سندھ میں مقامی حکومتیں کیوں نہیں؟

نصرت جاوید  جمعرات 9 جنوری 2014
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

سندھ ون اور ٹو کی بات چلی تو مجھے 1970ء کے آغاز کے وہ ہفتے یاد آ گئے جب میں اپنے تئیں کراچی پہنچا تھا۔ ان دنوں پاکستان میں انقلاب وغیرہ لانے کا شوق میرے جیسے لوگوں کے دل و دماغ پر طاری ہو چکا تھا اور ہم نوجوانوں کو یہ بتایا گیا تھا کہ ’’حقیقی‘‘ انقلاب لانے کے لیے ’’ڈی کلاس‘‘ ہو کر مزدور بستیوں میں رہنا پڑتا ہے۔ صرف ان بستیوں سے وہ ’’پرولتاریہ‘‘ دریافت کیا جا سکتا ہے جو انقلاب کا ’’ہراوّل دستہ‘‘ ٹھہرایا گیا تھا۔

مجھ کو پورا یقین ہے کہ ہمارے ان دنوں انٹرنیٹ پر چھائے ’’انقلابیوں‘‘ کو ان تمام اصطلاحات کے بارے میں ہرگز کوئی علم نہیں جن کا استعمال میں نے اس کالم کے ابتدائیے میں کیا ہے۔ ان کا انقلاب تو کسی کرشماتی Celebrity کے گرد Groupies کی صورت جمع ہوتے ہی ’’برپا‘‘ ہو جاتا ہے۔ ان کا ہیرو بھی خود کو اس من موہنے کی طرح پیش کرنا شروع کر دیتا ہے جو صوفیا والی برہن کے چرخے کی کوک سن کر بالآخر پہاڑوں سے نیچے اُتر آتا ہے۔ وہ ’’عام انسانوں‘‘ کے درمیان آتا ہے تو بلھے شاہ ترنگ میں آ کر لوگوں سے التجائیں کرنا شروع کر دیتا ہے کہ پورے اخلاص سے ’’انسانوں کے لباس‘‘ میں اترے اس شخص سے دل لگا لیا جائے۔

بہر حال 1970ء کے آغاز کے ان دنوں ملک میں جنرل یحییٰ خان کا مارشل لاء لگا ہوا تھا مگر اس سال کے آخری مہینے میں عام انتخابات کروانے کا وعدہ بھی کر لیا گیا تھا۔ پنجاب کے ایک قصبے نارووال کے ایک گاؤں میں پیدا ہونے والا فیض احمد فیضؔ لاہور میں تعلیم حاصل کرنے، امرتسر میں بچوں کو پڑھانے پھر برطانوی فوج میں نوکری اور بعدازاں لاہور ہی میں امروز اور پاکستان ٹائمز جیسے اخبارات نکالنے کے بعد 1950ء کی دہائی میں ’’پنڈی سازش کیس‘‘ میں دھر لیا گیا تھا۔ بنگال کے حسین شہید سہروردی اس کے وکلاء صفائی میں سب سے زیادہ نمایاں رہے تھے۔ جیل سے رہائی کے بعد وہ کچھ عرصہ لاہور میں آرٹس کونسل کے ذریعے فن و ثقافت کے فروغ کی کوششیں کرتا رہا۔ پھر 1960ء کی دہائی کے آخری سالوں میں کراچی چلا گیا اور وہاں کے ہارون خاندان نے اسے لیاری میں اس خاندان کی طرف سے بنائے کالج کا پرنسپل بنا رکھا تھا۔

کراچی کے بہت سارے متوسط طبقے کے پڑھے لکھے لوگوں کی شدید خواہش تھی کہ فیضؔ کو 1970ء کے دسمبر میں ہونے والے انتخابات میں حصہ لینے پر آمادہ کیا جائے۔ فیضؔ کو سیاسی میدان میں دھکیلنے کی کوشش کرنے والوں میں ان لوگوں کی تعداد سب سے زیادہ تھی جنھیں آج کل اُردو بولنے والے مہاجر کہا جاتا ہے۔ مگر فیضؔ کو لیاری کے غریبوں میں متعارف کروانے کے لیے سب سے زیادہ متحرک لا ل بخش رند نام کا ایک بلوچ سیاسی کارکن تھا۔ بازار میں افواہ یہ بھی گرم تھی کہ ہارون خاندان جو لیاری کو اپنا ’’پکا حلقہ‘‘ سمجھتا تھا، 1970ء کے انتخابات کے حوالے سے کوئی زیادہ پُر اعتماد نہ تھا۔ اس خاندان کے چند لوگوں کی خواہش تھی کہ فیض احمد فیضؔ کو کامیاب کروا کر یہ حلقہ ’’اپنے لیے بچا‘‘ لیا جائے۔ غوث بخش بزنجو نے ان سے تعاون کا فیصلہ کیا۔ ان کی وجہ سے فیض احمد فیضؔ کو ان دنوں ولی خان کی نیشنل عوامی پارٹی سے قومی اسمبلی کی لیاری والی نشست کا ٹکٹ ملنا تقریباََ یقینی سمجھا جا رہا تھا۔ ایک اُردو بولنے والے محمود الحق عثمانی اس جماعت کے جنرل سیکریٹری ہوا کرتے تھے۔

ان کا گرو مندر میں ایک بہت بڑا گھر تھا جس کے مردانے اور باغیچے پر ’’کامریڈوں‘‘ کا مستقل ’’قبضہ‘‘ رہتا۔ ہر طرح کی نسل اور زبان بولنے والے وہاں ہر وقت بحث مباحثہ کرتے پائے جاتے۔ فیضؔ صاحب کو سیاسی میدان میں لانچ کرنے والے منصوبے کا اصل مرکز بالآخر یہ گھر ہی بنا جہاں لاہور سے آیا یہ طالب علم بھی اکثر ’’دانشوری‘‘ فرمانے پہنچ جایا کرتا تھا۔ فیضؔ صاحب شرمیلے مگر سیانے آدمی تھے۔ جلد سمجھ گئے کہ انتخابی سیاست ان کے بس کی بات نہیں۔ نہایت خاموشی سے ایک لمبے دورے پر ماسکو روانہ ہو گئے۔ میں بھی لاہور کی یاد میں اس شہر کو واپس لوٹ گیا۔ 1970ء کے بعد بار ہا کراچی گیا اور وہاں طویل عرصے تک قیام کرتا رہا ہوں مگر اس شہر میں زبان و نسل سے بے نیاز کسی بلند پایہ سیاسی اور نظریاتی سوچ کے حوالے سے انسانوں کے درمیان قائم ایسی یگانگت کبھی دیکھنا نصیب نہ ہوئی۔ بتدریج بلکہ یہ شہر مختلف عصبیتوں کی بنیاد پر بنائے جزیروں میں تقسیم ہوتا چلا گیا۔

میری شدید خواہش ہے کہ سندھ ون اور ٹو کی بحث میں الجھنے کے بجائے اس شہر کے سوچنے سمجھنے والے فکر مند افراد انتہائی دیانت داری سے مل بیٹھ کر وہ سارے اسباب دریافت کرنے کی کوشش کریں جنہوں نے بے پناہ امکانات کے حامل شہر کراچی کو عصبیتوں کا اسیر بنا کر آسیب زدہ اور مفلوج کر رکھا ہے۔ اس شہر پر بہت ساری ٹھوس وجوہات کی بنیاد پر اب کسی ایک سیاسی جماعت کی اجارہ داری قائم کرنا ممکن ہی نہیں۔ یہ شہر Turfs میں تقسیم اس لیے بھی نہیں ہو سکتا کہ یہاں کے گھروں میں پانی ٹینکروں کے ذریعے آتا ہے۔ یہاں قائم کارخانوں کو رواں رکھنے کے لیے درکار توانائی کا بالآخر ماخذ ’’سندھ ون‘‘ کے بے پناہ جانے اور ابھی تک دریافت نہ ہوئے گیس اور کوئلے کے ذخائر کو ہی رہنا ہے۔ ابھی تک پاکستان کی سب سے بڑی بندرگاہ یقینا کراچی میں ہی موجود ہے۔ مگر وہاں اتارے گئے اور وہاں سے بھیجے جانے والے سامان کی فیصلہ کن تعداد نہ تو اس شہر میں استعمال ہوتی ہے نہ یہاں پیدا۔ کراچی کو معاشی طور پر زندہ اور متحرک رکھنے کے لیے اس شہر کو ’’سب کا شہر‘‘ بنانے کے سوا کوئی راستہ نہیں۔ ماضی کے سیاپے بہت ہو گئے۔ اب مستقبل کی طرف دیکھنا ہو گا۔

بلاول بھٹو زرداری پاکستان پیپلز پارٹی کا مستقبل ہیں۔ وہ اپنا وقت ٹویٹر کے ذریعے ’’بزدل خانوں‘‘ پر ضایع کرنے کے بجائے تھوڑی دیر کو اکیلے بیٹھ کر اس بات پر خوب غور کریں کہ پاکستان میں جب ان کی والدہ کا زندہ رہنا ناممکن بنا دیا گیا تو وہ انھیں اور ان کی بہنوں کو لے کر دبئی منتقل کیوں ہو گئی تھیں۔ مان لیا کہ دبئی میں جمہوریت نہیں۔ وہاں کے ’’اصل مالک‘‘ عربی بولنے والے ’’فرزندِ زمین‘‘ ہیں۔ کراچی میں ایسا ہونا مگر ممکن نہیں۔ بلاول بھٹو زرداری مگر لندن کو بھی خوب جانتے ہیں۔ وہاں ہر نسل سے تعلق رکھنے والا اپنے اندر موجود صلاحیتوں کو استعمال کرنے کے بھرپور امکانات دیکھتا ہے تو جمہوری نظام کی بدولت۔ لندن والی مقامی حکومت کو کراچی میں کیوں متعارف نہیں کروایا جا سکتا؟ ہماری قومی اسمبلی ہاؤس آف کامنز کی نقل کر سکتی ہے تو سندھ میں قائم علی شاہ اور ان کی جماعت ایسی مقامی حکومتیں کیوں قائم نہیں کر سکتے جو اس صوبے کے تمام رہائشیوں کو ایک باقاعدہ اور شاندار جمہوری نظام کا ’’شہری‘‘ بن جانے کی طرف راغب کریں؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔