’’کنگ بابر اعظم‘‘

سلیم خالق  جمعـء 16 اپريل 2021
’’یہ لڑکا بہت محنتی ہے، آپ دیکھ لیجیے گا چند برس بعد بہت بڑا اسٹار بنے گا‘‘۔ فوٹو؛ فائل

’’یہ لڑکا بہت محنتی ہے، آپ دیکھ لیجیے گا چند برس بعد بہت بڑا اسٹار بنے گا‘‘۔ فوٹو؛ فائل

کئی برس پہلے میں دبئی میں شعیب ملک کے ساتھ کہیں بیٹھا تھا وہاں انھوں نے ایک شرمیلے سے نوجوان کی جانب دیکھ کر یہ بات کہی تھی،شعیب کی یہ خاصیت ہے کہ وہ نئے کھلاڑیوں کی ہمیشہ بہت حوصلہ افزائی کرتے ہیں،وہ لڑکا بابر اعظم تھا جو آج نہ صرف پاکستان بلکہ دنیائے کرکٹ کا سپراسٹار بن چکا۔

ہمارے ملک میں ایک عجیب روایت ہے کہ اگر آپ کچھ نہیں کرتے اور کسی کیلیے خطرہ نہیں بن سکتے تو بہت تعریفیں ہوتی ہیں، لیکن اگر نام کما لیں تو مخالفین بہت زیادہ پیدا ہو جاتے ہیں جو غلطی یا ناکامی کا انتظار کرتے ہیں، پھر جب موقع ملے تونیچے گرانے کیلیے زمین آسمان ایک کر دیتے ہیں، بیچارے بابر اعظم کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔

ہمیں شکر کرنا چاہیے کہ برسوں بعد کوئی ایسا کھلاڑی ملا جس نے دنیا بھر میں نام کمایا ورنہ ہم تو اب بھی صابن اور شیمپو بیچنے کیلیے بھی سابق اسٹارز کو لے رہے تھے،میں نے پہلے بھی کہا تھاکہ ایسا محسوس ہوتا ہے بابر اعظم کی کامیابیاں بعض لوگوں کو ہضم نہیں ہوتیں، خاص طور پر شعیب اختر جیسے سابق کرکٹرز تو ان کے پیچھے پڑے رہتے ہیں،جنوبی افریقہ سے دوسرے ٹی ٹوئنٹی میں بابر اعظم نے سست بیٹنگ کی اس میں کوئی دو رائے نہیں ہوسکتی۔

آپ ان پر تنقید کرسکتے تھے لیکن یہ کہنا کہ49 بالز ویرات کوہلی کو ملتیں تو نجانے کیا کر جاتا، یہ بات آپ کے اندر موجود حسد ظاہر کرتی ہے، صرف ایک اننگز پر بابر کو ولن بنا دیا گیا، کوئی اور کھلاڑی ہوتا تو تنقید کے نشتر کھا کر اس کی کارکردگی ہی متاثر ہو جاتی لیکن بابر ذہنی طور پر بہت مضبوط ہیں، انھوں نے کسی بات کی پروا کیے بغیر اگلے ہی میچ میں 49 گیندوں پر سنچری بنا دی،اب مخالفین بغلیں جھانک رہے ہوں گے،اسی دن وہ ویرات کوہلی کو پیچھے چھوڑ کر ون ڈے رینکنگ میں نمبر ون بیٹسمین بھی بن گئے۔

ایسی کامیابیاں کم ہی کھلاڑیوں کے حصے میں آتی ہیں، عموماً کپتان بننے سے کرکٹرز کی کارکردگی میں زوال آتا ہے، وہ اپنے کھیل سے زیادہ ٹیم کے بارے میں سوچنے لگتے ہیں، توازن بگڑنے سے پرفارمنس کا معیار گرتا ہے، بابر کو یہ کریڈٹ دینا چاہیے کہ انھوں نے ایسا نہیں ہونے دیا بلکہ ان کی بیٹنگ میں زیادہ نکھار آ گیا ہے، حالیہ کچھ عرصے میں وہ بعض ذاتی وجوہات کی وجہ سے بھی پریشان رہے لیکن فیلڈ میں انھوں نے اس کا کوئی اثر نہیں پڑنے دیا، پہلے وہ بطور کپتان مصباح الحق کے سائے میں رہتے تھے لیکن اب اپنے فیصلے بھی کرنے لگے ہیں۔

سلیکشن معاملات میں کھل کر رائے دیتے ہیں، پلیئنگ الیون میں بھی ان کی بات سب سے زیادہ مانی جانی ہے، آہستہ آہستہ ان میں اعتماد بڑھنے لگا، یہ بات پاکستان کرکٹ کیلیے خوش آئند ہے، ایک پْراعتماد کپتان زیادہ مفید ثابت ہوتا ہے، جنوبی افریقہ میں کپتان بابر اور بیٹسمین بابر دونوں ہی کامیاب ثابت ہوئے، چند ماہ بعد کسی کو یاد بھی نہیں ہو گاکہ پروٹیز ٹیم کے کئی اسٹارز بھارت چلے گئے یا ان فٹ تھے صرف پاکستان کی فتح ہی ریکارڈ بک کا حصہ بنے گی، کوئی ہم نے تھوڑی جنوبی افریقہ سے کہا تھا کہ آپ دوسرے درجے کی ٹیم میدان میں اتاریں یہ ان کی اپنی چوائس تھی، اس کی وجہ سے آپ پاکستان سے جیت کا کریڈٹ نہیں چھین سکتے۔

بابر اعظم کا یہ انداز ہے کہ وہ صرف قریبی لوگوں میں ہی گھلتے ملتے ہیں، ان کے دوست بتاتے ہیں کہ وہ بابر جو اسکرین پر نظر آتا ہے اس بابر سے بالکل مختلف ہے جو وہ قریبی دوستوں کے ساتھ دکھائی دیتے ہیں، وہاں وہ ہنسی مذاق بھی کرتے ہیں لیکن میڈیا میں دوستیاں بنانے یا کیمرے کے سامنے عجیب حرکات کرنا انھیں پسند نہیں، وہ مغرور نہیں البتہ ریزرو رہنا انھیں اچھا لگتا ہے، بابر کی کامیابیوں میں ان کے والد کا بہت اہم کردار ہے، اب بھی ہر مشکل میں وہ ڈھال بن کر اپنے بیٹے کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں، وہ اپنے گھر پر ایک عام لڑکے کی طرح رہتے ہیں، اتنی کامیابیوں نے بھی ان کے کالر کھڑے نہیں کیے۔

بابر کا کیریئر بنانے میں سابق کپتان سرفراز احمد اورسابق کوچ مکی آرتھر کا بھی اہم کردار ہے دونوں نے انھیں اعتماد دیا جس سے انھیں اپنا کھیل نکھارنے کا موقع ملا، اب بابر کے پاس اختیار ہے انھیں بھی نوجوان کھلاڑیوں کی ایسے ہی رہنمائی اور مدد کرنی چاہیے، ہمارے ملک میں مسئلہ یہ رہا کہ کسی بڑے کرکٹر نے اپنے متبادل تیار نہ کیے، جاوید میانداد، انضمام الحق یا یونس خان نے اپنا کوئی متبادل بنانے میں کوئی کردار ادا نہ کیا، وسیم اکرم اور وقار یونس نے بھی ملک کو اپنے جیسے بولرز نہ دیے۔

اس کے باوجود یہ بابر اعظم کی خوش قسمتی ہے کہ انھوں نے کم عمری میں ہی اتنے کارنامے انجام دے دیے، وہ ملکی کرکٹ کا اثاثہ ہیں، اگر بابر اعظم نے اپنے سے آدھی صلاحیتوں کا حامل کوئی بیٹسمین ملک کو دے دیا تو یہ ان کا بڑا احسان ہوگا، بابر سیلف میڈ کرکٹر ہیں، ان کے والد نے انھیں اسٹار بنانے میں اہم کردار ادا کیا، کلب لیول کے کوچ نے رہنمائی کی، دلچسپ بات یہ ہے کہ اب ہر دوسرا سابق کرکٹر ان کو اسٹار بنانے کا کریڈٹ لیتا ہے، ان کے رینکنگ میں نمبر ون ہونے کو پی سی بی نے بھی خوب کیش کرایا۔

اچھی بات ہے ایسا ہی کرنا چاہیے لیکن جب کوئی کھلاڑی مشکل میں ہو تب بھی اس کی مدد کیا کریں، ایسے وقت میں خود کو سائیڈ پر کر لینا اچھی بات نہیں، آخر میں سابق ٹیسٹ کرکٹرز سے میری یہی درخواست ہے کہ آپ کا اپنا وقت تھا اس وقت بڑی عزت ملی، اسٹار بنے، آج بابر اعظم کا دور ہے، اس حقیقت کو تسلیم کریں۔

رکشے کے پیچھے لکھا ہوتا ہے ناں کہ ’’محنت کر حسد نہ کر‘‘ بس اسے ذہن نشین کر لیں ظاہر ہے اب کھیل تو سکتے نہیں لہذا محنت کر کے یوٹیوب سبسکرائبرز اور ویوز ہی بڑھا لیں، چند ہزار ڈالر زیادہ مل جائیں گے لیکن پلیز بابر اعظم کی ناکامیوں کا انتظار نہ کریں،انھیں پاکستان کیلیے کارنامے انجام دینے دیں،آپ کیلیے ویرات کوہلی بڑا ہے لیکن ہمارے لیے دنیا کا نمبر ون کرکٹر بابر اعظم ہی ہے، کنگ بابر اعظم، سمجھ گئے ناں۔

(نوٹ: ٹویٹر پر آپ مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔