اتنا بڑا بوجھ اورجانِ ناتواں

سعد اللہ جان برق  ہفتہ 17 اپريل 2021
barq@email.com

[email protected]

ابھی تک تو ہم نے بات کو ’’سیریس لی‘‘ نہیں لیا تھا ، یعنی

امورمصلحت ملک خسرواں دانند

گدائے گوشہ نشینی توحافظامخروش

یعنی یہ بڑے بڑوں کی بڑی بڑی باتیں ہیں تم اپنا یہ چھوٹا سامنہ اندرمت گھسیڑ۔ لیکن جناب وزیراعظم کی ایک بات سن کرہمارے اندربھی ملک و قوم کی خدمت کا جذبہ اچانک جاگ اٹھا۔

جناب وزیراعظم کی اس بات کے بعد ہمارے خیال میں تو اب انھیں امیرالمومنین یاخلیفۃ المسلمین  کہنا چاہیے لیکن ہم قانونی اورآئینی امورکے نہ پیرالدین نہ پیرزادے،شریف زادے ہیں اس لیے اصرارنہیں کریں گے ورنہ یہ بات کہ … میں ہرروزگھر سے یہ سوچ کر نکلتاہوں کہ جہادپر جارہاہوں، ہرلحاظ سے ہمارے مشورے کے عین مطابق ہے اورریاست بھی تو مدینہ کی ہے نا۔خیر یہ تو ہوتارہے گا۔

اس طرح کے کاموں، ناموں اورمقاموں میں۔ہم نے جو حکومت کاساتھ دینے کاارادہ کر لیاہے کچھ اس کی تفصیل میں جاتے ہیں بلکہ جھانکتے ہیں جب ہمارے وزیراعظم ہرروزگھر سے نئے عزم اور جذبے  لے کر نکلتے ہیں تو ہمارا بھی تو آخر کچھ فرض بنتا ہے وہ کسی نے کہا ہے کہ …

اندھیری راتوں میں اورنہ جانے کس کس میں

ایک مسیحا نکلتا ہے

ہم کچھ زیادہ تو نہیں کرسکتے لیکن اچھا مشورہ تو دے سکتے ہیں مثلاً یہ کہ وہ اس جہاد کی ابتداکہاں سے کریں یا رخ کس طرف موڑیں۔ ویسے بھی بزرگوں کا مستند فرمودہ ہے کہ نیک کام کی ابتدا اپنے گھر سے کرنی چاہیے چنانچہ اگر وہ بھی گھر سے ابتدا کرتے ہوئے اپنا رخ وزیروں، مشیروں، مملکتوں، معاونوں،کمیٹیوں وغیرہ کی طرف کردیں اورکچھ شاخوں سے وہ پرندے اڑا دیں جو یا تو پرندے ہیں یا پرندوں کے پٹھے ہیں۔

پرندوں کی کوئی تخصیص نہیں کیوں کہ ہرپرندہ خود بھی پرندہ ہوتا ہے اورخود ہی اپنا پٹھہ بھی ہوتاہے۔کیوں کہ آج تک کوئی بھی ماہریہ معلوم نہیںکرسکاہے کہ شاخوں پر بیٹھے ہوئے پرندے اوران کے پٹھے کرتے کیا ہیں سوائے چیں،کاں کاں اورپیں پیں کرنے کے،بقول باقی صدیقی  ؎

سوچتا ہوں سر ساحل باقی

ہ سمندرہمیں کیادیتے ہیں؟

سمندرتوبہتے ہی بہتے ہیں اوراگربھاپ یابادل بناتے بھی ہیں تو وہ نہ جانے کہاں جاکر برستے ہیں کم ازکم سمندر پر تو نہیں برستے۔

خیریہ تو ہمارا خیال ہے اوراس خیال کاہمارے پاس ثبوت بھی ہے کہ جہاں شاخوں پر پرندے جتنے کم بیٹھے ہوئے یابالکل بھی نہیں بیٹھے ہوتے وہ گلستان امن وامان میں رہتاہے بلکہ اس کے لیے ہمارے پاس زندہ مثالیں ہیں،کتنا عرصہ ہوا ہے کن کن کمیٹیوں کے ممبریا چیئرمین موجود ہیں، محکموں کے وزیربھی جلوہ گرہیں، ان کی بغل میں وزیران مملکت یاوزیر جان مملکت بھی براجمان ہیں،ساتھ ہی خصوصی عمومی شمومی، مطلب ہے ہرقسم کے پرندے اور پٹھے ۔کچھ ہوا؟ اس سلسلے میں وہ ایک مثال نماکہانی یاکہانی نمامثال بھی ہماری رہنمائی کرسکتی ہے۔

جب ایک شخص نے مچھلیوں کی دکان کھولی اوراس پرلکھا کہ ’’یہاں تازہ مچھلی فروخت ہوتی ہے ‘‘ ایک نکتہ رس دوست نے کہاکہ اس میں یہ لفظ ’’یہاں‘‘ بالکل فالتو ہے جب فروخت ہوتی ہے توکہیں اورتو فروخت نہیں ہوتی ہوگی ،دوسرے نے کہا کہ یہ ’’فروخت ہوتی ہے‘‘ بھی فالتو ہے جب دکان ہے بازار ہے تو مچھلیاں مفت میں تو تقسیم نہیں ہوں گی۔

فروخت ہی ہوں گی۔  چنانچہ بورڈ سے یہاں اورفروخت ہونے کے فالتوالفاظ مٹادیے گئے۔رہ گئے صرف ’’تازہ مچھلی‘‘ کے الفاظ تو۔ ابھی اس کے اور دوست بھی باقی تھے اورمشورے بھی۔ لہذاایک نے تازہ لفظ پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ ’’تازہ‘‘ سے کچھ شبہ ساپیداہوتاہے کہ کہیں باسی کو تازہ کے الفاظ سے چھپایاتو نہیں جارہاہے چنانچہ ’’تازہ‘‘ کالفظ دوستوں کاسرکھاگیا،اب رہ گئی صرف مچھلی ۔لیکن ایک دانشوردوست کی دانش والی آنکھ میں مچھلی بھی کانٹاہوگئی بولا،جب مچھلی سامنے پڑی ہے تو ’’بو‘‘ بھی آرہی ہے تو… یعنی۔مشک آنست کہ خود بہ بیوئد۔۔نہ کہ عطار بگوئد…  چنانچہ بورڈاورمچھلی دونوں کابھی قلع قمع کردیاگیا،آخری خبریں آنے تک وہ دکان پہلے کی طرح چل رہی ’’یہاں‘‘ اورمچھلی اورفروخت اورتازہ ‘‘کے بغیر بھی لوگ خوش خوش مچھلیاں خرید رہے ہیں۔

پھر ایک کہانی دم ہلارہی ہے ۔کہتے ہیں ایک ملک بہت ہی سرسبزتھا،باغ تھے، جنگل تھے، ہریالی تھی، پھلوں پھولوں کی بہتات تھی کہ اچانک ایک بادشاہ کو خیال آیاکہ ملک سے سارے شیرختم کردیے جائیں تاکہ پورا ملک۔آزادے نہ پاشد ہوجائے۔چنانچہ سارے ملک سے شیر ختم کردیے گئے اورہرطرف امن کا دور دورہ ہوگیا۔

بھیڑبکریوں کے بچے آرام سے ہرگھاٹ پر پانی پیتے اوربادشاہ کو دعائیں دینے لگے لیکن پھر اچانک جنگل چھدرے ہونے لگے، سبزہ ختم ہونے لگا کیوں کہ شیروں کے نہ ہونے کی وجہ سے سبزی خورجانوروں کی بہتات ہوگئی تھی جو چرچر ہرسبزتیا ہڑپ کرنے لگے تھے، پہلے جنگل ٹنڈ منڈ ہوگئے پھر باغ و پھول اجڑے، جب جنگل نہیں رہے تو بارش بھی کم کم ہوتے بالکل بند ہوگئیںاورہرطرف ریگستان وبیابان پیداہوگئے،سارے ملک میں تشویش کی لہردوڑ گئی کہ جہاں برساتیں ہوا کرتی تھیں اب وہاں آندھیاں چلنے لگیں۔

آخر بادشاہ اوراس کے وزیروں نے ملک میں درخت لگانے کی مہم شروع کردی ،ملین ٹری باہرسے منگوائے گئے، لگوائے بھی گئے لیکن ادھرسبزی خور جانور بھی تو بڑھ رہے تھے اس لیے کو ئی درخت کوئی پوداپنپ نہیں سکا،صرف خزانے پر ایک اورفالتو بوجھ کے سوا کچھ بھی ہاتھ نہیں آیا۔

آخرکار کچھ باتدبیروں نے مسئلے کاحل ڈھونڈ لیا فوراً کچھ شیردرآمد کرکے جنگلوں میں چھوڑدیے گئے، لوگوں نے کچھ دنوں میں دیکھا کہ جنگل پھر سے ہرے بھرے ہونے لگے ،سبزہ پنپنے لگا ہے ،باغ ابھرنے لگے ہیں اورپھر ایک دن… موسلادھار بارشیں شروع ہوگئیں،اب اے سارے بوڑھے بچو… اس سے تم نے کیاسبق سیکھا؟ یہی کہ قدرت کے نظام میں دخل اندازی کروگے تو مروگے جو کچھ چل رہاہے ٹھیک چل رہاہے، قدرت کایہ نظام ڈیپنڈڈ ہے،ایک زنجیر کی طرح ہے، اگر ایک کڑی غائب کروگے تو ساری کڑیاں بیکار ہوجاتی ہیں اوراگر زنجیر پر بوجھ بڑھاؤ گے تو بھی زنجیرٹوٹ جائے گی۔

اس لیے ہماراجناب مجاہد کو مشورہ ہے کہ جہاد کی ابتداگھر سے کریں،کشتی کافالتو بوجھ اتاردیں۔بکریوں بھیڑوں کا ریوڑکم کریں،جہاد خود بخود آگے بڑھنے لگے گا۔

پہلے کنوئیں کی تہہ سے کتا نکالیے… اور پھر ڈول۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔