ماہ صیام: دُعاؤں کا اہتمام

محمد عنصر عثمانی  جمعـء 16 اپريل 2021
’’اور جس وقت میرے بندے آپ (ﷺ) سے میرے متعلق سوال کریں تو کہہ دیجیے کہ میں قریب ہوں،ہر دعا کرنے والے کی دعا کو قبول کرتا ہوں۔‘‘ فوٹو: فائل

’’اور جس وقت میرے بندے آپ (ﷺ) سے میرے متعلق سوال کریں تو کہہ دیجیے کہ میں قریب ہوں،ہر دعا کرنے والے کی دعا کو قبول کرتا ہوں۔‘‘ فوٹو: فائل

اﷲ پاک اپنے بندوں کی بخشش کے سارے دروازے رمضان المبارک میں کھول دیتے ہیں۔ یہ انسان ہی ہے جو شہ رگ سے بھی قریب اپنے پروردگار سے دُور بھاگتا ہے۔ اور اس سے نہ مانگنے کی عادت اپنا لیتا ہے۔

اﷲ پاک کو ندامت کے آنسو بہت پسند ہیں۔ جب بندہ عجز و انکساری کے ساتھ اپنے گناہوں کو تسلیم اور اس پر ندامت کا اظہار کرتا ہے تو اﷲ رب العالمین فرشتوں کو گواہ بنا کراس کی مغفرت کا فیصلہ فرما دیتے ہیں۔ کیوں کہ اﷲ کو مانگنے والے، گریہ وزاری اور آنسو بہانے والے بندے پیارے لگتے ہیں۔

جو بندے اﷲ پاک سے دعا کا تعلق جوڑ لیتے ہیں اُن کی کوئی مشکل اور کوئی حاجت ایسی نہیں ہوتی جو بَر نہ آتی ہو۔ لیکن دعا کی قبولیت کے لیے شرط ہے کہ گناہوں پر احساس ندامت ہو، آئندہ نہ کرنے کا پختہ ارادہ ہو، کیے گئے گناہوں پر شرم ساری ہو۔ اس لیے بندہ اپنی اصلاح کے لیے اپنے اور اﷲ کے درمیان دعا کے ذریعے مضبوط رابطہ قائم کرتا ہے۔

ماہ صیام میں ہر عبادت کا بے شمار ثواب ملتا ہے اور کوئی بھی دعا رَد نہیں ہوتی۔ افطار اور سحر کے وقت، نمازوں کے اوقات میں، تلاوتِ قرآن مجید کے بعد دعاؤں کا خوب اہتمام کرنا چاہیے۔ افطار اور سحر ایسے وقت ہیں جب اﷲ پاک دعائیں قبول فرماتے ہیں۔ لہٰذا ہمیں رب کریم سے ہر نیک تمنا کی دعا ان اوقات میں ضرور کرنی چاہیے۔

دعا کو عبادت کا مغز کہا گیا ہے۔ دعا ایسی عبادت ہے جو اﷲ کو بے حد خوش کر دیتی ہے۔ اﷲ پاک کے ارشاد گرامی کا مفہوم: ’’اور تمہارے رب نے کہہ دیا ہے کہ مجھے پکارو میں تمہاری دعائیں قبول کروں گا۔ اﷲ کو مانگنے والے پسند ہیں جو نہیں مانگتے اﷲ ان سے سخت غضب ناک ہوتے ہیں۔‘‘

اﷲ پاک سے دنیاوی امور سے متعلق سوال کریں اور اخروی زندگی کے لیے دعائیں مانگیں۔ بہتر یہ ہے کہ جب ہاتھ اٹھائیں تو اخروی زندگی کو دنیاوی زندگی پر مقدّم رکھیں۔ بہت سے لوگ اﷲ سے صرف دنیاوی آرزؤں کی مانگ کر رہے ہوتے ہیں اور دنیاوی معاملات میں آسانی کے لیے رب کے حضور اپنی حاجات پیش کر رہے ہوتے ہیں۔ اس میں کوئی حرج کی بات نہیں ہے۔ تمام اسباب اسی کے قبضۂ قدرت میں ہیں۔ وہی تمام کاموں کا بنانے والا ہے۔ لیکن ہمیں چاہیے کہ دعا کی ابتداء اپنی غرض سے نہ ہو۔ دنیا ہماری ضرورت کی چیز ہے۔ اس لیے ہمیں اس کی فکر کے ساتھ دارالجزاء کی بھی فکر کرنی ہے۔ ابتدا و انتہاء دونوں کی خیر مانگنی چاہیے۔

قرآن مجید میں اﷲ کے فرمان کا مفہوم: ’’اور جس وقت میرے بندے آپ (ﷺ) سے میرے متعلق سوال کریں تو کہہ دو کہ میں قریب ہوں، ہر دعا کرنے والے کی دعا کو قبول کرتا ہوں، پس وہ میرے احکامات کی تعمیل کریں اور مجھ پر اعتماد رکھیں تاکہ وہ راہ نمائی پائیں۔‘‘ (البقرہ)

نبی کریم ﷺ اکثر یہ دعا مانگا کرتے تھے کہ اے اﷲ! اپنی محبّت کو میرے لیے سب سے زیادہ محبوب بنا دے۔

دعا ہمیشہ مکمل یقین سے مانگنی چاہیے۔ دعا میں عاجزی کا رنگ ہو۔ کیوں کہ اﷲ پاک نے جس چیز کے دینے کا وعدہ کیا ہے تو پختہ یقین کرلیں کہ دعا سے وہ مل کر رہے گی۔ اور رمضان المبارک میں تو اس کے ملنے کا یقین بہ درجہ اتم ہونا چاہیے۔ اس کے نہ ملنے کا کوئی شک شبہ دل میں نہ ہو۔ بہت سے لوگ کثرت دعا کا اہتمام تو کرتے ہیں لیکن جلد بازی میں مایوس ہو کر دعا کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ اس وجہ سے کہ ہماری تو دعائیں ہی قبول نہیں ہوتیں۔

یاد رکھیں! اﷲ پاک ہر بندے کی دعا کو سنتے ہیں اور بہ وقت ضرورت قبول فرماتے ہیں۔ بعض مرتبہ دعا فوری قبول کر لی جاتی ہے اور بعض مرتبہ اس میں وقت لگ جاتا ہے۔ لہٰذا ہمیں دنیاوی و اخروی ہر قسم کی دعائیں صدق دل سے مانگنی چاہییں کہ ان دعاؤں کو اﷲ پاک اپنی مشیت سے قبول فرمائیں۔ اس لیے کہ بندہ تو ہر حاجت مانگ لیتا ہے۔ مگر وہ چیز بندے کے لیے کب مفید ہے، یہ صرف اﷲ جانتے ہیں۔ حدیث پاک میں آیا ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اﷲ سے مانگو تو قبولیت کے یقین سے مانگو، یاد رکھو! اﷲ تعالیٰ کسی غافل اور لاپروا کی دعا قبول نہیں فرماتا۔ اس سے معلوم ہوا کہ دعا کی عدم قبولیت کی وجہ بھی ہماری بشری کم زوریاں ہوتی ہیں۔

رمضان المبارک کی بابرکت اور رحمت بھری ساعتوں میں بندہ مؤمن گناہوں سے محفوظ ہوجاتا ہے۔ کئی معاصیات اس سے دُور ہو جاتے ہیں۔ احترام رمضان میں ہر بندۂ مومن کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ حتی الامکان فحش گوئی سے بچے۔ ایسی صورت میں اور حالت روزہ میں ہر وقت اﷲ پاک سے سوال کرتے رہیں۔ اس سے ایک فائدہ تو یہ ہوگا کہ دعا ضرور قبول ہوگی۔ کیوں کہ رمضان میں مانگی جانے والی دعائیں رد نہیں ہوتیں۔

دعا ہمیشہ اﷲ اور بندے کی درمیان رہنی چاہیے۔ اس لیے اﷲ کے پیارے رسول ﷺ اکثر رات کی تنہائی میں رب سے مانگتے تھے۔ آپ بھی رب سے اکیلے اور تنہائی میں مانگیں۔ تنہائی میں گڑگڑا کر مانگی جانے والی دعا جلد اثر بھی کرتی ہے اور اﷲ پاک کو بھی یہ انداز بہت پسند ہے۔

ماہ صیام میں ہم سب کو دعاؤں کا خصوصی اہتمام کرنا چاہیے۔ یہ وہ گھڑیاں ہیں کہ جب بھی بندہ اپنے رب کو پکارتا ہے تو مسبب الاسباب اسے خالی نہیں لوٹاتا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔