پاک بنگلادیش تجارت

ایم آئی خلیل  جمعـء 26 مارچ 2021

رواں برس ماہ مارچ میں بنگلادیش اپنی آزادی کی پچاسویں سالگرہ منا رہا ہے جس میں شرکت کے لیے بھارتی وزیر اعظم ڈھاکا پہنچ رہے ہیں۔ اس خبرکے ساتھ ہی بنگلادیش میں اس دورے کے خلاف احتجاج بھی کیا جا رہا ہے۔

مارچ 1971 کے تیسرے عشرے کے آغاز کے ساتھ ہی بنگلادیش میں حالات خراب ہونے کا آغاز ہو گیا تھا۔ جس کا آخری نتیجہ سقوط ڈھاکا کی صورت میں برآمد ہوا اور پاکستان کا مشرقی بازو کٹ کر رہ گیا ، لیکن ان پچاس برسوں میں بنگلادیش کے حکام نے ملک بھر میں ایسے منصوبے شروع کیے ان کو پایہ تکمیل تک پہنچایا جس کے ثمرات آج تک محسوس کیے جا رہے ہیں۔

صرف سڑکیں اور پل بنانے پر اکتفا نہ کیا بلکہ سیلاب سے بچنے ، شہریوں کو بچانے ، زراعت کی پیداوار میں تیزی سے اضافہ کرنے کے ساتھ غربت میں کمی لانے ، خوراک کی پیداوار بڑھانے ، کروڑوں افراد کو خط غربت سے نکالنے کے لیے منصوبہ بندی کی گئی ، اگر قرض گیری ہوئی بھی تو سارا پیسہ پراجیکٹس مکمل کرنے میں عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کیا گیا۔ ٹیکسٹائل اور ریڈی میڈگارمنٹس کی برآمدات میں اپنا ایسا لوہا منوایا کہ اب بھارت اور چین کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔

اب خبریں یہ آ رہی ہیں کہ بنگلادیشی نوجوان ، ماہرین انفارمیشن ٹیکنالوجی یعنی اب آئی ٹی میں اپنا لوہا منواتے ہوئے اپنی پراڈکٹس کی ایکسپورٹ کو کئی ارب ڈالر تک لے جانے کے خواہاں ہیں۔ شواہد یہ پیش کیے جا رہے ہیں کہ ریڈی میڈ گارمنٹس کی طرح یہ مرحلہ بھی جلد طے ہو جائے گا اور بنگلادیش انفارمیشن ٹیکنالوجی برآمد کرنے والا اہم ملک بن جائے گا۔ سال 2019 میں جب پاکستان کی کل برآمدات کی مالیت 23 ارب ڈالر تھی بنگلادیش کی برآمدات 41 ارب ڈالر تھیں۔

ایک لاکھ 47 ہزار مربع کلو میٹر والا یہ ملک جس کی آبادی 17 کروڑ کے لگ بھگ ہے اوسط عمر 73 سال اور لٹریسی ریٹ بھی 73 فیصد ہے۔ جی ڈی پی گروتھ گزشتہ برس 8 فیصد فی کس آمدن 2019 میں 2 ہزار ڈالر کے قریب جب کہ پاکستان کی جی ڈی پی گروتھ 8 فیصد، 1960 کے عشرے میں تھی اور اب پاکستان کی فی کس آمدن بھی 15 سو ڈالر تک ہی ہے جس کی اہم معدنی پیداوار میں نیچرل گیس، کوئلہ وغیرہ شامل ہیں۔ اہم صنعتی پیداوار میں گارمنٹس لیدر اور لیدر گارمنٹس، میڈیسن اور کیمیکلز وغیرہ شامل ہیں۔

ایک اندازے کے مطابق 3 کروڑ 70 لاکھ میٹرک ٹن چاول کی پیداوار، آلو کی پیداوار 98 لاکھ میٹرک ٹن، گندم محض 14 لاکھ میٹرک ٹن، گنا بھی پیدا ہوتا اور پیاز 17 لاکھ ٹن سے زائد، دالیں محض 4 لاکھ ٹن تک۔ پاکستان کے مقابلے میں سوائے چاول کے کوئی خاص پیداوار بھی نہیں۔ پاکستان میں چاول، گندم، گنا، کپاس، مکئی، دالیں، سبزیاں اور پھل وغیرہ لاکھوں ٹن پیدا ہوتی ہیں اور مختلف پھل، سبزیاں اور کپاس اور دیگر غذائی اشیا مثلاً چاول ، گندم بھی اکثر اوقات بڑی تعداد میں ایکسپورٹ کرتے رہے ہیں۔ گنے سے چینی بنا کر برآمد کرتے رہے ہیں اس کے علاوہ بنگلادیش میں کپاس بالکل پیدا نہیں ہوتا۔

پاکستان کپاس کی پیداوار میں دنیا کا چوتھا بڑا ملک ہے، لیکن گارمنٹس کی صنعت میں بنگلادیش اب اہم ترین ملک بن چکا ہے۔ اس کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ پاکستان میں 2007 کے بعد سے بلکہ کچھ پہلے سے ہی ایسے حالات پیدا ہوگئے کہ غیر ملکی سرمایہ کار اور پاکستانی سرمایہ کاروں نے توانائی بحران سے تنگ آ کر بالآخر بنگلادیش کا رخ کیا جہاں ان کو توانائی کی تمام سہولیات میسر آگئیں۔ بتدریج ان کی ایکسپورٹ اب 40 ارب ڈالر سے زائد ہوگئی ہیں۔

بنگلادیش کے دس بڑے اہم تجارتی شراکت دار جن سے امپورٹ کرتا ہے ، ان میں پاکستان کی طرح چین سرفہرست ہے۔ 2018-19 کے اعداد و شمار کے مطابق اس کا حصہ 22 فیصد بن رہا ہے۔ پھر بھارت 14 فیصد سنگاپور سے 8 فیصد کی درآمدات کی جاتی ہیں ۔ انڈونیشیا کا 5 فیصد حصہ ہے۔

ان 10 ممالک کی فہرست میں پاکستان کا نام شامل نہیں ہے، جب کہ سقوط ڈھاکا سے قبل دونوں حصوں کے درمیان بڑی تعداد میں تجارت ہوا کرتی تھی۔ بنگلادیش کے اس وقت کے تاجر بحری جہازوں کے ذریعے بڑی مقدار میں گندم ، سبزیاں ، پھل ، کپڑے ، جوتے ، کھیلوں کا سامان، چاقو، چھریاں، تالے اور گجرانوالہ کی فیکٹریوں کے بنے ہوئے مختلف اقسام کی اشیا اور کراچی کے تاجروں سے بہت سا سامان تجارت منگوایا جاتا تھا۔ اسی طرح مغربی پاکستان کے تاجر بھی پان ، بیڑی ، پھلوں میں لیچی، کٹھل ، انناناس ، سبزیوں کی کئی اقسام، چائے، پٹ سن، ماچس اور بہت سا سامان تجارت منگوایا کرتے تھے۔ ان سامان تجارت کی دونوں حصوں میں ترسیل اور وصولی کی تفصیلات پاکستان بیورو آف شماریات کے مختلف ریکارڈز میں مل جائیں گی۔

بتانے کا مقصد یہ ہے کہ مشرقی بازو الگ ہونے کے کچھ عرصے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تعلقات معمول پر آگئے تھے، اگرچہ اس وقت بھارت کے اثر و رسوخ کے باعث صورت حال میں کشیدگی ہے جسے گزشتہ دنوں وزیر اعظم پاکستان کے بنگلادیشی وزیر اعظم کے فون کال کے سبب کچھ بہتری لائی گئی ہے۔

چین، سری لنکا، میانمار کی طرح بنگلادیش میں بھی اپنی سرمایہ کاری کو اونچے درجے پر لانا چاہتا ہے۔ پاکستان کو بھی اپنے تعلقات کو زیادہ بہتر بناتے ہوئے دونوں ملکوں کے درمیان تجارت کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ اس وقت بھی پاکستان میں بہت سے صنعتکار، تاجر جو حیات ہیں یا پھر ان کی اولاد جوکہ بنگلادیش میں رہائش پذیر تھے۔ وہاں کے کلچر اور عوام سے واقف بھی ہیں اگر حکومتی سہولیات میسر آجائیں تو بنگلادیش سے تجارت کو بڑھا سکتے ہیں۔

ان میں کراچی کے بہت سے تاجر لاہور شاہ عالمی، لکڑمنڈی، چنیوٹ اور چکوال کی سہگل برادری اور خواجگاں محلہ کے تاجر، صنعتکار اس سلسلے میں فعال کردار ادا کرسکتے ہیں اور پرانی تجارت کو بحال کرسکتے ہیں جس سے پاکستان کی برآمدات میں اربوں ڈالر کا اضافہ ہوکر پاکستان بنگلادیش کے 10 اہم درآمدی ممالک کی فہرست میں اپنا مقام بنا سکتا ہے لیکن دوریاں اور خلیج اتنی زیادہ پیدا کردی گئی ہے کہ آسان مراحل بھی اب مشکل نظر آنے لگے ہیں۔

بنگلادیش جن ملکوں کو زیادہ برآمدات کرتا ہے ان 10 ملکوں میں پاکستان کی طرح امریکا سرفہرست ہے، اگرچہ اس فہرست میں پاکستان کا نام شامل نہیں ہے۔ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ ان میں یورپی ممالک زیادہ تر ہیں۔ برآمدات میں اول امریکا ہے جس کا حصہ کل برآمدات میں 17 یو۔کے جو پاکستان کا تیسرا تجارتی شراکت دار اس کا بنگلادیش کی ایکسپورٹ میں 10 فیصد حصہ ، فرانس 5 فیصد، کینیڈا 20 فیصد، اٹلی 4 فیصد، اسپین 6 فیصد یہی ممالک پاکستان کے 10 اہم تجارتی شراکت داروں میں بھی شامل ہیں۔ بہرحال دونوں برادر ممالک ہوم ورک کرکے تجارت بڑھا سکتے ہیں جس کے لیے پاکستانی تاجر اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔