بُک شیلف

حسان خالد  اتوار 11 اپريل 2021
جانیے دلچسپ کتابوں کے احوال۔

جانیے دلچسپ کتابوں کے احوال۔

مجموعہ محمد خالد اختر (چار جلدیں)
ناشر: آج، سٹی پریس بک شاپ، کراچی
رابطہ نمبر: 0300-3451649

ممتاز ادیب محمد خالد اختر (1920-2002) اپنے منفرد اسلوب کی وجہ سے قارئین کے ایک مخصوص حلقے میں بہت مقبول ہیں۔ انہیں ایسے لوگوں کا ادیب بھی کہا جاتا ہے، جو خود اہل قلم ہیں۔ بنیادی طور پر ان کی پہچان ایک مزاح نگار کی ہے، کیونکہ ان کے ناولوں، چاکیواڑہ میں وصال، بیس سو گیارہ اور عبدالباقی کہانیوں کو بہت شہرت ملی۔ انہوں نے غالب کے انداز میں دلچسپ خطوط بھی لکھے، جو ’’مکاتیب خضر‘‘ کے نام سے کتابی صورت میں شائع ہوئے۔

انہوں نے بہت سی دیگر اصناف ادب میں بھی قابل قدر کام کیا، اور بطور سفرنامہ نگار، کہانی کار اور تبصرہ نگار اپنی صلاحیتوں کو منوایا۔ ایسے بہت سے قارئین ہیں، جو کسی نہ کسی صنف میں ان کے کام کو بہترین گردانتے ہیں اور مجموعی طور پر ان کی تحریروں کے مداحین کی تعداد بھی کم نہیں۔ اردو ادب کے قارئین اور بالخصوص محمد خالد اختر کے مداحوں کے لیے یہ بات کسی خوشخبری سے کم نہیں کہ اب ان کا زیادہ تر کام چار جلدوں میں دوبارہ شائع ہو کر سامنے آ گیا ہے، جنہیں سہ ماہی ’’آج‘‘ کے مدیر، مضمون نگار اور مترجم، اجمل کمال نے مرتب کیا ہے۔ ہر جلد کی قیمت 800 روپے ہے۔

٭ یاترا (دس سفرنامے)
صفحات: 468
اس مجموعے کی پہلی جلد، یاترا، محمد خالد اختر کے دس سفرناموں پر مشتمل ہے۔ وہ سیاحت کے بہت شوقین تھے۔ کتاب میں پاکستان کے مختلف علاقوں کے علاوہ کچھ دوسرے ممالک کے سفر کا احوال بھی شامل ہے۔ خالد اختر، جیسا کہ خود کہتے تھے، بنیادی طور پر اپنے لیے لکھتے تھے، اس لیے مختلف سفرناموں میں اسلوب کے تھوڑے بہت فرق کے باوجود بے تکلفی کی ایک فضا پائی جاتی ہے۔ وہ کہیں جلدی میں نظر نہیں آتے، بلکہ پرلطف انداز میں ایک ایک واقعے کا بیان کرتے چلے جاتے ہیں۔

قاری ان کے ساتھ سفر کرنے میں خوشی محسوس کرتا ہے، کیونکہ ان کے پاس مشاہدے کی وہ آنکھ اور بیان کرنے کے لیے وہ قلم ہے، جو بظاہر ایک عام سفر کو دلچسپ اور خاص بنا دیتا ہے۔ پہلا سفرنامہ ’’ڈیپلو سے نوں کوٹ تک‘‘ ، صوبہ سندھ کے ضلع تھرپارکر میں ایک گائوں ڈیپلو اور ایک ریلوے سٹیشن نوں کوٹ کے درمیان ایک سفر کی روداد ہے۔ یہ سفر ستمبر 1945 میں کیا گیا تھا۔ انہوں نے ایک دوست کی دعوت پر ریاست بہاولپور کے ایک گائوں میں قائم مدرسہ دیکھنے کے لیے جو سفر کیا، اس کا دلچسپ احوال ’’دہقانی یونیورسٹی‘‘ میں رقم ہے۔ محض یہ دو سفرنامے ہی ’’سفرنامہ نگار‘‘ محمد خالد اختر کا تعارف کرانے کے لیے کافی ہیں۔ باقی سفرنامے بھی اتنے ہی دلچسپ ہیں، اور قاری کے لیے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوتا ہے کہ کسے بہترین قرار دیا جائے۔

٭ چاکیواڑہ میں وصال (تین ناول)
صفحات: 349
دوسری جلد میں تین ناول اکٹھے کیے گئے ہیں، جن میں بیس سو گیارہ اور چاکیواڑہ میں وصال کو خاص شہرت حاصل ہے۔ ناول، بیس سو گیارہ، طنز و مزاح سے بھرپور ایک سیاسی فینٹسی (fantasy) ہے، جس کے تعارف میں مصنف لکھتا ہے: ’’ہر ایک لکھنے والے، بلکہ ہر ایک شخص کی اپنی الگ دنیا ہوتی ہے۔

یہ کتاب میری دنیا میں جھانکنے میں تمھیں مدد دے گی۔ تم شاید اس کو کئی لحاظ سے ایک عجیب بے ہودہ اور بے سروپا دنیا پائو گے، مگر ان سب کوتاہیوں کے باوجود (مجھے امید ہے) یہ دنیا محبت انسانی سے گرم اور دھڑکتی ہوئی ہے۔‘‘ محمد خالد اختر اور ’’چاکیواڑہ میں وصال‘‘ کا تذکرہ ساتھ ساتھ ہی ہوتا ہے۔

ناول میں مصنف نے کراچی کے علاقے چاکیواڑہ کا جو نقشہ کھینچا ہے، اور اس میں چند دلچسپ کرداوں کی مدد سے جو پرلطف کہانی بیان کی ہے، اس نے اردو ادب کو ایک منفرد ناول دے دیا ہے۔ فیض صاحب کو یہ ناول بہت پسند تھا۔ ’’مسکراتا ہوا بدھ‘‘ ایک پرتجسس کہانی ہے، جس سے تم ایک جاسوسی ناول کے طور پر بھی لطف اندوز ہو سکتے ہو۔
ّ

٭ لالٹین (تیئیس کہانیاں)
صفحات: 389
بطور کہانی کار، محمد خالد اختر کا مقام ’’ننھا مانجھی‘‘ اور ’’جوڈی اور میں‘‘ جیسی شاہکار کہانیوں سے ہی طے ہوجاتا ہے۔ اس مجموعے میں ان کی 23 کہانیاں شامل ہیں۔ ’’ہونے والا بادشاہ‘‘ ، ’’کھویا ہوا افق‘‘ ، ’’مٹھی کالائسنشئیٹ‘‘ اور ’’دو آرٹسٹ – بلکہ تین‘‘ جیسی دلچسپ اور پراثر کہانیاں بھی اس مجموعے کا حصہ ہیں۔ ’’بابے غلام محمد کے نام‘‘ اور ’’ایک چھوٹے لڑکے یعقوب کے نام‘‘ ایسی کہانیاں ہیں، جو انسان کی روح کے اندر تک اتر جاتی ہیں، جن میں جذبات کی آنچ تیز ہے اور کچھ دیر تک تم اداسی کی ایک کیفیت سے باہر نہیں نکلتے۔

٭ زیبرا سکیم (گیارہ عبدالباقی کہانیاں)
اردو کے فکاہیہ ادب میں ’’عبدالباقی کہانیوں‘‘ کو ایک خاص مقام حاصل ہے، اور اسے بجا طور پر اردو مزاح کی بہترین کتابوںمیں سے ایک کتاب کا درجہ دیا جاتا ہے۔ ان کہانیوں میں انگریزی ادب کے مزاح جیسا آہنگ اور چاشنی ملتی ہے۔ چچا عبدالباقی، جو اپنے تئیں ایک ہوشیار آدمی ہے، اسے پیسہ کمانے کی نت نئی ترکیبیں سوجھتی رہتی ہیں۔

اس کے کاروباری منصوبے بہت دلچسپ اور منفرد ہوتے ہیں۔ کبھی وہ ادبی رسالے کا اجرا اور دانشوروں کے لیے کافی ہائوس کے قیام جیسے آئیڈیاز پیش کرتا ہے، تو کبھی اس کا ذہن رسا ’’زیبرا درآمد کمپنی‘‘ جیسے انوکھے ایڈونچر تخلیق کرتا ہے۔ معلوم نہیں یہ اس کی گفتگو کا سحر ہے یا محمد بختیار خلجی کی ضرورت سے زیادہ سادہ لوحی، جو ہمیشہ ایک کے بعد، دوسرے انوکھے کاروباری منصوبے پر سرمایہ لگاتا ہے اور نقصان اٹھاتا ہے۔ محمد بخیتار خلجی ایک جگہ چچا عبدالباقی کے بارے میں بتاتا ہے: ’’وہ میرا اصلی چچا نہیں بلکہ ان چچائوں میں سے ہے جو اپنے قابل قدر مشوروں اور بیش قیمت نصیحتوں سے زندگی کے کڑے سفر کو خوشگوار اور قابل برداشت بناتے رہتے ہیں; ان چچائوں کے بغیر زندگی مطلقاً بے رنگ اور بے معنی سی شے ہے اور جینا محض ایک تضیع اوقات۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔