پاکستانی شہریوں میں بلڈ پریشر کنٹرول کے کم خرچ نظام کے مثبت نتائج

ویب ڈیسک  منگل 6 اپريل 2021
کمیونٹی ہیلتھ ورکر کو تربیت دے کر بلڈ پریشر کی مؤثر روک تھام کی جاسکتی ہے (فوٹو: فائل)

کمیونٹی ہیلتھ ورکر کو تربیت دے کر بلڈ پریشر کی مؤثر روک تھام کی جاسکتی ہے (فوٹو: فائل)

سنگاپور: پاکستان، سری لنکا اور بنگلہ دیش میں تین برس تک جاری ایک مطالعے کے نتائج سامنے آئے ہیں جس کے مطابق اگر لیڈی ہیلتھ ورکر یا کمیونٹی ورکر کو شہری عوام کو بلڈ پریشر قابو میں رکھنے کا شعور فراہم کرے تو اس کے بہت سے فوائد حاصل ہوسکتے ہیں۔ اس طرح کم خرچ انداز میں نہ صرف دیگر خوف ناک امراض سے بچنا ممکن ہوگا بلکہ اس سے لاکھوں کروڑوں روپے کی بچت بھی ہوسکتی ہے۔

لینسٹ میں شائع ایک رپورٹ میں ڈیوک این یو ایس میڈیکل اسکول سنگاپور کی جانب سے ’کنٹرول آف بلڈ پریشر اینڈ اٹینیوایشن، بنگلہ دیش، پاکستان اور سری لنکا (سی او بی آر اے (کوبرا) پی بی ایس) پروگرام جاری کیا گیا ہے۔

پاکستان میں یہ پروگرام آغا خان یونیورسٹی کے تعاون سے 2016ء سے 2019ء کے درمیان مکمل کیا گیا۔ اس طرح تینوں ممالک میں لیڈی ہیلتھ ورکر یا کمیونٹی ہیلتھ ورکر کو شہریوں کے بلڈ پریشر نوٹ کرنے اور ان کے انتظام کی تربیت دی گئی ورنہ عام حالات میں وہ ماں اور بچے کی صحت پر ہی توجہ کرتے ہیں۔

ان ہیلتھ ورکرز نے لوگوں کو بلڈ پریشر بڑھنے کے نقصانات، صحت مند غذا اورورزش اور ڈاکٹروں تک رسائی میں مدد دی۔ اس طرح بہت کم خرچ انداز میں آبادی کے بڑے حصے کو بلڈ پریشر کنٹرول کرنے میں مدد دی گئی۔ ڈیوک این یو ایس سے وابستہ پروفیسر تزئین جعفر نے بتایا کہ ’اس مطالعے کا مقصد بیماری کی روک تھام اور اس پر ہونے والے اخراجات میں کمی ہے۔‘ اس تحقیق سے صحت کو نقصان پہنچانے والے بہت سے عوامل کی روک تھام کرنی ہے۔

اس عمل میں تین سال تک پورے مطالعے کے اخراجات نوٹ کیے گئے اور اسے دیگرغریب یا ترقی پذیرممالک پر لاگو کرنے پر بھی غور کیا گیا۔ پھر بلڈ پریشر قابو کرکے فالج اور امراضِ قلب کو بھی روکا جاسکتا ہے۔ اس طرح ہیلتھ ورکروں کی مدد سے بلڈ پریشر کی بلا کو قابو کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔

اندازہ لگایا گیا کہ پہلے سال فی شخص (مریض) کی معاونت اور مدد پر پاکستان اور بنگلہ دیش میں سوا دس ڈالر اور سری لنکا میں دس ڈالر اور بیالیس سینٹ خرچ کیے گئے۔ اگلے پاکستان اور بنگلہ دیش میں یہ اخراجات مزید کم ہوئے تاہم سری لنکا میں کچھ بڑھ گئے۔

اس مطالعے کے کم ترین اخراجات کو دیکھتے ہوئے اسے ترقی پذیر ممالک پر لاگو کیا جاسکتا ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ سال بہ سال قیمت میں کمی واقع ہوسکتی ہے۔ پھر کوبرا پی بی ایس بنگلہ دیش کے لیے بھی کسی نعمت سے کم نہیں کیونکہ بڑھتا ہوا بلڈ پریشر دیگر ممالک کی طرح وہاں امراضِ قلب، فالج اور گردے ناکارہ بننے کے بڑی وجہ بنا ہوا ہے۔

اس پروگرام میں شامل آغا خان یونیورسٹی کی ڈاکٹر امتیاز جہاں کہتی ہیں کہ پاکستان میں 45 برس سے زائد کا ہر تیسرا فرد ہائی بلڈ پریشر کا شکار ہے اور اس خاموش قاتل مرض کو قابو کرکے دل کی بیماریوں اور دیگر امراض کو روکا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔