گیس کی قلت اور شہریوں کی ذمے داری

 جمعـء 10 جنوری 2014
چھاپہ مار ٹیموں کی کارروائیوں کی دھمکیوں کے باوجود گیس کمپریسر کا استعمال بدستور جاری ہے. فوٹو:فائل

چھاپہ مار ٹیموں کی کارروائیوں کی دھمکیوں کے باوجود گیس کمپریسر کا استعمال بدستور جاری ہے. فوٹو:فائل

ملک بھر میں گھریلو صارفین کو گیس سپلائی میں کمی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ کراچی‘ لاہور‘ راولپنڈی‘ اسلام آباد‘ پشاور اور کوئٹہ میں بعض اوقات میں گیس پریشر اتنا کم ہوتا ہے کہ کھانا پکانا‘ یہاں تک کہ چائے تک بنانا ممکن نہیں ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ملک توانائی کے بحران کا شکار ہے تاہم موجودہ حکومت سے عوام کو توقعات تھیں کہ وہ انھیں ان بنیادی مسائل سے تو کم از کم نجات دلائے گی۔ مگر سردیوں میں گھریلو صارفین کو گیس سپلائی کی کمی کی روایت نہ ٹوٹ سکی بلکہ اب اس میںپہلے سے بھی زیادہ شدت آگئی ہے۔ اب شہری توانائی کے متبادل ذرایع استعمال کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں جن سے ان کے گھریلو بجٹ پر اضافی بوجھ پڑا ہے۔ توانائی کے بحران میں جہاں حکومتی منصوبہ بندی کی کمزوریاں عیاں ہوتی ہیں وہاں گھریلو صارفین کی جانب سے اپنائے گئے کچھ طریقہ کار بھی ناپسندیدہ ہونے کے ساتھ ساتھ ان کی بے حسی اور بے صبری پر دلالت کرتے ہیں۔

ملک کے بڑے شہروں میں بہت سے صارفین نے گیس سپلائی کے پریشر میں اضافے کے لیے کمپریسر کا استعمال کرنا شروع کر دیا ہے اور ایسے صارفین کی تعداد روز افزوں ہے نتیجتاً کمپریسر کا استعمال نہ کرنے والے گھریلو صارفین گیس سپلائی سے بہت حد تک محروم ہو گئے ہیں۔ اس صورت حال میں ان کا سارا غصہ حکومت کے خلاف نکل رہا ہے۔ اخباروں میں اشتہارات کے ذریعے خبردار کیا جا رہا ہے کہ گیس کمپریسر کا استعمال ہرگز نہ کیا جائے یہ سنگین جرم ہے‘ گیس کمپریسر کے استعمال میں ملوث افراد کے خلاف فوجداری قوانین کے تحت سخت کارروائی عمل میں لائی جا رہی ہے‘ اس کی روک تھام کے لیے چھاپہ مار ٹیموں نے ہنگامی بنیادوں پر کام کا آغاز کر دیا ہے۔

مگر انتباہی اشتہارات اور چھاپہ مار ٹیموں کی کارروائیوں کی دھمکیوں کے باوجود گیس کمپریسر کا استعمال بدستور جاری ہے۔ یہ اس ملک کے قانون پسند شہریوں کے ساتھ زیادتی ہے‘ حکومت کو چاہیے کہ گیس کمپریسر کا استعمال روکنے کے لیے سرچ آپریشن کا آغاز کیا جائے اور اس جرم میں شریک افراد کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے۔ شہریوں کی بھی ذمے داری ہے کہ وہ غیر قانونی کام نہ کریں تاکہ دیگر لوگوں کی حق تلفی نہ ہو۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔