ہائے یہ منہگائی؛ یورپی بوڑھوں کے لیے آبائی وطن میں بھی جگہ نہ رہی

ندیم سبحان  ہفتہ 11 جنوری 2014
زائد اخراجات کے باعث ایشیائی ممالک میں قائم کیئرہومز میں منتقل کیا جانے لگا۔  فوٹو : فائل

زائد اخراجات کے باعث ایشیائی ممالک میں قائم کیئرہومز میں منتقل کیا جانے لگا۔ فوٹو : فائل

سوئٹزرلینڈ کے شہر زیورخ میں رہنے والی Sybille Wiedmer تھائی لینڈ جانے کی تیاری کررہی ہے، مگر اس کا یہ دورہ کوئی تفریحی دورہ نہیں ہے۔

وہ اپنی ماں الزبتھ سے ملنے کے لیے تھائی لینڈ جارہی ہے۔ سبل کی ماں تھائی لینڈ کے شہر چیانگ مائی کے کیئرہوم میں رہتی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ سبل تھائی شہری ہے اور سوئٹزرلینڈ میں رہائش پذیر ہے۔ سوئٹزرلینڈ سبل اور اس کی ماں کا آبائی وطن ہے۔ الزبتھ کی عمر 91 برس ہے اور اسے نسیان کا مرض لاحق ہے۔ وہ پچھلے چار برس سے تھائی لینڈ کے اس کیئر ہوم کی رہائشی ہے۔ الزبتھ کے علاوہ کوئی درجن بھر سوئس اور جرمن افراد بھی کم و بیش اتنے ہی عرصے سے اس کیئر ہوم کے باسی اور عمر کے اس حصے میں ہیں جہاں اولاد کو ان کی ضرورت نہیں رہتی بلکہ وہ انھیں بوجھ محسوس کرتے ہیں۔ یہ بوڑھے بھی اس کی طرح نسیان کے مریض ہیں، اور انھیں حال کی کوئی بھی بات یاد نہیں رہتی۔

بوڑھوں کی دیکھ بھال کے مراکز دیگر مغربی ممالک کی طرح سوئٹزرلینڈ اور جرمنی میں بھی موجود ہیں تو پھر ان سوئس اور جرمن بوڑھوں کی تھائی لینڈ میں موجودگی کا سبب کیا ہے؟ اس کی وجہ ان ممالک میں بوڑھوں کی دیکھ بھال پر اٹھنے والے اخراجات ہیں جو اب ان کی جوان اولادوں کی برداشت سے باہر ہوچکے ہیں چناں چہ وہ اپنے بوڑھے والدین کو اب تیسری دنیا کے ان ممالک میں قائم کیئرہومز میں منتقل کررہے ہیں جہاں اس ضمن میں ہونے والے اخراجات کم اور سہولیات معیاری ہوں۔ اس لحاظ سے یورپیوں کے لیے تھائی لینڈ بہت موزوں ملک ہے۔ یہاں کیئر ہومز کا معاوضہ مناسب ہے اور دیکھ بھال کا معیار بھی بلند ہے۔

الزبتھ کو تھائی لینڈ میں رکھنے کا فیصلہ اس کے اہل خانہ نے اس وجہ سے بھی کیا تھا کہ وہ اپنے مرحوم شوہر کے ساتھ ایشیا میں اچھا خاصا وقت گزار چکی ہے، اس لیے یہ خطہ اس کے لیے مکمل طور پر اجنبی نہیں ہوتا۔ تاہم سبل کا کہنا ہے کہ ممی کو تھائی لینڈ میں رکھنے کی بنیادی وجہ یہاں کے کیئر ہومز میں عمر رسیدہ افراد کی دیکھ بھال کا اعلیٰ معیار ہے۔ یہاں ہر فرد پر انفرادی توجہ دی جاتی ہے۔

سبل کی طرح متعدد یورپی باشندے قریبی رشتے داروں کو ’برآمد‘ کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں کیوں کہ یورپ میں لاگت اور معیار کے درمیان خلیج وسیع ہوتی جارہی ہے۔ اس کا ایک سبب لوگوں کی اوسط عمر میں اضافہ بھی ہے۔ لوگوں کی بڑی تعداد عمر کے اس حصے تک پہنچ رہی ہے جہاں ان کا خطرناک امراض میں مبتلا ہونا ناگزیر ہوجاتا ہے۔

عالمی ادارۂ صحت کے مطابق 2050ء تک 80 برس کی عمر کو پہنچنے والوں کی تعداد چالیس کروڑ ہوچکی ہوگی۔ یہ عمر کا وہ مرحلہ ہے جہاں ہر چھے میں سے ایک فرد مرض نسیاں میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ الزائمر سوسائٹی کے مطابق موجودہ کیئر ہومز کے 80 فیصد رہائشی نسیان یا یادداشت کے دیگر مسائل کا شکار ہوتے ہیں، اور ظاہر ہے کہ بوڑھوں کی تعداد میں اضافے کے ساتھ ساتھ ان کی دیکھ بھال کی ضرورت بھی بڑھتی جارہی ہے، لیکن یورپی کیئرہومز کے اخراجات بہت سے لوگوں کی استعداد سے باہر ہوتے جارہے ہیں۔

سوئٹزرلینڈ میں ایک بزرگ کی دیکھ بھال پر آنے والے ماہانہ اخراجات 5000 سے 10000 ڈالر کے درمیان ہوتے ہیں، جب کہ تھائی لینڈ میں وہی سہولتیں صرف 3000 ڈالر میں میسر ہوجاتی ہیں۔ برطانیہ میں اس ضمن میں ہونے والے اخراجات 3600 سے 5000 ڈالر ماہانہ ہیں۔ حالیہ عرصے میں برطانوی اولڈ ہومز میں بزرگوں کے ساتھ مارپیٹ اور انھیں بھوکا پیاسا رکھنے جیسے کئی واقعات منظرعام پر آئے جن کی وجہ سے یہ مراکز ساکھ کھوچکے ہیں۔

اس کے برعکس تھائی لینڈ میں بزرگوں کی دیکھ بھال کی ایک مضبوط روایت موجود ہے۔ مارٹن ووڈٹل چیانگ مائی میں قائم کیئرہوم کے ڈائریکٹر ہیں، ان کا کہنا ہے کہ بہترین دیکھ بھال کی صورت میں یہاں کے رہائشیوں کو ان کی رقم کا درست متبادل فراہم کیا جاتا ہے۔ یہاں ایک فرد کی دیکھ بھال کے لیے تین سے چار لوگوں کی خدمات بھی حاصل کی جاسکتی ہیں جوکہ یورپ میں ممکن نہیں۔

تھائی لینڈ جیسے ترقی پذیر ممالک کے کیئرہومز میں یورپی بوڑھوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔سبل کی طرح ان کے لواحقین بھی ان سے ملنے کے لیے آتے ہیں، اور اسکائپ کے ذریعے مستقل رابطے میں بھی رہتے ہیں مگر ظاہر ہے کہ کیئر ہومز اپنے گھر کا متبادل نہیں ہوسکتے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔