بد سیرت چلتا پھرتا جنازہ ہے

آفتاب احمد خانزادہ  جمعـء 26 مارچ 2021
aftabkhanzada2@yahoo.com

[email protected]

ہاؤ نے کہا تھا ’’ لفظ اگر ایک بار چھپ جائیں تو پھر وہ اپنی زندگی ضرورگذارتے ہیں‘‘ جب کہ ارسطوکہتا ہے ’’ جو بد سیرت ہے وہ چلتا پھرتا جنازہ ہے‘‘ انسان جس دولت ، عہدوں ، رتبوں ، مرتبوں کے لیے ساری زندگی مارا مارا پھرتا ہے ، جھوٹ بولتا ہے ، دھوکا دیتا ہے خوشامد اور چاپلوسی کرتا ہے۔ کرپشن ، لوٹ مار اور فراڈ کرتا ہے اپنے ہی جیسے انسانوں کو روندتا اورکچلتا ہے ، انھیں ذلیل و خوار کرتا ہے۔

آئیں! ان چیزوں کی اصل حقیقت اور حیثیت کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ میری آپ سے درخواست ہے کہ ہمارے وہ کرپٹ سیاسی قائدین ، حکمران ، بیوروکریٹس ، جاگیردار ، سرمایہ دار، بلڈرز جو 80سال یا اس سے زائد عمر کو پہنچ چکے ہیں ، ان سے کسی نہ کسی طرح ملاقات کرکے ان کے دل کا بھی حال احوال کرنے کی ضرورکو شش کیجئے گا تاکہ آپ کو بھی دولت ، عہدوں ، رتبوں ، مرتبوں کی اصل حقیقت اور حیثیت سے ذاتی آگاہی حاصل ہوسکے ۔ دو مرتبہ دنیا کی سب سے بڑی سپر پاورکا پر کشش صدر رہنے والے بل کلنٹن نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ ’’ اگر آج میرے ہاتھ میں ہوکہ میں 30 سال کا ہو جاؤں اور بدلے میں مجھے امریکا کی صدا رت کی قربانی دینی پڑے تو میں اس سودے کے لیے راضی ہوں۔‘‘

اس دنیا میں اور اس کی چیزوں کے بارے میں حضرت فضیل بن عیاض اور خلیفہ ہارون الرشید کے درمیان مکالمہ ہوا تھا۔ خلیفہ ہارو ن الرشید حضرت فضیل کی خدمت میں اشرفیوں کے توڑے لے کر حاضر ہوا تو فضیل بن عیاض ؒ نے پو چھا۔’’ خلیفہ المو منین اگر آپ صحرا میں پیاسے ہوں اور دم نکلنے کو ہو تو پانی کے چندقطروں کے عو ض کیا دے سکتے ہیں۔‘‘

ہارون الرشید نے ترنت جواب دیا ’’ اپنی آدھی سلطنت ‘‘ حضرت فضیل ؒ نے دوبارہ پوچھا ’’ اگر پانی کے یہ قطرے اندرجاکر اودھم مچا دیں اور پیشا ب باہر نہ نکلے تو اس تکلیف سے بچنے کے لیے کیا کرگذریں گے ‘‘ ہارون الرشید نے فوراً جواب دیا ’’ اپنی باقی ماندہ سلطنت ‘‘ حضرت فضیل ؒ نے مسکراتے ہوئے کہا ’’خلیفۃ المسلمین‘‘ آپ مجھے بھی اپنی اس سلطنت میں سے کیا دے سکتے ہیں جس کی قیمت پانی کے چند قطروں سے زیادہ نہیں ہے۔

’’سکندر اعظم نے ساری معلوم دنیا فتح کر ڈالی تھی مگر جب آخر وقت آیا تو اس نے کہا تھا ’’ میں دنیا کو فتح کرنا چاہتا تھا مگر موت نے مجھ کو فتح کر لیا افسوس کہ مجھ کو زندگی کا وہ سکون بھی حاصل نہ ہوسکا جو ایک معمولی آدمی کو حاصل ہوتا ہے ‘‘ ہابزکہتا ہے کہ ’’ انسان میں طاقت واقتدار کی خواہش باقی سب خواہشات سے بڑھ کر ہوتی ہے اقتدار در اقتدار کی ایک مستقل اور مضطرب خواہش ہمیں اس وقت تک دو رائے لیے جاتی ہے جب تک کہ ہمیں موت نہیں آن لیتی ‘‘ وہ آگے کہتا ہے کہ ہم ایسے سماجوں میں زندگی بس کرتے ہیں جو جنگل سے زیادہ مختلف نہیں اور اس بظاہر انتہائی ترقی یافتہ تہذیب کے نیچے چوروں اور قاتلوں کا ایک جہان آباد ہے جو نظام میں ذرا سا خلل واقع ہونے پر جھٹ سے باہر آجاتا ہے۔

سقراط نے عدالت میں اپنے آخری خطاب میں کہا تھا ’’ میرے لیے مشکل موت سے بچنا نہیں بلکہ بے ایمانی اور غیر حق سے بچنا ہے یہ بات کہیں زیادہ مشکل ہے کیونکہ بے ایمانی موت سے زیادہ خطرناک ہے اور موت سے زیادہ تیزی سے پیچھا کرتی ہے۔

میں بوڑھا اور سست ہوں لہٰذا مجھے آہستہ یعنی موت نے آلیا ہے جب کہ میرے مدعی زیادہ چالا ک اور سبک رفتار ہیں اس لیے انھیں تیز رو یعنی شرنے پکڑ لیا ہے ‘‘ ، روم کی عظمت کا ترجمان مشہور خطیب ، فلسفی ، محقق ، سیاست دان اور وکیل سسرو کے بارے میں فرانس کے مشہور مصنف والٹیر نے لکھا تھا ’’ اس سے زیاد ہ حق پرستانہ ، عقل مندانہ اور نافعانہ تحریرکسی نے نہیں لکھی ۔ تعلیم و تربیت اور اخلاق و تہذیب کا سبق دینے والوں کے لیے لازم ہے کہ وہ سسرو کے پیش کیے ہوئے اعلیٰ کردار کے نمونے اپنے تلامذہ کے سامنے رکھیں ورنہ وہ محض نیم حکیم کہلائیں گے ‘‘ سسرو اپنے بیٹے مارکس کو لکھتا ہے یوں تو اخلاقی فلسفے کا ہر لفظ بامعنیٰ اور ثمرآور ہے لیکن اس کا سب سے زیادہ بار آور حصہ وہ ہے جو اخلاقی ذمے داروں اورفرائض سے متعلق ہے جو آدمی زندگی میں عزت و آبرو اور مقام و منصب حاصل کرنا چاہتا ہے، اس کے لیے اخلاقی فلسفے کی تعلیم نا گزیر ہے۔ سسرو نے تین سوالوں کے ذریعے اخلاقی فرائض کو تین حصوں میں تقسیم کیاہے۔

(۱) کیا ہمارا عمل اخلاقی طور پر حق ہے یا باطل ؟ (۲) کیا یہ فائدے مند ہے یانقصان دہ ؟ (۳) جب حق اور ذاتی مفاد میں بظاہر تصادم ہو رہا ہے تو ان میں سے کسے ترک اور کسے اختیارکیاجائے ؟ وہ کہتا ہے کسی دوسرے کے نقصان سے فائدہ اٹھانا موت ، مفلسی ، اور دکھ سے زیادہ المناک اورغیر فطری فعل ہے ہمیں ہرکلیس کی طرح دکھ درد اور مصائب و تکالیف برداشت کرکے دوسروں کی خدمت اور حفاظت کرنی چاہیے نہ کہ ایک گوشے میں بیٹھ کر لطف و راحت کی زندگی گذارنی چاہیے ۔ اعلیٰ و عظیم کردارکے لوگ اپنی زندگی خدمت کے لیے وقف کردیتے ہیں اور ذاتی مفاد اور آرا م کو بالکل ترک کر دیتے ہیں۔ اخلاقی کو تاہی روحانی طور پر موت ، مفلسی ، دکھ درد اور عزیزوں ، دوستوں اور بچوں سے محرومی سے زیادہ خطرناک ہے۔

یاد رکھیں جب ذہنوں اور روحوں میں ناسور پیدا ہوجاتے ہیں تو سماج جنگل بن جاتے ہیں۔ آج پاکستانی سماج ایسا جنگل بن چکا ہے جہاں غلاظت سے بھرے طاقتور اور بااختیار جانوروں کے علاوہ اورکچھ نہیں باقی بچا ہے وہ جانور جو صرف اپنے ناسور چاٹ رہے ہیں۔ ایک دوسرے کو نو چ رہے ہیں ایک دوسرے کو چیر اور پھاڑ رہے ہیں جہاں تہذیب وتمدن ، تعلیم ، قانون ، انصاف ، اخلاق ، شرافت ، ایمان داری کی ننگی لاشیں درختوں پر پرلٹکی ہوئی ہیںعزت و وقار ، عقل و دانش کی لاشوں کو گدھ کھارہے ہیں جہاں طاقتور جانور نوٹوں کے ڈھیروں پر رقص کررہے ہیں اور باقی سب اور بھوکے ہورہے ہیں اور ننگے ہورہے ہیں اور زیادہ تڑپ رہے ہیں اور زیادہ بلک وسسک رہے ہیں ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔