پی ڈی ایم: الیکشن سے پہلے سلیکشن

 پير 12 اپريل 2021
کہاں گیا وہ پیار؟ مولانا اور مریم پڑ گئے ہیں بیمار۔ کیوں ہورہی ہے یہ تکرار؟ کیا یہ اتحاد رہ پائے گا برقرار؟ (فوٹو: انٹرنیٹ)

کہاں گیا وہ پیار؟ مولانا اور مریم پڑ گئے ہیں بیمار۔ کیوں ہورہی ہے یہ تکرار؟ کیا یہ اتحاد رہ پائے گا برقرار؟ (فوٹو: انٹرنیٹ)

’’پی ڈی ایم ٹوٹ گئی… ہا ہا!‘‘ مریم نواز کا یہ ویڈیو کلپ کا جنگل کی آگ کی طرح پھیلا، سوشل میڈیا پر کورونا وائرس کی طرح وائرل ہوا۔ اب خبر ملی ہے کہ بلاول بھٹو زرداری نے پی ڈی ایم کے جنرل سیکرٹری کی طرف سے جاری کیے گئے شوکاز نوٹس کو مجلس عاملہ کے اجلاس میں پھاڑ کر پھینک دیا ہے۔

بلاول کے اس اقدام کو پارٹی میں خوب سراہا گیا، تالیاں بھی پیٹی گئیں، سیٹیاں بھی بجیں۔ اس سے پہلے پیپلز پارٹی کی حلیف اے این پی بھی پی ڈی ایم سے ’’خلع‘‘ لے چکی ہے۔ ایسا تو ہوتا ہے۔ ایک نہ ایک دن ایسا تو ہونا ہی تھا کیونکہ بے جوڑ شادیاں اور غیر متوازن و غیر فطری اتحاد زیاد ہ دیر نہیں چل سکتے۔ پی ڈی ایم قائم ہے لیکن ایسی بارات کا کیا فائدہ جس کا دلہا ہی غائب ہو؟

دو بڑی سیاسی جماعتوں کے رہنما میڈیا پر گتھم گتھا نظر آتے ہیں، مریم نواز دھاڑتی ہیں تو ان کے پارٹی پیچھے پیچھے جواب دیتے نظر آتے ہیں۔ بلاول بات کرتے ہوئے تیر تو چلاتے ہیں لیکن نرم لہجے میں ساتھ چلنے کی خواہش کا بھی اظہار کرتے ہیں، مریم کو ٹھنڈا پانی پینے، لمبی سانس لینے کی بھی تلقین کرتے ہیں۔ بلاول کا مدبرانہ انداز تو مریم نے کیا غصے کا اظہار، کہاں گیا وہ پیار؟ مولانا اور مریم پڑ گئے ہیں بیمار۔ کیوں ہورہی ہے یہ تکرار؟ کیا یہ اتحاد رہ پائے گا برقرار؟

نون لیگ پیپلز پارٹی بیل نہ منڈھنے والی تھی نہ منڈھی۔ ماضی میں بننے والے سیاسی اتحادوں میں یہ واحد اتحاد ہے جو نتیجہ حاصل ہونے سے پہلے ہی اپنے ’’انتقال‘‘ کو پہنچ گیا۔

1964 میں ایوب خان کے خلاف بننے والے پانچ جماعتی ’’کمبائنڈ اپوزیشن پارٹیز‘‘ نامی اتحاد، 1968 میں تشکیل پانے والی ’’ڈیموکریٹک ایکشن کمیٹی،‘‘ 1974 میں قائم ہونے والے ’’یونائیٹڈ ڈیموکریٹک فرنٹ،‘‘ 1977 کے ’’پاکستان قومی اتحاد،‘‘ 1983 کی ’’موومنٹ فار ریسٹوریشن آف ڈیموکریسی‘‘ اور 2002 میں بننے والے ’’اے آر ڈی‘‘ سے موازنہ کیا جائے تو پی ڈی ایم کی سیاسی و اتحادی زندگی سب سے مختصر رہی۔

پی ڈی ایم کی دو بڑی جماعتوں کے اختلاف نمایاں ہوگئے ہیں۔ اتحاد بچانے کی کوشش کی جارہی ہے لیکن سیاہ بادل چھٹنے کا نام نہیں لے رہے۔ اتحاد اسی لیے ہوا کہ کوئی بھی جماعت تنہا دباؤ نہیں بڑھا سکتی تھی، ایک جماعت اپنا سکہ نہیں چلا سکتی تھی۔

جب اکٹھے دباؤ بڑھایا گیا تو کچھ نہ کچھ ملنے کی امید پیدا ہوئی ہے۔ ن لیگ اور مولانا فضل الرحمان عقابی سوچ رکھتے ہیں، دونوں لڑائی کے موڈ میں تھے لیکن پیپلز پارٹی شروع سے ایسا نہیں چاہتی تھی۔ پیپلز پارٹی نے دباؤ سے نکلنے کےلیے ایسی سرگرمی کی کہ جس سے فوری طور پر فائدہ ہوا ہے، وفاق اور اسٹیبلشمنٹ کے دباؤ میں کمی آئی ہے۔

پہلے پیپلز پارٹی کو اتحاد کی ضرورت تھی، اب وہ آگے چلتی ہے یا نہیں؟ یہ اس پر منحصر ہے۔ پی ڈی ایم کی بقیہ 8 جماعتیں اس اتحاد کو انتخابی اتحاد بنانا چاہتی ہیں۔ ہوسکتا ہے یہ الیکشن میں مل کر حصہ لیں، فی الحال تو یہ مولانا کے صحتیاب ہونے کی دعا کررہی ہیں۔

یہ بات ضرور کہ پچھلے چھ ماہ میں پی ڈی ایم کے اختلافات پر ایک ڈھکن رکھا ہوا تھا۔ جوں ہی یہ کھلا ہے تو چیزیں پریشر کے ساتھ باہر آرہی ہیں۔ ان اختلافات کو ختم کرنا آسان نہیں ہوگا۔

پی ڈی ایم کےلیے مشکل وقت آرہا ہے۔ پیپلز پارٹی نے ایک گیم کی ہے، گڈ کاپ اور بیڈ کاپ کھیلا ہے، یہ بات درست ہے، لاہور کے جلسے کے بعد پیپلزپارٹی کے اجلاس میں نظر ثانی کی گئی۔ دو ڈھائی ماہ سے آصف زرداری کی موجودگی زیادہ رہی۔ ان کی سیاست پی ڈی ایم پر چھائی رہی، بلاول کے بجائے وہ خود لیڈنگ سیٹ پر رہے۔

دوسری جانب ن لیگ میں 2016 سے بڑی تبدیلیاں آئی ہیں۔ ایک طرف نعروں سے پریشر بنائے ہوئے ہے تو دوسری طرف پاور گیم میں بھی ہے، ن لیگ پانچ آپشنز پر کام کررہی ہے: پہلا آپشن تھا ان ہاؤس تبدیلی کا، تو وہ ناکام ہوگیا؛ دوسرا آپشن اسٹریٹ پاور سے حکومت گرانے کا تھا، اس پر بھی عمل ہوتا نظر نہیں آتا؛ تیسرا آپشن پنجاب میں ان ہاؤس تبدیلی ہے، اس پربھی ن لیگ تیار نہیں کیوں کہ اسے لیڈ رول نہیں مل رہا؛ چوتھا آپشن لمبی اننگز کھیلنے کا ہے، یعنی حکومت پر دباؤ رکھیں، یہ امید کریں کہ کوئی غلطی ہو اور حکومت گر جائے؛ اور سب سے آخری آپشن ہے 2023 کے الیکشن کا انتظار کیا جائے، حکومت پر دباؤ رکھا جائے اور پوری تیاری سے الیکشن میں اترا جائے۔

مسلم لیگ ن آخری آپشن پر کھیل رہی ہے۔ ن لیگ مولانا کو ساتھ لے کر حکومت پر دباؤ رکھے گی، ہلکی، پھلکی موسیقی چلتی رہے گی۔ پنجاب میں ’’تحریک عدم اعتماد‘‘ پر ن لیگ راضی نہیں ہوئی، اسی لئے حکومت کے اندر سے ’’ترین ہم خیال ‘‘گروپ نے جنم لے لیا ہے۔

ایسے لگتا ہے کہ مستقبل میں یہ گروپ زیادہ مضبوط ہوجائے گا کیونکہ عمران خان اور بزدار کی حکومت بنانے میں سب سے بڑے جس ’’جہاز‘‘ کا کردار رہا ہے، وہ جہانگیر ترین کے پاس ہے۔

تجزیہ کاروں کے بقول، جہانگیر ترین ہی وہ شخص ہیں جو حکومت سازی کےلیے خفیہ ملاقاتیں کرتے رہے ہیں، ان کے تمام سیاسی جماعتوں اور مقتدر قوتوں سے بھی رابطے ہیں۔

کسی کی تھپکی کے بغیر جنوبی پنجاب کے سوئے ہوئے شیر نہیں جاگتے۔ اگلے الیکشن کےلیے بھی یہی شیر اہم کردار ادا کریں گے۔ ہاں! یہ ضرور ہوسکتا ہے اگلی بار ان کا خریدار کوئی اور ہو۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔