کتابیں سمندرمیں پھینک دو

رئیس فاطمہ  ہفتہ 8 ستمبر 2012
رئیس فاطمہ

رئیس فاطمہ

پڑھے لکھے، سمجھ دار، مہذب اور اجتماعی شعور رکھنے والے افراد میری اس بات سے پوری طرح متفق ہیں کہ ہم ہر معاملے میں تباہی اور پستی کی طرف جارہے ہیںلیکن میرے جیسے ادب اور تعلیم سے وابستہ لوگوں کا دل دکھتا ہے جب علمی و ادبی اداروں کو روبہ زوال ہوتا دیکھتے ہیں۔ اور تحقیق پہ معلوم ہوتا ہے کہ فنڈز کی کمی کی وجہ سے کام رکا ہوا ہے۔ دراصل ہمارے دیس میں ادارے لوگوں کو پالتے ہیں، ان کی پی آر بڑھاتے ہیں۔

موجودہ اور گزشتہ حکومتوں نے ایک کام بڑی ایمان داری اور سلیقے سے کیا ہے اور وہ یہ کہ جی بھر کے علمی و ادبی اداروں کو تباہ کیا ہے، لائبریریوں کو برباد کیا ہے۔ پبلشنگ اداروں کی سرپرستی کے بجائے برگر شاپس کھولنے پر زیادہ توجہ دی ہے۔ صرف چند اداروں کی مثال پیش کرنے سے ہی تمام اداروں کی کارکردگی کھل جائے گی۔ سب سے پہلی تباہی جو ان سرکاری اداروں کے نصیب میں لکھی گئی وہ یہ کہ ایسے ایسے لوگوں کا تقرر کتابوں سے وابستہ اداروں میں کیا کیا جنھوں نے تقرر نامہ لے کر جب ان اداروں کی سیڑھیاں چڑھیں تو پوچھا ’’اس ادارے کا کام کیا ہے۔‘‘

ہوسکتا ہے کسی دل جلے ماتحت نے دل ہی دل میں کہا ہو، یہ بھٹیار خانہ ہے یہاں تندور پہ روٹیاں لگتی ہیں۔ علمی و ادبی کاموں کے حوالے سے چند ادارے زیادہ معروف ہیں۔ مقتدرہ قومی زبان، اکادمی ادبیات پاکستان، نیشنل بک فائونڈیشن، ادارہ یادگارِ غالب، لیاقت نیشنل لائبریری، اردو ڈکشنری بورڈ اور انجمن ترقی اردو پاکستان۔ یہ تمام ادارے جن میں سے بیشتر پبلشنگ ہائوس بھی ہیں۔ ان میں فی الحال سرفہرست نیشنل بک فائونڈیشن، مقتدرہ قومی زبان اور انجمن ترقیٔ اردو ہیں۔ لیکن جہاں تک اکادمی ادبیات پاکستان کا تعلق ہے تو اس کے صوبائی دفتروں کا بھی وہی حال ہے جو مرکزی دفتر کا۔

فخر زماں کے جانے کے بعد یہ ادارہ بہت عرصے لاوارث رہا۔ بہت سی کتابیں اشاعت کی منتظر تھیں، لیکن نہ فنڈز تھے اور نہ چیئرمین۔ پھر ادارے کے نصیب جاگے، پھر ایک سینئر صحافی کے بھائی بیوروکریٹ تشریف لائے۔ لوگ مطمئن ہوئے کہ اب وہ کتابیں جو مدتوں سے کمپوز ہوئی اشاعت کی منتظر ہیں، اب ان کے نصیب جاگیں گے! لیکن… نصیب جاگے تو چیئرمین کے کمرے کے! کتابوں کے مسودے تو یوں ہی کاغذی کفن میں لپٹے پڑے ہیں۔

لیکن میرا خیال ہے کہ موجودہ چیئرمین صاحب نے اپنے دفتر کی جدید ترین تزئین و آرایش کروا کے اس میں UPS لگوا کے یقیناً ایک اچھا کام کیا ہے! کیونکہ کتابوں کا کیا ہے وہ تو افتخار عارف کے زمانے میں بہتیری چھپ گئیں۔ اور پھر کتابیں پڑھتا بھی کون ہے۔ خواہ مخواہ کاغذ اور پیسہ ضایع کرنے کے بجائے کم از کم چیئرمین کا دفتر تو اس قابل ہو جو ان کے شایانِ شان ہو، بالکل صدارتی محل اور وزیراعظم ہائوس کی طرح سیاحوں کے لیے مرکزِ نگاہ۔

کتاب کلچر کو فروغ دینے میں جس ادارے نے سب سے زیادہ خدمات انجام دی ہیں ان میں نیشنل بک فائونڈیشن سرفہرست ہے ۔ افتخار عارف جس ادارے سے بھی وابستہ رہے انھوں نے کام کرکے دِکھایا۔ وہ کتابیں جو ان کے دور میں شایع ہوئیں وہ خود ایک منہ بولتا ثبوت ہیں۔ مقتدرہ کے ڈاکٹر انوار احمد کی مدّتِ ملازمت میں توسیع ہوئی تو خوشی ہوئی کہ وہ بھی ان لوگوں میں سے ہیں، جو کام، کام اور صرف کام پر یقین رکھتے ہیں۔ ’’اخبار اردو‘‘ کی اشاعت مسلسل جاری ہے، کتابیں بھی شایع ہورہی ہیں اور وہ اپنے ادارے کی بہتری کے لیے کوشاں ہیں۔

انجمن ترقیٔ اردو اور ادارہ یادگارِ غالب نہ صرف یہ کہ پبلشنگ ادارے ہیں بلکہ یہ بہت اہم اور بڑے کتب خانے بھی ہیں، لیکن ان کے وسائل محدود ہیں۔ دونوں ادارے علمی و تحقیقی کام کرتے ہیں۔ لیکن ایک بات کا دکھ ہے وہ یہ کہ بابائے اردو مولوی عبدالحق سے وابستہ ادارے کو چاہیے تھا کہ وہ کتابوں کی اشاعت کے سلسلے میں ’’معیار‘‘ کو مدنظر رکھے۔ لیکن افسوس کہ اس میں کوتاہی برتی گئی۔ اور بیشتر کتابیں محض سفارش اور تعلقات کی بنیاد پر شایع ہو کر گوداموں میں پڑی ہیں۔ عالی صاحب کی صحت بھاگ دوڑ کی اجازت نہیں دیتی، سارا بار اظفر رضوی کے کاندھوں پر ہے، جسے وہ بخوبی نبھا رہے ہیں۔

میں نے ذاتی طور پر بھی ان کی توجہ اس جانب مبذول کروائی تھی کہ انجمن جیسے قومی ادارے کو سفارش کی بھینٹ نہ چڑھایا جائے اور اب تو پروفیسر سحر انصاری بھی اسی ادارے سے وابستہ ہیں۔ اس لیے بہتری کی امید پہلے سے زیادہ ہے۔ لیکن اظفر رضوی بھی کیا کریں؟ انجمن ہو یا کوئی اور ادارہ ہیں تو اسی ملک پاکستان کے ادارے۔ جہاں ہر طرف میرٹ کو بری طرح نظرانداز کرکے نااہل لوگوں کے سر پر تاج رکھے جاتے ہیں، مقالے پڑھے جاتے ہیں، کیونکہ زمانہ انھی لوگوں کا ہے۔ ایمان دار آدمی کسی بھی شعبے میں کامیاب نہیں ہوسکتا، اسے ایک سازش کے تحت دیوار سے لگادیا جاتا ہے۔

انجمن ترقیٔ اردو اور ادارہ یادگارِ غالب میں میری معلومات کے مطابق تمام کتابیں عطیہ کی ہوئی ہیں۔ کم از کم دونوں اداروں کے سرکردہ منتظمین کو چاہیے کہ ہر سال جب انھیں فنڈز ملیں۔ کچھ نہ کچھ بے حد ضروری، علمی اور تحقیقی کتب کی خریداری ضرور کی جائے، کیونکہ جب ریسرچ اسکالرز ان کتب خانوں کا رخ کرتے ہیں تو انھیں مطلوبہ کتب نہیں ملتیں یا تو اعزازی رسائل دستیاب ہوتے ہیں یا پھر وہ کتب جو مصنفین اپنی مرضی سے ادارے کو عطیہ کردیتے ہیں۔ کتابوں کے ساتھ ساتھ ان اداروں میں عملے کی کمی کا رونا بھی ہے۔

جہاں پہلے تحقیق سے کم از کم چار سے پانچ لوگ وابستہ تھے وہاں اب صرف دو افراد کام کررہے ہیں۔ جو شخص ریٹائر ہوگیا یا مر گیا اس کی جگہ کوئی نیا اپائنمنٹ نہیں ہوا۔ کتابوں کا حال دیکھیے تو انجمن اور غالب لائبریری میں ایسی نادر نادر کتب موجود ہیں کہ کیا کہنے۔ لیکن جب ان نایاب کتب کو کھولیں تو دیمک زدہ صفحے آپ کی آنکھوں میں نمی لے آتے ہیں۔ کتابیں خستہ اور بوسیدہ ہورہی ہیں۔

لیکن خدا جانے کیوں نہ تو ان پر دوائیں چھڑکی جارہی ہیں (اگر فیومیگیشن ہوا ہو تو میرے علم میں نہیں) نہ ہی ان کی دوبارہ جلد بندی ہورہی ہے۔ ہمارے ہاں کولا مشروبات اور موبائل فون کمپنیاں کھلاڑیوں پہ جی بھر کے نوٹ نچھاور کرتی ہیں۔ کاش ان میں سے کوئی ادارہ ان نایاب کتب خانوں کی حالتِ زار کی خبر لے۔ بے شک اس خدمت کے عوض ادارے میں ان کے نام کی تختی ضرور لگ جائے گی۔

دوسرے کتب خانوں کا بھی یہی حال ہے۔ لیاقت نیشنل لائبریری بھی اب لائبریری کم اور کھنڈر زیادہ لگتی ہے۔ کوئی حکومت نہ کتب خانوں کی سرپرستی کرتی ہے نہ کتاب کلچر کے فروغ کے لیے کام کرتی ہے۔ شاید ان کا ایجنڈا جہالت کا فروغ ہے، کیونکہ بنیادی طور پر ہماری سوسائٹی قبائلی اور جاگیرداری سسٹم کی آئینہ دار ہے۔ بلوچستان میں سرداروں نے تعلیم کا فروغ اس لیے نہیں ہونے دیا کہ عوام اگر پڑھ لکھ گئے تو غلامی کون کرے گا۔ سرحد کا حال بھی بعینہ یہی ہے۔

رہ گئے شہری علاقے تو وہاں کتاب کلچر کے بجائے پیزا کلچر، برگر کلچر اور منشیات فروشوں کے کلچر کی آبیاری ہورہی ہے۔ نوجوان نسل جس طرح مختلف نشے کرتی ہے، اس میں ان کے والدین اور ماحول کی مدد شامل ہے، کیونکہ ہر نشہ ترنگ عطا کرتا ہے، دنیا رنگین نظر آنے لگتی ہے۔ اس لیے نودولتیا طبقہ تو اسے اسٹیٹس سمبل سمجھ کر اختیار کرتا ہے، جب کہ آسایشوں سے محروم نوجوان نسل اس نشے میں اپنی محرومیوں کا ازالہ ڈھونڈتی ہے۔

علمی و ادبی اداروں کی تباہی پر دل روتا ہے۔ یقین نہیں آتا کہ ’’علم‘‘ کبھی ہمارا سرمایہ تھا۔ دنیا آگے کی طرف بڑھتی ہے۔ ہم واپس جہالت کے دور میں جارہے ہیں… لیکن پھر بھی کم از کم اسلام آباد میں کہ وہ سرکار کا شہر ہے۔بعض اداروں کا وجود دل کو ڈھارس دیتا ہے کہ جو کچھ بھی تھوڑا بہت علمی و ادبی کام ہورہا ہے وہ یہی دونوں ادارے کررہے ہیں۔

اگر دیگر اداروں کے سربراہان بھی اپنے اندر یہی جذبہ پیدا کرلیں تو جہالت کے عفریت کو وہ پیچھے دھکیل سکتے ہیں، لیکن یہ اسی وقت ممکن ہے جب علمی و ادبی اور تحقیقی اداروں کے سربراہوں کا پس منظر علمی و ادبی ہو۔ ورنہ تو مثال ہمارے سامنے ہے کہ جب ایک سرجن وزیر پٹرولیم بنتا ہے تو کیا نتائج نکلتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔