غذائی اجناس کی بڑھتی قیمتیں

ایڈیٹوریل  اتوار 11 اپريل 2021
عوام ایک معاشی گرداب میں پھنسے ہوئے ہیں، انھیں مہنگائی کے بلائے ہشت پا نے دبوچ رکھا ہے۔ فوٹو : فائل

عوام ایک معاشی گرداب میں پھنسے ہوئے ہیں، انھیں مہنگائی کے بلائے ہشت پا نے دبوچ رکھا ہے۔ فوٹو : فائل

اقوام متحدہ کی فوڈ ایجنسی کے مطابق عالمی سطح پر غذائی اجناس کی قیمتوں میں 10 ماہ سے اضافہ جاری ہے جس نے رواں سال مارچ کے مہینے میں جون 2014 کے بعد سے بلند ترین سطح کو عبور کر لیا ہے جس کی وجہ خوردنی تیل، گوشت اور دودھ کے نرخوں میں اضافہ ہے۔

خوراک کے عالمی ادارہ کی رپورٹ فوڈ سیکیورٹی کی جانب ایک الارمنگ اشارہ ہے، دنیا میں کثیر جہتی غذائی بحران کی پیش بینی ان خطرات سے آگاہی کا عندیہ ہے جس سے ماہرین خبردار کررہے ہیں۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق فوڈ اینڈ ایگری کلچرل آرگنائزیشن کا فوڈ پرائس انڈیکس، جو اناج، دالیں، دودھ سے بنی مصنوعات، گوشت اور چینی کی قیمتوں میں ماہانہ تبدیلیوں کی پیمائش کرتا ہے، رپورٹ کے مطابق ان کی قیمتوں میں گزشتہ ماہ اوسطاً 118.5 پوائنٹس کا اضافہ ہوا جب کہ فروری میں یہ 116.1 پوائنٹس پر تھا۔

ایف اے او نے بیان میں کہا کہ سال 2020 میں دنیا بھر میں ریکارڈ اناج کی کاشت کاری کی گئی جب کہ ابتدائی اندازوں کے مطابق رواں سال بھی پیداوار میں مزید اضافے کا امکان ہے۔ ماہانہ بنیادوں پر ایف اے او کا اناج کی قیمتوں کا انڈیکس مارچ کے مہینے میں 1.7 فیصد تک گر گیا جس سے مسلسل 8 ماہ تک جاری رہنے والے اضافے کا خاتمہ ہوا۔

ایف اے او نے بتایا کہ اہم اناج میں سے گندم کی برآمدی قیمتوں میں سب سے زیادہ کمی واقع ہوئی جو ماہانہ بنیاد پر 2.4 فیصد کم ہوئی جو اچھے رسد کی عکاسی کرتی ہے اور 2021 کی فصلوں کے پیداواری امکانات کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔ ایف اے او کے خوردنی تیل کی قیمت کے انڈیکس میں 8 فیصد اضافہ ہوا جس کے بعد اس نے جون 2011 کے بعد سے اپنی بلند ترین سطح کو عبور کر لیا۔ ڈیری مصنوعات کی قیمتوں میں مسلسل 10ویں ماہ سے اضافے کا سلسلہ جاری ہے جس میں 3.9 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا، گوشت کے انڈیکس میں 2.3 فیصد اضافہ ہوا اور چینی کی قیمتوں میں 4 فیصد کمی آئی۔

ایف اے او نے کہا کہ توقع ہے کہ 2021 میں مسلسل تیسرے سال اناج کی عالمی پیداوار میں اضافہ ہوگا۔ مہنگائی جس رفتار سے بڑھ رہی ہے اس نے شہریوں کی نیندیں اڑا دی ہیں، سبزی اور دالوں کی قیمتوں میں اضافہ کے ساتھ ہی مچھلی، بکری کا گوشت غریبوں کی بساط سے باہر ہوگیا ہے، مسالے، زندگی بچانے والی دوائیں راتوں رات مہنگی کر دی گئیں، حکومت نے کوئی میکنزم نہیں بنایا ہے، مارکیٹ فورسز کو کنٹرول کرنے کے لیے جس سخت گیر رسد و طلب سسٹم کی ضرورت ہے اسے کوئی دکاندار اور تاجر فالو نہیں کر رہا معاشی پالیسی کا اعلان جس انداز سے ہوتا ہے وہ ایڈہاک ازم سے منسلک ایک پیکیج سسٹم ہے جو رمضان پیکیج یا عوام کو راشن کی فراہمی کے عارضی اقدامات سے جڑا ہے۔

حکومت کے پیش نظر ایک مستحکم سسٹم کے تحت ملک کو اقتصادی استحکام کی طرف لے جانے کی کوئی حکمت عملی موجود نہیں، ایک نئی بحث وزیر خزانہ کی تبدیلی کے ساتھ ہی شروع ہوئی ہے کہ مہنگائی کا تعلق وزارت خزانہ سے نہیں، لیکن اس بات کی وضاحت نہیں کی گئی کہ مہنگائی کا کسی نہ کسی محمکہ سے تو تعلق بنتا ہے، مارکیٹس میں ہا ہاکار مچی ہوئی ہے، ملک میں بیروزگاری کے باعث کہرام برپا ہے۔

وزیر اعظم کو بھی شکایت ہے کہ قیمتوں میں اضافہ پر تو سب شور مچاتے ہیں مگر جو چیزیں سستی ہوئی ہیں اس پر کوئی بات نہیں کرتا، اس طرز عمل پر دیکھا جائے تو ارباب اختیار کی سادہ لوحی پر زیر لب مسکرانے کو جی چاہتا ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت عوام کے مسائل کے درست ادراک پر توجہ دے، عوام ایک معاشی گرداب میں پھنسے ہوئے ہیں، انھیں مہنگائی کے بلائے ہشت پا نے دبوچ رکھا ہے۔

مقامی مارکیٹیں عوام کے گھروں کے قریب ہیں، وہ دکانداروں اور ٹھیلے والوں سے پوچھتے ہیں کہ چیزوں کے دام رکتے کیوں نہیں، ان کو روز پر کیوں لگ جاتے ہیں، کیا حکومت پرائس کنٹرول کا کوئی مرکزی نظام قائم نہیں کر سکتی جو ملکی منڈیوں سے رسد و ڈیمانڈ کے دباؤ سے عوام کو نجات دلائے، کیا سیاستدانوں کو اندازہ نہیں کہ سولہ ہزار میں کوئی شہری گھر چلا سکتا ہے صورتحال بحرانی ہے، یوں تو ہر وزیر کی زبان پر ہے کہ مسئلہ اپوزیشن کا نہیں، وزیر اعظم تو مہنگائی سے پریشان ہیں، باقی سب خیر ہے۔

یہ انداز فکر عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے، ووٹرز کا رویہ بھی تبدیل ہو چکا ہے، وہ حکمرانوں سے خائف ہونے کے ساتھ ساتھ سسٹم کی سفاکیوں پر بھی برہمی کا برملا اظہار کرتے ہیں، ان کے لیے بچوں کی فیسں، بجلی، گیس، پانی اور انٹرنیٹ ڈیوائسز کے یوٹیلیٹی بلز، دیگر اخراجات، گھر کا راشن، گھر کا کرایہ اور سفری اخراجات کا دباؤ اعصابی تناؤ کا سبب بنتے ہیں، مالی مسائل بڑھ گئے ہیں، غربت میں ناگفتہ بہ اضافہ گھروں کے حالات پر اثر انداز ہوا ہے، ارباب اختیارات مہنگائی کے اثرات و مضمرات کے گلوبل نتائج کو عالمی خوراک کی قیمتوں کے گراف کے آئینہ میں دیکھیں اور پاکستان میں مہنگائی کی صورتحال کا اس سے تقابل کریں، حقیقت سامنے آ جائے گی۔

یہ الم ناک حقیقت ہے کہ سماجی مسائل، بیروزگاری اور جرائم کی صورت ملکی سیاسی نظام کے انحطاط کی بڑی درد ناک تصویر کشی کرتے ہیں، سماجی کارکن جو رات دن عوام کو حسب توفیق مدد دینے کی کوشش کرتے ہیں ان کے مشاہدات کو سننا ہی تکلیف دہ ہے، ان کے روزمرہ کے تجربات اس بات کا ایک کھلا اظہار ہیں کہ معاشرہ سنگین بحران کا شکار ہے۔ غریب پریشان ہے۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔