شارٹ کٹ…

شیریں حیدر  ہفتہ 8 ستمبر 2012
 Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

’’میں ایک منسٹر کا بیٹا ہوں … اور کوئی مجھے اس سڑک سے اپنی گاڑی گزارنے سے نہیں روک سکتا!‘‘ ایف الیون کی ایک ذیلی سڑک پر واقع اس اسکول کے سامنے اس وقت گاڑیوں کا اژدہام تھا جو کہ بڑھتا ہی چلا جا رہا تھا کیونکہ اس نوجوان نے اپنی گاڑی عین سڑک کے وسط میں اس طرح کھڑی کر رکھی تھی کہ ایک یک طرفہ ٹریفک والے راستے پر وہ سامنے تھا اور اس طرح کہ کوئی گاڑی نہ گزر سکتی تھی۔

ایسا حادثاتی نہ تھا بلکہ اس نے دانستہ اپنی گاڑی اس طرح روکی تھی، اس سے قبل وہ اسکول کے سامنے کھڑے ان گارڈز کی کافی بے عزتی کر چکا تھا جنہوں نے اسے بتایا تھا کہ وہ سڑک یک طرفہ تھی۔ ’’کس کے حکم سے یہ سڑک یک طرفہ ہے؟ میں یہیں سے گزروں گا… ہر روز گزروں گا، سرکاری گاڑی پر اپنے گارڈز کے ساتھ آؤں گا تو دیکھتا ہوں کہ کس مائی کے لال کی جرات ہے مجھے روکے…‘‘ اس کے پورے وجود کا خون ابل ابل کر اس کے چہرے پر جھلک رہا تھا، اس کا چہرہ لال انگارہ بنا ہوا تھا اور وہ اس بات سے بالکل لا پرواہ تھا کہ اس کی وجہ سے کتنے لوگ مشکل میں پھنس چکے تھے اور مزید پھنس رہے تھے۔

’’یہ راستہ پچھلے کتنے ہی برس سے ’’ون وے‘‘ ہے بیٹا…‘‘ میں نے صورت حال کو اپنی گرفت میں لیا… ’’شکل سے تو آپ پڑھے لکھے لگ رہے ہو…‘‘ حالانکہ وہ اس وقت جاہلوں کا سردار لگ رہا تھا، مسلسل سگریٹ کے سوٹے لیتے ہوئے وہ دھواں ہر مخاطب کے منہ پر چھوڑ رہا تھا۔ میرے ’’غلط‘‘ اندازے پر وہ ذرا سا خوش ہوا اور اردگرد مذاکرات کی کوشش کرتے ہوئے مردوں سے کہا کہ میں صرف عورت سے نرمی سے بات کروں گا… اس سے مجھے اندازہ ہوا کہ کم از کم اس کی ماں کوئی مہذب عورت ہے جس نے اسے عورت کی عزت کرنے کی تمیز تو سکھائی ہے۔

’’کیا نام ہے بیٹا تمہارے ابا کا؟‘‘ میں نے پوچھا تا کہ اندازہ ہو کہ کس حد تک اس پر باپ کا اثر ہے، تاہم اس نے اپنے باپ کا نام بتانے سے انکار کر دیا… ’’اچھا اپنا نام تو بتائیں، آپ سے بات کرنے کے لیے آپ کو مخاطب کرنا تو ضروری ہے نا…‘‘

وہ خود سے بڑے کئی لوگوں کو تو تو کہہ کر بات کر رہا تھا، میں نے اسے آپ کہہ کر بلایا تو وہ ذرا سا شرمندہ لگا۔ پھر اس نے اپنا نام بتایا۔’’تو بیٹا آپ کیوں ضد میں آ کر اتنے لوگوں سے الجھ رہے ہیں، یہ ایک اسکول ہے جہاں پر دو ڈھائی برس سے لے کر اٹھارہ سال کی عمر تک کے بچے پڑھتے ہیں، آپ بھی کسی اسکول میں پڑھے ہو گے، آپ کو اندازہ ہونا چاہیے کہ اسکول آنے اور اسکول سے جانے کا وقت کس قدر اہم ہے کہ بچے سڑک پر نکلیں تو محفوظ ہوں، اسی لیے سی ڈی اے کی خصوصی اجازت کے تحت یہ سڑک یک طرفہ قرار دی گئی ہے…‘‘

’’میں نہیں مانتا کسی سی ڈی اے کو … حکومت کی طرف سے کوئی حکم ہے تو بتائیں، بلکہ مجھے ثبوت دکھائیں!!‘‘ وہ اپنی بات پر اڑا ہوا تھا۔’’ہمارے پاس ساری دستاویزات موجود ہیں اور بہتر ہے کہ آپ اس پر بحث نہ کریں… یہ راستہ آپ کے گھر کا شارٹ کٹ سہی مگر جب یہ بند ہے تو آپ ذرا زحمت کر لیں اور بات کو نہ بڑھائیں…‘‘ میں نے اسے سمجھایا۔’’میں ہر روز یہاں سے گزروں گا اور ہر روز اسی طرح آپ کا بیرئیر اسی طرح اٹھا کر ماروں گا جس طرح میں نے آج کیا ہے…

آپ کر لیں جو کچھ کرنا ہے…‘‘ کہہ کر اس نے اسی راستے سے اپنی گاڑی نکالی جس پر نکالنے کی اسے اجازت نہ تھی۔ پہلے ہی کافی فساد ہو چکا تھا، مزید کے ہم متحمل نہ ہو سکتے تھے اس لیے خاموشی سے اسے نکلنے دیا کیونکہ پوری سڑک بند ہو چکی تھی اور ہارن کانوں کے پردے پھاڑ رہے تھے۔

یہ ایک مثال ہے… ایک ایسے نوجوان کی جس کے اندر اس کے باپ کا اختیار بول رہا تھا، ہم مانیں یا نہ مانیں، ہم سب ایسے ہی ہیں… جہاں ممکن ہو ہم کچھ نہ کچھ بچانے کے لیے (خواہ وہ وقت ہو، تردد یا پٹرول) قانون کی دھجیاں بکھیر دیتے ہیں یا اپنی جان داؤ پر لگا دیتے ہیں۔ ہمارے ہاں کا مزاج… اوپر سے نیچے تک ایسا ہی ہے، ہم سب سمجھتے ہیں کہ ہمارے ملک کے حکمران شارٹ کٹ لگا کر اقتدار میں آ سکتے ہیں تو ہم شارٹ کٹ لگا کر اپنا کام کیوں نہیں نکال سکتے… جہاں پیدل سڑک پار کرنے والوں کے لیے اوور ہیڈ کراسنگ بنی ہو گی۔

اس کے عین نیچے سڑک کی درمیانی حد بندی کی دیوار کو توڑ کر پیدل حضرات اور موٹر سائیکل والوں نے راستہ بنا رکھا ہو گا۔ ہر روز اسلام آباد ہائی وے پر سفر کرتے ہوئے کئی دفعہ اچانک کسی جگہ سے کوئی موٹر سائیکل سوار آر پار جاتے ہوئے دیکھ کر سوچتی ہوں کہ ذرا سا وقت یا پٹرول بچانے کے لیے کس طرح یہ لوگ اپنی زندگیاں داؤ پر لگا دیتے ہیں!

اتنی تیز رفتار گاڑیوں میں سے جو کبھی کسی گاڑی کے بریک فیل ہو جائیں… کسی نئے ڈرائیور سے اچانک بریک نہ لگیں، یا کسی کا دھیان اس طرف اتنی رفتار سے یا سڑک کی درمیانی دیوار توڑ کر نکل آنے والے پیدل یا موٹر سائیکل والے کی طرف نہ جائے تو… کیا تھوڑا سا وقت یا تھوڑا سا پٹرول ہماری زندگیوں سے اہم ہے۔ شاید یہ بچت بھی نہیں، اس طرح کے عمل ہم اس لیے کرتے ہیں کہ ہم بظاہر کتنے بھی مہذب نظر آئیںاندر سے ہم کتنے بد تمیز اور بد تہذیب ہیں۔ کسی پارک میں چلے جائیں یا کسی بھی گذر گاہ پر…

’’فٹ پاتھ‘‘ بنے ہوں گے مگر گھاس کے قطعوں کے بیچوں بیچ بنے ہوئے راستے بتاتے ہیں کہ ہم ہر قاعدہ توڑنے کے اہل ہیں۔چھوٹے چھوٹے بچوں کو دیکھیں تو وہ سامنے نظر آنے والی چیزوں کو نظر انداز کر کے، انھیں پیروں تلے روندتے ہوئے گزرتے ہیں، نہ وہ اپنا راستہ بدلتے ہیں نہ راستے میں نظر آنے والی چیز کو ہٹاتے ہیں… ہم بھی انھیں دیکھتے ہیں اور نظر انداز کر دیتے ہیں، یہی وقت ہے کہ جب انھیں تھام کر روکا جائے… انھیں واپس بلایا جائے اور انھیں بتایا جائے کہ جو چیز راستے میں نظر آ رہی ہے اسے روند یا پھلانگ کر نہ گزریں بلکہ اپنا راستہ اسی حساب سے بدل لیں۔

یہ وہ نکتہ آغاز ہے جہاں سے ہم اگر نظر پھیر لیں تو ہمارے بچے اسی طرح بڑے ہوں گے، انھیں زندگی میں ہر موقع پر شارٹ کٹ کی ضرورت محسوس ہو گی۔ ان میں صبر کی عادت نہیں پیدا ہو گی تو وہ ہر کسی کا حق ماریں گے، اپنا ہرکام انھیں پہلے چاہیے ہو گا… انھیں اپنا حق چاہیے ہو گا خواہ وہ جائز طریقے سے ہو یا نا جائز طریقے سے۔ ان کے فرائض کیا ہیں … وہ ہم انھیں نہیں بتاتے اس لیے وہ ایک ایسے فرد کے طور پر معاشرے میں پرورش پاتے ہیں جنھیں اپنا… اپنے باپ کا یا کسی بااثر اور با رسوخ شخص کا حوالہ اپنے ساتھ ہر ناانصافی کے لائسنس کے طور پر مل جاتا ہے۔ انھیں لگتا ہے کہ کسی وزیر کا بیٹا ہونا سارے خاندان کے لیے ایک ایسا ترپ کا پتا ہے جو انھیں سارے اختیار حاصل کرنے میں مدد دیتا ہے…

قانون ان پر لاگو نہیں ہوتا، ان کے سوا سب انسان (بلکہ انسان تو ہیں ہی نہیں) کیڑے مکوڑ ے ہیں۔ ہمیں ان ملکوں کی بولی تو بولنی آتی ہے، اپنے بچوں کو ان کی زبان سکھانے میں اور وہاں بھیجنے میں فخر محسوس ہوتا ہے، مگر یہ نہیں سمجھتے کہ ان کے یہاں کس طرح بڑے سے بڑا عہدے دار … چھوٹے سے چھوٹا قانون کی پابندی کرتا ہے… کسی با اختیار وزیر مشیر کے رشتہ داروں کو کوئی پوچھتا بھی نہیں، ان کا وزیر اعظم بھی کسی قانون کی خلاف ورزی کرے تو وہ ایک عام ٹریفک سارجنٹ کو جواب دہ ہوتا ہے۔ اس کا چالان کیا جا سکتا ہے، اسے ہر لال بتی پر رکنا ہوتا ہے، اسے یک طرفہ سڑک کی پابندی کرنا ہوتی ہے… ہمیں صرف ان کی زبان کی بجائے ان کی اچھی عادتوں کو اپنا کر اپنے آپ کو مہذب قوموں کا حصہ بنانا چاہیے تا کہ اقوام عالم میں ہم تہذیب کے لحاظ سے کسی بہتر درجے پر آ سکیں!!!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔