کیسا تھا گیا سال پاکستان کے لیے : بیتے برس معیشت اور سیاست کا چلن کیا رہا؟ دہشت گردی بڑھی یا گھٹی؟

مقبول گوہر / غلام محی الدین  اتوار 12 جنوری 2014
حکومت مغرب کی جانب مُنہ اٹھائے دوڑ رہی ہے، جب ہی تو سات ہی ماہ میں قوم مایوسی کی انتہا کو چھو نے رہی ہے۔ فوٹو : فائل

حکومت مغرب کی جانب مُنہ اٹھائے دوڑ رہی ہے، جب ہی تو سات ہی ماہ میں قوم مایوسی کی انتہا کو چھو نے رہی ہے۔ فوٹو : فائل

اسلام آ باد: 2013 اپنی اچھی بُری تلخ اور شیریں یادوں کے ساتھ بیت گیا۔ اس امر کا جائزہ لینے کے لیے کہ پچھلے سال پاکستان کی سیاست اور معیشت میں کیا تبدیلیاں رونما ہوئیں اور یہ سال ہمارے ملک میں دہشت گردی کے حوالے سے کیسا رہا، ہم نے مختلف شعبہ ہائے زندگی سے گفتگو کی، جو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔

 احسن اقبال (وفاقی وزیر پلاننگ اور ڈیویلپمنٹ)
یہ سال پاکستان کی تاریخ میں سنگ میل ثابت ہوگا۔ اس سال بہت سی اہم تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ ایک جمہوری حکومت کا قیام انتہائی اچھے انداز میں عمل میں آیا۔ اس جماعت نے اقتدار حاصل کیا، جس کے لیڈر کو ایک آمر نے معزول کرکے جلاوطن کردیا تھا، لیکن اس جماعت کی جڑیں عوام میں موجود تھیں، عوام نے آمر کے اس اقدام کو ووٹ کی طاقت سے مسترد کر دیا اور اس سال اس جماعت کے حق میں فیصلہ دیا۔ انتخابات کے بعد وطنِ عزیز کی تاریخ میں پرامن انتقالِ اقتدارکا ایسا عمل وقوع پذیر ہوا کہ ایک مثال قائم ہو گئی۔

اس سال قوم کو قومی اسمبلی کا نیا اسپیکر ملا، صدر کی تبدیلی رونما ہوئی۔ اس سال کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اس میں پاک فوج کے سربراہ کی تبدیلی عمل میں آئی۔ اس سارے سیاسی عمل سے ملک میں سیاسی استحکام پیدا ہوا جس سے معیشت میں بھی بہتری آئی۔ یہ سارے کام انتہائی دانش مندی سے انجام پائے، عوام کو کسی لمحے محسوس نہیں ہوا کہ جمہوریت اپنی پٹڑی سے اتر سکتی ہے۔ اس سال بنیادی جمہوریت یعنی بلدیاتی الیکشن کا اعلان بھی ہوا، جس سے اقتدار نچلی سطح کو منتقل ہوگا۔ ملک کے چاروں صوبوں میں بلدیاتی انتخابات کی تیاریاں جا رہی ہیں۔ اس عمل سے جمہوری عمل مزید استحکام حاصل کرے گا۔ یوں کہنا بے جا نہ ہو گا کہ عوام ایک سیاسی عمل کی تیاریوں میں مصروف نئے سال میں داخل ہوئے ہیں۔ خوشی کی بات ہے کہ بلدیاتی انتخابات کا عمل 2013 میں شروع ہوا، جو نئے سال میں پایۂ تکمیل کو پہنچے گا۔ اس سال میں جمہوری کلچر کو فروغ حاصل ہوا جو وطن عزیز کی سیاسی تاریخ کا سنہرا باب ثابت ہو گا۔

اسد عمر ( مرکزی راہ نما تحریکِ انصاف، رکن قومی اسمبلی)
2013 کو ہم ملکی معیشت کے لیے بدتر سال قرار دے سکتے ہیں۔ غیرملکی قرضوں میں بے تحاشا اضافہ ہوا۔ گذشتہ سال حکومت سرمایہ داروں، صنعت کاروں، تاجروں کے ہاتھوں میں رہی، جنہوں نے نہ جانے کیوں معیشت کا بیڑا غرق کر دیا۔ میں کسی جماعت یا شخصیت پر کوئی الزام نہیں لگاتا کہ اس کلچر نے پہلے ہی ہمارے سیاسی منظر کو مکدر کررکھا ہے۔ صرف یہ گزارش کروں گا کہ جب تک اقتدار عوام کے ہاتھوں میں نہیں آئے گا، بہتری کے آثار پیدا ہونا مشکل ہوں گے۔ سال گذشتہ میں سیاسی حوالے سے پاکستانی عوام سے بہت سی کوتاہیاں سرزد ہوئیں۔ اس سال کو ہم سیاسی حوالے سے مثالی قرار نہیں دے سکتے۔

بہ ظاہر 2013 میں سیاست کے حوالے سے کوئی بڑی تبدیلی دکھائی نہیں دی مگر ایسا بھی نہیں کہ سیاست کے میدان میں پورے سال جمود رہا ہو۔ اس سال اہم تبدیلیاں رونما ہوئیں جو پاکستان کی سیاسی تاریخ میں زندہ رہیں گی۔ ان تبدیلیوں کے مستقبل میں گہرے اثرات بھی مرتب ہوں گے۔ اس سال سیاسی حوالے سے قوم کو بہت کچھ ملا، نیا وزیراعظم، نئی کابینہ؛ یہ سب کچھ اسی سال سال وقوع پذیر ہوا۔ اس سال یہ بھی واضح ہوا کہ ہم ابھی تک الیکشن کا صاف شفاف عمل تشکیل نہیں دے سکے۔ اس سال سیاسی عمل پورے زور شور سے جاری رہا لیکن اس سارے سیاسی عمل میں ہم دیکھتے ہیں کہ عوام کا کوئی بڑا مسئلہ حل نہیں ہوا، بل کہ پہلے سے موجود مسائل پہلے کی نسبت زیادہ گمبھیر ہو گئے، ہم لوڈ شیڈنگ کی مثال دے سکتے ہیں۔

مثالی سیاسی منظر نامہ ایسا بننا چاہیے کہ عوام کو جمہوریت کے اچھے ثمرات اپنی عملی زندگی میں محسوس ہوں۔ ان کی زندگی میں آسانی پیدا ہو۔ مسائل حل ہوتے دکھائی دیں۔ اس سے جمہوری نظام کو تقویت ملے گی۔ عوام کا جمہوریت پر اعتماد بڑھے گا لیکن ہمارے ہاں ایسا کوئی اقدام نظر نہیں آتا۔ ہم کہ سکتے ہیں کہ ہم جمہوری عمل کو کم زور کر رہے ہیں، جو کسی صورت بھی مفید عمل نہیں ہے۔

ایئرمارشل (ریٹائرڈ) شہزادچوہدری (دانش ور، تجزیہ کار)
خطے میں گذشتہ 30 سال سے عدم اعتماد کی فضا موجود ہے۔ اگر افغانستان، پاکستان کے لیے مسائل پیدا کرے گا اور پاکستان، افغانستان میں دہشت گردی کی اجازت دے گا تو دونوں ملک اس آگ سے نجات حاصل نہیں کر سکیں گے۔

ڈاکٹر سعادت اسد (دانش ور)
اگر ہم بلوچستان اور کراچی میں ہونے والی خوں ریزی، بھتا خوری اور ٹارگٹ کلنگ کو الگ پیرائے میں اور طالبان ایشو کو دہشت گردی کے زمرے میں رکھ کر دیکھیں تو ہمار ے سامنے ایک ہی سچائی اُبھر کر آئے گی کہ اس ایشو پر بات 2013 یا 2012 یا 2011 کی ہے ہی نہیں کیوںکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ شروع ہونے سے لے کر آج تک جتنے بھی سال بیتے، اُن تمام میں دہشت گردی اور دہشت گرد چاہے، افغانستان میں ہوں یا پاکستان میں، پہلے سے زیادہ طاقت اور تعداد میں اُبھرکر سامنے آتے رہے ہیں، اس لیے بہ حیثیت کریمینالوجسٹ میری رائے پہلے دن سے یہی ہے کہ حکومت اور فوج جب تک اس مسئلے کی جڑ کو تلاش کر کے اُس پر ہاتھ نہیں ڈالیں گے، اُس وقت تک کسی بھی مسلمان ملک کے ماحول میں یہ جنگ جیتنا مشکل ہی نہیں، ناممکن ہے۔

کریمینالوجی میں جرم، جرم کی درست تشخیص اور اُس کے بہترین حل کی بات ہوتی ہے اور میں اس جنگ کے پہلے دن سے ہی کہتا آرہا ہوں کہ اس مخصوص طالبان مائینڈ سیٹ سے جنگ میں ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ اگر ہم امریکی عینک سے ہی ہر سچائی تلاش کرتے رہے تو طالبان ہمیں صرف اور صرف دہشت گرد ہی نظر آتے رہیں گے، لیکن ہمارے حکم ران ایک ناکام دہائی کے بعد صرف ایک بار اس بات کو پاکستان اور افغانستان کے اکثر سے زیادہ مسلمانوں کی عینک سے بھی دیکھنے کی زحمت گوارہ کرلیں تو ہمیں طالبان دہشت گرد نہیں بل کہ قرآن، حدیث و سنت کی پیروی کرنے والے ایسے نظریاتی لوگ لگیں گے۔

جنہیں پسند کرنے والے ہمارے سیاست دانوں، علما اور دانش وروں میں بھی موجود ہیں اور کھل کر طالبان کے نظریات کے حق میں دلائل بھی دیتے ہیں، جس کے باعث یہ جنگ ختم ہونے کے بہ جائے پھیلتی جا رہی ہے۔ جب تک ہماری حکومت بھی اس سچائی کو تسلیم نہیں کرے گی کہ ایسے نظریاتی لوگوں کے ساتھ مسئلے کا حل کبھی جنگ کے میدان میں یا مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر تلاش کرنا ممکن نہیں ہو سکتا، بل کہ اس مسئلے کا حل ان نظریاتی لوگوں کے دیکھنے، سوچنے، پرکھنے کے ڈھنگ اور اُن کے مائنڈ سیٹ کو سمجھنے کے بعد ہی شروع ہو سکتا ہے اور اس کے لیے کسی بھی حکومت نے ذرہ بھر بھی کوشش نہیں کی۔

اگر دہشت گردی سے نمٹنے کا حل مشرق کی جانب ہے تو حکومت مغرب کی جانب مُنہ اٹھائے دوڑ رہی ہے، جب ہی تو سات ہی ماہ میں قوم مایوسی کی انتہا کو چھو نے رہی ہے۔

افغانستان میں اسی مائنڈ سیٹ کو ڈیل کرنے کے لیے امریکا اور نیٹو ممالک کے وسائل کیا کم تھے، کیا ہماری حکومت کسی بھی طرح اُن سے زیاد ہ وسائل استعمال کر سکتی ہے؟ اس لیے میں پھر اپنی اُسی تشخیص پر زور دوں گا اور آپ کی وساطت سے حکومت سے کہوں گا کہ یہ وہ جنگ ہے جو ہم نے بندوق کی گولی سے نہیں، قوم کے ذہن میں بیٹھ کر لڑنی ہے، دلیل کی طاقت اور سوچ کی درستی سے جیتنی ہے، کوئی اور طریقہ ممکن نہیں۔

بریگیڈیئر(ر) اسد منیر(عسکری ماہر)
دہشت گردی کے تناظر میں پاکستان اور افغانستان ایک دوسرے کے واقعات اور حالات سے متاثر ہوتے ہیں۔ اگر مشرقی پنجاب میں کوئی واقعہ ہو تو اس سے مغربی پنجاب پر کوئی فرق نہیں پڑے گا، اسی طرح ایران میں کوئی واقعہ رونما ہو تو اس کے اثرات بلوچستان پر مرتب نہیں ہوں گے۔

لیکن جب کابل، قندھار یا جلال آباد میں کوئی واقعہ رونما ہو تو اس سے پاکستان کے مختلف شہر براہ راست متاثر ہوتے ہیں۔ دہشت گردی کا اس حوالے سے بھی جائزہ لینا چاہیے۔

پروفیسر امجد ملک (ماہراقتصادیات و تعلیم)
2013 بہ ظاہر وطن عزیز کے لیے بنیادی تبدیلیوں کا سال کہلائے گا مگر یہ تبدیلیاں صرف چہروں کی تبدیلیاں تھیں۔ وطن عزیز کا مقدر اور غریب عوام جو کل آبادی کا 80 فی صد ہیں کی قسمت تبدیل نہ ہو سکی اور ’’مرے کو مارے شاہ مدار‘‘ کے مصداق یہ سال اہل وطن کے لیے ہر لحاظ سے بدتر رہا۔ یہ اشاریے( Indicators) بزبان خود معاشی تباہی کی داستان سنا رہے ہیں:

پاکستان کے بیرونی قرضے 70 ارب ڈالر تک پہنچ گئے جو کہ مکمل معاشی غلامی کے مترادف ہے۔
اندرونی قرضہ جات یعنی نئے کرنسی نوٹوں کی چھپائی 2013 میں تقریباً 600 ارب رہی جو پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ ہے۔
افراطِ زر نے پچھلے کئی سال کے ریکارڈ توڑ دیے معاشی نظریات کے مطابق اگر افراط زر کی شرح دو ہندسوں تک پہنچ جائے تو وہ معاشی ترقی کے لیے ایک انجن کا کام کرنے کی بجائے معاشی افراتفری اور بحران کا پتا دیتی ہے۔ 2013 میں غیرجانب دار معاشی تجزیات کے مطابق افراطِ زر 20 فی صد رہی۔

زرمبادلہ کے ذخائر 2002 کے بعد کم ترین سطح پر آ چکے ہیں۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان اور کمرشیل بینکوں کے کل ذخائر 2013 کے آخر میں تقریباً 8 ارب ڈالر تھے جو پیپلز پارٹی کے پانچ سالہ دور میں کبھی 15 ارب ڈالر سے کم نہیں ہوئے تھے۔

2013 غیرملکی سرمایہ کاری کے لحاظ سے انتہائی مایوس کن رہا۔ خالص بیرونی سرمایہ کاری منفی رہی، نئی بیرونی سرمایہ کاری نہ صرف نہیں ہوئی بل کہ پرانے سرمایہ کاروں نے اپنا سرمایہ بنگلہ دیش اور ملیشیا منتقل کیا۔
غربت کی سطح سے نیچے آبادی کی شرح 60 فی صد سے بڑھ کر 70 فی صد ہو گئی۔ چوں کہ بنیادی معاشی ضروریات بجلی، گیس، پٹرول کی عدم دست یابی اور ان کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافے کی وجہ سے ملک میں معاشی سرگرمیاں ماند پڑ گئیں اور غربت کی شرح میں بے تحاشا اضافہ ہوا۔

کراچی : بابر علی
محترمہ نسرین جلیل (سینیٹر متحدہ قومی موومنٹ)
معاشی لحاظ سے2013 پاکستان کے لیے سود مند نہیں رہا اور اس کی سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ اس سال پاکستان کو توانائی کے بدترین بحران کا سامنا کرنا پڑا، جس کا اثر ملک کی معیشت پر بھی پڑا، جب کہ سرکلر ڈیبٹ کی مد میں 500 بلین روپے کی ادائیگی سے بھی ملکی معیشت بے حد متاثر ہوئی، اور آج سرکلر ڈیبٹ اس رقم سےنصف سے زاید ہوچکا ہے، جتنا آج سے چار ماہ پہلے ادا کیا گیا تھا۔ قدرتی گیس کی نعمت کو بطور سی این جی استعمال کرنے سے بھی ملک کی معیشت تباہ ہورہی ہے۔ پاکستان کی معیشت کو بچانے کے لیے قدرتی گیس کو صنعتیں چلانے اور بجلی پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے۔ حکومت کے اس قدم سے ایک عام پاکستانی کی پر فی کس آمدنی میں اضافہ اور ملک کی معیشت میں بہتری آئے گی۔

نسرین جلیل کا کہنا ہے کہ پاکستان کی معاشی بدحالی کا ایک اہم سبب طبقۂ اشرافیہ کا ٹیکس نیٹ میں نہ ہونا ہے پر تعیش زندگی گزارنے والے تقریباً 29 لاکھ افراد ٹیکس نیٹ میں شامل نہیں ہیں، جب کہ ستر فیصد پارلیمینٹیرین بھی انکم ٹیکس ادا نہیں کرتے۔ زراعت کا شعبہ معیشت کا 22 فیصد ہے لیکن معیشت کے لیے اس کی اعانت2 فی صد سے بھی کم ہے۔ بجٹ خسارے میں جانے کی ایک وجہ آمدنی سے زیادہ حکومتی اخراجات ہیں۔

2013میں پاکستان کو مختلف نوعیت کے فرقہ ورانہ تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔ جس سے یہی تاثر پیدا ہو ا کہ پاکستان فرقہ ورانہ بنیادوں پر تقسیم ہو رہا ہے۔ اور یہ بات اس وقت کچھ حد تک درست بھی محسوس ہوئی جب یوم عاشورہ پر راولپنڈی میں مدرسے پر ہونے والے حملے کے بعد تشدد کی لہر ملک کے دوسرے شہروں میں بھی پھیل گئی۔ مختلف فرقوں کے مابین ہم آہنگی پیدا کرنا سیاسی اور مذہبی راہ نمائوں کی ذمے داری ہے اور متحدہ قومی موومنٹ اورقائد تحریک الطاف حسین کئی سالوں سے سندھ بھر میں فرقہ ورانہ ہم آہنگی کے لیے کام کر رہے ہیں۔ گذشتہ سال دونوں بڑے فرقوں پر اہدافی حملے کیے گئے ہیں لیکن عوام کی بڑی تعداد کے درمیان ہم آہنگی کی فضا قایم ہے۔

گذشتہ سال دہشت گردی کے واقعات میں اضافے کی ایک اہم وجہ لینڈ مافیا، ڈرگ مافیا، ہتھیار مافیا، طالبان اور وہ مجرمان ہیں جن کی پشت پناہی سیاسی تنظیمیں اپنے مقاصد کے لیے کرتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ تصور بالکل غلط ہے کہ طالبان سے جنگ پاکستان کی جنگ نہیں ہے۔ یہ پاکستان کی جنگ ہے درحقیقت یہ پاکستان کی سلامتی کا سوال ہے۔ بدقسمتی سے افغانستان کا پڑوسی ملک ہونے کی وجہ سے پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائن ریاست ہے۔ طالبان کی حامی جماعتوں نے انہیں پاکستان میں نہ صرف محفوظ پناہ گاہیں فراہم کر رکھی ہیں بلکہ وہ ان کی دہشت گردی اور مجرمانہ سرگرمیوں پر اظہار ہمدردی بھی کرتے ہیں اور ان سب عوامل کی وجہ سے پاکستان اس جنگ میں بہت متاثر ہورہا ہے۔

سیاسی اور انتظامی تبدیلیوں کے حوالے سے 2013پاکستان کے لیے تبدیلیوں کا سال رہا لیکن انگریزی میں ایک کہاوت ہے ’’مور تھنگس چینج دی مور دے ری مین دی سیم‘‘
(more things change the more they Remain the same) اور یہ کہاوت پاکستان پر پوری اترتی ہے۔ 2013 میں عام انتخابات، چیف جسٹس آف پاکستان، صدر پاکستان اور چیف آف آرمی اسٹاف کی تبدیلی ہوئی لیکن اس سے عام آدمی پر کوئی فرق نہیں پڑا۔ اسے ابھی بھی افراط زر (منہگائی) کا سامنا ہے۔ بے روز گاری بڑھتی جارہی ہے، ملک کو توانائی اور گیس کے بحران کا سامنا ہے، فیکڑیاں بند ہو رہی ہیں، سرمایہ بیرون ملک منتقل ہو رہا ہے اور ریاستی ادارے نقصان میں چل رہے ہیں جس سے معیشت بد سے بدتر ہوتی جا رہی ہے۔ اور ان تما م مسائل کی جڑجاگیردارانہ نظام اور جاگیردارانہ سوچ ہے۔

پروفیسر سحر انصاری(دانش ور، شاعر اور ادیب)
سال گذشتہ کے بارے میں پروفیسر سحر انصاری کا کہنا ہے کہ معاشی لحاظ سے 2013پاکستان کے لیے سود مند ثابت نہیں ہوا، کیوں کہ روپے کی تیزی سے گرتی ہوئی قدر سے عالمی منڈیوں میں ہماری ساکھ خراب ہوئی تو دوسری جانب اس کا سب سے بڑا اثر عام آدمی کی زندگی پر پڑا۔ تاہم گذشتہ تین ماہ میں معاشی حالات میں بہتری آرہی ہے جب کہ اس بات کے لیے اپوزیشن بھی قابل تعریف ہے کہ انہوں نے نئے کرنسی نوٹ چھاپنے پر پابندی لگوائی ورنہ افراط ِ زر مزید بڑھ چکا ہوتا۔ ملکی معیشت میں بہتری کے لیے برسر اقتدار اور اپوزیشن میں بیٹھنے والی جماعتوں کا مثبت سوچنا ضروری ہے۔ فرقہ واریت اور مذہبی ہم آہنگی کے لحاظ سے 2013 بہت برا رہا، کیوں کہ اِس سال کئی بڑی بڑی شخصیات فرقہ واریت کی نذر ہوگئیں جو کہ نہایت افسوس ناک ہے۔ انہوں نے کہا کہ دشت گردی چاہے وہ کسی بھی شکل میں ہو قابل مذمت اور ناقابل بر داشت ہے، کیوں کہ اس میں صرف اور صرف معصوم انسانی جانوں کا ضیاع ہوتا ہے اور اسے کم ہونا چاہیے۔

جمہوریت بد ترین آمریت سے بہتر ہوتی ہے‘‘ اور یقیناً پاکستان میں جمہوریت کا فروغ ایک اچھا قدم ہے اور ہر حکومت اپنے اکثریتی علاقے کی فلاح کے لیے کام کرتی ہے جس طرح پیپلز پارٹی نے سندھ کے عوام کے لیے ’’کم قیمت مکانات کی تعمیر‘‘،’’بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام‘‘ اور جامعات قایم کیں تو یہی کام نواز حکومت اپنے صوبے کے لیے کر رہی ہے۔ لیکن نئے وزیر اعظم، آرمی چیف اور چیف جسٹس آف پاکستان کے حوالے سے ہونے والی تبدیلیوں کی بات کی جائے تو عام آدمی اب بھی مشکل میں ہے، ’’بجلی گیس کی لوڈ شیڈنگ‘‘، ’’ٹریفک جام‘‘ اور ’’سی این جی‘‘ کی بندش نے عام آدمی کی زندگی عذاب میں کر رکھی ہے۔

ڈاکٹرشاہد حسن صدیقی (ماہرِ معیشت)
2013معاشی لحاظ سے پاکستان کے لیے ایک ناکام سال ثابت ہوا۔ اس سال کچھ ایسے اقدامات کیے گئے ہیں، جن سے یہی لگتا ہے کہ 2014بھی معاشی لحاظ سے ناکام سال ثابت ہوگا۔ نواز حکومت کا محور تھا کہ امریکا سے سفارش کروا کر آئی ایم ایف سے پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا قرضہ حاصل کریں اور اس کی آڑ میں جنرل سیلز ٹیکس کی شرح، بجلی ، گیس اور پیٹرول کے نر خ بڑھا دیں اور روپے کی قدر گرادیں، طاقت ور طبقوں اور قومی دولت لوٹنے والوں کو بے تحاشا مراعات کے ساتھ لوٹی ہوئی دولت کو قانونی تحفظ فراہم کریں۔

نواز حکومت کو امریکا سے مطالبہ کرنا چاہیے تھا کہ وہ پاکستان کو ’’کولیشن سپورٹ فنڈ‘‘،’’کیری لوگر بل‘‘ کے تحت ادائیگی کرے لیکن ا س کے بجائے انہوں نے آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کا فیصلہ کیا۔ ڈاکٹرشاہد حسن صدیقی کا کہنا ہے کہ اسی سال ’’بزنس یوتھ لون اسکیم‘‘ کا اجرا کیا گیا ہے جو کہ ناکام ثابت ہوگا اور اس اسکیم سے بینکوں کو بڑے پیمانے پر نقصان ہوا گا۔ تاہم پاکستان کو ’’جی ایس ٹی پلس‘‘ ملک کا اسٹیٹس ملنا ایک اچھا قدم ہے لیکن بنیادی چیز یہ ہے کہ مسلم لیگ ن نے جس انتخابی منشور پر الیکشن جیتا تھا اس کو مکمل طور پر پس و پشت ڈال دیا گیا ہے۔

لاہور: رانا نسیم
رسول بخش رئیس
2013ء کو سیاسی اعتبار سے ملک کے لیے ایک اچھا اور مثبت سال قرار دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں گذشتہ برس سیاست کے میدان میں تین حوالوں سے مثبت پیش رفت ہوئی جو قابل ستائش تھی۔ ایک تو ملکی تاریخ میں پہلی بار کسی حقیقی جمہوری حکومت اور پارلیمان نے اپنی آئینی مدت پوری کی۔ دوسرا عام انتخابات ہوئے جس میں دستور کے مطابق ایک سیاسی جماعت (جو حکومت میں تھی یعنی پیپلزپارٹی) نے اقتدار دوسری سیاسی جماعت (ن لیگ جو اس وقت اپوزیشن میں تھی) کے حوالے کیا۔ جمہوریت کے لئے یہ اتنا اچھا اقدام ہے کہ آئندہ اگر دو یا تین مرتبہ ایسا ہی ہوتا ہے (یعنی دستور کے مطابق اقتدار کی منتقلی) تو مجھے یقین ہے کہ جمہوریت کی جڑیں مضبوط ہوجائیں گی۔

سالِ گذشتہ میں سیاسی حوالے سے تیسرا قابل ستائش پہلو یہ رہا کہ جمہوری لوگ یعنی سیاسی پارٹیاں نہایت دبائو میں تھیں، کیوں کہ کچھ لوگ جو ہمیشہ سے فوج کو اقتدار میں لانے کے حمایتی تھے، ان کی شدید خواہش تھی اب کی بار بھی کسی طرح جمہوریت پر شب خون مارا جائے، لیکن مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی نے مزاحمت کی اور جمہوریت کی مضبوطی کے لیے ایک دوسرے سے تعاون کیا۔ اس تعاون سے جمہوریت کی جڑیں کاٹنے والے ناکام رہے۔ دہشت گردی کے لحاظ 2013ء بہ نسبت 10،11اور2012ء خصوصاً آخری 6ماہ کچھ بہتر گزرا، یعنی حکومت کو دہشت گردی کے خاتمے میں جزوی کام یابی حاصل ہوئی۔ اس ضمن میں تحریک طالبان اور حکومت کے درمیان مذاکرات کو کافی اہمیت حاصل ہے، گو کہ طالبان سے مذاکرات تو نہ ہو سکے لیکن ایک سمت کا تعین ضرور ہوا۔ طالبان کے 30 سے زائد گروپ ہیں جو ایک ہی لیبل استعمال کرتے ہیں۔

حکیم اللہ محسود اللہ کو پیارے ہوئے جس سے طالبان کو بڑا دھچکا لگا۔ اب جو تحریک طالبان کے موجودہ سربراہ ہیں مولوی فضل اﷲ ان پر تمام قبائل کا اعتماد نظر نہیں آتا۔ دوسری طرف فرقہ وارانہ فسادات میں تیزی آئی۔ مجموعی طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ دہشت گرد کم زور ضرور ہوئے لیکن وطن عزیز خطرات سے باہر نہیں نکل سکا، جس کی بنیادی وجہ دہشت گردی کے خلاف ہماری پالیسی کی ناکامی ہے۔ پچھلے سال ملکی معیشت میں کوئی خاص بہتری نہیں آئی لیکن، ایسا ضرور محسوس ہوا کہ بحالی کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔ حکومت کی معاشی پالیسیوں پر اعتماد بحال ہوتا ہوا نظر آیا لیکن اصلاحات نہ ہوسکیں۔ حکومت معاشی بہتری کے لیے کوئی بڑے فیصلے بھی نہ کر پائی۔ مثلاً ٹیکس نیٹ نہیں بڑھایا جا سکا، جس کے باعث حکومت کے پاس پیسہ نہیں اور ترقیاتی کاموں کے لئے ہمیں عالمی مالیاتی اداروں سے قرضہ حاصل کرنا پڑا۔ مہنگائی بھی بڑھی لیکن ایسے نہیں جیسے ایران یا دیگر ممالک میں بڑھی۔ تو اقتصادی لحاظ سے حکومت بحالی کے راستے پر چلی نہیں لیکن اس کی تیاری ضرور کی گئیں۔

ڈاکٹرسلمان شاہ (ماہر معیشت، سابق وفاقی وزیرِخزانہ)
گذشتہ برس انتہائی اہمیت کا حامل رہا، کیوں کہ اس میں بڑی بڑی تبدیلیاں آئیں۔ جمہوری حکومت، صدر، وزیراعظم، آرمی چیف، چیف جسٹس اور تحریک طالبان کا سربراہ تبدیل ہوا مگر ان سب تبدیلیوں کے باوجود فیصلہ سازی میں جمود دکھائی دیا۔ ملکی ترقی کے لیے جن مقاصد کا حصول ضروری تھا وہ حاصل تو کیا ہونا تھا، ہم ان کے اندر موجود ابہام ہی کو ختم نہ کر سکے۔ الیکشن کا میدان ضرور سجا لیکن ماضی کی طرح اس پر انگلیاں ہی اٹھتی رہیں۔ سیاست کو ذاتی مفادات سے بالاتر کرنے کے رجحان میں خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہوئی اور جب تک ہم اس مقصد کے حصول میں پوری طرح سے کام یاب نہیں ہوتے ملک میں حقیقی تبدیلی نہیں آئے گی۔ ہم دہشت گردی پر قابو پانے میں ناکام رہے اور پھر اس کے برے اثرات نے ملکی معیشت کو نقصان پہنچایا۔

بدامنی کے باعث ملک میں سرمایہ کار نہیں آیا تو سرمایہ کاری ختم ہوتی چلی گئی۔ ہم پر دہشت گردی کا ٹھپا لگا اور یوں ہم دنیا سے کٹتے جا رہے ہیں۔ دہشت گردوں کو پناہ دینے جیسے الزامات کے باعث دنیا ایک طرف اور ہم دوسری طرف کھڑے ہیں، جو کسی طور بھی درست نہیں کیوں کہ یہ ہمارے ملک و قوم کے لیے بہت خطرناک ہے۔

دنیا سے تنہائی کا تاثر ختم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ انہیں باور کروائیں کہ ہم دہشت گرد ہیں نہ دہشت گردوں کو پناہ دینے والے ہیں۔ پاکستان کا معاشی مفاد اور امن افغانستان سے جڑا ہے اور دنیا بھر کی نظریں افغانستان پر جمی ہیں۔ امریکہ اور یورپ افغان نیشنل آرمی بنانے جا رہے ہیں۔ افغانستان کو سینٹرل زون بنانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں اور اس سارے عمل میں پاکستان کو گیٹ وے کا کردار ادا کرنا ہے۔

پاکستان اس عمل میں اگر کلیدی کردار ادا کرے گا تو اس سے ہمارے ہاں امن ہو گا اور نتیجتاً معاشی بہتری آئے گی، اور اگر ہم ایسا نہ کر سکے تو آئندہ آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔ گذشتہ برس امن اور معیشت کے حوالے سے پاکستان کے لیے کسی طور بھی بہتر نہیں تھا کیوں کہ ریاست کی رٹ کو بار بار چیلینج کیا گیا، جس کے باعث نہ صرف پاکستانی مارے گئے بلکہ معیشت کو بھی شدید دھچکا لگا۔

جنرلائزڈ سسٹم آف پریفرینس پلس (جی پی ایس) کا درجہ پانا گو کہ ملکی معیشت میں بہتری کی طرف اہم قدم ہے، لیکن اس سہولت سے ہم تبھی فائدہ اٹھا سکتے ہیں، جب ہماری انڈسٹری چلے گی۔ پھر جی پی ایس پلس تو سال گذشتہ کے اواخر میں ملا لیکن مجموعی طور پر سارا سال معیشت دبائو کا ہی شکار رہی۔ نوٹ چھاپنا مسائل کا حل نہیں بلکہ یہ معیشت کا جنازہ نکالنے کے مترادف ہے۔ منہگائی، بے روزگاری اور افراط زر میں اضافہ نے عوام کی قوت خرید کو متاثر کیا۔

مفتی محمد یونس(عالم دین)
پہلے تو ہم نے یہ دیکھنا ہے کہ ہمارا نظام حکومت ہے کیا؟ کیوں کہ اسلامی نقطہ نظر سے پاکستان میں قائم نظام حکومت پر بہت سارے سوالات اٹھتے ہیں۔ اور پھر جو جمہوری نظام ہم نے اپنا رکھا ہے، اس میں متعدد چیزیں قابل اصلاح ہیں کیوںکہ آئین پر مکمل طور پر عمل درآمد نہیں ہو رہا۔ مذہبی حلقے اس نظام کے خلاف نہیں لیکن ہم اس میں بہتری کے متمنی ضرور ہیں۔ گذشتہ برس اقتدار کی پُرامن منتقلی ضرور ہوئی، لیکن چہرے نہیں بدلے، ہم ان سے توقع کرتے ہیں کہ شاید اس بار یہ اپنی اصلاح کریں۔ کہا جا رہا ہے کہ ملکی تاریخ میں پہلی بار جمہوری حکومت نے اپنے پانچ سال پورے کیے لیکن میرے نزدیک یہ کوئی خوبی نہیں کیوں کہ جب ساری برائیاں اور کم زوریاں موجود رہیں، ان میں کچھ بھی بہتری نہ آرہی ہو تو پھر پانچ سال چھوڑیں کوئی سو سال بھی پورے کر لے تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔

تعلیم، عدل و انصاف اور امن کے حوالے سے گذشتہ برس بھی ویسا ہی گزرا جیسے پہلے وقت گزر رہا تھا۔ پچھلے سال بدامنی اور دہشت گردی کی لہر برقرار رہی اور اس کی روک تھام کے لیے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کیے گئے، تاہم طالبان سے مذاکرات کے اعلانات کیے گئے لیکن اس میں بھی سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا جا رہا۔ اگر حکومت مذاکرات میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرتی ہے تو کوئی اچھی امید کی جا سکتی ہے، وگرنہ یونہی قوم مرتی رہے گی۔

ہاں اس کے علاوہ پولیس کی نااہلی کے باعث اسٹریٹ کرائم میں اضافہ دیکھنے کو ملا، چوروں اور ڈاکوئوں نے دن اور رات کی تمیز ہی ختم کر دی۔ راہ چلتے شہریوں کو لوٹا جا رہا ہے اور کوئی مجرموں کا ہاتھ پکڑنے والا نہیں۔

معیشت کی بہتری کے لیے سب سے بنیادی چیز اچھی منصوبہ بندی اور سادگی کا فروغ ہے، لیکن افسوس! کہ ہمارے حکمران اس صفت اور صلاحیت سے محروم ہیں۔ جی ایس پی پلس کے درجے کا حصول درست مگر چند جزوی اقدامات سے معیشت میں کوئی بڑی تبدیلی یا بہتری نہیں لائی جا سکتی۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے، اور ہماری معیشت کا دارو مدار ہی زراعت پر ہے لیکن سرکاری سطح پر کسان کو سہولیات دینے کے بجائے مزید تنگ کیا گیا۔

پانی کی فراہمی و تقسیم کے مسائل، منہگی بجلی، ڈیزل، کھاد اور بیج نے کسان اور نتیجتاً شعبہ زراعت کو بے انتہا متاثر کیا۔ سالِ گذشتہ قومی پیداواری صلاحیت میں اضافہ اور وسائل کی منصفانہ تقسیم پر خاص توجہ نہیں دی گئی، جس کے باعث وطن عزیز کے معاشی حالات دن بہ دن ابتری کی جانب گام زن ہیں۔ افراط زر اور منہگائی نے مجموعی طور پر شہریوں کی زندگی اجیرن کیے رکھی۔

کوئٹہ، عارف محمود
تصاویر: بنارس خان
محمد عثمان خان کاکڑ
(صوبائی صدر پشتونخواملی عوامی پارٹی بلوچستان)
2013ء دوسرے سالوں کی نسبت بہتر تھا۔ اس حوالے سے کہ انتقال اقتدار عدلیہ، فوج کے سربراہوں اور وزیراعظم کی پرامن اور جمہوری ماحول میں رخصتی ہوئی۔ مئی میں عوام نے انتخابات میں ووٹ کا استعمال کیا اور قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں اپنے نمائندوں کو منتخب کیا۔42سال کے عرصے کے بعد بلوچستان میں بہترین صوبائی حکومت بنی۔ پرانے لوگ چلے گئے نئے لوگ آئے۔ گزرے سال میں صوبائی حکومت کو یہ اعزاز بھی ملا کہ پورے ملک میں سب سے پہلے شفاف انداز میں بلدیاتی انتخابات کرائے، جس کی شفافیت کی تصدیق نہ صرف میڈیا بلکہ دولت مشترکہ نے بھی کی اور صوبے کی ایک کروڑ آبادی بھی اس کی گواہ ہے۔

2013ء امن وامان کے حوالے سے ایک بہتر سال تھا گذشتہ سالوں کی نسبت اس میں دہشت گردی اغواء برائے تاوان کی وارداتیں اور دوسرے جرائم50 سے 60 فی صد کم ہوئے۔ معاشی لحاظ سے یہ بدترین سال تھا مہنگائی بہت زیادہ بڑھی ڈالر کے ریٹ بڑھ گئے۔ تیل گیس بجلی کے نرخوں میں اضافہ ہوا۔ ٹرانسپورٹ کے کرائے بڑھے ان سب کے اپنے اپنے اسباب ہیں وہ یہ ہے کہ بجٹ کا زیادہ حصہ فوج وزراء بیوروکریسی پر خرچ ہوتا ہے اور بڑی رقم کرپشن کی نذر ہوجاتی ہے۔ اس میں خود ساختہ منہگائی بھی شامل ہے۔

امیر لوگ صنعت کار اور تاجر ٹیکس نہیں دیتے یہ بھی معاشی بدحالی کی وجہ ہے۔ قوموں کے درمیان معاشی مساوات نہیں ہے۔ جہاں تک مذہبی رواداری کی بات ہے تو سال 2013ء میں مذہبی رواداری بہت کم رہی۔ مذہب کے نام پر سیاست کرنے والوں نے مذاہب کے درمیان کشمکش کو بڑھایا۔ اس میں ریاست کا بھی کردار ہوتا ہے۔ فرقہ وارانہ نفرتیں نہیں ہونی چاہییں۔ کوئٹہ سمیت صوبے کے مختلف علاقوں میں سردی کا 30سالہ پرانا ریکارڈ ٹوٹ گیا ہے اور کم سے کم درجۂ حرارت منفی18تک گرگیا ہے۔ گیس فراہمی کے حوالے سے سال 2013ء بدترین سال رہا شدید سردی میں بچوں خواتین بوڑھوں کی کیا حالت ہوگی بجلی کی فراہمی کے حوالے سے بھی رجحان اچھا نہیں رہا۔ لوڈ شیڈنگ وہی رہی اس میں کمی بیشی نہیں ہوئی۔ مرکزی حکومت کی گیس اور بجلی کے حوالے سے ساری توجہ پنجاب پر ہے جو واقعتاً امتیازی سلوک ہے۔

عبدالمتین اخونزادہ (امیرجماعت اسلامی بلوچستان)
سیاسی حوالے سے قوم کو جو امید تھی کہ 2013ء تبدیلی کا سال ثابت ہوگا، وہ پوری نہیں ہوئی۔ البتہ مقررہ وقت پر الیکشن ہوئے پیپلزپارٹی نے بہانے کرتے ہوئے وقت گزار دیا، لیکن ہم الیکشن کا خیر مقدم کرتے ہیں انتخابات شفاف کرانا، الیکشن کمیشن کا کام تھا، لیکن 2013ء میں یہ کام نہیں ہوسکا۔ الیکشن کمیشن پر بہت سے سوالات اٹھائے گئے ہمارے یہاں الیکشن کرانے کا فرسودہ نظام رائج ہے، جو جاگیرداروں وڈیروں کو تحفظ دینے کا نام ہے، اس سے قوم کو جس تبدیلی کی امید تھی وہ پوری نہیں ہوسکی۔ الیکشن کے رزلٹ اس طرح آئے کہ فیئر نہیں ہوسکے۔ مجموعی طور پر ہم جون سے دسمبر تک مصنوعی قیادت میں چلے گئے۔ حکومت نے کرپشن کے خاتمے کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا خود کو دہشت گردی کی جنگ سے الگ نہیں کیا۔

وزیراعظم میاں نواز شریف چھے مہینوں میں کوئی بڑا قدم نہیں اٹھاسکے۔ مسائل روایتی طور پر تو حل نہیں ہوسکتے حکومت اب تک کوئی کام یابی حاصل نہیں کرسکی حکومت کو معاشی طور پر بھی کوئی پذیرائی نہیں مل سکی۔

ہمارا تصور ہے کہ کرپشن جو بڑے پیمانے پر پھیلی ہوئی ہے وہ ختم کی جائے بڑے لوگ اگر چاہیں تو سیاسی قیادت بہتر طور پر کام کرسکتی ہے۔ میاں نواز شریف نے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی شرائط کو فالو کیا جس سے منہگائی بڑے پیمانے پر پھیلی۔ ہمارا خیال تھا کہ میاں نواز شریف کو پہلے بھی حکومتیں کرنے کا تجربہ ہے، لیکن وہ کوئی ایسا کام نہیں کرسکے۔ ان کا نعرہ تھا کہ صنعت کاروں کو تحفظ دیں گے، نوجوانوں کو روزگار دیں گے لیکن یہ نوجوانوں کو سودی کاروبار میں شامل کرنا چاہتے ہیں۔

یہ روزگار کے مواقع پیدا نہیں کرسکے، ٹیکس وصولی میں بھی بہتری نہیں آئی۔ سال 2013ء کی پہلی ششماہی میں کہیں بہتری نظر نہیں آئی یہ بجلی کا بحران مصنوعی طریقے سے ختم کرنا چاہتے ہیں۔ جہاں تک مذہبی رواداری کی بات ہے تو ملک میں فرقہ واریت بڑھ رہی ہے بالخصوص کوئٹہ، خیبرپختونخوا، شمالی علاقہ جات اور نومبر میں سانحۂ راولپنڈی یہ خطرات کی نشان دہی ہے اور یہ عملاً استعماری منصوبہ ہے، جس کی طرف ہم بڑھ رہے ہیں۔ اس حوالے سے مرحوم قاضی حسین احمد نے نئے عزم کے ساتھ ملی یکجہتی کونسل کی تنظیم نو کی نومبر2013ء میں اسلام آباد میں کانفرنس منعقد کی تھی، جس میں ہر مکتبہ فکر کے علماء کرام دانش وروں نے شرکت کی تھی اور ان خطرات سے نمٹنے کی ضرورت پرزوردیا تھا۔

ولی محمد، بلوچستان چیمبر آف کامرس کے سابق صدر)
سال2013ء میں پاکستان میں معیشت کے حوالے سے کوئی بہتری نظر نہیں آئی، دہشت گردی، بے روزگاری کرپشن کی وجہ سے معیشت کا پہیا جام ہوچکا ہے۔ توانائی نہ ہونے سے فیکٹریاں بند ہوگئی ہیں۔ ڈالر90روپے سے110روپے تک پہنچ گیا ہے۔ اشیائے خورونوش کی قیمتیں15سے25 فی صد بڑھ گئی ہیں۔30 لاکھ بڑے لوگ ٹیکس کے دائرے میں آتے ہیں جن میں زمیندار اور وڈیرے بھی شامل ہیں، لیکن ان پر ٹیکس لاگو نہیں کیا گیا۔

یورپ اور امریکا میں لوگوں سے ٹیکس لے کر غریب عوام پر خرچ کیے جاتے ہیں۔ ہمارے یہاں ٹیکس کی مد میں ساڑھے تین ارب روپے کرپشن کی نذر ہوجاتے ہیں۔ قرضے بڑھ رہے ہیں حکومت نوٹ چھاپ رہی ہے کسی بھی حکومت نے اس حوالے سے کوئی واضح پالیسی نہیں بنائی۔2013ء مایوسیوں کا سال رہا جس میں غریب سے غریب تر اور امیر امیر تر ہوتا گیا ریلوے، اسٹیل مل اور پی آئی اے جیسے بڑے ادارے تباہ ہوچکے ہیں۔ حکومت کو ایسی پالیسی واضع کرنی چاہیے جو بھی حکومت آتی ہے قرضے لیتی ہے قرضوں پر معاشی حالت نہیں چل سکتی جو قرضے لیتے ہیں تو انہیں مناسب جگہ پر خرچ کرنا چاہیے۔ بلوچستان سب سے زیادہ دہشت گردی سے متاثر ہے یہاں پر اغوا برائے تاوان بڑا کاروبار بن گیا ہے۔

پشاور: نوید جان
انجنئیرامیر مقام
(وزیراعظم کے مشیراورمسلم لیگ (ن) کے مرکزی سینئر نائب صدر)
2013ء جمہوریت کی مضبوط کے تسلسل کاسال رہا، کیوں کہ اس برس اقتدار ایک منتخب حکومت سے دوسری منتخب حکومت کو منتقل ہوا، چیف جسٹس اور آرمی چیف کی تبدیلی کا عمل آئینی اور جمہوری انداز میں مکمل ہوا جو یقیناً پاکستان کی تاریخ میں ایک بہترین اضافہ ہے، ساتھ ہی جب نوازشریف کی قیادت میں نئی حکومت بنی تو عسکریت پسندی پر قابو پانے کے لیے مذاکرات کی اہمیت پر زور دیا گیا جس کے لیے سرتوڑ کوشش کی بھی گئیں اور جاری بھی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اگرچہ گذشتہ برس بہت سے چیلینجز کا سامنا بھی کرنا پڑا جس میں دہشت گردی، لا اینڈ آرڈر کی صورت حال، مہنگائی اور بے روزگاری سرفہرست تھے لیکن ٹھوس اقدامات کی بدولت صورت حال میں واضح فرق دکھائی دیا ہے، جب کہ پاور سیکٹر میں انقلابی اقدامات کیے گئے۔

پہلی فرصت میں 500 ارب روپے کا گردشی قرضہ ادا کیا گیا جس سے لوڈ شیڈنگ کے دورانیے میں کمی واقع ہوئی، اسی طرح آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، ایشین ڈیویلپمنٹ بینک بھاشا ڈیم، داسو ڈیم اور دیگر منصوبوں کے لیے امداد دینے پر آمادہ ہوئے، اس سے قبل مذکورہ ادارے امداد دینے سے انکاری تھے۔ 2013ء میں یہ اہم پیش رفت ہوئی اسی طرح سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کے لیے کوششیں تیز ہوئیں اس ضمن میں چین کی مثال دی جا سکتی ہے جس نے گوادر تک ریلوے ٹریک اور سڑک بنانے کے منصوبے کو عملی شکل دینے کے لیے کام کا آغاز کر دیا ہے۔ دوسری طرف ڈالر کی سطح کو 111روپے کی سطح سے کم کرکے 104 روپے تک لایا گیا، جس سے منہگائی میں واضح کمی ہو گی اس تناظر میں منہگائی 8 فی صد رہنے تک امکان ظاہر کیا جارہا ہے۔

میاں خلیق الرحمان خٹک
(تحریکِ انصاف کے رکن صوبائی اسمبلی خیبرپختون خوا اور پارلیمانی سیکرٹری برائے پلاننگ اینڈ ڈویلپیمنٹ)
گذشتہ برس خیبر پختون خوا میں تحریک انصاف کو اقتدار ایسے وقت میں ملا جب حالات انتہائی کٹھن اور صبر آزما تھے، دہشت گردی کا عفریت سر چڑھ کر بول رہا تھا۔ روزانہ 800 ارب روپے کی کرپشن نے اداروں کو دیوالیہ ہونے کے قریب کردیا تھا، منہگائی، بے روزگاری اور لاقانونیت کا دور دورہ تھا لیکن سہ فریقی اتحاد کی حکومت نے چند ہی ماہ میں ایسے انقلابی اور ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کیے کہ کرپشن میں واضح کمی دیکھنے کو ملی جس پر ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ دال ہے، دوسری جانب صوبے میں تقرریوں اور تبادلوں کو میرٹ کی بنیاد پر کرانے کی مثال قائم کر دی، کرپٹ عناصر کا کڑا احتساب شروع کردیا، جب کہ زیادہ تر کرپٹ کو گھر بھیج دیا گیا۔

عوام کو سرکاری محکموں اور اداروں تک رسائی کے لیے آرڈیننس تیار کیا، شکایات کے فوری ازالے کے لیے سی ایم ہاؤس میں الگ سے شکایات سیل قائم کیا، حکومتی اخراجات میں کمی گئی، بلدیاتی انتخابات کے لیے بلدیاتی نظام میں ترامیم کی گئیں، علاوہ ازیں قیام امن کے لیے عمران خان کی قیادت میں مذاکرات پر زور دیا گیا، جس کے لیے عملی اقدامات کیے گئے، ڈرون حملے بند کرانے کے لیے پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے نیٹو سپلائی کی بندش کی گئی اسی طرح امن و امان کے قیام کے لیے پولیس کی لازوال قربانیوں کو دیکھتے ہوئے اور ان کا حوصلہ بڑھانے کے لیے ان کی تنخواہیں پنجاب پولیس کے برابر کرنے کا اعلان کیا گیا۔

لائق زادہ لائق(شاعر، ادیب، ڈراما نگار اور نقاد)
2013ء میں بہت سے واقعات دلوں کو دہلانے والے رونما ہوئے جب کہ خیبر پختون خوا کو تو جیسے افتادوں نے اپنی گرفت میں لیا ہوا ہے۔ گذشتہ سال کو اگر مجموعی تناظر میں دیکھا جائے تو ہر شعبۂ زندگی میں جمود اور مایوسیوں کے سائے منڈلاتے رہے، وہ شعبہ چاہے معیشت سے تعلق رکھتا ہو، امن و امان سے اس کا تعلق ہو، شوبز سے وابستہ سرگرمیاں ہوں، ادب اور شعر و شاعری کا حوالہ ہو سب میں کچھ نہ کچھ تشنہ لبی دامن گیر رہی۔ یوں لگتا ہے کہ جس مقصد کے لیے مملکت خداداد کا وجود قائم ہوا تھا سب اس کے برعکس ہو رہا ہے۔ تخلیق کار خصوصاً شاعر معاشرے کے نباض ہوتے ہیں تو اس ضمن میں گزرا برس بھی اس حوالے سے مایوس کن رہا، کیوں کہ حب الوطنی اور معاشرے کی حقیقی عکاسی کی بجائے ایسے اشعار کہے گئے کہ ان کا پختون روایات سے دور کا بھی وابستہ نہیں۔

 

 photo 24_zps77f14021.jpg

ایسی شاعری گیتوں کی شکل میں نہ گھر میں سننے کے قابل ہے اور نہ بسوں میں اس کو کوئی سنجیدہ شخص سن سکتا ہے، کیوں کہ ایسی شاعری شاعرانہ آداب اور اسلوب سے عاری ہوتی ہے۔ یوں کہا جائے تو زیادہ مناسب رہے گا کہ یہ بازاری شاعری ہوتی ہے۔ اس لیے ایسی شاعری معاشرہ بناتی نہیں بل کہ بگاڑ دیتی ہے اور پچھلے برس اس قسم کی شاعری کا زور رہا۔ تاہم کبھی بھی ناامیدی کا دامن نہیں چھوڑنا چاہے اگر گذشتہ برس مایوسی کے بادل منڈلاتے رہے تو اس میں کہیں نہ کہیں سورج کی کرنیں بھی جلوہ گر ہوتی رہیں یعنی اچھے کام بھی ہوئے جو حوصلہ افزا ہیں۔

مولانا خلیل احمد(عالم دین)
2013ء بحیثیت مجموعی اور بطور خاص امن و امان کے حوالے سے زیادہ امید افزا نہیں رہا، کیوں کہ اس برس چند ایسے واقعات رونما ہوئے جس پر خون کے آنسو رویا جا سکتا ہے، کیوں کہ خودکش دھماکوں کا تسلسل جاری رہا، بے گناہ شہریوں کی موت کے پروانے ڈرون حملوں کے ذریعے آتے رہے۔ دوسری طرف اغواء برائے تاوان، ٹارگٹ کلنگ اور ذاتی دشمنیوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ بڑی سرعت کے ساتھ آگے بڑھتا رہا، جس سے عوام خوف کے سائے میں جیتے رہے اور کبھی سکھ اور چین نہیں رہا۔

لیکن میں سمجھتا ہوں اور یہ اٹل حقیقت بھی ہے کہ جب تک ہم منتشر رہیں گے یک جان نہیں ہوں گے تو اغیار اور طاقوتی قوتیں ہمیں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتی رہیں گی اور ہم یوں کم زور ہوتے جائیں گے، لیکن یہ حقیقت نہیں بھولنی چاہیے کہ اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کے بتائے ہوئے راستے پر چل کر ہی ہماری کام یابی و کامرانی ہے، جب تک ہم اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا نہیں ہوں گے ہم یوں ہی دوسروں کے زیرنگیں اور دست نگر رہیں گے۔ اس لیے ہمیں ذاتی طور پر اور بحیثیت مسلمان قوم اسلامی تعلیمات کی روح کے مطابق زندگی گزارنی ہو گی۔

حاجی حلیم جان(صدر انجمن مرکزی تاجران خیبرپختون خوا)
پچھلا برس تو پورے خیبر پختون خوا کے عوام کے لیے مایوس کن تو تھا ہی لیکن سب سے زیادہ کاروباری طبقہ متاثر ہوا، کیوں کہ بدامنی، لاقانونیت اور بھتاخوری کے باعث زیادہ تر سرمایہ کار اپنا سرمایہ دبئی اور دیگر خلیجی ممالک منتقل کرچکے ہیں۔ دوسرے درجے کے سرمایہ کار اسلام آباد اور لاہور اپنا سرمایہ بمعہ اہل و عیال منتقل کر چکے ہیں، جب کہ تیسرے درجے اور کم زور تاجر یہاں ناگفتہ بہ حالات میں کسمپرسی کی حالت میں اپنی کاروباری سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ بدامنی کے باعث پورے صوبے کی معیشت ٹھپ ہو کر رہ گئی ہے۔ رہی سہی کسر بجلی کی ناروا لوڈ شیڈنگ نکال چکی ہے، جب کہ آپ کو آئے دن دھمکی آمیز خطوط مل رہے ہیں۔

کسی سے بھتا وصول کیا جارہا ہے، کسی کو اغوا کر کے تاوان وصول کیا جارہا ہے، کسی کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا جارہا ہے، تو ایسے میں یہاں کاروباری سرگرمیاں کیسے فروغ پائیں گی اور کس طرح معیشت بہتری کی جانب گام زن ہو گی۔ خیبر پختون خوا کا سب سے بڑا تجارتی مرکز صوبائی دارالحکومت پشاور کے سب سے بڑے کاروباری مرکز قصہ خوانی بازار میں اگر 13 خودکش دھماکے ہوتے ہوں تو آپ خود ہی بتائیں کہ یہاں سرمایہ کاری کون کرے گا اور کاروباری سرگرمیاں کس طرح پروان چڑھیں گی، ایسی صورت حال میں تو بس ہر ایک کو اپنی جان کے لالے پڑ جاتے ہیں۔ اس ضمن میں ہماری حکومت سے درخواست ہے کہ امن کے قیام کے لیے ٹھوس اقدامات کے ساتھ کاروباری طبقے کو تحفظ فراہم کرنے سمیت تاجروں کو خصوصی مراعات دی جائیں اور ساتھ ٹیکسوں میں چھوٹ دی جائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔