فاروق شیخ : اپنی شخصیت کی طرح خوب صورت اداکاری کرنے والا فن کار دنیا چھوڑگیا

ندیم سبحان  اتوار 12 جنوری 2014
فاروق شیخ کی وجۂ شہرت اگرچہ آرٹ فلمیں ہیں مگر دل چسپ بات یہ ہے کہ انھیں ابتدائی شناخت ریڈیو سے ملی تھی۔ فوٹو : فائل

فاروق شیخ کی وجۂ شہرت اگرچہ آرٹ فلمیں ہیں مگر دل چسپ بات یہ ہے کہ انھیں ابتدائی شناخت ریڈیو سے ملی تھی۔ فوٹو : فائل

ہندوستانی آرٹ سنیما کے قدآور اداکاروں کی فہرست مرتب کی جائے تو فاروق شیخ کا نام یقینی طور پر اس میں شامل ہوگا۔

فاروق نے اس زمانے میں متوازی سنیما میں نام پیدا کیا جب اس فلم نگر میں نصیرالدین شاہ، اوم پوری اور کلبھوشن جیسے اداکاروں کا طوطی بول رہا تھا۔ یوں تو اس اداکار نے روایتی کمرشیل فلموں میں بھی صلاحیتوں کے جوہر دکھائے مگر اس کی شناخت آرٹ فلمیں ہی رہیں۔

فاروق کی اداکاری میں ایک طرح کا ٹھہراؤ نمایاں تھا، جو انھیں آرٹ فلموں کے لیے موزوں بناتا تھا۔ ان کا فلمی کیریر دو ادوار پر مشتمل تھا۔ 1977ء سے لے کر 1989ء تک ان کی توجہ کا مرکز آرٹ فلمیں ہی رہیں۔ بعدازاں انھوں نے کمرشیل فلموں میں بھی اداکاری کا آغاز کیا۔ 1990ء کے عشرے میں وہ چند فلموں میں نظر آئے۔ پھر ایک طویل وقفے کے بعد 2008ء میں انھوں نے فلموں سے دوبارہ ناتا جوڑا۔

کمرشیل سنیما پر وہ کام یاب نہیں رہے جس کا اعتراف وہ خود بھی کرتے تھے۔ 2002ء میں انھوں نے روزنامہ ٹائمز آف انڈیا کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا تھا،’’کمرشیل سنیما پر میں کبھی اتنا مقبول نہیں رہا۔ لوگ مجھے پہچانتے ہیں، میری جانب دیکھ کر مسکراتے ہیں اور ہاتھ ہلاتے ہیں، مگر مجھے کبھی کسی حسینہ کی طرف سے خون سے لکھے گئے عاشقانہ خطوط نہیں ملے۔ راجیش کھنّا اپنے عروج کے دنوں میں جب باہر نکلتے تھے تو ٹریفک رک جاتا تھا۔ ایسی پذیرائی نہ ملنے کا قلق مجھے کبھی نہیں رہا، مگر یہ بات ضرور افسردہ کردیتی ہے کہ جیسا کام میں کرنا چاہتا تھا ویسا نہ کرسکا۔‘‘

آرٹ فلموں میں اداکاری کے آغاز پر فاروق شیخ کو ستیہ جیت رائے، مظفرعلی، رشی کیش مکھرجی اور کیتن مہتا جیسے کہنہ مشق ہدایت کاروں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ ان ہدایت کاروں نے ان کے ٹیلنٹ کو نکھارنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اداکاری کا آغاز فاروق نے تھیٹر سے کیا تھا، پھر وہ آرٹ فلموں کی طرف آئے، مگر انھوں نے خود کو اسٹیج اور سلوراسکرین ہی تک محدود نہیں رکھا بلکہ ٹیلی ویژن پر بھی اپنی صلاحیتوں کا جادو جگایا۔  فاروق شیخ نے 1948ء میں بھارتی ریاست گجرات کے ضلع سورت کے شہر امرولی کے ایک مسلمان گھرانے میں جنم لیا تھا۔ اگرچہ یہ ایک زمین دار گھرانا تھا مگر ان کے والد مصطفیٰ شیخ پیشے کے لحاظ سے وکیل تھے۔

پانچ بہن بھائیوں میں وہ سب سے بڑے تھے۔ کھاتے پیتے خاندان سے تعلق ہونے کی بنا پر انھیں تمام سہولتیں حاصل رہیں۔ انھوں نے اسکول اور پھر کالج کی تعلیم ممبئی میں رہتے ہوئے حاصل کی۔ اور پھر والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے سدھارتھ کالج آف لا ء میں داخلہ لے لیا۔ ان کے والد ایک کام یاب وکیل تھے، اسی لیے ابتدائی طور پر فاروق نے بھی وکالت ہی کو بہ طور پیشہ اپنانے کا سوچا، مگر یہ شعبہ ان کے مزاج سے لگّا نہیں کھاتا تھا۔ اس کے برعکس ان کا رجحان اداکاری کی جانب تھا۔ کالج کے زمانے میں وہ باقاعدگی سے اسٹیج ڈراموں میں حصہ لیتے تھے، چناں چہ انھوں نے وکالت کو خیرباد کہا اور اداکاری سے ناتا جوڑ لیا، اگرچہ وہ اس وقت لا ء کالج ہی میں زیرتعلیم تھے۔

اداکاری کا آغاز انھوں نے ’’انڈین پیپلز تھیٹر ایسوسی ایشن‘‘ (آئی پی ٹی اے) کے تحت ہونے والے اسٹیج ڈراموں سے کیا۔ آئی پی ٹی اے بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے اسٹیج اداکاروں کی تنظیم تھی۔ اس عرصے کے دوران انھیں ساگر سرحدی جیسے معروف ہدایت کاروں کی ہدایات میں بنائے جانے والے ڈراموں میں مختلف کرداروں کی ادائیگی کا موقع ملا۔ جلد ہی ان کا شمار اسٹیج کے باصلاحیت نوجوان اداکاروں میں ہونے لگا تھا۔ 1973ء میں جب کہ فاروق لاء  کالج ہی میں زیرتعلیم تھے، ڈائریکٹر ایم ایس ستھیو ان کے پاس پہنچے اور انھیں ’’گرم ہوا‘‘ میں ایک اہم معاون کردار ادا کرنے کی پیش کش کی۔ بہ طور ہدایت کار ستھیو کی بھی یہ اولین فلم تھی۔ ’’گرم ہوا‘‘ میں ایک مسلم گھرانے کی کہانی دکھائی گئی تھی جو تقسیم کے بعد اس مخمصے میں مبتلا ہوتا ہے کہ پاکستان ہجرت کی جائے یا ہندوستان ہی میں رہا جائے۔ ’’ گرم ہوا‘‘ ہندی آرٹ سنیما میں نئے طرز کی فلموں کا آغاز سمجھی جاتی ہے۔ پہلی فلم میں سکندر مرزا کا کردار ادا کرنے پر انھیں ساڑھے سات سو روپے معاوضہ ملا تھا۔

فاروق شیخ کی وجۂ شہرت اگرچہ آرٹ فلمیں ہیں مگر دل چسپ بات یہ ہے کہ انھیں ابتدائی شناخت ریڈیو سے ملی تھی۔ ریڈیو پر وہ ذہنی آزمائش کے پروگرام کے میزبان تھے۔ پھر جب دوردرشن پر ’’یووا درشن‘‘ اور ’’ینگ ورلڈ‘‘ جیسے پروگراموں کی میزبانی فاروق کے حصے میں آئی تو ان کا نام گھر گھر لیا جانے لگا۔ اس دوران وہ آرٹ فلموں میں بھی اداکاری کررہے تھے۔ ان کی اگلی اہم فلم ’’ گمن‘‘ تھی۔ مرکزی اداکاری کی حیثیت سے یہ فاروق کی پہلی فلم بھی تھی۔ ’’ گمن‘‘ میں فاروق نے بدایوں سے روزگار کے سلسلے میں بمبئی آئے ہوئے ایک ٹیکسی ڈرائیور کا کردار ادا کیا تھا جو اپنی بیوی سے ملنے کے لیے واپس جانا چاہتا ہے، مگر اتنے پیسے نہیں بچاسکتا کہ گھر جاسکے۔ ’’گمن‘‘ میں خوب صورت اداکاری نے فاروق کا کیریر مستحکم کیا، اور انھیں مرکزی کرداروں کی پیش کشیں ہونے لگیں۔

تاہم طوالت سے زیادہ ان کی نظر کردار کی موزونیت اور اہمیت پر ہوتی تھی، اسی لیے وہ آنے والی فلموں میں مختلف کرداروں میں نظر آئے۔ انھوں نے ستیہ جیت رائے کی ’’شطرنج کے کھلاڑی‘‘ ( 1977ء) کے علاوہ ’’ نوری‘‘ ( 1979ء)، ’’ چشم بددور‘‘ ( 1981ء)، ’’ امراؤ جان‘‘ ( 1981ء)، ’’ بازار‘‘ ( 1982ء)، ’’ ساتھ ساتھ‘‘ (1982ء)، ’’ رنگ برنگی‘‘(1983ء)، ’’ کسی سے نہ کہنا‘‘ ( 1983ء) اور ’’ بیوی ہو تو ایسی‘‘ (1988ء) میں یادگار کردار ادا کیے۔ ’’کتھا‘‘(1983ء) میں انھوں نے منفی کردار میں بھی اپنی صلاحیتیں منوائیں۔

اپنے کیریئر میں انھوں نے آرٹ فلموں کی کم وبیش تمام معروف ہیروئنوں کے ساتھ کام کیا۔ ہدایت کار ساگر سرحدی کی فلم ’’لوری‘‘، کلپنا لجمی کی ’’ایک پل‘‘ اور مظفر علی کی ’’انجمن‘‘ میں شبانہ اعظمی ان کی ہیروئن بنی تھیں، مگر دیپتی نول کے ساتھ ان کی جوڑی بہت مقبول ہوئی۔ فلم بین ’’چشم بددور‘‘، ’’کتھا‘‘، ’’ساتھ ساتھ‘‘، ’’کسی سے نہ کہنا‘‘، ’’رنگ برنگی‘‘، ’’ٹیل می او خدا‘‘ اور ’’لسن….. امایا‘‘ میں اس جوڑی کی پرفارمینس سے محظوظ ہوئے۔ فاروق نے شبانہ اعظمی کے ساتھ بھی کئی فلمیں کیں جن میں ہدایت کار ساگر سرحدی کی ’’لوری‘‘، کلپنا لجمی کی ’’ایک پل‘‘ اور مظفر علی کی ’’ انجمن‘‘ شامل ہیں۔

1990ء کی دہائی میں فاروق شیخ نے بہت کم فلموں میں اداکاری کی۔ شاید اس کی وجہ چھوٹی اسکرین پر ان کی بڑھتی ہوئی مصروفیت تھی۔ اگرچہ 1980ء کے عشرے میں بھی انھوں نے ٹیلی ویژن ڈراموں میں رول کیے تھے مگر بیسویں صدی کے اواخر میں وہ مِنی اسکرین پر بہت زیادہ مصروف ہوگئے تھے۔ اس زمانے میں انھوں نے مختلف چینلز کے متعدد ڈاما سیریلز میں مختلف النوع کردار ادا کیے۔ ٹیلی ویژن کے ناظرین میں وہ اداکار کے ساتھ ساتھ بہ طور میزبان بھی بہت مقبول تھے۔ وہ طویل عرصے تک مختلف شوز کی میزبانی کرتے رہے۔ ان کا شو ’’جینا اسی کا نام ہے‘‘ دیکھنے والوں میں بہت مقبول ہوا تھا جس میں وہ بولی وڈ کے فن کاروں سے انٹرویو کیا کرتے تھے۔ اس دوران اسٹیج سے ان کا ناتا نہیں ٹوٹا تھا۔ وہ ’’تمھاری امرتا‘‘ جیسے اسٹیج ڈراموں میں مرکزی کردار ادا کرتے رہے۔ اس ڈرامے میں شبانہ اعظمی ان کی ہیروئن تھیں۔ یہ ڈراما بارہ سال تک پیش کیا جاتا رہا تھا۔

2008ء مین فلم ’’ساس بہو اور سین سکس‘‘ سے سلور اسکرین پر ان کی واپسی ہوئی۔ 2009ء میں انھوں نے فلم ’’لاہور‘‘ میں شان دار اداکاری کا مظاہرہ کیا، جس کے اعتراف میں انھیں بہترین معاون اداکار کے نیشنل فلم ایوارڈ سے نوازا گیا۔ ’’کلب 60‘‘ ان کی آخری فلم تھی جسے چند روز قبل نمائش کے لیے پیش کیا گیا۔ باکس آفس پر یہ فلم کام یاب قرار دی جاچکی ہے۔

فاروق شیخ نے اپنے اسٹیج ڈراموں کی ساتھی روپا سے شادی کی تھی جس سے ان کی ایک بیٹی ثناء ہے۔ گذشتہ دسمبر کے آخری ہفتے میں یہ خاندان دبئی میں تھا جہاں فاروق کو دل کا دورہ پڑا جو اس باصلاحیت اداکار کو پرستاروں سے جدا کرگیا۔ مگریہ اداکار اپنے مداحوں کے دلوں میں اور اپنی فلموں میں ہمیشہ زندہ رہے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔