حسینہ معین

سیّد ذوالفقار حسین نقویؔ  اتوار 11 اپريل 2021
آپ نے کئی فلموں کے کام یاب اسکرپٹ بھی لکھے، جو سب کی سب مقبولِ عام ثابت ہوئیں۔

آپ نے کئی فلموں کے کام یاب اسکرپٹ بھی لکھے، جو سب کی سب مقبولِ عام ثابت ہوئیں۔

راقم الحروف کو وہ وقت یاد آرہا ہے، 1986ء کے اوائل کی بات ہے ، جب پی ٹی وی اناؤنسرآٹھ بجے شب کے لگ بھگ یہ اعلان کیا کرتی تھی، اور چھوٹے بڑے، بزرگ، جوان، عورت مرد، بچے سب لوگ دِل سے خوش ہوجاتے تھے۔

’’ناظرین! اب وقت ہوا چاہتا ہے، آپ کے پسندیدہ اُردو کھیل ’’تنہائیاں‘‘ کا، جس کی آج پہلی قسط پیش کی جارہی ہے، اِسے آپ کے لیے تحریر کیا ہے حسینہ معین نے اور ہدایات دی ہیں شہزادخلیل نے۔ اِسے آپ تک پہنچانے کے لیے ہمارے ساتھ تعاون کیا ہے۔۔۔(اور پھر بہت سارے اسپانسرز اداروں کے نام لیے جاتے تھے۔۔۔پھر اناؤنسر مسکراتے ہوئے کہتی تھی) تو آئیے ناظرین دیکھتے ہیں ’’تنہائیاں‘‘ کی پہلی قسط۔‘‘

اور پھر لوگ قلبی اور ذہنی اِنہماک کے ساتھ ہمہ تن گوش ہوکر ’’تنہائیاں‘‘ سیریل دیکھنے میں محو ہوجایا کرتے تھے۔

بین الاقوامی شہرت یافتہ ڈراما نگار اور ایک بہت اچھی انسان محترمہ حسینہ معین نے ٹی وی جیسے پاور فل میڈیم کے لیے بھرپور اصلاحی، تعلیمی، تفریحی، تعمیری، معلوماتی اور بہت سے یادگار ڈرامے تحریر کیے۔ ہیپی عید مبارک، عید کا جوڑا، روشنی، چھوٹی چھوٹی باتیں، ساگر کا آنسو، شہ زوری، کرن کہانی، زیر زبر پیش، پرچھائیاں، انکل عرفی، دُھند، بندش، آنسو، آئینہ، اَن کہی، تنہائیاں، دُھوپ کنارے، کہر، تان سین، کسک، آہٹ، پڑوسی، دیس پردیس، دُھندلے راستے، پل دو پل، سارے موسم اپنے ہیں، میری بہن مایا، اور ایک طویل فہرست ہے آپ کے عوام النّاس میں مقبول ترین ڈراما سیریلز، انفرادی ڈراموں اور دیگر پروگرامز کی۔

ہزارہا حَسین و جمیل صفحات تحریر کرنے والی حسینہ معین نے اپنے فنِ تحریر کی ابتدا ریڈیو پاکستان، کراچی اسٹیشن سے کی۔ آپ کی زندگی کو اگر ایک جملے میں بیان کیا جائے، تو وہ دل کی تمام تر گہرائیوں سے آرٹ سے کمٹ منٹ ہے۔ ڈراما نگاری بھی ایک آرٹ ہے۔

یہ فن اور ہُنر کسی کسی کو نصیب ہوتا ہے۔ ہر کس و ناکس کے حصے میں یہ خوش نصیبی نہیں آتی۔ ٹیلی ویژن کے لیے بہت مضبوط اور توانا لکھنے والوں کی اگر کبھی فہرست مرتّب کی جائے، تو بلامبالغہ اُس میں پہلا نام حسینہ معین صاحبہ ہی کا آئے گا۔ ہمیں کل کی سی طرح یاد ہے کہ جب آپ کی کوئی ڈراما سیریل ٹیلی کاسٹ ہوتی تھی، تو سڑکیں سنسان ہونا اور شادی بیاہ کی تقریبات تک میں لوگوں کا، قسط دیکھ کر گھر سے نکلنا بالکل معمول کی بات تھی۔ معین اختر (مرحوم و مغفور) آپ کو بجا طور پر ’’لکھائی کی مشین، یعنی حسینہ معین‘‘ کہا کرتے تھے۔

اِس میں کوئی دو رائے نہیں کہ آپ لفظوں اور جذبوں کی آب رُو تھیں۔ رشتوں کے احترام اور تقدّس کا اپنے ہر ڈرامے، ہر جملے اور ہر لفظ میں خاص خیال رکھا۔ حسینہ معین خوش مزاج ، خوش پوشاک، خوش اطوار اور ایک ایسی شخصیت تھیں کہ اپنے چھوٹوں سے بہت ہی محبت اور شفقت سے پیش آتی تھیں، جب کہ بڑوں کی عزت اور احترام ہمیشہ آپ کا خاصّہ رہا۔ بے انتہا شہرت، مقبولیت اور عروج کے دَور میں بھی غرور اور تکبّر سے ہمیشہ شعوری طور پر گریز ہی رکھا۔ پُروقار، پُراعتماد ہستی، نپی تلی گفتگو، سنجیدہ مگر ظرافت سے بھرپور، جانِ محفلِ دوستاں حسینہ معین، ساری زندگی دوستوں کی دوست رہیں۔ علم و ادب کی حَسین جمالیات، پُرخلوص محبتوں اور بے لوث چاہتوں کی چاشنی آپ کی تحریروں کا ہمیشہ طرّۂ امتیاز رہی۔

ہنستی مسکراتی حسینہ معین نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ہمارے والدین میں آپس میں بہت زیادہ محبت، چاہت، عقیدت اور احترام رہا۔ یہی کچھ میں اپنے تحریرکردہ ڈراموں میں اسکرین پر پیش کرتی رہی۔ لوگوں کو، عوام النّاس کو محبتوں کی ضرورت ہے، خلوص کی ضرورت ہے۔ یہ زندگی تو محبتوں ہی کے لیے کم ہے، چہ جائے کہ اِس مختصر سی حیات میں نفرت، حقارت یا ایسا ہی کچھ اور منفی سلوک۔۔۔کیا قیامت ہے؟؟!!

دُعا ہے کہ اللہ ہماری قوم کو حسینہ معین جیسی مثالی اور ادیبائیں عطا فرمائے۔ اُس کے خزانۂ قدرت میں بھلا کس چیز کی کمی ہے۔ اُردو زبان میں مثالی ڈراما نگاری کے حوالے سے ساری دُنیا، جہاں جہاں اُردو بولی اور سمجھی جاتی ہے ، اُنھیں ہمیشہ یاد رکھے گی۔ کسی شاعر نے کیا اچھا کہا ہے:’’بچھڑی ہوئی راہوں سے جو گزرے ہیں کبھی ہم، ہر گام پہ کھوئی ہوئی اِک یاد ملی ہے۔‘‘

حسینہ جی کی تحریروں کی خاص بات یہ رہی کہ وہ ابتدا ہی سے اپنی اِس زندگی کے اختتام تک انسانی قدروں کی امین رہیں۔ تہذیبی اقدار کی شکست و ریخت اُنھیں سخت ناپسند تھی۔ گھریلو ڈرامے لکھا کرتی تھیں، جنھیں بچے، بوڑھے، جوان سب مل کر دیکھا اور محظوظ ہوا کرتے تھے۔ ایک عمدہ انسان، ایک اچھی خاتون ہونے کے ناتے لڑکیوں اور خواتین کے کردار کو آپ نے خاص الخاص اہمیت دی۔ ’’وجودِزن سے ہے تصویرِکائنات میں رنگ، اِسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوزِدروں‘‘ شاعرِ مشرق علّامہ ڈاکٹرمحمد اقبال ؒ کے اِس حَسین شعر پر آپ کو عملی طور پر ً مکمل یقین تھا۔

کسی بزرگ شخصیت نے حسینہ معین کے لیے کہا تھا کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ قلم ہاتھ میں لے کر پیدا ہوئی ہیں۔ شائستہ و برجستہ، شُستہ و شگفتہ اور سادہ فنِ تحریر اور پاکستانی تہذیب و اقدار کی پاس داری آپ کی تحریروں سے نئی نسل کے ڈرامانگار بہ آسانی سیکھ اور سمجھ سکتے ہیں۔ معیاری اور اصلاحی تحریروں کی دنیا میں اپنی بہترین تخلیقات کے ذریعے حسینہ معین ہمیشہ زندہ اور پائندہ رہیں گی۔ آپ کی باغ و بہار بلکہ سدابہار شخصیت پر سُرورؔ بارہ بنکوی کا یہ خوب صورت شعرمنطبق ہوتا ہے: ’’جن سے مل کر زندگی سے عشق ہوجائے وہ لوگ، آپ نے شاید نہ دیکھے ہوں مگر ایسے بھی ہیں۔‘‘

راقم الحروف کی حسینہ معین سے کئی ملاقاتیں رہیں، آپ سے مختلف ڈراماسیریلز کے حوالے سے متعدد مرتبہ بات چیت، انٹرویو کا بھی موقع ملا۔ اِس خاکسار نے آپ کو ایک عظیم ہستی، ایک قابلِ تحسین و آفرین شخصیت پایا۔ محنت، جہدِمسلسل، آہنی عزم اور مقصد کے حصول میں استقامت آپ کی ذات کا حصہ رہی۔ اس وقت مجھے حسینہ معین کی کام یاب ترین ڈراما سیریل ’’اَن کہی‘‘ کے وہ منفرد اور جامع مکالمے یاد آرہے ہیں، جو ماموں (سلیم ناصر) ٹمی (جمشید انصاری) سے غالباً آخری قسط میں کہتے ہیں:’’یار ٹمی! مجھے اپنی ایک اچھی سی تصویر فریم کراکے دے دو۔ جب کبھی انسانیت، محبت، پیار، خلوص، ہم دردی اور وفا وغیرہ پر سے میرا ایمان اُٹھنے لگے گا، تو میں وہ تصویر دیکھ لیا کروں گا۔‘‘

آپ نے کئی فلموں کے کام یاب اسکرپٹ بھی لکھے، جو سب کی سب مقبولِ عام ثابت ہوئیں۔ آپ کی مثال اِس طرح بھی دی جاسکتی ہے:’’آپ آئیں، آپ نے دیکھا اور آپ گویا چھا گئیں۔‘‘ ہندوستان کی فلم انڈسٹری نے بھی آپ کے فنِ تحریر سے استفادہ کیا۔ آپ نے متعدد معیاری اور یادگار اسٹیج ڈرامے بھی تحریر کیے۔ یہ بھی کوئی آسان کام نہیں تھا۔ آپ کا تحریر کردہ ایک بہت عمدہ ناول ’’پُل صراط کا سفر‘‘ جو ہفت روزہ ’’اخبارِ جہاں‘‘ میں قسط وار شائع ہوا۔ اس ناول کے کتابی صورت میں بھی کئی ایڈیشن چھپ چکے ہیں۔

آپ نے اپنی زندگی کے حوالے سے اہم باتیں، پیغامات، حاصلِ مطالعہ، اپنا مافی الضمیر اُس ناول کے متن میں، بیانیے میں نہایت خوب صورتی کے ساتھ تحریر کیا ہے۔ وہ ناول پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ آپ کو پی ٹی وی ایوارڈز، صدارتی تمغہ برائے حُسنِ کارکردگی اور دیگر بہت سے ایوارڈز اور اعزازات سے بھی نوازا گیا، لیکن آپ کا سب سے بڑا اعزاز عوام کے دِلوں میں آپ کی محبت اور آپ کا بے حد احترام رہا۔ آپ کے تحریر کردہ ڈراموں کو دیکھ کر لوگوں کے ذہنوں کے دریچوں میں یہ خیال در آتا تھا، بقول اخترؔ شیرانی:’’یہ کس کو دیکھ کر دیکھا ہے میں نے بزمِ ہستی کو، کہ جو شے ہے نگاہوں کو حَسیں معلوم ہوتی ہے۔‘‘

حسینہ معین آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کی آپ منتخب نائب صدر اور تحریر وتقریر کے حوالے سے اِس انسٹی ٹیوشن کی سرگرم راہنما اور کارکن بھی تھیں۔ سرکاری سطح پر تعلیم اور تدریس کے شعبے میں بھی آپ کی بحیثیت اُستانی اور ہیڈ مسٹریس خدمات تاقابلِ فراموش رہیں۔

آپ نے اپنے تحریر کردہ ڈراموں میں بھی ایسے مناظر اور مکالمے پیش کیے، جنھیں دیکھتے ہوئے ناظرین کو بالکل ایسا محسوس ہوتا ہے، جیسے یہ ہمارے ہی کسی عزیز، رشتے دار، پڑوسی یا دوست کے گھر کا منظر ہے۔ ماہ نامہ ’’ٹی وی ٹائمز‘‘ (جس کا آفس آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی) میں تھا، صحافی ریاض احمد منصوری ایک طویل عرصے تک شائع کرتے رہے، اُس معیاری رسالے کی آپ سالہا سال چیف ایڈیٹر رہیں۔ ’’ٹی وی ٹائمز‘‘ میں بھی آپ کی بے مِثل، طویل اور بہترین تحریریں پڑھنے والے آج بھی یاد کرتے ہیں۔ ہندوستان یاترا کا سفرنامہ آپ نے ’’فلم والوں کی سیر‘‘ کے عنوان سے منفرد اور لاجواب انداز میں لکھا۔

راقم الحروف کی آٹو گراف بُک میں حسینہ معین کی یہ خوش کُن تحریر آج بھی جگمگا رہی ہے:

’’ذوالفقار! زندگی خداوند تعالیٰ کا بہت بڑا انعام ہے، اِس کی ہمیشہ قدر کرنا۔‘‘

کبھی حسینہ معین صاحبہ سے پی ٹی وی، کراچی سینٹر میں ملاقات ہوتی، کبھی اُن کے اسکول میں، کبھی ٹی وی ٹائمز کے دفتر میں اور کبھی اُن کے گھر پر۔ اُن کی والدہ محترمہ بھی نہایت شفیق اور ملن سار ہستی تھیں۔ اُن کی مثالی خدمت کی سعادت بھی حسینہ جی کا مقدر بنی۔ پھر آنے والے ماہ و سال میں فکرِمعاش میں راقم الحروف بھی کچھ اِس طرح مگن ہوا کہ بادلِ ناخواستہ ملاقاتیں کم ہوگئی تھیں، رفتہ رفتہ وہ ایک موذی بیماری سے دو چار ہوئیں، لیکن ہمّت نہیں ہاری۔ بہت بہادری اور جواں جذبے کے ساتھ اِس بیماری کا مقابلہ کرتی رہیں۔ حسینہ معین کا کہنا تھا کہ ’’کام ہی میں آرام ہے۔‘‘

’’انکل عرفی‘‘ کا وہ یادگار منظر جس میں حسنات بھائی (جمشید انصاری) انکل عرفی (شکیل) کے سُوٹ کا ناپ لینے کی سعیِ ناتمام کررہے ہوتے ہیں، وہ منظر اور اُس کے بے ساختہ مکالمے۔۔۔ اُداس سے اُداس چہروں پہ مسکراہٹیں بکھیرنے کے لیے کافی ہیں۔ ’’ہنسی علاجِ غم ہے‘‘ کے مصداق روتے بسورتے چہروں کو ہنسانا آپ ہی کا کارنامہ تھا۔ ’’تنہائیاں‘‘ میں جب زارا (شہناز شیخ) اسپتال میں ہوتی ہے، اُس وقت وہاں عیادت کے موقع پر مِس زارا صاحبہ کو مِس سنیعہ (مرینہ خان) اور آنی (بدر خلیل) کی موجودگی میں قباچہ (بہروز سبزواری) کا بقراط (جمشید انصاری) کا تحریر کردہ محبت نامہ بلکہ ادب نامہ (جو درحقیقت آپ ہی کے فنِ تحریر کا شاہ کار ہے) اپنے مخصوص انداز سے پڑھ کر سُنانا۔ آج بھی ٹی وی ناظرین کو بے ساختہ ہنسنے پر مجبور کردیتا ہے۔

بہت سے برجستہ، شگفتہ اور یادگار ترین جملے حسینہ معین کی یادیں تادیر تازہ کرتے رہیں گے۔ آپ کو آپ کے تحریر کردہ ڈراموں کے سلسلے میں پروڈیوسرز اور ڈائریکٹرز کی بھی قسمت سے وہ کِریم ملی، جو حقیقت میں اپنی مثال آپ رہی۔ آغا ناصر، کنور آفتاب احمد، محسن علی، شعیب منصور، شیریں خان، شہزاد خلیل، ساحرہ کاظمی، ایم ظہیر خان، رعنا شیخ، علی رضوی، خواجہ نجم الحسن وغیرہ ۔

پی ٹی وی کے عروج کے دَور میں اُس سرکاری چینل کی خوش نصیبیوں اور اُس کے کار ناموں میں حسینہ معین کے نام اور کام کا بڑا حصہ رہا۔ یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ وہ سنہرا وقت بھی گزرا ہے کہ صدر ضیاء الحق اور دیگر سربراہانِ حکومت و مملکت غیرملکی مہمانوں کو ’’اَن کہی‘‘ اور حسینہ معین کی دیگر سپرہٹ ڈراما سیریلز کی کیسٹیں تحائف میں پیش کرتے رہے۔ پڑوسی ملک ہندوستان کی مشہورِ زمانہ فلم انڈسٹری میں حسینہ معین اور پاکستان ٹیلی ویژن کے دیگر کام یاب ترین رائٹرز کی سیریلز وہاں کے اداکاروں کی تربیت اور استفادے کے لیے اکیڈمیز میں دِکھائے جانے کا سلسلہ رہا۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے:’’زندگی جن کے تصور سے جِلا پاتی تھی، ہائے کیا لوگ تھے جو دامِ اجل میں آئے۔‘‘

عام و خواص سب لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ حسینہ معین کی تحریریں، ڈراما سیریلز لوگوں کو مایوسی اور نااُمیدی کے گھٹا ٹوپ اندھیروں سے نکال کر صبحِ نو کی مانند اُمید اور روشنی میں لے آتی تھیں۔ آپ کے برجستہ جملے عوام کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھیر دیتے تھے۔ یہ منفرد اندازِتحریر صرف آپ ہی کا تھا۔ اصلاحِ معاشرہ کے تناظر میں فنِ تحریر میںآپ سے کسبِ فیض کرنے والوں میں یہ خاکسار بھی شامل ہے۔ ایک پرستار کی حیثیت سے یہ مضمون حسینہ معین (مرحومہ و مغفورہ) کو تہِ دل سے وہ خراجِ تحسین و عقیدت ہے، جو کسی کسی ہی کو پیش کیا جاتا ہے۔ مجھ جیسے نہ جانے کتنے ہی طالب علموں کو آپ نے لکھنا سکھایا ہے۔ اچھا لکھنے کی تربیت دی ہے۔

پی ٹی وی کے لیے ہماری تجویز ہے کہ حسینہ معین کی یادگار، تفریحی اور اصلاحی ڈراما سیریلز (ایک ایک کرکے ) نشرِ مکرّر کی جائیں۔ حکومتِ پاکستان آپ کی مثالی خدمات کے اعتراف میں آپ کے نام سے پاکستانی خواتین کی فلاح وبہبود کے لیے کوئی مناسب اور جامع پروجیکٹ شروع کرے۔ یہ آپ کے لیے یقیناً بہترین خراجِ تحسین و عقیدت ہوگا۔ عام زندگی میں حسینہ معین کا مشرب ہمیشہ یہ رہا، بقول جناب رشید اثر:’’کوئی مسلک بھی اختیار کرے، آدمی، آدمی سے پیار کرے‘‘ لکھنے والے صاحبان حسینہ معین کی حیات و خدمات کے حوالے سے اُن کی اعلیٰ ترین صفات کو اپنانے کی کوشش کریں۔

دل چسپ ترین اور لوگوں کے دِلوں کو چُھو جانے والے جملوں کی خالق حسینہ معین کو اب سبھی بہت یاد کررہے ہیں۔ آئیے ، یہاں آپ کے دو یادگار اور پُربہار جملوں سے مستفید ہوتے ہیں:

’’انسان کو انسان پہ مان ہوتا ہے۔‘‘

’’دو آدمی ایک ہی کھڑکی سے بہ یک وقت باہر کی جانب دیکھتے ہیں، ایک کو زمین کی کیچڑ نظر آتی ہے اور دوسرے کو آسمان کی بلندی۔ بات صرف زاویۂ نظر کی ہے۔‘‘

حسینہ معین نے ہمیشہ عوام النّاس کو خوشیاں بانٹیں، مسکراہٹیں اور قہقہے بکھیرے، اپنی لاجواب تحریروں، مکالموں، جملوں اور لفظوں سے لوگوں کے دِلوں کے گلابوں کو مہکائے رکھا۔ اللہ رحمن و رحیم آپ کو جوارِ رحمت میں دائمی آسودگی اور طمانیت عطا فرمائے۔ (آمین)

میرے دوست سلمان احمدصدیقی وصفی نے محترمہ حسینہ معین کی وفات (جمعہ 26مارچ2021ء ) کے المناک موقع پر یہ چار مصرے کہے ، جو مرحومہ و مغفورہ کی یادیں تازہ کرگئے:’’کبھی بیٹھے دُھوپ کنارے اُن کی پرچھائیاں دیکھنا، کبھی اَن کہی سی باتوں میں اُن کی تنہائیاں دیکھنا، دل میں کسک اُٹھی ہے اُن کے جانے کی خبر سُن کر، گماں نہ تھا یوں پڑیں گی اُن کی جدائیاں دیکھنا‘‘ اور اب ایک عقیدت مند کی حیثیت سے اِس مختصر سے حالِ دل کے آخر میں اِس خاکسار کا لکھا ہواقطعۂ وفات:

زندگی جن سے جِلا پاتی تھی

وہ حسینہ معین یاد آئیں

اے خدا اُن پہ فضل ہو تیرا

تاابد تیری رحمتیں پائیں

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔