مسئلہ فلسطین

صابر کربلائی  جمعـء 16 اپريل 2021

جب بھی فلسطین کی بات ہوتی ہے تو اذہان میں حق اور باطل کا پیمانہ سامنے آجاتا ہے۔ یہ بالکل اسی طرح سے ہے کہ جب جب کربلا کا ذکر ہوتا ہے تو حسینی کردار، یزیدی کردار کو شکست خوردہ کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اذہان حق اور باطل کے معرکہ کی جانب متوجہ ہو جاتے ہیں۔ یہ فارمولہ رہتی دنیا تک قائم و دائم رہے گا۔

حق کی قوتیں باطل قوتوں کے ساتھ نبرد آزما رہیں گی اور ممکن ہے کبھی ظاہری طور پر حق کی قوت کو دو قدم پیچھے ہونا پڑتا ہو لیکن آخرکار حق ہی ہے جو غالب آتا ہے اور غالب ہی آنے والاہے۔ بالآخر باطل کو نابود ہونا ہی ہے۔ فلسطین کی جب جب بات ہوتی ہے تو ہمارے سامنے ایک ایسا خاکہ کھنچا چلا جاتا ہے کہ جس میں صہیونی جرائم کی ایک طویل داستان رقم ہے۔ جرائم کی تاریخ ایک سو سال پر محیط ہو چکی ہے۔

جیسا کہ کالم کے عنوان میں ہی بیان کیا گیا ہے کہ فلسطینی عوام کے خلاف صہیونی جرائم میں عالم مغرب کی آشیرباد یا شراکت داری ۔ جی ہاں یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے ۔تاریخ کا مطالعہ کرنے سے علم ہوتا ہے کہ سرزمین فلسطین پر صہیونیوں کی ناجائز ریاست بنانے کے لیے برٹش آرتھر بالفور ، امریکی ٹریو مین اور اسی طرح دیگر مغربی ممالک کے مختلف سیاست کاروں نے صہیونیوں کا ساتھ دیا۔ فلسطین پر تسلط کے لیے صہیونیوں کو ہر قسم کی آزادی فراہم کی تا کہ وہ فلسطینی عوام کا قتل عام کریں اور ان کو انھی کی زمینوں اور گھروں سے بے دخل کریں۔

پہلی جنگ عظیم اور دوسری جنگ عظیم کے درمیانی حالات میں اگر صرف فلسطین کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاںہوجاتی ہے کہ عالم مغرب نے صہیونیوں کے فلسطینی عوام کے خلاف جرائم کی پشت پناہی اور ان کی مدد کی ہے۔ اس لیے اگر آج کی جدید دنیا میں یہ بات کہی جائے کہ فلسطینی عوام کے خلاف صہیونیوں کے ایک سو سالہ جرائم اور ظلم میں امریکا ، برطانیہ او ر دیگر مغربی ممالک برابر کے شریک ہیں تو یہ بات بالکل بے جا نہ ہو گی۔

آج بین الاقوامی فورم پر امریکی اور مغربی سامراج فلسطین پر قائم اسرائیل کا حامی نظر آتا ہے۔ مغربی ذرایعابلاغ کی حالت تو اس طرح کی ہے جیسے صہیونیوں کے غلام ہوں۔ امریکی اور یورپی سامراج فلسطین میں جاری قتل و غارت گری اور ہر قسم کی انسانی حقوق کی پامالی سمیت نا انصافیوں میں برابر کا شریک جرم ہے۔آج جوکچھ جدید دنیا میں فلسطین کے ساتھ کیا جا رہا ہے، یہ خود جدید دنیا کے چہرے پر ایک بدنما داغ کی مانند ہے۔ عالمی اداروں کی کھلی بے حسی ان کی کمزوری اور حیثیت کو واضح کر رہی ہے۔

آج فلسطینی عوام دنیا کی سب سے زیادہ مظلوم عوام ہے۔ جہاں اس معاملہ میں غرب برابرکا شریک ہے وہاں مسلم ممالک بھی اس معاملہ میں صرف نظر کیے ہوئے ہیں۔ آج مسلم دنیا کے چند ممالک فلسطینی عوام سے دور کھڑے ہو چکے ہیں۔ انھیں فلسطین کی مذہبی اور ثقافتی حمیت سے بھی کوئی غرض نہیں۔ان کے لیے فلسطینی عوام کا بہنے والا خون کوئی اہمت نہیں رکھتا ہے۔ انتہائی دکھ کے ساتھ یہ بات کہنا پڑتی ہے کہ مسلم دنیا کی چند حکومتیں اسرائیل کے ساتھ یارانہ بنا چکی ہیں۔

یمن میں براہ راست امریکا اور اسرائیل کے ساتھ مل کر اپنے ہی کلمہ گو بھائیوں کا قتل عام کیا جا رہا ہے۔ کچھ افریقی ممالک بھی اسی راستہ پر چل نکلے ہیں۔ اب ایسے حالات میں یہ مسلم حکمران ہوں یا مغربی حکمران ہوں ، ان میں کوئی فرق باقی نہیں رہا ہے۔ یہ تاریخی اعتبار سے شاید فلسطینی عوام کے لیے بدترین دور تشبیہ کیا جائے۔ یہاں ان حکمرانوں کے کردار سے نہ صرف فلسطین کی تاریخ کے لیے سیاہ باب ہے بلکہ دنیا کی دیگر مظلوم اقوام کہ جن میں سرفہرست فلسطین کے بعد کشمیری ہیں ، ان کو بھی دھچکا اور گہری چوٹ پہنچ رہی ہے۔

یہ سوال مقبوضہ کشمیر کی وادی میں جنم لے چکا ہے کہ جن مسلمان ممالک نے مغربی ممالک کی تقلید کرتے ہوئے اسرائیل کی پردہ داری شروع کر دی ہے تو اب ان سے کشمیر کے معاملہ پر کیا توقع کی جا سکتی ہے؟۔یقینا مقبوضہ کشمیر کے حریت پسندوں کی یہ تشویش بر حق ہے۔

حیرت انگیز اور افسوس ناک بات تو یہ ہے کہ مسلم حکمرانوں نے اسرائیل کے ساتھ دوستانہ تعلقات کی ابتداء ایک ایسے زمانہ میں شروع کی ہے کہ جب خود ریاست اسرائیل سیاسی طور پر غیر مستحکم نظر آ رہی ہے اور اسی طرح عسکری عنوان سے بھی اب اسرائیل کی پوزیشن یہ ہے کہ آخری معرکہ انھوںنے 48 گھنٹوں سے زیادہ میدان میں باقی نہیں رہ پائے۔اسی طرح حماس اور دیگر فلسطینی مزاحمتی گروہوں نے سیاسی و عسکری میدان میں دن دگنی اور رات چوگنی ترقی حاصل کی ہے۔

جہاں اسرائیل میں ایک سال میں تین مرتبہ انتخابات ہوئے ہیں وہاں فلسطین کی قانون ساز کونسل کے انتخابات میں حماس اور مزاحمتی گروہوں کی کامیابی نے بہت سے سوالات کو جنم دیا ہے۔ ایک طرف اسرائیل ہے کہ جس نے اعلان کر رکھا ہے کہ وہ کسی طور پر بھی اپنے ظالمانہ اقدامات سے رکنے والا نہیںہے ۔ اس کی بنیادی وجہ شاید امریکا اور یورپی ممالک سمیت اب بعض مسلم حکمرانوں کی جانب سے اسرائیل کی پیٹھ تھپ تھپانا ہو۔ بہر حال مسلم دنیا کے ممالک کو چاہیے کہ وہ فلسطینی عوام کی امنگوں کا خیال رکھیں۔

اگر فلسطین کی مدد نہیں کر سکتے اور کرنا نہیں چاہتے تو کوئی بات نہیں لیکن انھیں چاہیے کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کرنے اور اس کے ساتھ سفارت کاری کے فیصلے واپس لیں۔ اس عنوان سے لاطینی امریکا کے ممالک اگر چہ وہ کئی ممالک سے نسبتا چھوٹے ہیں لیکن پھر بھی انھوںنے اسرائیل سے تعلقات منقطع کرنے کے اقدامات کیے ہیں جو قابلِ تحسین ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ ناجائز ریاست اسرائیل کا قیام اس لیے عمل میں لایا گیا تھا تا کہ مغربی ایشیائی ممالک میں مسلمان حکومتوں کو کمزور کر کے اس خطے کے وسائل پر اسرائیل قابض ہو جائے اور گریٹر اسرائیل کے ناپاک منصوبہ کو عملی جامہ پہنا سکے۔عالم مغرب نے اس منصوبہ کی تکمیل کے لیے اسرائیل کی ہر ممکنہ مدد جاری رکھی تا کہ اسرائیل محفوظ رہے ۔

بہرحال گزشتہ ستر سالوں میں اب اسرائیل کی صورتحال یہ ہے کہ وہ مسلسل سازشوں اور قتل و غارت گری سمیت قبضوں کے بعد آخر کار اپنے ہی گرد دیواریں قائم کر رہا ہے۔ یعنی اسرائیل پھیلنے کی بجائے سکڑ رہا ہے۔ ان سب باتوں سے بڑھ کر آج امریکا میں یہودیوں کی ایک بہت بڑی تعداد ایسی بھی موجود ہے جو اسرائیل کے وجود کو جعلی تصورکرتی ہے اور فلسطین کو فلسطینیوں کا مانتی ہے۔

مسئلہ فلسطین اور اس کی حمایت ایک ایسا وسیلہ ہے کہ جس کی مدد سے مسلم امہ متحد ہو سکتی ہے بلکہ عالم مغرب کی تمام سازشوں اور جرائم کا منہ توڑ جواب بھی دے سکتی ہے۔ آج دنیا بھر میں عوام کے جذبات اسرائیل مخالف ہیں، دنیا کے عوام مظلوم اقوام کے ساتھ ہیں۔

خوش آیند بات ہے کہ پاکستان میں ہماری نوجوان نسل فلسطینیوں کے ساتھ بھرپور اظہار یکجہتی کررہی ہے۔ پاکستان ایک ایسا ملک ہے کہ جس نے روز اول سے ہی فلسطین کازکی حمایت جاری رکھی ہے اور یہ حمایت پاکستان کو بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کی اصولی و نظریاتی سیاست کے اجزاء سے حاصل ہوئی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔