- اسمگلنگ کا قلع قمع کرکے خطے کو امن کا گہوارہ بنائیں گے ، شہباز شریف
- پاکستان میں دراندازی کیلیے طالبان نے مکمل مدد فراہم کی، گرفتار افغان دہشتگرد کا انکشاف
- سعودی دارالحکومت ریاض میں پہلا شراب خانہ کھول دیا گیا
- موٹر وے پولیس اہل کار کو ٹکر مارنے والی خاتون جوڈیشل ریمانڈ پر جیل روانہ
- کراچی میں رینجرز ہیڈ کوارٹرز سمیت تمام عمارتوں کے باہر سے رکاوٹیں ہٹانے کا حکم
- اوگرا کی تیل کی قیمتیں ڈی ریگولیٹ کرنے کی تردید
- منہدم نسلہ ٹاور کے پلاٹ کو نیلام کر کے متاثرہ رہائشیوں کو پیسے دینے کا حکم
- مہنگائی کے باعث لوگ اپنے بچوں کو فروخت کرنے پر مجبور ہیں، پشاور ہائیکورٹ
- کیا عماد، عامر اور فخر کو آج موقع ملے گا؟
- سونے کی قیمتوں میں معمولی اضافہ
- عمران خان، بشریٰ بی بی کو ریاستی اداروں کیخلاف بیان بازی سے روک دیا گیا
- ویمنز ٹیم کی سابق کپتان بسمہ معروف نے ریٹائرمنٹ کا اعلان کردیا
- امریکی یونیورسٹیز میں ہونے والے مظاہروں پر اسرائیلی وزیراعظم کی چیخیں نکل گئیں
- پولیس یونیفارم پہننے پر مریم نواز کیخلاف کارروائی ہونی چاہیے، یاسمین راشد
- قصور ویڈیو اسکینڈل میں سزا پانے والے 2 ملزمان بری کردیے گئے
- سپریم کورٹ نے اسپیکر بلوچستان اسمبلی عبدالخالق اچکزئی کو بحال کر دیا
- مرغی کی قیمت میں کمی کیلیے اقدامات کر رہے ہیں، وزیر خوراک پنجاب
- عوام کو کچھ نہیں مل رہا، سارا پیسہ سرکاری تنخواہوں میں دیتے رہیں گے؟ چیف جسٹس
- وزیراعلیٰ بننے کیلئے خود کو ثابت کرنا پڑا، آگ کے دریا سے گزر کر پہنچی ہوں، مریم نواز
- کلین سوئپ شکست؛ ویمنز ٹیم کی سلیکشن کمیٹی میں بڑی تبدیلیاں
صرف 90 دن میں ختم ہوجانے والا، لکڑی سے بنا پلاسٹک
نیویارک: اگرچہ ماحول دوست پلاسٹک بنانے کے کئی طریقے زیرِ غور ہیں لیکن محض لکڑی کے برادے سے ایسا بایو پلاسٹک بنایا گیا ہے جو تین ماہ کے اندر گھل کر ختم ہوجاتا ہے اور عام پلاسٹک کی طرح ہزاروں برس تک ماحول میں موجود نہیں رہتا۔
پلاسٹک اس وقت ماحول، انسانی صحت اور جنگلی حیات کے اولین دشمنوں میں شامل ہیں۔ ان کے باریک ٹکڑے اب ہمارے جسم میں پہنچ رہے ہیں۔ سمندروں اور دریاؤں کو یہ آلودہ کرکے جنگلی حیات کو ہلاک کررہے ہیں اور صاف مٹی کو آلودہ بنارہے ہیں۔ اسی لیے پوری دنیا میں کئی تجربہ گاہیں ماحول دوست پلاسٹک پر کام کررہی ہیں جس میں جزوی کامیابی ملی ہے۔
اس سے قبل انڈے کے خول، پودوں اور بعض دیگر اجزا سے بایو پلاسٹک بنائے گئے ہیں لیکن تجارتی پیمانے پر ان کی تیاری کی منزل ابھی بہت دور ہے۔ اب امریکہ کہ مشہور ییل یونیورسٹی میں لکڑی کے کارخانوں میں بننے والے سفوف نما بُرادے کو نامیاتی پالیمر اور سیلیولوز کے ملاپ سے ایک گاڑھے محلول میں بدلا ۔ اسے ہائیڈروجن بانڈنگ سے گزار کر اسے میں نینوپیمانےکے ریشوں کو آپس میں بنا ہے۔ اس طرح بایوپلاسٹک بنا جسے روایتی پلاسٹک کے سامنے آزمایا گیا ہے۔
یہ پلاسٹک مضبوط بھی ہے اور لچکدار بھی۔ جب اسے مٹی میں دفنایا گیاتو دو ہفتے بعد چٹخنے لگا اور تین ماہ میں مکمل طور پر غائب ہوگیا۔ اس میں بھاری مائع بھرا گیا اور سامان اٹھانے کا کامیاب تجربہ بھی کیا گیا۔
اس سے قبل جو بھی بایوپلاسٹک بنائے گئے وہ نہایت کمزور اور غیرلچکدار تھے۔ اسی بنا پر لکڑی کے چورے سے بنا یہ نیا سبزپلاسٹک بہت اچھا ثابت ہوسکتا ہے۔ دوسری جانب اسے بنانے کا طریقہ بہت سادہ اور کم خرچ بھی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ گھلنے کے عمل کے دوران ایک لمحہ ایسا بھی آتا ہے جب پلاسٹک مائع بننے لگتا ہے اور دوبارہ شروعات کی طرح گاڑھے محلول میں ڈھل جاتا ہے۔ اس لمحے اسے دوبارہ صاف کرکے پلاسٹک میں بدلا جاسکتا ہے۔ اس طرح ایک جانب یہ حیاتیاتی طور پر تلف ہوتا ہے اور بازیافت (ری سائیکل) بھی کیا جاسکتا ہے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔