ایلن مسک اور ان کے خواب

سُکار جاکھرو  اتوار 18 اپريل 2021
دنیا کامعروف سرمایہ دار، جو مریخ پر دنیا بسانے کا سپنا دیکھ رہا ہے۔ فوٹو: فائل

دنیا کامعروف سرمایہ دار، جو مریخ پر دنیا بسانے کا سپنا دیکھ رہا ہے۔ فوٹو: فائل

 متعدد سائنس داں اور فلاسفہ سائنسی ترقی کے باعث مذہب کو فرسودہ شے قرار دیتے ہیں لیکن ستم ظریفی تو دیکھیے کہ سائنس بذات خود ایک بڑے طبقے کے لیے بتدریج بطور اصول اور نظریہ یا قانون سے کہیں زیادہ عقیدے کی سی شکل اختیار کرتی جا رہی ہے۔

ایسی بہت سی شخصیات کہ جن کی باتوں سے لگتا ہے انہوں نے سائنس کو مذہب نہیں تو بھی بطور عقیدہ اختیار کر لیا ہے ان میں سے ایک دنیا کی امیرترین شخصیات میں شامل ایلن مسک بھی ہیں۔ انہوں نے اپنے تازہ ترین انٹرویو میں کہا ہے،’’مجھے آپ ملحد یا لاادری قرار دے سکتے ہیں، لیکن اگر میرا کسی چیز پر کچھ ایمان ہے تو بس کائنات کی ایک منظم تشریح پر کہ قانون کائنات کس طرح سے کام کرتے ہیں اور انسانیت پر۔‘‘ اکثر قارئین کو یہ علم ہوگا کہ ایلن ماسک ایک بڑے تاجر، موجد اور سرمایہ کار ہیں۔ لیکن وہ خود کو انجنیئر قرار دیتے ہیں۔

ان کی خواہش ہے کہ لوگ بھی انہیں کسی تاجر یا سرمایہ کار کی بجائے ایک انجنیئر گردانیں۔ تازہ اطلاعات کے مطابق معمولی اتار چڑھاؤ کے بعد ایلن مسک صاحب بدستور دنیا کے سب سے زیادہ امیر انسان ہیں۔ اور دنیا میں اس وقت بھی سب سے زیادہ سرمایہ واثاثہ جات کے مالک ہیں۔

ایلن مسک کی الیکٹرک کار کمپنی ٹیسلا کی مارکیٹ ویلیو میں زبردست اضافہ ہوا ہے اور یہ 700 بلین ڈالرز کی حدوں کو چھو رہی ہے جو کہ کار کمپنیوں ٹویوٹا، فوکس ویگن، ہیوندے، جی ایم اور فورڈ کی مجموعی مارکیٹ سے بھی زیادہ ہے۔ امریکا میں اقتدار کی تبدیلی کے بعد متعدد معاشی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے،’’امریکا میں اقتدار کی تبدیلی کے بعد ایلن مسک کی کمپنی کا مستقبل مزید تابندہ ہو سکتا ہے۔‘‘ ان کی یہ بھی رائے ہے کہ،’’ڈیموکریٹس کی آمد سے الیکٹرک کار کمپنی ٹیسلا کا کام اور بڑھ جائے گا، کیوں کہ صدر جو بائڈن کی پارٹی نے انتخابی مہم کے دوران گرین ایجنڈا کو فروغ دلانے کے مسلسل وعدے کیے تھے۔‘‘

ایلن مسک مستقبل کی کاریں تیار کرنے کے کام تک محدود نہیں بلکہ ان کی کمپنی ٹیسلا الیکٹرک کاروں میں نصب ہونے والے پرزہ جات اور بیٹریاں بھی بناتی ہے جو کہ دیگر کار کمپنیوں کو فروخت کی جاتی ہیں۔ وہ گھروں کے لیے سولر انرجی سسٹم بھی تیار کرتے ہیں جس کی طلب میں روزافزوں اضافہ ہو رہا ہے۔ وہ ایک خلائی تحقیقاتی کمپنی بھی چلا رہے ہیں اور اس کے ساتھ ہی وہ امریکہ میں انتہائی تیز رفتار ترین زمین دوز ٹرانسپورٹ سسٹم کا خاکہ بھی تیار کر رہے ہیں۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ ایلن مسک جنہوں نے کہ دنیا میں بڑا نام اور دولت کمائی ہے وہ بچپن میں بڑے کم سخن تھے، اور اسی بنا پر اپنے ہم عمروں کی طرف سے ان کو تنگ بہت بھی کیا گیا۔ اس قسم کا رجحان شاید وطن عزیز سمیت دنیا بھر میں موجود ہے کیوں کہ اس قسم کی شکایت مشہور و کم سن ماحولیاتی کارکن گریٹا تھنبرگ بھی کرچکی ہیں۔ ویسے تو ایلن مسک کو دنیا امریکی تاجر کے طور پر پہچانتی ہے لیکن ان کا جنم افریقہ میں ہوا۔ ان کے والد ایرل مسک افریقی اور والدہ میئی مسک کینیڈا سے ہیں۔

اگرچہ بظاہر دنیا میں مطالعے کا رجحان کم ہوتا دکھائی دے رہا ہے لیکن ایلن مسک نہ صرف بچپن سے ہی کتابوں کے رسیا تھے بلکہ وہ آج جو کچھ بھی کر رہے ہیں یا سوچ رہے ہیں ان کی توجیہ بھی، جیسا کہ آپ آگے مطالعہ کریں گے، وہ کتابوں ہی سے کرتے ہیں۔ وہ بچپن ہی سے ذہین وفطین تھے اور صرف دس سال کی کم عمر میں ہی انہوں نے کمپیوٹر پروگرامنگ سیکھ لی اور بارہ سال کی عمر میں انہوں نے ’’بلاسٹر‘‘ نامی ایک وڈیو گیم بھی تیار کرلیا تھا، جسے ایک مقامی امریکی میگزین نے صرف پانچ سو ڈالر میں خرید لیا۔ اس رقم کو ایلن مسک کی پہلی کمائی کہا جاسکتا ہے۔

1999میں ایلن اور ان کے بھائی کِمبل مسک نے اپنی سافٹ ویئر کمپنی ’’زپ ٹُو‘‘ کے لیے ایک کام یاب معاہدہ کرڈالا، جو سرمایہ بعد میں ایک نئی کمپنی ایکس ڈا ٹ کام میں لگایا گیا۔ جس کمپنی کا دعویٰ ہے کہ’’وہ رقوم کی منتقلی کے سلسلے میں انقلاب کی نقیب ہے۔‘‘ ایلن مسک کی اس کمپنی نے اپنا قول نبھایا؛ جس کمپنی کو 2020 میں ’’اے بے‘‘ نے خرید لیا اور ان سے ایلن مسک کو 165 ملین ڈالر ملے۔

اس اہم کام یابی کے بعد ایلن مسک نے خلائی تحقیقاتی پروگرام اسپیس ایکس کی ابتدا کی، جس کے مطابق،’’انسان مستقبل میں دوسرے سیاروں پر بھی مقیم ہو سکیں گے۔‘‘ 2004 میں ایلن مسک الیکٹرک کار کمپنی ٹیسلا کی بنیاد رکھی اور کہا کہ،’’مستقبل میں سب کچھ برقی ہوگا۔ خلا میں جانیوالے راکیٹ بھی۔ اور ٹیسلا اس تبدیلی میں اہم کردار ادا کرے گی۔‘‘

قارئین کو اندازہ ہوگا کہ ماحولیاتی آلودگی سے لے کر موسمیاتی تبدیلیوں اور اب کووڈ 19 جیسی وباؤں کے سبب زمین پر بسنا دشوارتر ہوتا جا رہا ہے۔ اس لیے سائنس داں نہ صرف زمین کو محفوظ بنانے کی کوششوں میں مصروف ہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ وہ خلاؤں میں بھی ایسے سیاروں کی تلاش میں ہیں جو کہ زمین کی طرح قابل سکونت ہو۔

اگرچہ فی الحال اس سلسلے میں کام یابی تو کافی دور لگتی ہے لیکن پھر بھی چاند اور مریخ پر بسنے کے حوالے سے انسانوں نے خواہشیں اور کوششیں شروع کردی ہیں اور اسی سلسلے میں ایلن مسک نے عملی قدم اٹھانے شروع کردیے ہیں۔ اسپیس ایکس اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ ایلن مسک کا کہنا ہے کہ وہ مریخ پر کوئی خلائی مستقر بنانے کے لیے اپنے سرمائے سے خطیر رقم یا ایک بڑا حصہ یا سب کچھ ہی لگانے کی لیے تیار ہیں۔ مریخ پر ایک مستقر کی تعمیر ایک بہت بڑی کام یابی ہوگی۔ ان کا خیال ہے،’’اس طرح سے انسان کا مستقبل سنور جائے گا۔‘‘

سوشل میڈیا پلیٹ فارم ‘ٹوئٹر’ پر ایک صارف نے جب ایلن مسک کو مخاطب کر کے کہا کہ وہ دنیا کے امیر ترین شخص بن چکے ہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ کتنی حیرت کی بات ہے۔ اگلی ٹوئٹ میں انہوں نے کہا کہ اب واپس کام کی طرف جانا چاہیے۔ ماضی میں ایلن مسک ٹوئٹر پر یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ اپنی آدھی دولت زمین کے مسائل کے حل کے لیے وقف کرنا چاہتے ہیں اور باقی آدھی مریخ پر ایک مستقل شہر بنانے کے لیے، تاکہ اگر زمین پر انسانیت کو خطرہ ہو تو اس کے لیے مریخ پر جگہ موجود ہو۔

اس سلسلے میں این مسک بہت جلد ایک ایسے طیارے کا پروٹوٹائپ متعارف کروانے جا رہے ہیں جس کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ خلائی سفر کی شکل بدل کر رکھ دے گا۔ اسٹار شِپ‘ نامی یہ ایک ایسا خلائی طیارہ ہوگا جسے دوبارہ استعمال کیا جا سکے گا اور یہ 100 افراد کو سرخ سیارے یعنی مریخ تک پہنچانے کی صلاحیت رکھتا ہوگا۔

اسپیس ایکس کا قیام دراصل عالمی طاقتوں اور خاص طور پر امریکا کے خلائی ادارے سے مایوس ہوکر لایا گیا ہے، جیسا کہ انہوں نے بی بی سی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا،’’میں نے یہ کمپنی اس لیے قائم کی ہے کہ میں اس بات سے غیرمطمئن تھا کہ امریکا خلائی ایجنسی خلائی تحقیقات میں زیادہ پُرجوش نہیں ہے۔ اس کو اس سلسلے میں مستقبل کی کوئی خاص فکر نہیں۔ مجھے توقع ہے کہ مستقبل میں چاند اور مریخ پر ہمارے مستقر ہوں گے اور وہاں کے لیے باقاعدہ پروازیں ہوں گی۔‘‘

ایلن مسک کی خلائی سفر کی نجی کمپنی اسپیس ایکس کا مقصد ہی زندگی کو دیگر سیاروں پر آباد کرنا ہے۔ اس کی ایک وجہ زمین کے وجود کو درپیش خطرات ہیں جیسے کہ کسی ایسے ایسٹیرائیڈ کی زمین سے ٹکر جس سے انسانی نسل ختم ہوجائے۔ ایسی صورت میں دیگر سیاروں پر انسانی بستیاں انسانی نسل کی بقا میں کارآمد ثابت ہو سکتی ہیں۔ سنہ 2016 میں میکسیکو میں ہونے والی ایک بین الاقوامی کانفرنس میں ایلون مسک نے اس بارے میں اپنی سوچ کی وضاحت یوں کی: ’تاریخ دو میں سے ایک سمت میں جانے والی ہے۔ ایک راستہ یہ ہے کہ ہم ہمیشہ کے لیے زمین پر ہی رہیں اور ایسی صورت میں یقیناً کبھی نہ کبھی ایسا کوئی واقعہ رونما ہو گا جس سے انسانی نسل ناپید ہوجائے گی۔‘

یہاں اس چیز کا ذکر بے محل نہ ہوگا کہ دنیا اس سے قبل بھی اس قسم کے حادثات سے دوچار ہوتی رہی ہے اور باور کیا جاتا ہے کہ ڈائنوسار جیسی دیوہیکل اور مہیب مخلوق بھی ایک شہاب ثاقب کے زمین سے ٹکرا جانے کے باعث ناپید ہو گئی تھی۔

سائنس دانوں کی ایک ٹیم نے ایک تجرباتی ماڈل سے یہ کھوج لگا لیا ہے کہ آخر دنیا سے ڈائنو سار کی نسل کیسے مٹ گئی جب کہ ان کی تعداد ایک اندازے کے مطابق کروڑوں میں تھی اور کرۂ ارض پر ان کا راج تھا۔ یہ نظریہ پہلے سے موجود ہے کہ ایک بڑے شہابِ ثاقب کے زمین سے ٹکرانے کے نتیجے میں اتنی توانائی پیدا ہوئی اور اس قدر گرد وغبار اٹھا جس میں زمین پر جان داروں کا زندہ رہنا ممکن نہ رہا اور ڈائنوسار کی نسل مٹ گئی۔ تاہم اس نظریے کو ثابت کرنے کے لیے سائنس دانوں کے پاس شواہد موجود نہیں تھے۔ جزیرہ نما میکسیکو کے جس علاقے میں خلا میں بھٹکتا ہوا شہاب ثاقب ٹکرایا تھا وہاں ایک بہت بڑا اور گہرا گڑھا آج بھی موجود ہے، جسے چکسلو کریٹر کہا جاتا ہے۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ زمین سے ٹکرانے والی اس خلائی چٹان کا قطر 11 سے 81 کلومیٹر کے درمیان تھا۔

امپیریل کالج آف لندن کے سائنس دانوں کی ایک ٹیم نے ساڑھے چھ کروڑ سال پہلے کی دنیا کا ایک کمپیوٹر ماڈل تیار کر کے اس سے ایک بہت بڑے شہابِ ثاقب کے ٹکرانے کا مشاہدہ کیا ہے، جس نے کرۂ ارض کے ماحول کو یکسر بدل دیا تھا۔ ماڈل یہ ظاہر کرتا ہے کہ جب شہابِ ثاقب 60 ڈگری سے زمین سے ٹکرایا تو زمین کی سطح اور فضائی ماحول پر شدید اثرات مرتب ہوئے اور کرۂ ارض کا منظر کلی طور پر تبدیل ہو گیا۔

سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ شہابِ ثاقب ٹکرانے سے اربوں ٹن سلفر گیس پیدا ہوئی جس نے سورج کی کرنوں کو زمین پر پہنچنے سے روک دیا۔ اس سے زمین پر نیوکلیائی سرد دور کا آغاز ہوا، جس نے ڈائنوسار کی پوری نسل اور کرۂ ارض پر موجود 75 فی صد حیات کو ختم کر دیا۔

اس تحقیق کے مطابق، شہاب ثاقب کے ٹکرانے سے آب و ہوا کو تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھنے والی گیسیں انتہائی غیرمعمولی مقدار میں خارج ہوئیں، جس سے تباہی کے ایک ایسے سلسلے نے جنم لیا جو ڈائنوسار کی نسل کے خاتمے پر منتج ہوا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ شہاب ثاقب زمین سے ایک ایسے زاویے سے ٹکرایا تھا جو تباہ کن تھا۔

اور ایلن مسک بھی اسی قسم کے کسی حادثے کے خوف میں مبتلا ہیں۔

ایلن مسک تبدیلی کی سست رفتار میں یقین نہیں رکھتے۔ وہ فوری طور پر حیاتیاتی اور معدنی ایندھن کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ انسانوں کے لیے مریخ پر بستیاں بسانے کے بھی حامی ہیں۔ آج اگر ایلن مسک کار مینوفیکچرنگ میں انقلابی تبدیلیاں چاہتے ہیں یا مریخ میں کالونیاں قائم کرنا چاہتے ہیں، ویکیوم ٹنل میں فاسٹ ٹرین چلانے کے خواہش مند ہیں یا دنیا کو شمسی توانائی سے چلانا چاہتے ہیں، تو یہ تمام خواہشیں، خواب اور خیالات کتابوں اور رسالوں کی ہی دین ہیں یا پھر اس قسم کی تصوراتی کامکس اور کہانیوں اور بچکانہ فلموں کی۔

ایلن مسک کی تمام خواہشیں، خواب، اور خیالات اپنی جگہ پر، لیکن اس وقت بنی نوع انسان کو بھی یہ سمجھ لینا ہوگا کہ یہ سیارہ ہمارے لیے گھر جیسا ہی ہے، اس کے تحفظ اور بقا کے لیے ہر ممکن کوشش ہمارا فرض ہے، کیو ں کہ اگر مستقبل میں کبھی انسان کو یہ سیارہ چھوڑنا پڑتا ہے تو اس کو چھوڑنے کی تکلیف اس تکلیف سے کہیں زیادہ ہوگی جو ہمیں اسی دنیا میں ہی پرانا گھر اور محلہ چھوڑنے پر ہوتی ہے اور پھر چاہے نیا محلہ کتنا ہی ترقی یافتہ اور نیا گھر کتنا ہی پرتعیش کیوں نہ ہو!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔