کون سے ہتھیار سب سے کاری وار

 راؤ محمد شاہد اقبال  اتوار 28 مارچ 2021
مستقبل کی جنگوں میں استعمال ہونے والے جدید ترین اسلحے میں سے کون سا زیادہ مہلک، خطرناک اور کام یابی کی کلید ثابت ہوسکتا ہے؟ فوٹو: فائل

مستقبل کی جنگوں میں استعمال ہونے والے جدید ترین اسلحے میں سے کون سا زیادہ مہلک، خطرناک اور کام یابی کی کلید ثابت ہوسکتا ہے؟ فوٹو: فائل

کہا جاتا ہے کہ جنگ کے مقاصد اور فریق کبھی بھی نہیں بدلتے۔

یعنی جب سے یہ کائنات معرض وجود میں آئی ہے تب سے ہی ہماری زمین پر ہونے والی ہر جنگ کے فریق انسان اور صرف انسان ہی رہے ہیں۔ نیز اپنے سے کم تر قوم کی سر زمین پر قبضہ کرنا، اپنی غیرمعمولی طاقت کا اظہار کرنا اور جارحیت سے دوسری قوم کو اپنے زیرنگیں لاکر مفتوح قوم کے زرخیز وسائل کو اپنے تصرف میں لانے کی خواہش ہی جنگ کے بنیادی مقاصد میں کل بھی شامل تھی اور آج بھی شامل ہے، اور گمانِ غالب ہے آئندہ بھی ان ہی مذموم مقاصد کے حصول کے لیے جنگ وجدال کے میدان سجائے جاتے رہیں گے۔

مگر جنگ میں ایک شئے ضرور ایسی ہے، جو وقت کے ساتھ ساتھ بدلتی رہتی ہے اور وہ ہے ہتھیار۔ جی ہاں! جنگی ہتھیار جنگ کی بنیادی کلید سمجھے جاتے ہیں اور اس چابی کی مدد سے ہی جنگوں میں فتوحات کے مشکل و ناقابلِ تسخیر باب وا کیے جاتے ہیں۔ بلاشبہہ جنگیں دنیا کے جغرافیائی نقشے تبدیل کرنے کا باعث بنتی ہیں لیکن کسی غیرمعمولی ہتھیار کی ایجاد اور اُس کے بروقت استعمال سے بعض اوقات جنگ کا اپنا نقشہ بھی مکمل طور پر بدل سکتا ہے۔ مثال کے طور پر دست بدست جنگ کرنے والی فاتح اقوام کا سامنا جب تیروتلوار جیسے ہتھیاروں سے ہوا تو وہ مفتوح ہوگئیں۔

نیز تلوار چلانے والی قوم بندوق اور بارود استعمال کرنے والے حریفوں کے مقابل آئیں تو، شکست اُن کا مقدر ٹھہری، جب کہ توپ و تفنگ کے ماہر، بم برساتے ہوئے اُڑتے جہاز وں کے سامنے نہ ٹھہر سکے۔ حد تو یہ ہے کہ بحری اور فضائی طاقت پر نازاں اقوام پر جب دو ایٹمی ہتھیار چلائے گئے تو انہوں نے بھی حریف کے سامنے سپر ڈالنے میں لمحہ بھر کی تاخیر نہ کی ۔ اس لیے ہم یہ کہنے میں پوری طرح سے حق بہ جانب ہیں کہ جنگیں لڑتے ضرور انسان ہی ہیں لیکن جیت ہمیشہ ہتھیاروں کی ہوتی ہے۔ زیرنظر مضمون میں ایسے جدید اور سائنس فکشن ہتھیاروں کا اجمالی تذکرہ پیش خدمت ہے جن کے متعلق ماہرین عسکریات کو گمان ہے کہ شاید اِن میں سے کوئی ہتھیار مستقبل قریب میں ’’ہتھیاروں کی دوڑ‘‘ کا نیا فاتح قرار پائے۔

٭مائکرو ڈرون(Micro Drone)
ڈرون یا بغیر پائلٹ کے جہاز کے لیے امریکی فوج میں انگریزی زبان کا لفظ ’میِل‘ استعمال کیا جاتا ہے۔ میل مخفف ہے ’’میڈیم ایلٹیٹوڈ لانگ اینڈورینس‘‘ کا۔

ویسے تو ڈرون کی ایجاد مخصوص جنگی مقاصد، جیسے فضائی جاسوسی یا نگرانی کے لیے ہی کی گئی تھی، لیکن بعدازآں ڈرون میں اے جی ایم ہیل قسم کے میزائل نصب کرکے اِسے باقاعدہ ایک مہلک ہتھیار میں تبدیل کردیا گیا۔ آج کل ا یک جدید ڈرون اپنے ساتھ 2 لیزر گائیڈڈ میزائل اور 350 کلو گرام بارود لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے، جب کہ ڈرون کے بالکل سامنے (Front) دو کیمرے لگے ہوتے ہیں جو راستے کا تعین کرتے ہیں۔ ڈرون کے دونوں پروں (wings) کے درمیان نیچے کی جانب (Multi Spectrum Target System) لینز (کیمرا) ہوتا ہے جو ڈرون کو زمین پر موجود ہدف بالکل صاف دیکھنے کی صلاحیت مہیا کرتا ہے۔ نیز ڈرون اپنے ہدف کو بہت قریب سے (Zoom In) اور دور سے (Zoom Out) کرکے بھی دیکھ سکتا ہے۔

اس میں بیم لیزر نصب ہوتی ہے جو کہ نشانہ ٹھیک باندھ کر میزائل کو ٹارگٹ کی جانب روانہ کرتی ہے۔ ڈرون کو ریڈار سسٹم سے شناخت کرنا مشکل ہوتا ہے کیوںکہ اس کی رفتار انتہائی تیز ہوتی ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ جنگی ڈرون صرف ایک بغیر پائلٹ کا جہاز نہیں بلکہ یہ پورا ایک نظام ہوتا ہے، جس میں کم ازکم چار ڈرونز، ایک کنٹرول اسٹیشن اور ایک سیٹیلائٹ سسٹم سے منسلک کرنے والا خاص حصہ ہوتا ہے۔ ایک ڈرون سسٹم کو چلانے کے لیے پچپن افراد کا عملہ درکار ہوتا ہے۔ پینٹاگون اور سی آئی اے1980کے اوائل سے ہی جاسوسی کے لیے ڈرون طیاروں کے تجربات کر تے آرہے ہیں۔ 1990 میں سی آئی اے کو ابراہام کیرم کے بنائے ہوئے ڈرون میں دل چسپی پیدا ہوئی۔ ابراہام کیرم اسرائیلی فضائیہ کا چیف ڈیزائنر تھا جو بعد میں امریکا منتقل ہو گیا۔ ڈرون1990 تک مختلف تجرباتی مراحل سے گزرتا رہا اور باالآخر1995 میں پہلی مرتبہ سی آئی اے نے بلقان کی جنگ میں ڈرون کو عملی طور پر استعمال کرنے کا مظاہرہ کیا۔

واضح رہے کہ ڈرون کئی اقسام کے ہوتے ہیں لیکن بطور ایک جنگی ہتھیار، مائیکرو ڈرون (Micro Drone) سب سے زیادہ مہلک اور کارآمد تصور کیا جاتا ہے۔ مائیکرو ڈرون جسامت میں اتنا چھوٹا ہو تا ہے کہ یہ آپ کے دونوں ہاتھوں پر بھی بہ آسانی لینڈ کر سکتا ہے۔ اسے کنٹرولر پیڈ اور موبائل فون یا بیک وقت دونوں سے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے اور یہ 40 فٹ بلندی تک ویڈیو اور تصویر بھی بناسکتا ہے۔ نیز اس کو استعمال کرنے کے لیے کسی عسکری تربیت یا مخصوص عمر کی ضرورت بھی نہیں ہوتی۔ علاوہ ازیں مائیکروڈرون ہمہ وقت محفوظ، پائے دار اور استحکام کے ساتھ اُڑان بھر سکتا ہے۔ اس میں 720 ایچ ڈی گرافکس کا کیمرا نصب ہوتا ہے جو 360 ڈگری تک گھوم سکتا ہے۔ واضح رہے کہ مائیکرو ڈرن کو فیصلہ کن جنگی ہتھیار میں بدلنے کے لیے دھماکا خیز مواد سے لیس کیا جا چکا ہے۔ یعنی اَب چھوٹے ہتھیاروں والے مسلح ڈرون بنائے جارہے ہیں، جنہیں کوئی نہیں دیکھ سکتا ہے لیکن وہ جب چاہیں دشمن کی فوج میں گھس کر تباہی مچا سکتے ہیں۔

جنوری 2017 میں، پینٹاگون نے اعلان کیا تھا کہ اس نے چھوٹے دھماکاخیز ہتھیاروں سے لیس 103 مائکرو ڈرون کے گروپ کا کام یابی سے تجربہ کیا ہے۔ اس مائیکرو ڈرون سسٹم میں شامل ہر ایک ڈرون کی لمبائی صرف 16 سینٹی میٹر (6 انچ) ہے۔ مگر یہ مائیکروڈرون مصنوعی ذہانت سے بھی لیس ہیں، جس کی وجہ سے یہ خود مختار مائیکروڈرون اپنی مرضی سے بھی حریف کی تباہی کا فیصلہ کرنے کے اہل ہیں۔

٭ اعصاب شکن ہتھیار
چین کے سائنس دانوں نے مائیکرو ویو ٹیکنالوجی کی مدد سے مبینہ طور پر ایسا غیرمہلک ہتھیار بنالیا ہے جو انسانی اعصاب پر حملہ کرکے اسے مفلوج کردیتا ہے۔ اس پراجیکٹ پر کام کرنے والے ایک انجنیئر نے کچھ عرصہ قبل ایک غیرملکی جریدے کو بتایا تھا کہ اس پراجیکٹ کا نام ’’مائیکرو ویو ایکٹیو ڈینائل سسٹم‘‘ رکھا گیا ہے۔

اس ٹیکنالوجی کو دو طریقوں سے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس کا پہلا استعمال صرف ایک شخص کے مخصوص جسمانی حصے پر کیا جا سکتا ہے اور دوئم یہ کہ اس کا نشانہ وسیع آبادی کو بھی بنایا جاسکتاہے۔‘‘ چین کے محققین کے مطابق اس ہتھیار سے انسان کو کسی بھی قسم کا کوئی زخم یا کوئی مستقل تکلیف نہیں ہوتی، بس یہ تھوڑی دیر کے لیے متاثرہ شخص کے ذہن کو ماؤف کردیتا ہے ۔ یہ نظام کسی بھی گاڑی میں نصب ہو سکتا ہے اور اس ہتھیار کو ممکنہ طور پر مقامی پولیس اور چین کے ساحلی گارڈ استعمال کریں گے۔ رپورٹ کے مطابق یہ ٹیکنالوجی زمینی اور بحری کارروائیوں کے لیے مساوی طور پر کارآمد ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ چین اس سے قبل 2014 میں اسی ٹیکنالوجی کے تحت پولی ڈبلیو ون نام کا میزائل بنا چکا ہے۔

راکٹوں سے داغے جانے والے یہ اعصاب شکن ہتھیار بلاتفریق فوجیوں اور عام شہریوں کو ہزاروں کی تعداد میں متاثر کر سکتے ہیں۔ تاہم روس نے بھی سرن، وی ایکس یا نوویچوک جیسے خفیہ اعصاب شکن بنانے میں خاطرخواہ کام یابی حاصل کرلی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ روس میں بنایا گیایہ اعصاب شکن ہتھیارچند برس قبل برطانیہ میں ایک خفیہ جاسوس سرگئی سکرپل اور ان کی بیٹی یولیا کے خلاف استعمال کیا گیا تھا۔ لیکن روس کا موقف ہے کہ یہ فقط ایک الزام ہے اور اس کی جانب سے ابھی تک کسی بھی اعصاب شکن ہتھیار کا عملی استعمال نہیں کیا گیا۔

یاد رہے کہ اعصاب شکن ہتھیار جو جسم کے مرکزی اعصابی نظام کو متاثر کرکے اسے درست انداز میں کام کرنے سے روک دیتے ہیں۔ اگر ان ہتھیاروں کا زیادہ مقدار میں استعمال کردیا جائے گو اس کے نتیجے میں متاثرہ شخص پر فوری طور پر تشنج کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے اور اس کا دم گھٹنے لگتا ہے یا دل کی دھڑکن بند ہونے کے نتیجے میں وہ ہلاک بھی ہوسکتا ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ اعصاب شکن ہتھیار زیادہ تر بے رنگ مائع کیشکل میں ہوتے ہیں، جن میں یا تو بو بالکل بھی نہیں ہوتی یا ہلکی سی خوش بو ہوتی ہے۔

اعصاب شکن ہتھیار کے بخارات فضا میں شامل ہوکر انسانی جسم میں سانس کے ذریعے داخل ہو سکتے ہیں۔ نیز آنکھوں اور جلد کے ذریعے جذب بھی ہو سکتے ہیں۔ یہ مادے جسم کی سطح پر ٹھہرسکتے ہیں۔ تاہم انہیں دھویا جا سکتا ہے۔ دراصل اعصاب شکن ہتھیار سے نکلنے والا مادہ عام جسمانی افعال کو بے ترتیب کردیتا ہے، جس کی وجہ سے متاثرہ شخص کی ناک بہنا شروع ہوجاتی ہے، پُتلیاں سکڑنے لگتی ہیں، متلی اور خفقان کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے، بینائی متاثر ہونے لگتی ہے، جسمانی افعال بے قابو ہوجاتے ہیں اور سینے میں درد محسوس ہوتا ہے۔ اعصاب شکن مادے کی زیادہ مقدار سے متاثر ہونے کی صورت میں اینٹھن یا تشنج کی کیفیت طاری ہونے لگتی ہے جس کا نتیجہ بے ہوشی یا موت کی صورت میں نکلتا ہے۔ نیز اعصاب اور نظامِ تنفس بے کار ہونے پر متاثرہ افراد ایک سے دس منٹ میں ہلاک بھی ہوسکتے ہیں۔

ماہرین کے مطابق اِن اعصاب شکن ہتھیاروں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنا بے حد آسان ہوتا ہے، جب کہ انہیں بموں، میزائل اور راکٹوں کی مدد سے بھی دوردراز علاقوں میں حملے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔

ایک غیرمصدقہ خبر کے مطابق گذشتہ برس ملائشیا کے ایئرپورٹ پر حملہ آوروں نے شمالی کوریا کے راہ نما کم جانگ ان کے سوتیلے بھائی، کم جانگ نیم کے چہرے پر وی ایکس مادہ مل کر اُنہیں قتل کر دیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ1930 میں ایک جرمن سویلین سائنس داں نے فصلوں کے لیے طاقتور کیڑے مار دوا تیار کرتے ہوئے حادثاتی طور پر پہلا اعصاب شکن مادہ دریافت کیا تھا۔ اس سے فصلی کیڑے مکوڑے تو ہلاک ہوگئے، تاہم یہ جانوروں اور انسانوں کے لیے بھی مہلک ثابت ہوا تھا۔ نیز جرمن فوج نے دوسری جنگ عظیم میں سارین گیس بنانے کی ایک فیکٹری قائم کرکے بڑی تعداد میں اعصاب شکن ہتھیار تیار کیے تھے، مگر جرمنی کی فوج کو انہیں جنگ میں اپنے دشمن کے خلاف استعمال کرنے کا موقع میسر نہ آسکا۔

اعصاب شکن ہتھیار بنانے والے سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ انسانی عضلات کو پرسکون بنانے والی دوائیں، مثلاً ایٹروپین اور پریلی ڈوکسیم کلورائیڈ کے ذریعے اعصاب شکن ہتھیار کا توڑ بھی کیا جا سکتا ہے۔ شاید یہ ہی وجہ ہے کہ آج کل بعض ممالک کی جانب سے سرحدوں پر تعینات فوجیوں کو ابتدائی طبی امداد کے سامان میں عموماً ایسے خودکار ٹیکے بھی فراہم کیے جاتے ہیں جنہیں وہ اعصاب شکن ہتھیاروں کا حملہ ہونے کی صورت میں بطور علاج ازخود بھی استعمال کر سکتے ہیں۔ تاہم اعصاب شکن ہتھیاروں کے حملے کے چند ہی منٹ یا گھنٹوں کے اندر فوری طور پر ان ٹیکوں کا استعمال نہ کیا جائے تو پھر اعصاب شکن ہتھیار کے مضر اثرات سے بچ پانا ناممکن ہوجاتا ہے۔

٭ غیرمرئی پوشاک (Invisibile Uniform)
ہوسکتا ہے کہ ہماری قارئین کی اکثریت معترض ہو کہ ہم نے غیرمرئی پوشاک یعنی نہ دکھائی دینے والے لباس کو بھی جنگی ہتھیار کی فہرست میں شامل کرلیا ہے، حالاںکہ غیرمرئی یونیفارم کو اپنی ساخت میں کسی بھی دوسرے فرد کے لیے تباہ کن یا ہلاکت خیز ہر گز قرار نہیں دیا جاسکتا۔ لیکن یہاں مصیبت یہ ہے کہ غیرمرئی لباس کی تیاری کرنے والے ادارے اِسے تجارتی مقصد کے بجائے، جنگی مقاصد کو پیش نظر رکھ کر ہی تیار کررہے ہیں اور اِس یونیفارم کو مختلف ممالک اپنی افواج کے لیے حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ویسے تو غیرمرئی فوجی یونیفارم کی تیاری انتہائی رازداری کے ساتھ کی جارہی ہے، اس لیے یقین سے تو نہیں کہا جاسکتا کہ اَب تک کون کون سے ممالک اپنی افواج کے لیے اِس غیرمرئی لباس کا بندوبست کرچکے ہیں، مگر کچھ عرصہ قبل عالمی ذرائع ابلاغ پر آنے والی ایک رپورٹ کے مطابق ہائپرسٹیلتھ بائیوٹیکنالوجی کارپوریشن نامی کینیڈا کی ایک کمپنی نے کام یابی کے ساتھ وسیع پیمانے پر نہ دکھائی دینے والی فوجی یونیفارم تیار کرنا شروع کردی ہے، جس کے بارے میں بتایا گیا کہ اس یونیفارم کو پہننے والا مکمل طور پر دوسروں کی نظروں سے پوشیدہ ہوسکتا ہے۔

حیران کن بات تو یہ ہے کہ امریکی حکومت نے اس کمپنی کے ساتھ ایک طویل المدتی معاہدہ بھی کرلیا ہے، جس کی مطابق یہ ادارہ اگلے کئی برسوں تک صرف امریکی افواج کے لیے غیرمرئی فوجی یونیفارم کی تیاری کرے گا۔ باقی آپ خود سوچ سکتے ہیں کہ ایک ایسی غیرمرئی فوج اپنے حریفوں کے لیے کس قدر خطرناک اور مہلک ثابت ہوسکتی ہے، جسے میدانِ جنگ میں ملاحظہ نہ کیا جاسکے۔

اَب تک پوشیدہ لباس کا خیال سائنس فکشن فلموں تک ہی محدود تھا لیکن کچھ بعید نہیں آنے والی ایام میں ہم غیرمرئی فوجی یونیفارم میں ملبوس افواج کے لڑنے کی بریکنگ خبر سماعت فرمائیں۔

دوسری جانب سائنس داں غیرمرئی فوجی یونیفارم سے ایک قدم مزید آگے بڑھاتے ہوئے جنگ میں استعمال ہونے والے مختلف ہتھیاروں کو بھی غیرمرئی یا اَن دیکھا بنانے کے بہت قریب پہنچ چکے ہیں اور کچھ غیرمصدقہ اطلاعات کے مطابق وہ کام یاب بھی ہوچکے ہوں۔ لیکن شاید ہمیں ابھی خبر نہ ہو۔ یعنی صرف سپاہی نہیں بلکہ جنگی ٹینکس، بحری جہاز وغیرہ تک کے لیے ایسا پینٹ، مواد، شیٹ یا پینل تیار کرلیا جائے کہ جس کے پیچھے موجود آنے والی ہر شئے اوجھل ہوجائے۔ دراصل سائنس دانوں کا خیال ہے کہ انہیں جنگی ہتھیاروں کو چھپانے کے لیے صرف میٹومیٹریلز ہی تو تیار کرنا ہے، جس کی مدد سے الٹرا وائلٹ، اورکٹ اور شارٹ ویو اورکٹ موڑی جاسکیں ۔

واضح رہے کہ ہائپرسٹیلتھ بائیوٹیکنالوجی کارپوریشن کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ اس نے پیٹنٹ کی صورت میں کوانٹم اسٹیلتھ (روشنی موڑنے والا مواد) دوسری صورت میں انویسٹیبل پوش کے نام سے تیار کرنے میں خاطر خواہ کامیابی حاصل کرلی ہے۔ ہائپر اسٹیلتھ بائیو ٹیکنالوجی کے چیف ایگزیکٹوگائی کرمرکے مطابق ’’ہمارا تیار کردہ پینٹ روشنی کو اس طرح سے موڑدیتا ہے کہ صرف پس منظر ہی دکھائی دیتا ہے۔‘‘

یعنی پینٹ کے نیچے والی شئے دیکھی نہیں جاسکتی۔ کمپنی کی آفیشل ویب سائٹ پر اس حوالے سے ایک گھنٹے کی ویڈیو بھی موجود ہے، جس میں مختلف اشیاء کو غیرمرئی یا اَن دیکھا کرنے کا عملی مظاہر ہ بھی دکھایا گیا ہے یا یوں کہہ لیں کہ چھپایا گیا ہے۔

واضح رہے کہ مختلف چیزوں کو نظروں سے مکمل طور پر اوجھل کرنے سے متعلق یہ ایک بڑی پیش رفت ہے، کیوںکہ اس سے قبل انسانی نظروں سے غائب کرنے کے لیے اب تک جو لباس تیار کیے گئے تھے وہ دو اطراف سے چیزوں کو نظروں سے چھپا سکتے تھے، جس کی وجہ سے چھپی ہوئی اشیاء کا ایک سایہ سا بہرحال باقی رہ جاتا تھا، جس کا مخصوص آلات کی مدد سے سراغ لگایا جاسکتا ہے۔ لیکن اَب یہ پہلا موقع ہے کہ ماہرین نے مختلف چیزوں کو تین سمتوں سے اوجھل کرنے میں کام یابی بھی حاصل کرلی ہے۔

٭ ہائپر سونک میزائل (Hypersonic Missiles)
سادہ لفظوں میں آپ آواز کی رفتار سے تیز فاصلہ طے کرنے والے میزائل کو ہائپر سونک میزائل کہہ سکتے ہیں۔ دراصل آواز ایک گھنٹے میں جتنا فاصلہ طے کرتی ہے، اسے سائنسی زبان میں ایک ’’ماخ‘‘(Mach) کہا جاتا ہے۔ اس لیے سپر سونک میزائل آواز کی رفتار سے جتنے گنا زیادہ تیز رفتاری سے سفر کرتا ہے، اس کے ماخ کے آگے وہی عدد لکھ دیا جاتا ہے۔ مثلاً آواز کی رفتار سے چار گنا زیادہ کا مطلب ہوا کہ مذکورہ میزائل ماخ 4 ہے۔

لیکن یہاں اس بات کی وضاحت ازحد ضروری ہے کہ تیکنیکی لحاظ سے ایک ہائپر سونک میزائل صرف اس وقت ہی ہائپر سونک کے درجے پر فائز ہوسکتا ہے، جب اس کی رفتار ’’ماخ5‘‘ سے زیادہ ہو۔ ہائپر سونک میزائل دورِجدید کے موثر اور مہلک ترین ہتھیاروں میں شمار کیا جاتا ہے، کیوںکہ ان میزائلوں کی رفتار، نقل و حرکت اور بلندی پر چلنے کی وجہ سے کسی بھی ریڈار کے لیے ان کو پہچاننا اور روک پانا نہایت مشکل ہوجاتا ہے۔

ایک چھوٹے سے چھوٹا ہائپر سونک میزائل آواز کی رفتار سے کم ازکم 5 گنا زیادہ رفتار پر چلتا ہے، جو تقریباً 6200 کلومیٹرفی گھنٹہ کی رفتار بنتی ہے، جب کہ ہتھیاروں پر تحقیق کرنے والے عالمی اداروں کے مطابق اکثر ہائپرسونک میزائل 25 ہزار کلومیٹر فی گھنٹہ تک چلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں جو کہ جدید ترین مسافر طیاروں کے اُڑنے کی رفتار سے بھی 25 گنا زیادہ رفتار ہے۔

واضح ر رہے کہ ہائپر سونک میزائل بنانے کی دوڑ میں چین اور روس اپنے حریفوں کے مقابلے کہیں آگے پہنچ چکے ہیں۔ حالاںکہ امریکا کے پاس ماخ7 سے لے کر ماخ 15 تک کے سپر سونک میزائل کثرت سے موجود ہیں، لیکن چین ماخ 17 کی رفتار سے مار کرنے والا ہائپر سونک بیلسٹک نیوکلیئر میزائل ’’ڈی ایف 17‘‘ بھی گذشتہ برس متعارف کرواچکا ہے۔ اس سپرسونک میزائل کے بارے میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ امریکا اور اس کے اتحادیوں کی نصب کردہ تمام میزائل شکن شیلڈز کو توڑنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔ بعض سنیئر امریکی حکام تو یہ بھی اعتراف کرتے ہیں کہ ’’ہائپر سپر سونک میزائل‘‘ نصب کرنے کی دوڑ میں چین امریکا سے بہت آگے نکل چکا ہے اور اَب ہمارے پاس اس کا مقابلہ کرنے کے لیے متبادل دفاعی نظام موجود نہیں ہے۔‘‘

دل چسپ بات یہ ہے کہ دنیا کا سب سے تیزرفتار بین البراعظمی ہائپر سونک میزائل روس نے تیارکیا ہے، جو آواز کی رفتار سے بھی ستائیس گنا یعنی ’’ماخ 27 ‘‘ کی تیزرفتاری سے اپنے ہدف کو نشانہ بنا سکتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں 33 ہزار کلومیٹر فی گھنٹہ تک کی رفتار سے کسی بھی دوسرے براعظم میں اپنے ہدف کو نشانہ بنا سکنے والا یہ میزائل واقعی اپنی طرز کا انتہائی جدید ترین اور منفرد ہتھیار ہے۔ روس کے صدر پیوٹن نے ’’ایون گارڈ ہائپر سونک گلائیڈ وہیکل‘‘ کو ٹیکنالوجی کے میدان میں گراں قدر اضافہ قرار دیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’’یہ ویسا ہی کارنامہ ہے جیسے سوویت یونین نے 1957ء میں پہلا سیٹیلائٹ فضا میں روانہ کر کے انجام دیا تھا۔‘‘ علاوہ ازیں ایون گارڈ کو بین البراعظمی بیلسٹک میزائل کے ہمراہ بھی داغا جاسکتا ہے اور یہ عام نیوکلیئر میزائل کی مانند روانہ ہونے کے بعد متعین کردہ راستے ہی پر چلتا ہے۔ ایون گارڈ اپنے ہدف کو نشانہ بنانے کے لیے فضا میں غیرمعمولی نوعیت کی قلابازیاں بھی کھا سکتا ہے اور اس کا سراغ لگانا کم و بیش ناممکن ہی ہے۔ نیز یہ دو میگاٹن وزن کا جوہری ہتھیار لے جانے کی صلاحیت کا بھی حامل ہے۔ علاوہ ازیں اس ہائپرسونک میزائل کی تیاری میں ایسا مواد استعمال کیا گیا ہے جس کی بدولت یہ 2000 سینٹی گریڈ یعنی (3632 فارن ہائٹ) کی تپش بھی برداشت کرسکتا ہے۔

٭ دماغ سے چلنے والے ہتھیار
(Mind-Controlled Weapons)
اگر آپ مشہور و معروف ہالی وڈ فلم ’’آئرن مین‘‘ دیکھ چکے ہیں تو پھر آپ کے لیے یہ سمجھ پانا، قطعی دشوار نہیں ہونا چاہیے کہ کیسے انسانی دماغ سے ہتھیار استعمال کیے جاسکتے ہیں؟ یعنی انسانی دماغ کو کسی بھی ہتھیار، گاڑی، جہاز اور میزائل کے ساتھ منسلک کرکے اُنہیں سوچ اور خیال کی مدد سے روبوٹ کی مانند استعمال کیا جاسکتا ہے۔

دماغ سے چلنے والے ہتھیار کا حصول انسان کا برسوں پرانا خواب رہا ہے، مگر دورِجدید میں ہونے والی سائنسی پیش رفت سے یہ خواب حقیقت کا روپ دھار چکا ہے اور امریکا، روس اور چین سمیت کئی ممالک مختلف ہتھیاروں کو دماغ سے استعمال کرنے میں کام یابی حاصل کرچکے ہیں۔ امریکی دفاعی ادارے پینٹاگون کے ماہرین ایک ایسے خفیہ پروجیکٹ پر کام کررہے ہیں جس کی بدولت مستقبل قریب میں تمام امریکی افواج اپنے عسکری سامان اور اسلحے کو دماغ سے کنٹرول کرسکیں گے۔

دل چسپ با ت یہ ہے کہ نت نئے فوجی منصوبوں پر کام کرنے والی ڈیفنس ایڈوانسڈ ریسرچ پروجیکٹس ایجنسی نے ایسے افراد کی بھرتی بھی شروع کردی ہے جو نان سرجیکل نیوروٹیکنالوجی (این تھری) کے منصوبے میں دماغ سے مشینیں کنٹرول کرنے کے وسیع پیمانے پر سائنسی تجربات کے لیے اپنی خدمات فراہم کریں گے۔

ڈیفنس ایڈوانسڈ ریسرچ پروجیکٹس ایجنسی نے گذشتہ برس انٹرنیٹ پر باقاعدہ ایک اشتہار شائع کیا تھا، جس میں دماغی انٹرفیس کے منصوبوں میں حصہ لینے کے خواہش مند افراد سے درخواستیں طلب کی گئی تھیں، تاکہ دماغی سرگرمی سے جنگیں لڑنے کے عملی تجربات کرکے اس حوالے سے حتمی ایجادات کی جاسکیں۔ ڈیفنس ایڈوانسڈ ریسرچ پروجیکٹس ایجنسی کے منتظمین کا خیال ہے کہ بہت جلد جنگی طیارے، ڈرون، سائبر ڈیفنس اور دیگر جنگی آلات دماغ سے کنٹرول کیے جاسکیں گے۔

اس مقصد کے لیے مذکورہ ایجنسی میں ایک نیا شعبہ بایالوجیکل ٹیکنالوجیز کے نام سے قائم کردیا گیا ہے۔ اس شعبے کے سربراہ ڈاکٹر ایل مونڈی کہتے ہیں کہ ’’جنگ کو جسم سے کنٹرول کرنے کے مقابلے دماغی لہروں سے قابو کرنے کا تجربہ بہت وسیع، ہمہ گیر اور اَن گنت فوائد سے بھرپور ہوسکتا ہے، کیوںکہ اس طرح دماغ کا استعمال اگلی جنگوں میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ یوں جان لیں کہ دماغی لہروں پر مشتمل انٹرفیس کے ذریعے ایک زخمی سپاہی بھی صحت مند فوجی کی طرح جنگ لڑنے کا اہل بن سکتا ہے۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔