا کردار ثانوی کر دیا، جس کے باعث فلم بھی ناکام ہو گئی۔

وہ 19 مارچ، 2006ء میں اچانک دل کا دررہ پڑنے پر دنیا سے کوچ کر گئے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔