آبنائے ہرمز دنیا کی اہم ترین آبی گزر گاہ

ڈاکٹر عرفان احمد بیگ  اتوار 18 اپريل 2021
ایران کا مقابلہ یہاں امریکا، فرانس، برطانیہ کے ساتھ رہا ہے جو متحدہ عرب امارات، عمان، سعودی عرب کی پشت پناہی کرتے ہیں۔فوٹو : فائل

ایران کا مقابلہ یہاں امریکا، فرانس، برطانیہ کے ساتھ رہا ہے جو متحدہ عرب امارات، عمان، سعودی عرب کی پشت پناہی کرتے ہیں۔فوٹو : فائل

دنیا میں شروع ہی سے وہ قومیں جو پوری دنیا میں طویل عرصے تک خود کو سپر پاور کے طور پر منواتی رہی ہیں اُن میں ایک واضح قدر مشترک یہ رہی ہے کہ اُن کی بحریہ بہت مضبوط اور طاقتور تھی چاہیے وہ یونانی، رومی تھے یا اسلامی دور اور پھر اس کے بعد برطانیہ اور پھر پہلی جنگ عظیم سے پہلے ہی 1911 ء میں دنیا میں پہلاطیارہ بردار بحری بیڑہ بنانے والا امریکا۔

امریکا جنگِ عظیم اوّل کے آخر میں جنگ میں شامل ہوا تو وہ اپنی مضبوط بحریہ کی وجہ سے اُسی سال برطانیہ سے سپر پاور کا اعزاز لینے لگا تھا ، اور پھر دوسری جنگ عظیم سے قبل ہی امریکا دنیا کی واحد سپر پاور بن گیا مگر 1949 ء سے سرد جنگ میں جب سابق سوویت یونین بھی ایٹمی قوت بنا تو سپر پاور کے اعتبار سے متوازن صورت سامنے آئی جس کو1990 ء کے بعد امریکا نے دوبارہ حاصل کیا اور اب 1990 ء کے 31 سال گزر جانے کے بعد امریکا کے مقابلے میں اقتصادی میدان میں پہلے نمبر کا چیلنج چین اور عسکری ٹیکنالوجی میں روس بن گیا ہے، جب کہ دونوں کی مجموعی فوجی طاقت امریکا سے کچھ زیادہ ہے۔

اقتصادی اور دفاعی یا عسکری قوت کے ساتھ چونکہ امریکا کی دیرینہ قربت برطانیہ، فرانس ، آسٹریلیا ، اسرائیل اور نیٹو کے دیگر ملکوں کے ساتھ ہے، اب گزشتہ چند برسوں سے بھارت بھی امریکا کااتحادی بن گیا ہے تو دنیا میں پہلی، دوسری جنگ عظیم اور سرد جنگ کے زمانے کی طرح صف بندی ہو رہی ہے۔ اِس پو رے تناظر میں چند برسوں سے جنوبی بحر چین ’’ساوتھ چائنا سی‘‘ اور خلیجِ عمان اور خلیج فارس خصوصاً آبنائے ہرمز Strait of Hormuz کے علاقے اہمیت اختیار کر گئے ہیں۔

خلیج عمان خلیج فارس اور آبنائے ہر مز چونکہ پاکستان کے ساحل مکران پرگوادر سے بہت قریب ہیں اس لیے یہاں ہونے والی جنگی سرگرمیاں پا کستان کے لیے بھی تشویش کا سبب بن سکتی ہیں۔آبنائے ہرمز خلیج فارس سے کھلے سمندر بحیرہ تک درمیانی آبی یا سمندری راستہ ہے۔ یہ سمندری گذرگاہ اسٹریٹجک اعتبار سے دنیا کی اہم ترین سمندری گذرگاہ ہے۔ یہ 90 ناٹیکل میل یعنی 167 کلو میٹر لمبی 21 نا ٹیکل میل 39 کلومیٹر چوڑی ہے۔ اس کی اہمیت کا اندازہ عالمی تحقیقاتی اداروںکی ریسرچ رپورٹوں سے لگایا جا سکتا ہے۔

CISIS یعنی Center for strategic and International Studies جو امریکا واشنگٹن ڈی سی میں قائم ایک اہم امریکی تھنک ٹینک ہے جو سنٹر فار اسٹیڈیز آٖف جارج ٹاون یونیورسٹی میں 1962 ء میں قائم کیا گیا تھا اس کی ریسرچ کے مطابق 2007 ء میں خلیج فارس اور آبنائے ہرمز سے یومیہ17 ملین بیرل تیل بحری جہاز لے کر گزرتے تھے جو اُس وقت دنیا کا تقریباً 40% تیل تھا۔EIA (The US Energy information Adminstration) یہ بھی ایک ایسی امریکی ایجنسی ہے جو امریکا میں وفاقی سطح پر شماریاتی اور معلومات فراہم کرنے کا ادارہ ہے ۔

اس کی بنیادی ذ مہ داری ہے توانائی یا انرجی سے متعلق اعداد وشمار اور معلومات کو اکٹھا کرنا اور تجزیے کر کے امریکی پالیسی ساز اور بہتر مارکیٹنگ کے لیے کام والوں کو فراہم کرنا ہے۔ EIA کے مطابق 2011 ء میں خلیج فارس اور آبنائے ہرمز سے روزانہ اوسطاً 14 آئل ٹینکر ز 17 ملین بیرل تیل لے کر گزرتے رہے جو دنیا بھر میں سمندری راستے سے گزرنے والے مجموعی تیل کا 35% تھا اور دنیا میں تیل کی تجارت کا 20% تھا اور اِس تیل کا 85% ایشیائی مارکیٹ یعنی جاپان، بھارت، جنوبی کو ریا، اور چین کو جاتا ہے، جب کہ 2018 ء میں 21 ملین بیرل تیل یومیہ آبنائے ہرمز سے گیا جس کی کل مالیت ستمبر 2019ء کی عالمی قیمتوںکے مطابق1.17 بلین یومیہ تھی۔

اب جہاں تک تعلق تنگ سمندری گذر گاہوں کا ہے تو یہ قدرتی اور مصنوعی دو طرح کی ہوتی ہیں آبنائے یعنی Strait یا واٹر وے ایسی قدرتی سمندری گذر گاہ ہوتی ہے جب کہ اس دنیا میں برطانیہ، فرانس اور امریکا نے دو ایسی مصنوعی سمندری گذر گاہیں بھی بنائی ہیں جن سے ہزاروں کلومیٹر سمندری فاصلہ کم کردیا گیا، اِن میں سے ایک نہر سوئز اور دوسری پانامہ نہر ہے۔ نہر سوئز فرانس، مصر اور برطانیہ نے تعمیر کی تھی اور 1869 ء سے کھول دی گئی ۔ یہ بحر روم کو بحیرہ احمر سے ملاتی ہے۔ 193 کلومیٹر طویل ہے۔

2012 ء کے ریکارڈ کے مطابق نہر سوئز سے 17225 بحری جہاز گزرے یعنی اوسطاً 47 جہا ز یومیہ گزرتے رہے۔ نہر پانامہ کی لمبائی 85 کلو میٹر ہے جو بحرِ الکاہل اور بحر اقیانوس کو ملاتی ہے اس پر 1881 ء میں فرانس نے کام بند کر دیا تھا۔ پھر امریکا نے اس کو 1904 ء سے تعمیر کرنا شروع کیا اور 1912 ء میںکھول دیا۔ اسی طرح جب بات خلیج کی ہوتی ہے تو اس سے مراد یہ لی جاتی ہے کہ ایسا سمندر جس کے تین اطراف میں خشکی ہو یہ بھی کہا جاتا ہے کہ خشکی کے خطوں کے درمیان واقع سمندر ہو۔آبنائے ہرمز، خلیج عمان اور خلیج فارس کے گرد تین ملک واقع ہیں ۔

نمبر ایک ایران جس کا رقبہ 1648195 مربع کلومیٹر ہے، خشکی سے اس کی سرحدوںکی کل لمبائی5894 کلومیٹر ہے جس میں افغانستان سے سرحد کی لمبائی 921 کلومیٹر،آرمینا سے سرحد کی لمبائی 44 کلومیٹر آذربائیجان سے باقاعدہ سرحد 432 کلومیٹر، دوسری جانب 179 کلومیٹر، عراق سے ملنے والی سرحد 1599 کلو میٹر، پاکستان سے ملنے والی سرحد کی لمبائی959 کلومیٹر، ترکی سے سرحدی لمبائی 534 کلومیٹر، ترکمانستان سے سرحدکی لمبائی 1148 کلومیٹر ہے۔ ایران کے ساحل کی کل لمبائی 2815 کلومیٹر ہے۔ ایران کے شمال میں بحیرہِ کیسپین جو دنیا میں اپنے 371000 مربع کلومیٹر رقبے کے ساتھ کھارے پانی کی سب سے بڑی جھیل ہے، اس پر ایرانی ساحل کی کل لمبائی 1100کلومیٹر ہے اور جنوب میں خلیج فا رس اور ہرمز پر ایران کا ساحل 1770 کلومیٹر سے کچھ زیادہ ہے۔

خلیج کی دوسری جانب ایران کے سامنے عمان واقع ہے۔ عمان کا رقبہ 309500 مربع کلومیٹر، خشکی سے اس کی سرحد 676 کلومیٹر لمبائی کے ساتھ سعودی عرب سے ملتی ہے۔ متحدہ عرب امارات کے ساتھ عمان کی سرحد کی لمبائی 410 کلومیٹر ہے اور یمن کے ساتھ عمان کی سرحد کی لمبائی 288 کلومیٹر ہے جب کہ خلیجِ عمان ،خلیجِ فارس اور ہرمز پر عمان کے ساحل کی کل لمبائی 3165 کلومیٹر ہے اس کے ساتھ ہی متحدہ عرب امارات ہے جس کا رقبہ 83600 مربع کلومیٹر ہے ۔ خشکی پر اس کی کل سرحدی لمبائی 867 کلومیٹر ہے جو سعودی عرب اور عمان سے ملتی ہیں۔

آبنائے ہرمز پر اور اس کے قریب چند جزائر اور بندر گاہوں کی بھی خصوصی اہمیت ہے۔ Hormuz Island جزیرہ ہور مز یہ ایرانی جزیرہ خلیج ِ فارس میں ایرانی ساحل سے 8 کلومیٹر سمندر میں واقع ہے اور سطح سمندر سے اس کی بلندی 610 فٹ ہے۔ اس کا رقبہ 42 کلومیٹر ہے۔ ایران کے صوبے ہومزگان کا حصہ ہے۔ یہاں سرخ پہاڑی چٹانیں ہیں جو طلوع و غروب آفتاب پر بہت خوبصورت مناظر کا سبب بنتی ہیں ۔ خلیج فارس میں آبنائے ہرمز پر ایران کا ایک اہم اور بڑا جزیرہ قشم ہے جس کا رقبہ 1491 مربع کلومیٹر ہے۔ یہ جزیرہ 135 کلومیٹر لمبا اور 40 کلومیٹر تک چو ڑا ہے۔

اس کی آبادی 148993 ہے ۔ یہاں کے مقامی لوگ اچومی کہلاتے ہیں اور اِن کی اکثریت سنی ہے جب کہ ان میں ایک بڑی تعداد شیعہ کی بھی ہے، اگرچہ پاکستان کے قریب بحیرہ عرب پر بھی ایران کی ایک بندرگاہ چابہار ہے لیکن خلیج فارس پر ایران کی سب سے بڑی بندرگاہ بندر عباس ہے جو صوبہ ہورمزگان کا صوبائی دارالحکومت بھی ہے۔

ایران کی بحری راستے سے ہو نے والی 90% تجارت اسی بندر گاہ سے ہوتی ہے۔ یہ ایرانی نیول بیس اور ایران کا بڑا فوجی مرکز بھی ہے اس کے تقریباً مقابل پر عمان و مسقط ہے اور اس کے کونے پر جہاں عمان کی سرحد متحدہ عرب امارات سے ملتی ہے یہاں سلطنتِ عمان کا ایک چھوٹا مگر نہایت خوبصورت ساحلی شہر Khasab خصب ہے، اس شہر کو اس کی خوبصورتی کی وجہ سے مسقط کا ناروے کہا جاتا ہے۔

یہاں کے پہاڑ بہت دلکش ہیں، یہاں پورے عمان سے لوگ تفریح کے لیے آتے ہیں اور یہاں مقامی آبادی کم اور بھارتی ، پاکستانی اور بنگلہ دیشی زیادہ تعداد میں ہیں جو یہاں محنت مزدوری کرتے ہیں، جب کہ متحدہ عرب امارات کی بڑی بندرگاہیں دبئی میں ہیں ۔ سرد جنگ ، دوسری جنگ ِ عظیم کے فوراً بعد شروع ہو گئی تھی اور اس کے ابتدائی برسوں میں خصوصاً جب تک مصر، عراق اور شام میں بادشاہتیں تھیں اس دوران عراق، ایران ، ترکی اورپاکستان برطانیہ کے ہمراہ سیٹو، سینٹو کے ساتھ شامل تھے۔

پھر آنے والے برسوں میں جب سابق سوویت یونین امریکا کے مقابل کھڑا ہو گیا تھا اور سب سے پہلے مصر میں جنرل نجیب اور کرنل جمال عبدالناصر شاہ فاروق کا تخت الٹ کراقتدار میں آئے اور جب کرنل ناصرصدر بنے تو اُنہوں نے نہر سوئز کو قومی ملکیت میں لے لیا اور اس پر فرانس ، برطانیہ اور اسرائیل نے مل کر حملہ کر دیا تھا مگر آخر فرانس، برطانیہ اور اسرائیل کو واپس جاناپڑا اور نہر سوئز پر مصر کی ملکیت تسلیم کر لی گئی۔

اس کے تھوڑے عرصے بعد عراق میں انقلاب آیا اور حکومت کا تختہ الٹا دیا گیا اور عراق ،برطانیہ امریکا کے اثر سے نکل کر سوویت یونین کے حلقہ اثر میں آگیا مگر خلیج فارس، خلیجِ عمان اور آبنائے ہرمز محفوظ رہی اور یہاں ایران میں شاہ رضا شاہ پہلوی جنہوں نے نہ صرف اسرائیل کو تسلیم کیا ہوا تھا بلکہ وہ یہاں امریکا کے سپاہی اور نگران تھے مگر 1979-80 میں ایران میں انقلاب کے فوراً بعد ایران امریکا تعلقات دوستی سے دشمنی میں بدل گئے۔ شاہ ایران نے آبنائے ہرمز کو تقریباً ایران کی ملکیت سمجھ رکھا تھا اور اُس وقت امریکا برطانیہ کو غالباً اس پر کوئی اعتراض بھی نہیں تھا مگر جب 22 ستمبر 1980 سے 20 اگست 1988 ء تک عراق ایران جنگ جا ری رہی تو خلیج فارس، خلیجِ عمان اور خصوصا آبنائے ہرمز کی آبی گذر گاہ کوخطرات کے اندیشے بڑھ گئے۔

اگرچہ اقوام متحدہ کی ایجنسی IMO کے سمندری ٹریفک کے قوانین موجود ہیں اور اِ ن قوانین کے تحت بین الاقوامی سمندر میں جہازوں کو نہیں روکا جا سکتا یا سمندری ٹریفک میں خلل نہیں ڈالا جا سکتا تھا، مگر نئی صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے 1973 ء تا 1982ء United Nations Convention on the Low of sea کے تحت بھی اقدامات کئے گئے لیکن عراق ایران جنگ کے دوران 1984 ء میں خارج جزیرے Kharg Island جو خلیج فارس میں ایرانی ساحل سے 25 کلومیٹر دور آبنائے ہرمزکے شمال مغرب میں 483 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے اور یہاں سے ایرانی تیل کی برآمد بھی ہوتی ہے۔

یہاں عراق نے ایرانی آئل ٹینکروں کو نشانہ بنایا اس کو ٹینکرز وار بھی کہا گیا۔ عراق کے صدر صدام حسین کا خیال تھا کہ اس طرح ایران آبنائے ہرمز کو بند کر دے گا اور جس کی وجہ سے یہاں امریکا مداخلت کرے گا اور عراق کو اس سے جنگ میں فائدہ پہنچے گا، مگر ایران نے اپنی جنگی اسٹریٹیجی یہ رکھی کہ جواب میں ایران نے بھی عراقی آئل ٹینکروں کو نشانہ بنایا لیکن آبنائے ہرمز کو بند نہیں ہونے دیا۔ یہ سمندری گزر گاہ عراق ایران جنگ کے دوران اقوام متحدہ کے قوانین کے مطابق بین الاقوامی تجارت کے لیے کھلی رہی ۔

Operation Praying Mantis آپریشن پرائنگ مانٹیس18 اپریل1988 میں خلیج ِ فارس میں ایرانی سمندری حدود میں امریکی فوج کی جانب سے کیا جانے والا حملہ تھا جو ایران کی طرف سے خلیج فارس میں لگائی جانے والی بارودی سرنگوں کے جواب میں کیا گیا تھا جس سے ایک امریکی جہاز کو جزوی نقصان پہنچا تھا اس لڑائی میں امریکا کے کمانڈر انتھونی لیس ، ریمنڈ جی زولراور جیمس بی پیرکن تھے اور ایران کی جانب سے محمد حسین مالیزایگان تھے۔

اس لڑائی میں امریکا کے دو فوجی ہلاک اور ایک ہیلی کاپٹر تباہ ہوا اور ایران کے 56 فوجی جان بحق اور6 شپ تباہ ہوئے، یوں لڑائی میں امریکا کی برتری رہی ۔ ایرانی ائیر لائن فلائٹ 665 کا واقعہ 3 جولائی 1988 ء کو پیش آیا، ایرانی ائیر لائن کا ائیر بسA300 مسافر طیارہ تہران براستہ بندر عباس دوئبی جا رہا تھا جسے امریکی نیوی کے میزائل بردار جہاز سے سطح سے فضا میں مار کر نے والے گائیڈڈ کروز میزائل سے نشانہ بنایا گیا جس سے طیارے میں سوار تمام 290 افراد جان بحق ہو گئے۔ اس طیارے کو خلیجِ فارس میں ایرانی سمندری حدود میں گرایا گیا۔

یہ واقعہ آٹھ سالہ عراق ایران جنگ کے دوران ہی پیش آیا۔ یہ طیارہ آبنائے ہرمز میں جزیرہ قشم کے قریب گرا تھا اس مسافر طیارے کے گرائے جانے کے بعد امریکی نیوی کی جانب سے یہ کہا گیا کہ اُنہوں نے یہ کاروائی اپنے دفاع میں کی تھی کیونکہ اُن کو شک تھا کہ اِ ن پر حملہ کیا جا ئے گا۔ اس پر ایرانی عوام اور حکومت نے نہایت غم وغصے کا اظہار کیا پھر معاملہ انٹر نیشنل کورٹ آف جسٹس میں 1996 ء میں ایران اور امریکا کی حکومتوں کے درمیان طے پایا۔

اگرچہ امریکا نے سرکاری سطح پر ایران سے معافی نہیں مانگی لیکن 61.8 ملین ڈالر کی رقم ہرجانے کے طور پر متاثر ایرانی لواحقین کو دینے پر آمادہ ہو گیا۔ اس کے بعد آبنائے ہرمز میں 8 جنوری 2007 ء کو امریکی ایٹمی آبدوز نیور پیورنیوز ایک 300000 ٹن وزنی جاپانی آئل ٹینکر M.V Mogamigaawa سے ٹکرا گئی لیکن اس کے بعد کہا گیا کہ اس سے کسی قسم کا کوئی نقصان نہیں ہو ا اور نہ ہی اس بڑے آئل ٹینکر سے کوئی تیل لیک ہوا۔ 2008 ء میں آبنائے ہر مز میں کئی دنوں تک ایرانی اور امریکی افواج کے درمیان ایک شدید نوعیت کا بحران پیدا ہوا جب ایرانی اسپیڈ بوٹز نے امر یکی جنگی بحری جہازوں کے گرد چکر لگائے اور ایک دوسرے کے خلاف شدید نوعیت کے بیانات بھی دئیے ۔

29 جون 2008 ء ہی کو ایرانی پاسدارانِ انقلاب کے کمانڈر محمد علی جعفری نے واضح کر دیا کہ اگر امریکا یااسرائیل نے ایران پر حملہ کیا توایران آبنائے ہرمز کو بند کر دے گا اور اس طرح دنیا میں تیل مارکیٹ میں بحران پیدا ہو گا اس کے بعد اسی طرح کی مبہم دھمکی ایرانی وزیر خارجہ نے بھی دی اس پر بحرین میں موجود امریکی پانچویں بحری بیڑے کے وائس ایڈمرل Kevin Csqriff کیوین کوسکریف نے کہا کہ اگر ایران کی طرف سے ایسا اقدام کیا گیا تو ہم اس کو جنگ تصورکریں گے اور امریکا ایران کو ایسا کرنے کی اجازت نہیں دے گا کہ وہ دنیا کو سپلائی ہونے والے تیل کے تیسرے حصے کو روک دے۔

8 جولائی 2008 ء کو ایرانی ترجمان علی شیرازی نے سپریم لیڈر آیت اللہ خمنائی کے حوالے سے بتایا کہ صیہونی یہودی امریکا پر زور دے رہے ہیں کہ امریکا ایران پر حملہ کر دے اور اگر امریکا نے ایسی حماقت کی تو ایران یہاں ہر مز میں امریکی اور اسرائیلی جہازوں کو نشانہ بنائے گا اس کے بعد 11 اگست 2008 ہی میں امریکا نے جاپان کے ساتھ یہاں بہت بڑے پیمانے پر سمندری جنگی مشقیں کیں جن میں 40 امریکی جنگی جہازوں نے حصہ لیا، 20 مارچ 2009 ء میں آبنائے ہر مز میں امریکا کے دو جہاز آپس میں ٹکرا گئے جس کے نتیجے میں 15 امریکی زخمی ہوئے اور تقریباً 25000 ہزار امریکی گیلن ڈیزل سمندر میں بہہ گیا۔

اس کے بعد کے دنوں میں بھی اگر چہ امریکی نیوی یہاں قریب خلیج فارس اور خلیج عمان میں مو جود رہی لیکن کوئی بڑا واقعہ پیش نہیں آیا، مگر ایران کے خلاف امریکی کی جانب سے اقتصادی تجارتی پابندیوں کا سلسلہ بڑھنے لگا۔ 27 دسمبر2011 ء کو اس کے ردعمل میں ایرانی نائب صدر محمد رضا رحیمی نے دھمکی دی کہ ایران آبنائے ہر مز میں تیل کی سپالائی روک دے گا اگر ایران پر عائد پا بندیوں کو محدود نہ کیا گیا ۔ اس پر علاقے میں مو جود پانچویں امریکی بحری بیڑے کے ترجمان نے فوراً اس کا جواب دیاکہ امریکی بحری بیڑااس کے جواب کے لیے تیار ہے۔

بہرحال اس تشویشناک صورتحال کے اثرات اُ س وقت تیل کی عالمی مارکیٹ پر مرتب ہو ئے ۔ دسمبر کے بعد بھی یہ صورتحال بہتر نہ ہو سکی 3 جنوری 2012 ء کو ایران کے آرمی چیف عطااللہ صالیحی نے دھمکی آمیز انداز میں کہا کہ امر یکہ اپنا بحری بیڑا خلیج فارس سے خلیج عمان لے جا ئے کیونکہ ایران نے یہاں جنگی مشقیں کرنی ہیں۔

دوسری صورت میں ایران ایکشن لے سکتا ہے اس پر امریکی نیوی کمانڈر بل نے جواب دیا کہ امریکی طیارہ بردار جہاز سمندر میں انٹر نیشنل واٹر میں مو جود ہے اور اقوام متحدہ کے میری ٹائم کنونشن کے تحت یہاں مو جود رہے گا اور یہاں نگرانی کرتا رہے گا تاکہ یہاں سے تیل کی سپلائی اور جہازوں کی روانی یقینی رہے مگر پھر عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمت میں 4% اضافہ ہوا ایران پر نئی پا بندیوں کی وجہ سے 2012 ء میں ایرانی تیل کی بر آمد میں 50% کمی اور اس کی وجہ سے کرنسی کی قیمت میں بھی کمی واقع ہوئی لیکن چین نے ایران سے تیل درآمد کیا اس دوران آبنائے ہرمز کی اسٹریٹجکل اہمیت کے ساتھ ساتھ اس کو بنیاد بناتے ہوئے ایک اقتصادی نوعیت کی جنگ بھی خصوصاً ایران کے خلا ف دکھائی دے رہی تھی۔

ایک جانب ایران کو ایٹمی تحقیق اور مبینہ طور پر ایٹمی اسلحہ کی تیاری سے باز رکھنے کے لیے امر یکہ ، اسرائیل ، برطانیہ ، فرانس اور دیگر مغربی قوتیں دباو ڈال رہیں تھیں تو دوسری جانب ایران کی کو شش تھی کہ آبنائے ہر مز پر اپنی روایتی گرفت کو مضبوط کرے۔

جہاں تک تعلق ایران کی روایتی گرفت کا تھا تو پہلی جنگ عظیم کے بعد ایران ایک مضبوط اور مکمل طور پر خود مختار ملک نہیں رہا تھا جنگ عظیم اوّل کے خاتمے تک پوری دنیا بالکل ہی تبدیل ہو چکی تھی ۔ ترکی کی سلطنت عثمانیہ کے خاتمے سے مشرقِ وسطیٰ اور دیگر عرب ممالک مصر ، شام ، عراق، سوڈان، اردن، فسلطین،لبنان، سعودی عرب، عمان آج کی متحدہ عرب امارات سب ہی پر برطانیہ، فرانس نے کسی نہ کسی اعتبار سے اپنا تسط قائم کر لیا تھا۔

سوویت یونین میں 1917 ء کے اشتراکی انقلاب کے بعد سوویت یونین نے سنٹرل ایشیا پر اپنی گرفت اور زیادہ مضبوط کر لی تھی، یوں ایران بھی بظاہر آزاد و خود مختار تھا مگر پہلوی خاندان کی حکومت کے آغاز ہی سے ایران بہت سے امور امیں بر طانیہ کے زیر اثر تھا اس کی ایک بنیاد ی وجہ یہ بھی تھی کہ ایک جانب تو سابق سوویت یونین کی اشتراکی حکومت کیمونزم کو پوری دنیا میں فروغ دے رہی تھی جس سے پوری دنیا میں روایتی بادشاہتیں خودفزدہ تھیں اور اپنے دفاع کے لیے برطانیہ ، فرانس اور نئی ابھرنے والی سپرپاور امریکا سے مدد کی طلبگار تھیں، یوں اُس وقت خلیج فارس ، خلیج عمان اور آبنائے ہرمز پر مکمل طور پر ان ہی بڑی قوتوں کا کنٹرول تھا اور یہ صورت 1979 ء تک ایران کے اسلامی انقلاب سے پہلے تک قائم رہی اس کے بعد سے اب یہ صورت ہے کہ متحدہ عرب امارت، سعودی عرب اور سلطت عمان کے حوالے سے تو برطانیہ ، فرانس ، امریکا اور دیگر مغربی اتحادی قوتیں مطمین ہیں لیکن ایران سے باد شاہت کے رخصت ہونے کے بعد ایران ایک خود مختار اور مکمل آزاد ملک کی حیثیت سے علاقے کا ایک مضبو ط ملک ہے جس کو مزید مضبوط اور طاقتور ہو نے سے روکنے کی پالیسی امریکا اور نیٹو ممالک کی ترجیح ہے۔

جنوری 2012 ء میں جب آبنائے ہرمز، خلیج فارس اور خلیجِ عمان کے قریب بحیرہ عرب تک حالات خراب ہو رہے تھے اور امریکا کی جانب سے ایران کے خلاف مزید پابندیاں لگانے اور جنگ کا سا ماحول پیدا کرنے سے ایرانی معیشت کمزور پڑ رہی تھی اور ایرانی کرنسی کی قیمت کم ہو گئی تھی تو 2012 ء جنوری ہی کے آخر تک فرانس اور برطانیہ کی جانب سے بھی اقتصادی پا بندیاں عائد کرنے اور ایرانی اثاثے منجمد کرنے جیسے اقدامات کے ساتھ برطانیہ نے بھی اپنے جنگی بحری جہاز خلیج فارس، خلیج عمان اور آبنائے ہرمز بھیجنے کا اعلان کر دیا جس کے سبب ایرانی کرنسی کی قیمت میں مزید 12% کی کمی ہوئی۔

جنوری 2012 ء ہی میں ایرانی وزیر دفاع احمد واحدی نے کہا کہ ایران نے کبھی دعویٰ نہیں کیا کہ وہ آبنائے ہرمز بند کر دے گا جبکہ اسلامی جمہوریہ ایران یہاں خلیج فارس کا سب سے زیادہ دفاع کر نے والا ملک ہے اور اگر کسی ایک کی دھمکی سے صورتحال بگڑی تو پھر سبھی کو خطرہ ہوگا۔ ایرانی وزیر دفاع نے خلیج فارس اور آبنائے ہرمز کے دفاع کے اعتبار سے ایران کی اہمیت کا ذکر اس لیے کیا تھا کہ خلیج فارس اور آبنائے ہرمز پر خشکی یعنی ساحل اور جزائر کے رقبے اور اسی بنیاد پر سمندری رقبہ بھی سب سے زیادہ علاقہ ایران کے پا س ہے۔

16 جنوری 2012 ء کو ایرانی وزیر خارجہ نے تصدیق کی کہ اُنہیں امریکا کی جانب سے مراسلہ ملا ہے جس میں امریکا نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکا ایران کی جانب سے آبنائے ہرمزکو بند کر نے کے اقدام کو ریڈ لائن پار کرنا تصور کرے گا اور اس کا فوری جواب دے گا۔

اس مراسلے کے حوالے سے امریکی جنرل Gen Martin E Demsey مارٹن ای ڈیمسے چیرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف ڈیفینس سیکرٹر ی Leon E Panatta نے ٹیکساس میں کہا کہ ا مریکہ اس مسئلے کو نظر انداز نہیں کر سکتا۔ 23 جنوری 2012 ء کو ایران کی جانب سے خلیج فارس میں آبنائے ہر مز کے بند کئے جا نے کی دھمکی پر پوری دنیا میں پروپیگنڈہ عروج پر پہنچ گیا اور یوں معلوم ہو نے لگا کہ ایران اپنی معیشت اور اپنے ملک کے دفاع کے لیے انتہائی اقدامات کر نے کا ارادہ رکھتا ہے ۔ یوں وہ ممالک جن کے بحری جہازوں کو ہرمز میں روک دینے کے اندیشے تھے اُن ملکوں نے بھی خلیج فارس میں اپنے جنگی جہاز بھیج دئیے اور امریکا نے مزید جنگی جہاز یہاں پہنچا دئیے۔ 24 جنوری 2012 ء کو یورپی یونین نے بھی اپنے بحری جنگی جہاز خلیج فارس میں بھیج دیئے۔ یوں یہاں کسی بڑی جنگ کے اندیشے پیدا ہو گئے لیکن ایران نے یہاں کوئی اشتعال نہیں دکھایا اور بہت صبر وتحمل سے کام لیا ۔

یہ وہ دور ہے جب امریکا برطانیہ اور دیگر نیٹو قوتیں مشرق وسطیٰ میں سرگرم عمل تھیں اور اِن کے مقابلے میں روس سنبھلنے کی کامیاب کوششوں میں مصروف تھا، یوکرئن اور روس تنازعہ بڑھ گیا تھا اور چین مزید اقتصادی قوت حاصل کر رہا تھا، اس کے بعد یعنی امریکا میں ایران کے ساتھ مفاہمت کے مباحثے شروع ہوئے اور صدر باراک اوبامہ کے ساتھ برطانیہ سمیت یورپی یونین اور اقوام متحدہ کی جانب سے بھی یہ کوششیں شروع ہوئیں کہ اگر ایران عالمی سطح پر امریکا سمیت اِن اہم ممالک کو یہ یقین اور ضمانت فراہم کر دے کہ وہ اپنے ایٹمی پروگرام کے تحت ایٹمی ہتھیار نہیں بنائے گا تو ایران پر عائد اقتصادی اور دیگر پابندیاں اٹھا لی جا ئیں گی اور اس موقع پر اسرائیل کی جانب سے الزامات کو نظر انداز کر دیا گیا اور اس دوران خلیج فارس، خلیج عمان اور آبنائے ہرمز میں صورت قدرے بہتر رہی اور یہاں جنگ کی بحرانی کیفیت تقریباً ختم ہو گئی، پھر14 جولائی2015 ء کو ویانا میں ایران کے ساتھ ایٹمی ہتھیاروں کے اعتبار سے تصفیہ اور معاہد ہ ہو گیا جوJCPOA-Joint Comprensive Plan of Action یعنی ’’برنامہ جامع اقدام مشترک‘‘ کہلایا اس معاہد ہ میں اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کے پانچ مستقل اراکین یعنی ویٹو پارز، برطانیہ ، فرانس ، امریکا ، روس اور چین کے علاوہ جرمنی بشمول یورپی یونین شامل تھے۔

یہ معاہدہ18 اکتوبر 2015 ء سے موثر ہوا یعنی اس پر عملدر آمد شروع ہو گیا۔ مگر اسرائیل اس کے خلاف تھا اور اِن کا موقف یہ تھا کہ ایران ایٹمی ہتھیار تیار کر رہا ہے اس لیے اس کے ساتھ کوئی معاہدہ نہ کیا جائے مگر معاہدہ ہو گیا اس معاہد ے کے بعد ایران کی کرنسی مستحکم ہونے لگی اور ایران کی معیشت کو قدرے اطمینان نصیب ہوا۔ اب امید یہ تھی کہ ایران پر عائد پابندیوں کے اٹھ جانے سے ایران کے مسائل ختم ہو جائیں گے اور ایران اپنے عوام کو زیادہ بہتر سہولتیں فراہم کر سکے گا جس کی وجہ سے ایران میں ون پارٹی حکومت کو مزید مقبولیت حاصل ہو گی۔

ایران کی جانب سے امریکا کے خلاف رویہ بھی خصوصاً خلیج فارس اور آبنائے ہرمز کے اعتبار سے جارحانہ نہیں رہا بلکہ ایران بہت متوازن انداز میں اپنی خارجہ پالیسی کو آزادانہ حیثیت سے اپنائے ہو ئے تھا مگر جب صدر اوبامہ اپنی صدارت کی دوسری مدت پوری کر چکے تو اِن کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ صدر امریکا کے بنے تو اُن کا واضح جھکائو شروع ہی سے اسرائیل کی جانب تھا اس کے بعد اُن کے دورِ صدارت کے آغاز ہی سے ایران کے ایٹمی پروگرام پر امریکا کی جانب سے اظہار تشویش کے طور پر پروپیگنڈہ شروع ہو گیا اور باوجود جرمنی، چین یورپی اور دیگر ملکوں کی مخالفت کے امریکی صدر ٹرمپ نے ایران کے ساتھ ہو نے والی ایٹمی ڈیل کا معاہد ہ JCPOA واپس لے لیا اور پھر دوبارہ ایران پر پابندیاں عائد کر نی شروع کر دیں۔

اس بد عہدی سے حقیتقاً امریکا کی ساکھ کو بین الاقوامی سطح پر نقصان پہنچا۔ اگرچہ جرمنی اور یورپی یونین کے دیگر ممالک نے بہت کوشش کی کہ صدر ٹرمپ کو قائل کر سکیں کہ ایسے معاہدے روز روز نہیں ہوتے اور اس سطح کے معاہدہ کو توڑنا ایران کے لیے تقریباً ناممکن تھا کیونکہ اس معاہدے میں نہ صرف یورپی یونین شریک تھی بلکہ اقوام متحدہ کے پانچوں ویٹو پاور امریکا ، روس، چین ، فرانس اور برطانیہ شریک تھے مگر صدر ٹرمپ نے یہ معاہدہ واپس لے لیا اور پھر اس کے فوراً بعد یوں محسوس ہونے لگا کہ جیسے امریکا اور ایران میں باقاعدہ جنگ ہو جائے گی اور ایک بار پھر خلیج فارس اور آبنائے ہز مر میں کشیدگی بڑھنے لگی 2018 ء میں جب صدر ڈونلڈ ٹرمپ JCPOA سے منحرف ہو نے کا فیصلہ کر نے والے تھے تو ایران کی جانب سے دھمکی دی گئی کہ اُ س کی جانب سے آبنائے ہرمز بند کی جا سکتی ہے اور اس کے لیے ایرانی پاسدارانِ انقلاب کو تیار رہنے کا حکم دیا گیا تھا مگر اس دھمکی پر عملدرآمد نہیں ہوا البتہ ایران کی جانب سے قوت کا مظاہرہ کرتے ہو ئے ایران کے صحرائی علاقے میں زمین سے زمین پر 100 میل تک مار کرنے والے جدید میزائیل کا کامیاب تجربہ کیا۔

اپریل2019 ء میں ایران کے تیل کی برآمد پر پابندیوں کے باوجود کچھ ملکوں کو ایران سے تیل خریدنے کی اجاز ت دی گئی۔ 13 جون 2019 ء کو ایک آئل ٹینکر پر گولہ باری کی گئی جس کا الزام ایران پر عائد کیا گیا اور ایران نے اس سے انکار کیا، اس واقعہ کے بعد جبرالٹر سے خلیج عمان، خلیج فارس اور آبنائے ہرمز تک امریکا ، برطانیہ اور فرانس کے جنگی بحری جہاز سمندر میں آگئے اور یہ سلسلہ 2020 ء تک جاری رہا۔ مئی 2020 ء ہی میں ایران نے ایک میزائیل داغا جو فرنڈلی فائرنگ میں اُسی کی ایک شپ کو لگا جس سے 19 فوجی جان بحق ہو گئے۔

2019 ء کے آخر اور 2020 ء کے آغاز سے ایران کی جانب سے عراق اور شام میں مداخلت کو بنیاد بناتے ہوئے، صدر ڈونلڈٹرمپ نے یہاں ایران کے خلاف کاروائی کا فیصلہ کیا اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خصوصی حکم پر عملد در آمد کرتے ہوئے ایران پاسدارانِ انقلاب کے کمانڈر میجر جنرل قاسم سلیمانی اور ابومہدی دونوں میزائیل حملہ میں قتل کر دئیے گئے جس پر ایرانی سپریم لیڈر علی خمینا ئی نے امریکی فوج سے انتقام لینے کا اعلان کیا اور امریکا نے اس پر یہاں 4000 امریکی فوج تعینات کر دیئے۔ یہ کشیدہ صورتحال21 جنوری2021 ء تک اپنی شدت کے ساتھ برقرار رہی۔

نومبر2020 ء کے امریکی صدارتی انتخابات میں جو بائیڈن امریکا کے نئے صدر منتخب ہوئے جو ٹرمپ کی پالیسیوں کے شدید مخالف تھے اور وائٹ ہاوس میں اپنی صدارت کے آغاز پر ہی اُنہوں نے ایران سے دوبارہ JCPOA کوموثر کرنے اورا س اعتبار سے صورتحال کا جائزہ لینے کا اعلان کر دیا اور ایران سے کہا کہ وہ اپنے ایٹمی پروگرام کو اسی سطح پر رکھے جس پر معاہدہ ہوا تھا لیکن ایران کی جانب سے جواباً یہ کہا گیا کہ امریکا پہلے معاہدے کے مطابق ایران پر عائد پابندیاں ختم کرے۔ 28 مار چ 2021 ء تک امریکا نے ایران پر عائد پابندیاں ختم نہیں کیں ۔ اسی روز ایران اور چین کے درمیان اسٹریٹجک معاہدہ ہو گیا جس کے تحت چین ایران میں آئندہ 25 سال میں 400 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا ۔

اگرچہ امریکی صدر نے یورپی یونین اور باقی ویٹو پاورز کی اُس خواہش کا احترام کیا ہے جس کے تحت جرمنی سمیت اِن ملکوں نے پہلے صدر ٹرمپ سے گذارش کی تھی کہ JCPOA جیسے اہم اور بڑے بین الاقوامی معاہدے کو واپس نہ لیا جائے لیکن صدرٹرمپ نے اسرائیل کے دبائو کی وجہ سے یہ معاہد ہ واپس لیا تھا اور اب اگرامریکا کے صدر جو بائیڈن اپنے بیان کے مطابق مستقبل قریب میں واقعی معاہدے کی پاسداری کرتے ہوئے ایران پر عائد پانبدیاں فوراً اٹھا لیتے تو شائد ایران مذاکرات کی میز پر کچھ لو کچھ دو کی پوزیشن پر آسکتا تھا مگر اب چین سے معاہدے کے بعد صورتحال مختلف ہے۔

یہ بھی اندیشہ ہے کہ ایران جنوبی کوریا اور اسرائیل کی طرح غیر اعلانیہ ایٹمی قوت بن جائے یعنی وہ بھی اسرائیل کی طرح ایٹمی ہتھیاروں کے رکھنے سے انکار تو کرے لیکن اُس کے پاس بھی اسرائیل کی طرح ایٹمی ہتھیار ہوں، اسی صورت میں آبنائے ہرمز دنیا کے لیے خطر ے کی ایک لکیر بن سکتی ہے ایک ایسا خطرہ جو پوری دنیا کو لپیٹ میں لے سکتا ہے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔