وزیراعظم صاحب جاگیے، مہنگائی کہیں کم نہیں ہوئی

محمد رمضان زاہد  منگل 13 اپريل 2021
مہنگائی کم ہونے کی نوید آپ کس ملک کے عوام کو دے رہے ہیں؟ (فوٹو: فائل)

مہنگائی کم ہونے کی نوید آپ کس ملک کے عوام کو دے رہے ہیں؟ (فوٹو: فائل)

پہلے زمانوں میں یہ ہوتا تھا بادشاہ اور حکمرانوں کو جب پتا چلتا کہ میرے ملک کے عوام کسی پریشانی میں مبتلا ہیں تو وہ راتوں کو بھیس بدل کر خود عوام کے حالات معلوم کرنے یا پھر ان کی رائے لینے کےلیے چلے جاتے تھے اور انہیں اصل حقیقت معلوم کرنے میں بہت آسانی ہوتی تھی، جس کی وجہ سے عوام کو بھی ہر سطح پر ریلیف مل جاتا تھا۔

وزیراعظم آف پاکستان عمران خان نے کہا ہے کہ مہنگائی بڑھی تو طوفان برپا ہوا، لیکن قیمتیں کم ہوئیں تو کوئی تذکرہ نہیں؟
یعنی ہر جگہ پر ہماری ٹانگیں کھینچی جارہی ہیں، ہم تو بہتر جارہے ہیں۔

پہلا سوال وزیراعظم سے یہ ہے کہ آپ نے جن مشیروں کے منہ سے یہ بات سنی ہے یا جن لوگوں نے یہ رپورٹ دی ہے کہ مہنگائی کے ہاتھوں جاں بہ لب پاکستانی عوام اب آپ کو اپنا مسیحا سمجھنے لگے ہیں۔ تو لگتا ہے وہ ایسے مشیر ہوں گے جو اپنے آبائی ملکوں یورپ، امریکا وغیرہ سے ابھی ابھی لوٹ کر آئے ہوں گے اور وہاں کے عوام کی آسودگی کی رپورٹ دے کر آپ کو مطمئن کردیا ہوگا۔ کیونکہ آپ کے اردگرد تمام تر غیرملکی مشیروں کی فوج ہی بھرتی کی گئی ہے۔ جنہیں پاکستانی عوام کے دکھ، درد اور کرب کا نہ کوئی احساس ہے اور نہ ہی کوئی ایسی حکمت عملی جس سے اس پریشان حال قوم کے دکھ کا درماں ہوسکے۔

دوسرا سوال تو یہ ہے کہ مہنگائی کم ہونے کی نوید آپ کس ملک کے عوام کو دے رہے ہیں؟ اگر آپ کی مخاطب پاکستانی قوم ہے تو پھر ہم بحیثیت پاکستانی قوم اس کا جواب دے رہے ہیں، پورے ملک کے شمال، جنوب، مشرق اور مغرب میں کہیں بھی مہنگائی کم نہیں ہوئی۔ کسی بھی چیز میں کہیں بھی کوئی رعایت نہیں ملی ہے۔ اگر آپ چینی کی بات کرتے ہیں تو آپ آج ہی بھیس بدل کر کسی گاؤں، بستی یا کسی شہر کے کریانہ اسٹور پر چلے جائیں، آپ کو کہیں بھی چینی 100 روپے کلو سے کم نہیں ملے گی۔ اگر آپ یوٹیلٹی اسٹور پر جائیں گے تو وہاں پر آپ کو یہ جواب ملے گا کہ چینی دستیاب نہیں ہے۔ اگر دستیاب ہے تو آپ کو کم از کم دو ہزار روپے کی مزید خریداری بھی کرنی پڑے گی۔ یعنی جس کے پاس مزید خریداری کے پیسے نہ ہوں وہ یہاں سے بھی چینی نہیں خرید سکتا۔ اس کے علاوہ یوٹیلٹی اسٹورز پر دیگر اشیائے خورونوش کا جو معیار ہے وہ سب جانتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہاں پر بل بنانے والی ایسی مشینیں نصب ہیں جن کے بنائے ہوئے بل جب گھر جاکر دیکھے جاتے ہیں تو وہ عام جنرل اسٹور سے 20 سے 25 فیصد زائد ہی بنتے ہیں اور حاتم تائی کے یہ اسٹورز ہر جگہ پر میسر بھی نہیں ہیں۔

ہماری حکومت نے چینی کی قیمت اپنے طور پر تو کم کرلی ہے لیکن عوام کو یہ کس قیمت پر ملے گی، اس کے لیے آپ کی گورننس اور انتظامیہ کی رٹ ہم گزشتہ ڈھائی سال سے بھگت رہے ہیں۔ عوام تو اب مزید ڈرنا شروع ہوگئے ہیں کہ حکومت نے چینی کا ریٹ 80 روپے کردیا ہے تو اب چینی 100 روپے میں بھی نہیں ملے گی۔ کیونکہ گزشتہ عرصہ حکومت میں خان صاحب نے جس چيز کا بھی ریٹ کم کیا ہے وہ ناپید ہوگئی اور اس کا ریٹ ڈبل کرنے کا خود ہی اعلان کردیتے ہیں، جیسا کہ ہم دواؤں اور پٹرول کی قیمتوں کو بھگت رہے ہیں۔ اسی طرح چینی کے بارے میں بھی خان صاحب خود ہی یہ اعلان کریں گے کہ چینی کی قیمت 150 روپے کردی گئی ہے تاکہ سٹہ مافیا اسے ذخیرہ نہ کرسکے اور عوام کی پہنچ سے دور نہ ہوجائے۔

پھر پاکستانی عوام صرف چینی ہی تو نہیں کھاتے، دیگر ضروریات زندگی کی بھی ہمہ وقت ضرورت رہتی ہے، جیسے دالیں، گوشت، سبزیاں، گھی اور آٹا وغیرہ۔ اگر صرف چینی کی ہی قیمت کم کرنے سے چھلانگیں لگائی جارہی ہیں تو پھر دیگر غذائی اجناس کا کون پوچھے گا۔ اس پر بھی ہمارے خان صاحب کا کہنا ہے کہ حکومتی مشیر حکومت کی کارکردگی کو صحیح انداز میں ظاہر نہیں کررہے۔ لیکن جھوٹ کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ یہ واحد حکومت ہے جس کے مشیروں نے جھوٹ کی آخری باؤنڈری بھی پار کرلی لیکن پھر بھی حکومتی محبت عوام میں پیدا کرنے سے قاصر ہیں۔

ماہ رمضان المبارک کا بابرکت مہینہ شروع ہونے والا ہے، لیکن نہ تو صوبائی حکومتوں اور نہ وفاقی حکومت کی کوئی پالیسی سامنے آئی ہے کہ غریب، مزدور اور کم اجرت والے لوگ اس میں اہل خانہ کےلیے کیا بندوبست کریں گے؟ ان کےلیے کیا کوئی حکومتی پیکیج ہوگا۔

مزدور اور محنت کش افراد کےلیے ایک اور افتاد آن پڑی ہے، ہر جگہ پر چیکنگ کی آڑ میں ان کی جیبوں کو خالی کیا جارہا ہے۔ پولیس والے شیر جوان سرعام دیہاڑی لگارہے ہیں، ٹریفک سارجنٹ کی اپنی بادشاہی ہے۔ نہ کوئی پرسان حال ہے اور نہ ہی کوئی آسرا۔ سارے دن کی دیہاڑی ایک ہی چوک پر کسی دوسرے کی جیب میں منتقل ہوجاتی ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔