جنوبی ایشیا میں کم عمری کی شادی کے رجحان میں کمی

ویب ڈیسک  منگل 6 اپريل 2021
15 سال سے کم عمر میں ماں بننے والی لڑکیوں میں زچگی کے دوران مرنے یا فیسٹولا میں مبتلا ہونے کا امکان 5 گنا زیادہ ہوتا ہے۔

15 سال سے کم عمر میں ماں بننے والی لڑکیوں میں زچگی کے دوران مرنے یا فیسٹولا میں مبتلا ہونے کا امکان 5 گنا زیادہ ہوتا ہے۔

 واشنگٹن: اٹھارہ سال سے کم عمر بچوں کی شادی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے، لیکن دنیا بھر میں اس پریکٹس کو ’جرم‘ سمجھے بنا ہی جاری رکھا جا رہا ہے۔

لڑکیوں کی کم عمری میں شادی انہیں ذہنی اور جسمانی طور پرعمر بھر کے لیے متاثر کردیتی ہے۔  یونیسیف کے اعداد و شمار کے مطابق کم عمری میں ماں بننے والی لڑکیوں میں حمل اور بچوں کی پیدائش کے دوران ہونے والی پیچیدگیوں سے ہونے والی اموات کی شرح بہت زیادہ ہے اور ان میں سے بیشتر اپنی عمر کی بیسویں بہار دیکھے بنا ہی موت سے ہم کنار ہوجاتی ہیں۔

اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر میں روزانہ 18 سال سے کم عمر 37 ہزار لڑکیوں کی شادی کی جاتی ہے۔ ترقی پذیر ممالک میں اٹھارہ سال کی عمر سے پہلے ہر تین میں سے ایک اور 15 سال کی عمر سے پہلے ہر 9 میں سے 1 لڑکی کی شادی کردی جاتی ہے۔

کم عمری کی شادی کے نقصانات 

کم عمری میں شادی لڑکیوں سے ان کا بچپن چھین کر، تعلیم اور ترقی کی راہیں مسدود کردیتی ہے۔ ان کے لیے گھریلو تشدد کے خطرات میں اضافہ ہوجاتا ہے۔

15 سال سے کم عمر میں ماں بننے والی لڑکیوں میں زچگی کے دوران مرنے یا فیسٹولا میں مبتلا ہونے کا امکان 5 گنا زیادہ ہوتا ہے۔

کم عمری کی شادیوں میں افریقی ممالک نائجریا، وسطی جمہوریہ افریقا، اور چاڈ سرفہرست ہیں۔ اس سے قبل اس فہرست میں جنوبی ایشیا سر فہرست تھا۔ تاہم لوگوں میں اس بابت شعور اجاگر ہونے سے گزشتہ دس سالوں میں یہ شرح 49 فیصد سے کم ہوکر 30 فیصد  تک آگئی ہے۔

اگر والدین میں لڑکیوں کی کم عمری میں شادی سے متعلق مسائل کا شعور پیدا نہیں کیا گیا توآئندہ دس سالوں میں 18 سال سے کم عمر کی مزید 11 کروڑ لڑکیوں کی شادی کردی جائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔