ہم ادھوری زندگی جی رہے ہیں

آفتاب احمد خانزادہ  جمعـء 16 اپريل 2021
aftabkhanzada2@yahoo.com

[email protected]

نامور ادیب ٹم ہینسل نے اپنی حیران کن کتاب ’’You Gotta Keep Dancin ‘‘میں لکھا ہے ’’ درد و کرب ناگزیر ہے لیکن مصیبت زدہ ہونا اختیاری ہے‘‘ پاکستانیوں سے زیادہ قابل رحم اور قابل ترس دوسرے کوئی انسان ہو ہی نہیں سکتے ہیں۔

ایک طرف وہ اپنے ہاتھوں مر رہے ہیں ، دوسری طرف اپنوں کے ہاتھوں مررہے ہیں، تیسری طرف اپنے حکمرانوں کے ہاتھوں مر رہے ہیں ، چوتھی طرف ملاوٹ ، غربت، افلاس ، بیماریوں کے ہاتھوں مر رہے ہیں ، پانچویں طرف جہالت اور بے روزگاری کے ہاتھوں مررہے ہیں۔

چھٹی طرف زہریلے پانی پینے سے مررہے ہیں، ساتویں طرف لالچ ،کرپشن ،کمیشن اور لوٹ مارکے ہاتھوں مررہے ہیں، آٹھویں طرف دہشت گردوں کے ہاتھوں مررہے ہیں، نویں طرف انتہا پسندی کے ہاتھوں مررہے ہیں اور باقی جوابھی تک زندہ ہیں ، ان کی حالت مردوں سے زیادہ بدتر ہوچکی ہے اگر آپ جو ابھی تک زندہ ہیں ان میں سے کسی سے بھی یہ سوال کرنے کا گناہ کربیٹھیں کہ ’’ ان کی زندگی کیسے گذر رہی ہے ‘‘ تو پھر ان کا جواب سن کراگر آپ اپنا ذہنی توازن کھو نہیں بیٹھتے ہیں تو پھر آپ یا تو بہت نیک آدمی ہیں یا پھر موجودہ صورتحال کے ذمے داروں میں سے ایک ہیں کیونکہ اس قدر درد وکرب دکھ سننے کے بعد انسان کو اپنا ہوش و حواس برقرار رکھنے کے لیے گوشت پوست کا نہیں بلکہ لوہے یا لکڑی کا ہونا ضروری ہے۔

آئیں! ان جیتے جاگتے انسانوں کے جو اب تک زندہ ہیں اور جو سب کے سب گوشت پوست کے ہیں اور جو پاکستان میں بستے ہیں، ان کے شب وروز سے آگاہی حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کی تعداد تقریباً بائیس کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ ان میں تقریباً 70 فیصد انسان غربت کی لکیر کے نیچے سسک سسک کر بلک بلک کر اپنی زندگی بتارہے ہیں ، جن کی زندگی روز ایک ایک روٹی کے لیے ترستے ترستے گذر رہی ہے۔ ان سب کے گھروں کے چاروں طرف کچروں اور گندگیوں کے بڑے بڑے پہاڑ بنے ہوئے ہیں۔

ان سب کو کالی جہالت نے دبوچ رکھا ہے یہ سب وہ زہریلا اور گندہ پانی پینے پر مجبور ہیں جو مہذب ممالک میں جانوروں تک کو نہیں پلایا جاتا ہے ، ان سب کے گھروں پر بیماریوں نے جبری قبضہ کر رکھا ہے۔ آپ کو ان کی بستیوں میں بڑی سے بڑی ، درمیانی سے درمیانی اور چھوٹی چھوٹی تمام بیماریوں کے جراثیم وافر مقدار میں بغیر ڈھونڈے اور پریشان ہوئے باآسانی اور مفت میں دستیاب ہو جاتے ہیں انھیںہر امیر وکبیر اور با اختیار آدمی گالیاں دینا اور ذلیل کرنا اپنا مذہبی فریضہ سمجھتا ہے جوگندگی کے علاوہ اورکچھ نہیں کھاتے ہیں۔

ان کی زندگیوں میں تپتا ہوا سورج کبھی غروب نہیں ہوتا ہے ، موم بتی اور لالٹین کی مدھم روشنی پوری رات ان کے گھروں میں مہمان بنی رہتی ہیں۔ ان سب نے اور ان کے بچوں نے کبھی اسکول کی شکل تک نہیں دیکھی ہے۔ ان بستیوں میں روز ماتم ہونا معمول کی بات ہے اجتماعی گریہ سونے سے پہلے لازمی ہے اپنے آپ کومارے پیٹے بغیر سوکھی روٹی ہضم ہی نہیں ہو پاتی ہے۔ انھیںانتخابات میں ووٹ ڈالنے اور جلسوں کو بھرنے کے لیے جانوروں کی طرح گاڑیوں میں ڈال کر لے جایا جاتا ہے اور پھر کام ختم ہونے کے بعد ان کی واپسی ہزاروں دھکے کھاتے ہوئے اور میلوں پیدل چل کر ہوتی ہے۔

اگر اس روز ان کی قسمت اچھی ہوتو لے جانے والے سوروپے دے دیتے ہیں ورنہ گالیاں ، ذلت اور دھکے تو ضرور ہی ملتے ہیں ان سب بائیس کروڑ لوگوں نے اور ان کے گذرے آبائو اجداد نے خوشحالی ، ترقی ، آزادی ، عزت کے بڑے بڑے اور لمبے لمبے خواب دیکھے تھے اور پاکستان بننے سے پہلے لمبی لمبی چھوڑ ا کرتے تھے اب اپنے خوابوں کو یادکرکے روز انھیںجوتے مارا کرتے ہیں اور ایسے برے برے خواب دیکھنے پر اپنے آپ کو لعنت بھیجتے رہتے ہیں اور رہ گئے باقی 25 فیصد انسان تو وہ بڑی ہی مشکل سے روز پیٹ کی دوزخ کوبھر پاتے ہیں۔

جب ہم ٹم ہینسل کی کہی گئی بات کو تسلیم کرلیتے ہیں کہ ’’ مصیبت زدہ ہونا اختیاری ہے ‘‘ تو پھر ہمیں یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ ہماری ساری تکلیفیں ، مصیبتیں ، اذیت ، دکھ ودرد سب کے سب اختیاری ہیں اور ہم نے اپنے لیے یہ ہی زندگی چنی ہے ، ہمیں تکلیفوں ، مصیبتوں ، اذیتوں ، دکھ درد میں ہی تسکین ملتی ہے۔ ان میں ہی سکھ ملتا ہے ورنہ ہم اپنے حالات کو بدلنے کے لیے اٹھ کھڑے نہیں ہوتے اور ظالموں ، غاصبوں ، لٹیروں اور قاتلوں کو للکارنے کی جرأت نہیں کر بیٹھتے۔ کیا ہم میں جرأت کی کمی ہے کیا ہم سب جرأت کے اوصاف کے بغیر زندہ ہیں۔

یاد رہے ہم سب ایک ادھوری دنیا میں ادھورے لوگوں کے ساتھ جی رہے ہیں۔ کوئی شخص ہم سے یہ وعدہ نہیں کرسکتا کہ ہماری زندگیاں ، اذیت اور مایوسی سے آزاد ہوں گی ا سی طرح کوئی شخص ہم سے یہ وعدہ ہ نہیں کرسکتا کہ ہماری زندگیاں مکمل طور پر محفو ظ اور ہمارے قابو میں ہوں گی۔ ہم اس صورت حال میں اکیلے نہیں ہیں ہر زندہ انسان اسی صورت حال سے دوچار ہے۔

سوال یہ نہیں ہے کہ ہمارے ساتھ ایسا ’’کیوں ‘‘ ہوتا ہے، سوال یہ ہے کہ ہم اس سے ’’ کس طرح ‘‘ نبردآزما ہوتے ہیں ہوسکتاہے کہ ہم میں سے بہت سے لوگوں نے درج ذیل دعا اپنے گھروں اور دفتروں میں آویزاں کی ہوئی ہو ’’ خدا نے مجھے عطا کی ہے ۔ ان چیزوں کوقبول کرنے کی ہمت ، جنھیںمیں تبدیل نہیں کرسکتا ۔ ان چیزوں کو تبدیل کر نے کی جرأت ، جنھیںمیں تبدیل کرسکتا ہوں ‘‘ ہم جو کچھ بنتے ہیں اس کاانحصار حالات پر نہیں بلکہ فیصلوں پر ہوتا ہے جب ہم کسی مشکل صورت حال سے دوچار ہوتے ہیں ایک فیصلہ ہمارے سامنے ہوتا ہے ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ مشکل صورتحال کے سامنے ہتھیار ڈال دینے ہیں یا اس کا مقابلہ کرنا ہے۔

زندگی کی حقیقتوں کے مقابلے میں کھڑے ہونے کے لیے جرأت درکار ہوتی ہے۔ ونسٹن چرچل جرأت کونکتہ آغاز تصور کرتا تھا ، اس نے کہا تھا ’’جرأت انسانی اوصاف میں سب سے پہلا وصف ہے کیونکہ یہ باقی سب کی ضامن ہے ‘‘ وہ روز مرہ جرأت کی بات کرتا تھا۔ یاد رہے نہ توکوئی شخص جرأت کے ساتھ پیدا ہوتا ہے اور نہ ہی اس کے لیے کوئی غیر معمولی خصوصیات درکار ہوتی ہیں جرأت ہر شے سے بڑھ کر ایک فیصلہ ہوتی ہے۔

عظیم الہیات دان اور The Courge to Be کے مصنف پال ٹلچ سے اس کے مرنے سے تھوڑا عرصے پہلے پوچھا گیا کہ اس کی کتاب کا مرکزی خیال کیا ہے اور روز مرہ کی جرأت سے اس کی کیا مراد ہے۔ پال ٹلچ نے کہا کہ حقیقی جرأت زندگی کی تمام تر مشکلات اور اذیتوں کے باوجود اسے ’’ ہاں ‘‘ کہنا ہے مشکلات اور اذیت تو انسانی ہستی کا حصہ ہیں۔

اس نے کہا کہ زندگی اور ہمارے اپنے حوالے سے روزانہ کی بنیاد پر مثبت اور بامعنیٰ چیزوں کو ڈھونڈنا جرأت کا متقاضی ہوتا ہے جب ہم ایسا کرنے پر قادر ہوتے ہیں تب ہم نہ صرف زندگی کو مکمل طور پر قبول کرتے ہیں بلکہ اسے مکمل طور پر جینا بھی شروع کردیتے ہیں زندہ رہنے کی جرأت کی سب سے اعلیٰ صورت زندگی سے محبت کرنا ہے ‘‘ آئیں! ہم سب اپنی گذری ہوئی زندگی پر لعنت بھیج کر اپنے آپ سے دوبارہ محبت کرنا شروع کر دیں، جب ہم ایسا کرنا شروع کردیں گے تو ہم میں جرأت خود بخود پیدا ہوجائے گی اور جب جرأت پیدا ہوجائے گی تو ہمیں اس حال پر پہنچانیوالے ملک چھوڑکر بھاگ کھڑے ہونگے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔