کشمیر اور تجارت

ظہیر اختر بیدری  پير 12 اپريل 2021
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

ملکوں کے درمیان جو سیاسی پروٹوکول ہوتا ہے وہ آنکھوں سے اورکانوں سے محروم ہوتا ہے۔ غیر ملکی سفیر، جس ملک میں متعین ہوتے ہیں، ان کے سیاستدانوں سے ان کے بہتر تعلقات ہوتے ہیں اور زیادہ بہتر تعلقات قائم کرنے کی کوشش کرنے میں خواہ وہ کتنے ہی بدنام اور کرپٹ کیوں نہ ہوں یہ سلسلہ عشروں سے جاری ہے اور اگر اس میں تبدیلی نہ لائی گئی تو صرف اتنا ہوگا کہ سیاستدان بہت بڑے مالی فائدے اٹھاتے رہتے ہیں۔ اس حوالے سے سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ غیر ملکی سفارت کار جب ملکی سفارتکاروں اور اہل سیاست سے ملتے ہیں تو میڈیا میں ان کی ’’ برادرانہ ‘‘ کوریج ملتی ہے جس کا اثر عوام پر پڑتا ہے۔

اگر ایک کرپٹ سیاستدان سے کوئی غیر ملکی سفارتکار ملتا ہے تو اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ عوام میں اس کا امیج سافٹ ہو جاتا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ سرمایہ داری ایک کرپٹ نظام ہے چونکہ ہماری سیاست بھی اسی نظام سے منسلک ہوتی ہے، لہٰذا وہ سرمایہ داری کی اچھائیوں اور برائیوں سے براہ راست متاثر ہوتی ہے اور سیاستدان چونکہ عام طور پر ذاتی مفادات میں گھرے ہوئے ہوتے ہیں لہٰذا وہ ہر موقع کو ذاتی مفادات کے لیے استعمال کرتے ہیں اور دوسری طرف سفارتکاروں سے ملتے رہنے سے عوام میں ان کا امیج بہتر ہوتا رہتا ہے جن ملکوں میں کرپشن نہیں ہوتی ان ملکوں میں سیاست اور سفارت دونوں کرپشن سے پاک ہوتے ہیں اور ملک کا امیج بھی بہتر ہوتا ہے۔

چین کے پاکستان سے تعلقات برادرانہ ہی نہیں بلکہ تاریخی ہیں۔ چین نے ہمیشہ ہر حوالے سے پاکستان کی مدد کی، اس کے برخلاف بھارت جو ہمارا پڑوسی ملک ہے 72 برسوں سے ایک طرح سے دشمن بنا ہوا ہے۔ پاکستان میں بھارتی سفیر عموماً پاکستان کے عوام سے لاتعلق رہتے ہیں اور یہی حال پاکستان کے سفیر کا ہے، اس کی سرگرمیوں کا دائرہ اپنے سفارتی خدمات سے جڑا ہوا ہے۔ بھارت اور پاکستان صدیوں تک ایک ملک کی حیثیت سے رہ رہے تھے۔ تقسیم کے بعد دونوں ملک ایک دوسرے کے دشمن بن گئے اور ان کی سرگرمیاں بھی اسی حوالے سے محدود ہوگئیں۔ کسی ملک کا کوئی شخص کسی دوسرے ملک میں سفیر مقرر ہوتا ہے تو اس کی سب سے بڑی ذمے داری دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی استواری ہوتا ہے۔

پاکستان کے عوام مسئلہ کشمیر کی وجہ بھارت سے اپنے تعلقات میں محتاط رہتے ہیں، لیکن اگر اوپر سے دونوں ملکوں میں بہتری کا اشارہ مل جائے تو متعلقہ لوگ اور ادارے یقینا تعلقات کو دوستانہ بنانے میں اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں۔ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات نارمل ہوتے ہیں تو باہمی مفادات کے نت نئے طریقے تلاش کیے جاسکتے ہیں۔ ابھی حال میں بھارت سے چینی اور کپاس کی درآمد کی باتیں کی گئیں یہ ایک مثبت اور دونوں ملکوں کے مفاد کا معاملہ تھا جسے آگے بڑھنا چاہیے تھا لیکن بوجوہ ایسا نہ ہو سکا، اس کے برخلاف یہ معاملہ ختم ہوگیا۔

ہم جس دور میں زندہ ہیں وہ جمہوری دور ہے، جمہوری دور میں عوام کی بالادستی ہوتی ہے اور عوام کا رخ کسی خاص سمت میں موڑنے کے لیے ہر ملک کے دانشور، مفکر، ادیب، شاعر وغیرہ اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ کیا دونوں ملکوں میں ایسا ہو رہا ہے؟ اس کا جواب مایوس کن ہے چونکہ مسئلہ کا اصل فریق بھارت ہے۔ اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ بھارتی عوام اس حوالے سے پہل کریں۔ یہ بات اس لیے اہم ہے کہ پاکستان کا اس حوالے سے ایک منصفانہ موقف ہے اور وہ اس پر کاربند ہے۔ مسئلہ صرف ہندوستان اور پاکستان کا نہیں ہے بلکہ پورے جنوبی ایشیا کا ہے اگر کشمیر کا مسئلہ پرامن طور پر حل ہوتا ہے تو پورے جنوبی ایشیا کو اس کا فائدہ ہوگا۔

ہم نے جیسا کہ نشان دہی کی ہے تجارت سے نہ صرف دونوں ملکوں کو زبردست اقتصادی فائدہ ہوگا بلکہ عوام کو ایک دوسرے کے قریب آنے کے مواقع بھی حاصل ہوں گے جس کا براہ راست فائدہ دونوں ملکوں کے عوام کو ہوگا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ کشمیر کے حوالے سے اپنی بالادستی رکھنے کے باوجود بھارت کا حکمران طبقہ دونوں ملکوں کے درمیان دوستانہ تعلقات میں پہل کرنے کے لیے تیار نہیں۔ بھارت میں بھی ایسے لوگ بڑی تعداد میں موجود ہیں جو دونوں ملکوں کے درمیان دوستی کے لیے عملی کوششیں کرتے رہے ہیں۔ اگر دس رام داس آگے بڑھیں تو دس ہزار کا کام کرسکتے ہیں۔ رام داس کوئی معمولی آدمی نہیں وہ بھارت جیسے بڑے ملک کی بحریہ کے چیف رہے ہیں۔

انسان دنیا میں پیدا تو ہو گیا ہے لیکن وہ دنیا میں زندگی بسر کرنے کے ضابطوں سے واقف نہیں، اس کی اولین ترجیح ذاتی اور جماعتی مفاد ہوتا ہے، اس میں جائز ناجائز کا سرے سے کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، اس ذہنیت نے دنیا کو جہنم میں بدل دیا ہے اور انسان وحشی ہو گیا ہے۔ فرض کرلیں کشمیر کی تقسیم ختم ہو جاتی ہے اور پورا کشمیر ایک ہو جاتا ہے اور دونوں ملک کشمیر میں حکومت بناتے ہیں اور مل جل کر رہتے ہوئے دنیا میں ایک مثال قائم کرتے ہیں تو کیا یہ بری بات ہوگی؟ مسئلہ مذہب کا ہے۔ کیا دنیا میں اسلام اور ہندو دھرم کے علاوہ کوئی مذہب نہیں؟ مجھے ایک ملک ایسا بتا دیجیے جہاں صرف ایک ہی مذہب کے لوگ رہتے ہوں۔ جب حقیقت یہی ہے تو پھر کشمیر میں ہندو مسلمان مل کر کیوں نہیں رہ سکتے؟ اصل میں ہر مذہب میں کچھ کٹر پنتھی لوگ رہتے ہیں وہ عموماً طاقتور ہوتے ہیں۔

کشمیر ایک ملک ہے، ایک ریاست ہے جہاں ایک کروڑ سے زیادہ انسان رہتے ہیں۔ کشمیر صرف زمین نہیں ہے۔ زمین کو انسانوں پر ترجیح دینے والوں کو کیا انسان کہا جاسکتا ہے؟ دونوں ملکوں کی خوشحالی کشمیر کے تنازع سے مشروط ہے، اگرکشمیر کا مسئلہ حل ہوجاتا ہے تو کشمیر کے ایک کروڑ عوام کی زندگی میں خوشحالی آئے گی اور جنوبی ایشیا اور زیادہ خوشحال ہوگا۔ کیا بھارت کی قیادت کو اس بات کا احساس ہے؟ پاکستان نے کشمیر کے حوالے سے کوئی غلطی نہیں کی اب دنیا کے چوہدریوں کا کام ہے کہ وہ کشمیر، ہندوستان، پاکستان کی خوشحالی کے لیے بھارت کو کشمیر کا مسئلہ حل کرنے پر مجبور کریں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔