آئی ایم ایف اور قرض

ایم آئی خلیل  ہفتہ 11 جنوری 2014

پاکستان نے آئی ایم ایف کو 14 کروڑ 70 لاکھ ڈالر کی 25 ویں قسط ادا کردی ہے۔ اس طرح پاکستان نے آئی ایم ایف کو 6 ارب 24 کروڑ 90 لاکھ ڈالر کے قرضوں کی ادائیگی کردی ہے۔ رواں مالی سال جس کا آغاز جولائی 2013 سے ہوا تھا آئی ایم ایف کو 1 ارب 91 کروڑ 80 لاکھ ڈالر ادا کر دیے گئے ہیں۔ حالیہ ادائیگی کے بعد پاکستان کے ذمے اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ کے تحت لیے گئے قرض میں سے ایک ارب 38 کروڑ 80 لاکھ ڈالر کی رقم بقایا رہ جائے گی جوکہ ستمبر 2015 تک ادا کرنا ہوں گے۔

پاکستان اور کئی ترقی پذیر ممالک ایسے ہیں جوکہ آئی ایم ایف سے قرض حاصل کرتے رہتے ہیں۔ لیکن ابھی تک اس ادارے نے ترقی پذیر معیشتوں کی امداد کرنے میں خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کی اور بہت سے ترقی پذیر ممالک اس کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہیں۔ اگر ترقی پذیر ممالک کو اس ادارے کے پروگرام سے فوائد حاصل ہوتے تو بین الاقوامی تجارت میں ترقی پذیر ملکوں کا حصہ بڑھ چکا ہوتا۔ آئے روز جب تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوجاتا ہے تو پاکستان سمیت کئی ترقی پذیر ممالک لرزہ براندام ہوجاتے ہیں۔ ترقی پذیر معیشتوں کی برآمدات کا بڑا حصہ زرعی خام مال اور زراعت پر مبنی صنعتی پیداوار پر ہوتا ہے۔ جس سے انھیں کم زرمبادلہ حاصل ہوتا ہے جب کہ ترقی یافتہ ممالک سے جو مصنوعات اور ترقی پذیر ممالک ملکی ترقی کی خاطر جتنی مشینریاں درآمد کرتے ہیں ان کی قیمتیں انتہائی بلند ہوتی ہیں اور بالآخر توازن تجارت اکثر و بیشتر ان ممالک کے حق میں نہیں ہوتا اور توازن ادائیگی مشکلات کا شکار ہوکر رہ جاتی ہے۔

ایسی صورت میں آئی ایم ایف آگے بڑھتا ہے اور قرض کا ڈول ڈالتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی کئی پسندیدہ اور ناپسندیدہ شرائط رکھ کر قرض کی فراہمی پر آمادہ ہوتا ہے۔ 1993 کے بعد جب تیل کی عالمی قیمتیں اچانک بلند ہوگئیں۔ جب سے ہی پٹرولیم قیمتوں میں آئے دن اضافے سے ترقی پذیر ممالک کو کافی مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے 1974 میں ایک فنڈ قائم کیا گیا جس سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے متاثر ہونے والے ممالک کو ادائیگیوں کی سہولت بہم پہنچائی جاتی ہے۔ لیکن ترقی پذیر ممالک اس ادارے کی پالیسیوں سے نالاں ہوتے چلے گئے اور کئی ممالک قرض لینے سے اجتناب برتنے لگے۔ 2006 میں جب ایک دفعہ تیل کی قیمتیں تیزی سے بلند ہوتے ہوئے ڈیڑھ سو ڈالر فی بیرل سے بھی تجاوز کر رہی تھی، فوری طور پر آئی ایم ایف نے ترقی پذیر ممالک خصوصاً افریقی ملکوں کے لیے تیل کی ادائیگی کے سلسلے میں پیش آنے والے سخت ترین مالی مشکلات کے حل کا ایک پیکیج متعارف کرایا۔ لیکن بیشتر افریقی اور کئی ترقی پذیر ملکوں نے آئی ایم ایف سے قرض لینے سے انکار کردیا۔

مارچ 2008 میں جب نئی حکومت قائم ہوئی تھی چند ہی ماہ کئی وزیر خزانہ اور مشیر خزانہ آتے رہے۔ جیسے تیسے بجٹ 2008-09 پیش کرنے کے بعد پاکستان کے مالیاتی مسائل حل کرنے کی طرف توجہ دی جانے لگی۔ اس لیے کہ بجٹ پیش کرتے وقت بہت سی توقعات باندھ لی گئی تھیں کہ فلاں دوست ملک سے اتنی امداد مل جائے گی۔ اس دوران مشیر خزانہ مسلسل یہ کہتے رہے کہ اب آئی ایم ایف کو خیر باد کہہ دیا ہے، پھر جلد ہی یہ کہتے سنے گئے کہ آئی ایم ایف سے قرض کا حصول تھرڈ آپشن ہوگا۔ ہم دوست ملکوں سے امداد حاصل کرلیں گے، قرض حاصل کرلیں گے۔ ان ہی دنوں اگست 2008 مین فرینڈز آف پاکستان تشکیل پاچکا تھا۔ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف اپنی قربانیوں کے باعث عالمی رہنماؤں کو اس طرف راغب کیا کہ ہم وسیع پیمانے پر نقصان اٹھا چکے ہیں لہٰذا پاکستان کو قرض فراہم کیا جائے۔

لیکن پاکستان اپنی معیشت کو پیروں پر کھڑا کرنے کے لیے کوئی امداد حاصل نہ کرسکا۔ بالآخر تھرڈ آپشن کا سہارا لیا گیا اور آئی ایم ایف سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی آئی ایم ایف کی طرف سے کڑی اور ناگوار شرائط پیش کرتے ہوئے یہ جتلایا گیا کہ ان پر عملدرآمد سے معیشت بہت جلد اپنے پیروں پر کھڑی ہوجائے گی۔ پاکستان نے قرض تو حاصل کرلیا لیکن اس کے نتیجے میں بجلی گیس کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ ہوا۔ افراط زر کی شرح بلند ہوئی روپے کی قدر بار بار کم کی گئی۔ نتیجے میں آج ایک ڈالر 106 روپے کا دستیاب ہے۔ روپے کی قدر دن بہ دن کمزور ہوتی چلی گئی۔ واضح رہے کہ 2013 میں آئی ایم ایف سے اس کی شرائط کے مطابق پھر قرض حاصل کیا گیا ہے۔

قرض حاصل کرنے کے بعد جلد ہی اس کی ادائیگی کا مرحلہ آتا ہے۔ گزشتہ کئی سال سے یہ دکھایا گیا ہے کہ جب بھی قسط ادا کرنا ہوتی ہے مارکیٹ میں افواہیں گردش کرنے لگتی ہیں اور ڈالر کی قلت پیدا ہوجاتی ہے جس سے روپے کی قدر گھٹنے لگتی ہے۔ دوسری طرف مالیاتی ادارے کے مطالبات پر بجلی گیس کی قیمت میں اضافے اور سبسڈی کے خاتمے سے بھی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ہر شے کی قیمت میں اضافہ ہونے لگتا ہے اور بیرون ملک کی جانے والی برآمدی مصنوعات کے لیے بیرونی منڈی سے مقابلہ مزید سخت ہوجاتا ہے۔ حالیہ دنوں میں ملک کو یورپی یونین کی جانب سے جی ایس پی پلس کا درجہ ملا ہے جس سے برآمدات کا خطے کے دیگر ملکوں سے مقابلہ آسان ہوجائے گا اور برآمدات میں اضافہ ہوگا۔ لیکن آئی ایم ایف کے نئے پروگرام میں داخلے کی شرائط کے طور پر بجلی گیس کی قیمت میں اضافہ، مہنگائی میں تیزی، سبسڈی میں خاتمے کے باعث اور زرعی پیداوار کی لاگت میں اضافے کے سبب اب برآمدات کی لاگت بھی بڑھے گی اور پھر خطے کے دیگر ملکوں کے ساتھ مسابقت کی فضا سخت ہوگی اور اتنا ہدف حاصل نہ ہو پائے گا جس کی توقع کی جا رہی ہے۔

لہٰذا ایسی منصوبہ بندی کی جائے اور اس طرح کے اقدامات اٹھائے جائیں کہ اب کشکول اٹھانے کی ضرورت ہی باقی نہ رہے۔ حکومت کی طرف سے بھی اس خواہش کا اظہار کیا جارہا ہے کہ جس طرح بھارت نے آئی ایم ایف سے خلاصی حاصل کرلی ہے، پاکستان کے لیے بھی اس خواہش کا اظہار کیا جارہا ہے کہ اسے بھی آئی ایم ایف کی ضرورت باقی نہ رہے۔ اگرچہ حکومت نے اپنے اخراجات بہت حد تک کم کرنے کا کہا ہے یہاں تک کہ وزیراعظم نواز شریف نے اپنے صوابدیدی فنڈ سے دستبرداری کا اعلان کردیا ہے۔ اسی طرح وزرا کے صوابدیدی فنڈ بھی ختم کردیے گئے ہیں۔ اخراجات میں بھی تقریباً 40 فیصد کمی کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ حکومت برآمدات کو بڑھائے اور درآمدات جوکہ غیر ضروری ہیں ان کو کنٹرول کرے۔ پاکستان کو اپنے وسائل پر انحصار کرنا پڑے گا۔ بہرحال ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ گزشتہ 50 برس سے جیسے قرض لے رہے ہیں اسی طرح لیتے رہیں گے یا قرض سے چھٹکارا حاصل کرنا ہے۔ جیساکہ وزیراعظم کی خواہش ہے کہ آئی ایم ایف سے چھٹکارا حاصل ہو۔ اس کے لیے ہمیں اپنے پیروں پر کھڑا ہونا ہوگا تاکہ پاکستان جلد از جلد قرض کے چنگل سے باہر نکل آئے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔