فلم بندی کے دوران سانس اور دھڑکن ناپنے والی ویڈیو ٹیکنالوجی

ویب ڈیسک  بدھ 7 اپريل 2021
یونیورسٹی آف واشنگٹن کا ویڈیو نظام چہرہ دیکھ کر نبض اور سانس کی رفتار نوٹ کرسکتا ہے۔ فوٹو: فائل

یونیورسٹی آف واشنگٹن کا ویڈیو نظام چہرہ دیکھ کر نبض اور سانس کی رفتار نوٹ کرسکتا ہے۔ فوٹو: فائل

واشگٹن: کورونا وبا کے دوران ٹیلی میڈیسن ٹٰیکنالوجی پر بہت کام ہوا ہے۔ اب واشنگٹن یونیورسٹی نے ایک ویڈیو ٹیکنالوجی وضع کی ہے جو حقیقی وقت میں ویڈیو میں موجود شخص کے سانس اور نبض کی رفتار بہت درستگی سے معلوم کرسکتی ہے۔ اس کا عملی مظاہرہ 8 اپریل کی اے سی ایم کانفرنس برائے صحت، انٹرفیس اور اکتساب میں کیا جائے گا۔

یہ ٹیکنالوجی چہرے کو دیکھتے ہوئے دونوں اہم طبی علامات کو نوٹ کرتی ہے۔ اب توقع ہے کہ اس طرح سے ٹیلی میڈیسن کو فروغ ملے گا۔ یونیورسٹی آف واشنگٹن میں ڈاکٹریٹ کے طالبعلم، ژن لائی نے کہا کہ مشین لرننگ تصاویر کی درجہ بندی کرتی ہے۔ اب اس کی بدولت چہرے کو دیکھ کر فعلیاتی اور جسمانی کیفیات کا انکشاف کیا جاسکتا ہے۔ لیکن ہر شخص اپنی طبع میں دوسرے سے مختلف ہوتا ہے۔ اس لیے پورے نظام کو تیزی سے تبدیل ہونے والا ہونا چاہیے تاکہ وہ ہرشخص کی جسمانی تبدیلیوں کو پرکھا جاسکے خواہ وہ کسی بھی ماحول اور پس منظر میں موجود ہو۔

ویڈیو میں شخصی پرائیوسی کا خیال رکھا گیا ہے کیونکہ اس کا ڈیٹا کلاؤڈ کی بجائے فون تک ہی محدود رہتا ہے۔ چہرے پر روشنی اور سائے کی تبدیلی سے مشین لرننگ کا عمل خون کے بہاؤ اور سانس کے اتارچڑھاؤ کو نوٹ کرتا رہتا ہے۔ اسے اصل ویڈیو اور لوگوں کی تصاویر پر تربیت دی گئی ہے۔ ساتھ میں سانس اور نبض کو آلات کے ذریعے نوٹ کیا گیا اور ویڈیو کے ساتھ ان کو ملایا گیا۔

سافٹ ویئر نے تھوڑی ہی دنوں بعد خود کو اس قابل کرلیا کہ وہ چلتے پھرتے لوگوں کی ویڈیوز سے بھی انکی سانس اور نبض کی رفتار نوٹ کرنے کے قابل ہوگیا ۔ لیکن بعض ڈیٹا سیٹس پر اس کی کارکردگی بہتر رہی جبکہ دیگر ڈیٹاسیٹس پر کارکردگی بہتر نہیں رہی اور یہ عمل مشین لرننگ میں ’اوورفٹنگ‘ کہلاتا ہے۔

اس کے بعد مشین کو انفرادی شخص کے حوالے سے تربیت دی گئی جس کے اچھے نتائج برآمد ہوئے۔ تاہم سیاہ فام افراد کے لیے اسے مزید تربیت کی ضرورت ہے۔ تاہم اسمارٹ فون ویڈیو سے بھی اس سے سانس اور نبض کی رفتار معلوم کی جاسکتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔