آریہ کیا قوم ِنوحؑ سے تھے؟

سید عاصم محمود  اتوار 18 اپريل 2021
قران پاک اور احادیث نبوی کی روشنی میں قدیم ہندوستانی باشندوں کے مذہبی نظریات کا معلومات افروز قصّہ۔ فوٹو: فائل

قران پاک اور احادیث نبوی کی روشنی میں قدیم ہندوستانی باشندوں کے مذہبی نظریات کا معلومات افروز قصّہ۔ فوٹو: فائل

’’زمین پر گھومو پھرو پھر دیکھو کہ (تعلیم الہی )جھٹلانے والوں کا کیسا انجام ہوا۔‘‘(سورہ الانعام۔11)
٭٭
دنیائے انٹرنیٹ کا ایک فائدہ یہ ہے کہ اس میں سیکڑوں فورم وجود میں آ چکے ہیں۔ ان فورموں میں دنیا بھر کے افراد مختلف علمی موضوعات پر مباحثہ کرتے ہیں۔چند ماہ قبل میرا ایک ایسے ہی فورم پر جانا ہوا۔وہاں ایک بھارتی شہری سے ٹاکرا ہوا۔ہمارے مابین یہ بحث چھڑ گئی کہ ہندومت میں آخر بیسیوں دیوی دیوتا کیوں ہیں؟

تادیر اس سوال پر گفتگو ہوئی۔اس کا کہنا تھا کہ قدیم ہندوستان میں دیوتائوں کا وجود نہیں تھا کیونکہ تب خصوصاً شمالی ہندوستان میں ’’ویدمت‘‘رائج تھا۔اس مذہب میں صرف ’’ایک خدا ‘‘کی عبادت ہوتی تھی۔البتہ خدا کی صفتوں کے لحاظ سے مختلف نام تھے،جیسے دین اسلام میں بھی اللہ تعالی کی صفات اجاگر کرتے اسمائے حسنی موجود ہیں۔بھارتی کا دعوی تھا کہ ویدمت ہندوستان میں بیرون ممالک سے آئے مہاجروں نے متعارف کرایا جنھیں اب ’’آریہ‘‘کہا جاتا ہے۔بت پرستی کو پروان چڑھانے والے برہمن انہی آریائوں کی اولاد تھے۔آج بھارت میں برہمن مت ’’ہندومت ‘‘ کی ہیئت اختیار کر چکا۔یہ نیا مذہب برہمن مت ہی کی ترقی یافتہ شکل ہے۔اس کے ماننے والے ہندو کہلاتے ہیں۔

بھارتی دانشور کی گفتگو سن کر راقم میں تجسّس پیدا ہوا کہ وید مت کے بارے میں معلومات حاصل کی جائیں اور جانا جائے ،کیا واقعی اس میں توحید کی تعلیم بھی ملتی ہے؟وید مت کی بنیاد وید ہیں، چار مذہبی کتابیں جنھیں جدید ہندو بھی مقدس مانتے ہیں۔ان کے نام ’’رگ وید،یجر وید،سام وید اور اتھرو وید‘‘ہیں۔یہ وید ’’دیو وانی‘‘ یعنی خدا کا کلام اور ’’نج گیان‘‘یعنی خالق کائنات کا ذاتی علم ہیں۔انھیں ’’شروتی گیان‘‘یعنی سنا جانے والا علم بھی کہتے ہیں۔مطلب یہ کہ ویدوں کی تعلیم سینہ بہ سینہ چلی آ رہی ہے۔

یہی وجہ ہے ،انیسویں صدی سے قبل ویدوں کے قلمی نسخے بہت نایاب تھے۔جب یورپی ماہرین ہندوستان آئے تو وہ انیسویں صدی میں برہمن پنڈتوں سے سن کر انھیں ضابطہ تحریر میں لائے۔کہا جاتا ہے کہ ابتدا میں صرف ایک وید تھا۔پھر آسانی سے سمجھنے کی خاطر اس کے چار حصے کر دئیے گئے۔ہمارے نزدیک ویدوں کی خاصیت یہ ہے کہ ان میں توحید کی تعلیم بھی موجود ہے۔

علمی بددیانتی
راقم کی تحقیق سے انکشاف ہوا کہ بھارتی دانشور کے دعوی میں کچھ حقیقت ضرور پوشیدہ ہے۔یورپی ماہرین کا کہنا ہے کہ وید 1700قبل مسیح سے 500قبل مسیح کے عرصے میں تخلیق ہوئے۔تاہم ہندوئوں کا اعتقاد ہے کہ یہ ہزارہا برس سے چلے آ رہے ہیں۔حیرت انگیز بات یہ کہ آج ہندومت کے جتنے بھی دیوی دیوتا ہیں،مثلاً رام ،کرشن،شیو،وشنو،ہنومان،گینش،لکشمی،پاروتی وغیرہ،ان کا ویدوں میں ذکر نہیں ملتا۔البتہ دور جدید کے ہندو ماہرین کھینچ تان کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ فلاں ویدک دیوتا کی صفات شیو یا وشنو سے ملتی ہیں…لہذا یہ وہی ہوں گے۔یہ علمی چکر بازی اور بددیانتی ہے۔سچ یہ ہے کہ جدید دور کے دیوی دیوتا برہمن طبقے کی تخلیق ہیں۔

سوال یہ ہے کہ ان بتوں کو کیوں تخلیق کیا گیا؟وجہ یہ ہے کہ اول ان بتوں کا والی وارث بن کر برہمن حکمران طبقہ ہندوستان میں اپنا اقتدار مضبوط کرنا اور اثرورسوخ بڑھانا چاہتا تھا۔اس کی خواہش تھی کہ طبقے کو زیادہ سے زیادہ طاقت اور آسائشیں حاصل ہو جائیں۔دوم وجہ یہ تھی کہ عوام بتوں پر چڑھاوے چڑھا سکیں اور انھیں نذرانے دیں۔یوں برہمن طبقے کے لیے کمائی کا مستقل ذریعہ کُھل جاتا۔گویا اپنے مفادات کی تکمیل کے لیے قدیم ہندوستانی حکمرانوں نے توحید پرستی کی تعلیم کو خیرباد کہا اور بت پرستی اختیار کر لی۔

آج بھارت پہ حکومت کرتے قوم پرست،انتہا پسند اور متعصب ہندو اسی قدیم حکمران طبقے کی نظریاتی اولاد ہیں۔بت پرستی دراصل شخصیت پرستی کی ترقی یافتہ قسم ہے۔صحیح البخاری میں حضرت عباس ؓ سے روایت ہے، نبی کریم ﷺ نے فرمایا:’’قوم نوح ؑ میں چند پاک باز لوگ موجود تھے۔جب وہ چل بسے تو شیطان کے اکسانے پر لوگوں نے ان کے بت بنا لیے۔رفتہ رفتہ ان کی پوجا کی جانے لگی۔اس طرح (انسانی معاشرے)میں بت پرستی کا آغاز ہوا۔‘‘یاد رہے، سورہ نوح،آیت 22 میں قوم نوحؑ کے بتوں کے نام ’’ود،سواع،یغوث،یعوق اور نسر‘‘درج ہیں۔

توحید کا سب سے بڑا دشمن
زمانہ قدیم سے برہمن طبقے کی سر توڑ سعی ہے کہ ویدوں کو عوام الناس میں نہ پھیلایا جائے۔ماضی میں تو صورت حال یہ تھی کہ صرف برہمن پنڈت ہی وید حفظ کر سکتے تھے۔اور برہمنوں کے سوا کسی ہندوستانی کو اجازت نہیں تھی کہ وہ وید کا ایک لفظ بھی سن سکے۔آخر عام آدمی کو ویدوں سے دور رکھنے کے لیے اتنے جتن کیوں کیے گئے؟

وجہ یہی کہ بالادست برہمن طبقہ نہیں چاہتا تھا، توحید کی تعلیم عوام میں پھیل جائے۔اگر لوگ ایک رب کی عبادت کرنے لگتے تو ان کا سارا دھندا چوپٹ ہو جاتا۔وہ پھر خدا کے نائب قرار پاتے اور شاہی اختیارات اور آسائشوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے۔قران پاک کا مطالعہ کیجیے تو معلوم ہوتا ہے ،حضرت نوح ؑ سے لے کر حضور اکرم ﷺ تک تمام رسولوں اور انبیائے کرام کا ٹکرائو اپنی اپنی قوم کے حکمران اور طاقتور طبقے ہی سے ہوا۔یہ حکمران طبقہ بالعموم شیطان کی تعلیمات کا پیروکار ہوتا تھا اور توحید کا سب سے بڑا دشمن!

سوال یہ ہے کہ ویدوں میں توحید کی تعلیم موجود تھی تو برہمنوں کو تو انھیں دریا برد کر دینا چاہیے تھا۔پھر برہمن پنڈت انھیں حفظ کیوں کرتے رہے؟اور یہ اب تک باقی کیسے چلے آ رہے ہیں؟دراصل قدیم برہمن رہنمائوں نے جنھیں ’’رشی‘‘بھی کہا جاتا ہے،سب سے پہلے ویدوں میں ہی بت پرستی کے نظریات داخل کیے کیونکہ اس زمانے میں یہی بنیادی مذہبی کتب تھیں۔اس لیے انھیں بھی بت پرستی کے اولیّں آثار کی حیثیت سے اپنا لیا گیا۔لیکن یہ سخت احتیاط برتی گئی کہ وید صرف برہمن پنڈتوں کے سینوں میں محفوظ رہیں۔انھیں احاطہ تحریر میں بھی نہیں لایا گیا کیونکہ برہمن طبقے کو خوف تھا،یوں وہ عوام الناس میں پھیل سکتے ہیں۔جبکہ وہ طبقہ ہر قیمت پر توحید کی تعلیم عام ہندوستانی سے دور رکھنا چاہتا تھا۔صدیاں گذر چکیں،برہمنوں اور ان کے پیروکاروں کا وتیرہ تبدیل نہیں ہوا۔

حقیقت خرافات میں جا کھوئی
غرض ویدوں میں بت پرستی کے نظریات در آنے سے ان میں تحریف ہو گئی اور حقیقت خرافات میں جا کھوئی۔مسلمانوں کا ایمان ہے ہے کہ یہود ونصاری کے لیڈروں نے بھی توریت و انجیل سے بعینہ یہی سلوک کیا ۔یہ کتب الہی تھیں مگر یہود و نصاری کے حکمران طبقے اور مذہبی رہنمائوں نے اپنے مفادات پورے کرنے کی خاطر ان آسمانی کتب میں مان مانے نظریات ٹھونس دئیے۔اس طرح وہ تحریف کا شکار ہو گئیں۔مگر ہمارا عقیدہ ہے کہ بائبل میں توحید کی تعلیم بھی موجود ہے۔یعنی جستہ جستہ تعلیم الہی بھی مل جاتی ہے اور قران پاک میں بھی اسی کا تذکرہ فرمایا گیا۔یونہی برہمن طبقے کی تحریف کے باوجود ویدوں میں توحید کی تعلیم بھی باقی رہی۔

یہ واضح رہے،اپنشد،شاستر،اتہاس(مہا بھارت،رامائن)،پُران (بھگوت گیتا) اور دیگر کتب(منو سمرتی)جدید ہندوئوں کی بنیادی مذہبی کتابیں ہیں۔مگر یہ سبھی رشیوں کی تخلیق ہیں۔صرف اپنشدوں اور شاستروں میں ویدوں کی تفسیر ملتی ہے۔مگر اس کا زور بھی بت پرستی پر ہے۔تعلیم ِتوحید دونوں قسم کی کتب میں بہت کم ہے۔وجہ یہی کہ ویدوں کے بعد سبھی مذہبی کتابیں بت پرستی کے موجد،برہمنوں کے ادوار میں لکھی گئیں۔اور ان کا اصل مقصد بت پرستی کی ترویج تھا۔اردو میں صرف یجر وید کا مکمل ترجمہ ہوا ہے۔بقیہ ویدوں کے اقتباسات مختلف کتب میں ملتے ہیں۔حیرت انگیز بات یہ کہ اللہ تعالی نے ویدوں میں توحید کی تعلیم افشا کرنے کا کام ایسے شخص سے کرایا جو مسلمانوں کا مخالف تھا۔یہ اللہ پاک کی حکمت و معجزہ فرمائی ہے۔

پنڈت گنگا کی کتاب
پنڈت گنگا پرساد اپادھیائے (1871-1968ء)معتصب ہندو تنظیم،آریہ سماج کا نامور رہنما گذرا ہے۔اس کی سب سے بڑی تمنا تھی کہ ہندوستان میں مسلمانوں اور عیسائیوں پر ہندوئوں کی حکومت قائم ہو جائے۔یہ ہندوئوں میں عیسائیت کی تبلیغ کا سخت مخالف تھا۔بعد ازاں اس نے اسلام اور مسلمانوں کی مخالفت میں ایک کتاب’’مضابیح اسلام‘‘لکھی جو 1963ء میں الہ آباد سے شائع ہوئی۔اس میں پنڈت نے ویدوں سے وہ اقتباسات جمع کر دئیے جو آیات قرانی سے مماثلت رکھتے ہیں۔پنڈت گنگا یوں ثابت کرنا چاہتا تھا کہ قران مجید ویدوں سے ماخوذ ہے۔

یہ ایک لغو اور دور از قیاس دعوی ہے۔پہلی وجہ یہ کہ وید قدیم سنسکرت زبان میں ہیں۔ جبکہ قران پاک قدیم عربی میں۔یہ دونوں زبانیں زبانوں کے مختلف خاندانوں سے تعلق رکھتی ہیں۔فرض کر لیا کہ ہندوستان سے ایک برہمن پنڈت سیر سپاٹے کرتا عرب پہنچ گیا۔ازراہ بحث یہ بھی مان لیا کہ وہ عربی جانتا تھا۔مگر ہم بتا چکے کہ برہمن پنڈت صرف اپنے طبقے کے چیدہ افراد کو وید سناتے تھے۔لہذا ایک برہمن پنڈت پر کیا بپتا پڑی تھی کہ وہ مکہ مکرمہ پہنچ کر وہاں ویدوں کی تعلیم دینے لگے؟اگر ایسا ہوتا تو یقیناً بزرگان اسلام تفسیر،سیرت،حدیث ،تاریخ اور سوانح حیات کی ہزارہا کتب میں اس بات کا تذکرہ ضرور کرتے۔مگر ہمیں ایک کتاب میں بھی اس کا ذکر نہیں ملتا۔ہاں، یہ ضرور درج ہے کہ عرب اور ہندوستان کے باشندوں میں تجارتی تعلقات قائم تھے۔

اب دیکھتے ہیں کہ ویدوں میں توحید کی تعلیم آیات قرانی سے کتنی مماثلت رکھتی ہے۔ویددوں کے تمام اقتباسات پنڈت گنگا پرساد کی کتاب سے ماخوذ ہیں۔یہ کتاب انتہائی نایاب ہے اور وجہ عیاں…بھارت کا حکمران طبقہ اس کی اشاعت نہیں چاہتا۔کتاب کا ایک نسخہ جامعہ ہمدرد،نئی دہلی کے کتب خانے میں محفوظ ہے۔جبکہ جدید بھارتی مصنفین کی کتب میں بھی اس کے حوالے ملتے ہیں۔

ویدوںاور قران پاک کا تقابلی جائزہ
٭تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے۔(سورہ فاتحہ۔1)…اس دنیا کے بنانے والے کے لیے تعریف ہے۔(رگ وید۔1-81-5-)
٭جو رحمن اور رحیم ہے۔(فاتحہ۔2)…جو دینے والا اور رحیم ہے۔(رگ وید1-34-3-)
٭ہماری سیدھے راستے کی طرف رہنمائی کر۔(فاتحہ۔5)…ہمیں ہمارے فائدے کے لیے سیدھے راستے پر لگا۔(یجر وید16-40-)
٭کیا تم نہیں جانتے کہ اللہ کے لیے ہی آسمانوں اور زمین کی سلطنت ہے۔اور اللہ کے سوا تمھارا کوئی مددگار نہیں۔(البقرہ۔107)…وہ عظیم زمین و آسمان کا مالک ہے۔وہ ایشور ہماری مدد کرے۔(رگ وید1-100-1-)
٭اس نے ہر (موجود)چیز کو پیدا فرمایا۔ (الفرقان۔2) … پرماتما سبھی پُرجا(مخلوق)کو بناتا ہے۔(اتھرووید1-19-7-)
٭اور اپنے حق میں بھلائی کے لیے خرچ کرو۔تم اللہ کو اچھی طرح قرض دو گے تو وہ اسے تمھارے لیے بڑھائے گا۔ (التغابن۔16-17) خدا ایک ہے۔وہ خیرات کرنے والے مہربان انسان کو رزق دیتا ہے۔(رگ وید7-84-1-)
٭وہ سب کو کھلاتا ہے،اس کو کھلایا نہیں جاتا۔ (انعام۔14)… پرماتما کھاتا نہیں ہے،دوسروں کو کھلانے کا انتظام کرتا ہے۔(رگ وید20-164-1-)
٭اس کی کسی چیز سے مشابہت نہیں ہے۔(شوری۔11)…اس پرمیشور کی کوئی مورتی نہیں بن سکتی۔(یجر وید3-32-)
٭اور اللہ کا ہی ہے مشرق بھی اور مغرب بھی۔ (البقرہ۔115)… سب سمتیں اسی کی ہیں۔(رگ وید4-121-10)
٭اور ہم تو اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں۔ ( ق۔16)… تو ہم سے نزدیک ترین اور محافظ ہے۔(رگ وید۔1-24-5-)
٭کیا تم نہیں دیکھتے ،اللہ رات کو دن میں داخل کرتا ہے اور سورج وچاند کو مسخر کر رکھا ہے۔( لقمٰن۔29)…کل جانداروں کے اوپر قدرت رکھنے والے خدا نے دن اور رات کا سلسلہ قائم کیا۔(رگ وید۔2-9-10-)
٭یہ ہمارے پاس سے ایک نعمت ہے کہ جو شکر کرتا ہے،ہم اس کو ایسا ہی صلہ دیتے ہیں۔(قمر۔35)…ہے پرمیشور،آپ نیک آدمی کو اچھا پھل دیتے ہیں۔یہ آپ کا حقیقی خاصہ ہے۔(رگ وید6-1-1-)
٭قطعاً اللہ ایسوں کو دوست نہیں رکھتا جو تکبر اور بڑائی کرنے والے ہیں۔(النسا۔36)…انسان کو چاہیے کہ سچائی کے راستے پر عاجزی سے چلے۔(رگ وید2-31-10-)
٭اور جہاں بھی تم ہو،وہ تمھارے ساتھ ہے اور جو بھی تم کرتے ہو،اسے اللہ دیکھ رہا ہے۔(الحدید۔4)…جو کھڑا ہوتا اور چلتا ہے۔جو دھوکا دیتا اور چھپتا پھرتا ہے۔جو دوسرے کو تکلیف دیتا ہے اور جو آدمی خفیہ بات کرتے ہیں،تیرا ایشور ان سب کو جانتا ہے۔(اتھرو وید2-16-4-)
٭اللہ کی باتوں میں کوئی تبدیلی نہیں ہوا کرتی۔(یونس۔64)…خدا کے قوانین نہیں بدلتے۔(رگ وید10.24-1-)
٭وہی اول ہے وہی آخر،وہی ظاہر ہے وہی باطن اور وہ ہر شے کا علم رکھتا ہے۔(الحدید۔3)…اے پرمیشور،تو سب سے اول ہے اور سب سے زیادہ عالم ہے۔(رگ وید2-31-1-)
٭حالانکہ تم کتاب (الہی)پڑھتے ہو تو کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے۔ (البقرہ۔44)… بے عقل لوگ کتاب دیکھتے ہوئے نہیں دیکھتے اور سنتے ہوئے نہیں سنتے۔(رگ وید۔4-71-10-)
٭اور کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔( نجم۔38)… تو ہی عمل کر تو ہی اس کا پھل بھوگ۔(یجر وید۔15-23-)
٭بے شک اللہ انسانوں پر ظلم نہیں کرتا بلکہ لوگ خود اپنے پر ظلم کرتے ہیں۔( یونس۔44)… اے قادر مطلق، اے عظیم پروردگار،ہم اپنی جہالت سے گمراہ ہوتے ہیں،ہم پر مہربانی کیجیے۔(رگ وید۔3-89-7-)
٭یہ وہ لوگ ہیں جو آسودگی اور ترشی،دونوں میں خرچ کرتے ہیں۔غصّہ ضبط کرتے اور لوگوں سے درگذر کرتے ہیں۔اور اللہ احسان کرنے والے کو دوست رکھتا ہے۔ (آل عمران۔134)…جو غریبوں اور حاجت مندوں کے لیے خیرات کرتا ہے،وہی سخی ہے۔اسی کا بھلا ہو گا اور دشمن بھی دوست بن جائیں گے۔(رگ وید3-117-10)

تاریخ کی پہنائیوں میں
درج بالا تقابلی جائزے سے عیاں ہے کہ ویدوں کی تعلیم میں توحید کا تذکرہ بھی ملتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ تعلیم کہاں سے آئی؟جواب ڈھونڈنے کے لیے ہمیں تاریخ کی پہنائیوں میں جھانکنا پڑے گا۔بحیثت مسلمان ہمارا ایمان ہے کہ روئے زمین پر حضرت آدمؑ پہلے انسان ہیں۔آپ سے پھر انسانی نسلوں نے جنم لیا۔یہود و نصاری آپ کا مسکن وادی دجلہ وفرات(عراق)،خلیج فارس یا آرمینیا میں بتاتے ہیں۔قران مجید میں یہ درج نہیں کہ آپ زمین پہ کس جگہ اتارے گئے۔وہ مقام افریقا ہو سکتا ہے،ایشیا یا چین بھی۔

ماہرین اثریات کہتے ہیں کہ کرہ ارض پہ اولیّں انسانی شہروں کی بنیاد پانچ دریاوں…دجلہ،فرات،نیل۔سندھ اوریانگ تزی کی وادیوں میں دس بارہ ہزار سال پہلے رکھی گئی۔یہی شہر تہذیب وتمدن کے اولیں مراکز بھی تھے۔حضرت آدم ؑ کی تبلیغ کے پیش نظر ان بستیوں کے ساکنوں کو توحید پرست ہونا چاہیے۔مگر مصر اوروادی دجلہ وفرات کے قدیم مقامات میں کھدائی سے دیوی دیوتائوں کے بت ملے ہیں۔اس سے آشکارا ہے کہ ان جہگوں پر بت پرستی رائج ہو چکی تھی۔البتہ ہندوستان اور چین کے قدیم ترین مقامات سے دیوتائوں کے بت نہیں ملے۔گویا فرض کیا جا سکتا ہے کہ ان بستیوں میں توحید رائج تھی۔گو ممکن ہے،وہاں کے مکین قدرتی مظاہر مثلاً سورج اور ستاروں کی عبادت کرتے ہوں۔

ہندوستان کے قدیم ترین انسانی مقامات آج ’’وادی سندھ کی تہذیب ‘‘کا حصہ ہیں۔ان جہگوں کی بنیاد دس گیارہ ہزار سال پہلے پڑی۔ایک ایسی ہی اولیّں انسانی بستی مہر گڑھ(بلوچستان) تھی۔خیال ہے، بعد ازاں اہل مہر گڑھ ہی نے سندھ اور ہاکڑہ(گھگر) دریائوں کی وادیوں میں نئی بستیاں بسائیں اور یوں ایک تہذیب کی بنیاد رکھی۔یہ تہذیب بلوچستان، سندھ، پنجاب، خیبر پختون خواہ، ہریانہ، راجھستان اور گجرات تک پھیلی ہوئی تھی۔اس تہذیب کا رسم الخط آج تک پڑھا نہیں جا سکا۔شاید مستقبل میں پڑھ لیا جائے۔تب قدیم ہندوستانی باشندوں کے مذہب کی کچھ معلومات افشا ہو سکیں گی۔

کرہ ارض پہ پہلے رسول
کرہ ارض پر نزول حضرت آدمؑ کے بعد دوسرا اہم ترین اور انقلابی واقعہ طوفان نوحؑ ہے۔صحیح بخاری کی ایک حدیث کی رو سے حضرت آدمؑ سے حضرت نوح ؑ تک دس پشتوں کا فاصلہ ہے۔یہ عرصہ معمولی نہیں کیونکہ زمانہ قدیم میں انسانی عمر کافی طویل ہوتی تھی۔جس قوم میں حضرت نوح ؑ پیدا ہوئے، وہ عظیم ترین گناہ،شرک(بت پرستی)میں مبتلا ہو چکی تھی۔علمائے اسلام کی اکثریت متفق ہے کہ یہ قوم وادی دجلہ وفرات میں آباد تھی۔

بائبل میں حضرت نوح ؑ کا ذکر ان کی پیغمبرانہ شان کے منافی ہے۔ یہود ونصاری کے نزدیک حضرت نوح ؑ شراب پینے والے پہلے انسان تھے۔ قران پاک میں مگر آپ ایک جلیل القدر رسول کی حیثیت سے سامنے آتے ہیں۔ کتاب الہی کی اٹھائیس سورتوں میں چالیس سے زائد آیات میں آپ کا تذکرہ آیا ہے۔ گویا بائبل اور قران مجید میں تذکرہ حضرت نوحؑ بالکل مختلف ہے۔پھر بھی بعض مستشرقین قران پاک پر بائبل کی نقل کا ناپاک الزام دھرتے ہیں۔

ایک متفق علیہ حدیث کی رو سے حضرت نوحؑ کرہ ارض پہ پہلے رسول ہیں۔یعنی اللہ تعالی نے ان پر بذریہ وحی شریعت نازل فرمائی تاکہ وہ اسے اپنی قوم کو عطا فرما سکیں۔حضرت آدمؑ کے سبھی پیروکار توحید پرست تھے۔مگر حضرت نوح ؑ مبعوث ہوئے تو اولاد ِآدم میں کئی لوگ شیطان کے جال میں پھنس کر مشرک ہو چکے تھے۔اسی لیے انھیں راہ راست پر لانے کی غرض سے شریعت نازل فرمائی گئی۔علمائے اسلام لکھتے ہیں کہ شریعت نوح ؑ اسلامی شریعت کے قریب تر تھی۔سورہ الشوری آیت 13میں اللہ تعالی فرماتے ہیں:’’اس (اللہ) نے تمھارے لیے وہی دین مقرر کیا جس کی ہدایت اس نے نوح کو فرمائی اور جس کا حکم ہم نے ابراہیم،موسی اور عیسی کو دیا کہ اس دین کو قائم رکھو اور تفرقہ نہ ڈالو۔‘‘

صابئین قوم
حضرت نوح ؑ نے اپنی قوم میں تبلیغ فرمائی مگر چند غربا کو چھوڑ کر بقیہ مشرک رہے۔آخر طوفان نے سبھی کفار کو غرق کر دیا۔بیشتر علما کا خیال ہے کہ یہ سیلاب وادی دجلہ وفرات،مصر اور ملحقہ علاقوں میں آیا تھا۔اسی لیے ہندوستان اور چین متاثر نہیں ہوئے جہاں انسانی بستیاں آباد ہو چکی تھیں۔ اس بات کی تائید سورہ اعراف کی آیت 67 سے بھی ہوتی ہے:’’اور ہم نے (طوفان میں)ان لوگوں کو غرق کر دیا جھنوں نے ہماری نشانیوں کو جھٹلایا تھا۔‘‘تاریخی آثار سے بھی عیاں ہے کہ یہ طوفان عالمگیر نہ تھا۔دور جدید کی کئی تہذیبوں میں مگر زمانہ قدیم میں عظیم طوفان آنے کی روایات ملتی ہیں۔وجہ یہ کہ اللہ تعالی نے حضرت نوح ؑ کے بچ جانے والوں بیٹوں اور کشتی پر سوار دیگر نیکوکاروں کی اولاد پر فضل فرمایا۔(دیکھیے سورہ بنی اسرائیل آیت 3اور سورہ مریم آیت 58)۔ان کی اولاد پھر پورے کرہ ارض پر پھیل گئی۔وہ جہاں بھی پہنچی، اپنے ساتھ حضرت نوح ؑ کی کچھ نہ کچھ تعلیم ضرور لے گئی۔اور اس میں طوفان آنے کا تذکرہ بھی موجود تھا۔

ماہرین اثریات بتاتے ہیں کہ ساڑھے چار ہزار سال قبل وادی دجلہ وفرات،ایران اور وسطی ایشیا سے مہاجر ہندوستان آنے لگے۔ان سبھی مہاجرین کو مجموعی طور پر ’’آریہ‘‘کہا گیا۔اور وید انہی کی تعلیمات پر مبنی ہیں۔درج بالا بتایا جا چکا کہ ویدوں میں تعلیم ِتوحید بھی ملتی ہے۔اسی لیے شاہ ولی اللہؒ،بانی ِدیوبند مولانا قاسم نانوتویؒ اور دیگر مشاہیر اسلام آریائوں کو کسی رسول کی قوم میں سے سمجھتے تھے۔جبکہ دور جدید میں مولانا سلیمان ندوی،ؒمولانا عبیداللہ سندھی،ؒخواجہ حسن نظامی اؒور مولانا شمس نوید عثمانی ؒجیسے جیّد علما نے انھیں ’’صابئین ‘‘میں شمار کیا ہے۔قران پاک میں صابئین کا ذکر یہود ونصاری کے ساتھ آیا ہے۔(سورہ بقرہ آیت62،سورہ مائدہ آیت61 ،،اور سورہ الحج آیت17 )۔سورہ بقرہ کی آیت میں کہا گیا ہے کہ یہود ،نصاری اور صابئین میں سے جو شریعت الہی پر عمل کرتے ہیں،وہ خوفزدہ اور غمگین نہیں ہوں گے۔

علمائے اسلام میں اختلاف ہے کہ یہ کون سی قوم تھی۔علامہ ابن کثیر ؒ(تفسیر قران) اور امام راغب اصفہانی ؒ (مفردات)نے انھیں قوم ِنوح قرار دیا ہے۔یاد رہے،حضرت نوح ؑ کی کشتی کوہ جودی پر ٹھہری جو عراق،ایران،ترکی اور آرمینیا کی مشترکہ سرحد پر پھیلے پہاڑی سلسلے کی ایک چوٹی تھی۔علمائے اسلام لکھتے ہیں کہ حضرت نوح ؑ پھر اپنے اہل خانہ اور بچے کھچے نیکوکاروں کے ساتھ وادی دجلہ وفرات ہی میں مقیم ہوئے۔

آیات ِقرانی کی روشنی ہی میں علما نے صابئین کو قومِ نوح ؑ کہا ہے۔وجہ یہ کہ اکثر آیات میں حضرت نوح ؑ کا ذکر حضرت موسی ؑ اور حضرت عیسی ؑ کے ساتھ آیا ہے جو یہود و نصاری کے رسول تھے۔چونکہ دیگر آیات میں یہود ونصاری کے ساتھ صابئین کا بھی ذکر ہے،اسی لیے علما نے اسے حضرت نوح ؑ کی قوم قرار دیا کیونکہ وہ بھی رسول تھے۔آیات قرانی سے یہ بھی متشرح ہے کہ ممکن ہے،حضرت نوحؑ پر کوئی صحیفہ نازل ہوا ہو۔قران پاک میں توریت سے قبل کے صحائف کو ’’صحفِ اولیٰ‘‘(سورہ طحہ آیت 133)، ’’زبر الاوّلین‘‘(سورہ شعرا آیت 196)اور’’بیّنات‘‘اور’’ زُبّر‘‘(سورہ نمل آیات 44-49)کہا گیا ہے۔صحفِ اولی کے معنی ہیں :سب سے پہلے صحیفے۔زبر الاوّلین :سب سے پہلے بکھرے ہوئے اوراق۔بیّنات:جن میں صاف صاف سمجھ میں آنے والے بیان ہوں۔ اور زُبّر ایسے واقعات جن کا تمثیلی انداز میں ذکر کیا گیا ہو۔(وید اگر آسمانی کتاب ہوتے تو اسی درجہ بندی میں آتے)۔واضح رہے،ویدوں کو ’’آد گرنتھ‘‘بھی کہا جاتا ہے یعنی اولیّں صحیفے۔

جدید سائنسی تحقیق
ماہرین اثریات کا کہنا ہے کہ جب بیرون ہندوستان سے مہاجر آنا شروع ہوئے تو وادی سندھ کی تہذیب میں شامل شہروں میں بارشیں نہ ہونے سے شدید قحط پھیل گیا۔تب وہاں کے باشندے ہجرت کر کے جنوبی ہندوستان چلے گئے۔آج ان کی اولاد ’’دراوڑ‘‘کہلاتی ہے۔تامل ناڈو،آندھرا پردیش،کیرالہ وغیرہ میں یہی دراوڑ آباد ہیں جو آج بھی ہندو انتہا پسندی کا شکار نہیں ہوئے۔صرف بلوچستان کے ساحلی علاقوں میں قدیم سندھ تہذیب سے متعلق ایک چھوٹا سا گروہ آباد رہا۔ اس گروہ کی اولاد آج ’’بروہی‘‘کہلاتی ہے۔آریائوں کی اولاد شمالی ہندوستان میں پھلی پھولی اور وہیں آباد ہوئی۔اب ایک جدید سائنسی تحقیق کا نتیجہ ملاحظہ فرمائیے۔

ڈاکٹر ڈیوڈ رایش(David Reich)امریکا کے مشہور جینیات داں اور ہارورڈ یونیورسٹی کے میڈیکل اسکول سے وابستہ ہیں۔انھوں نے 2009ء میں اپنی ٹیم کے ساتھ دریافت کیا تھا کہ بھارتی قوم کے باشندے دو نمایاں قسم کے جین(Gene)رکھتے ہیں۔ایک قسم کے جین ان بھارتیوں میں ہیں جن کے اجداد ہزاروں سال پہلے افریقا سے آئے تھے۔ انھیں ’’قدیم جنوبی بھارتی‘‘(Ancestral South Indians)کہا گیا۔وجہ یہ کہ انہی قدیم انسانوں کی اولاد آج جنوبی بھارت میں بستی ہے۔دوسری قسم کے جین ان بھارتیوں میں زیادہ ملے جن کے اجداد ساڑھے چار ہزار سال پہلے مشرق وسطی اور وسطی ایشیا سے آئے تھے۔انھیں ’’قدیم شمالی بھارتی‘‘(Ancestral North Indians)کہا گیا کیونکہ وہ آج شمالی بھارت میں بستے ہیں۔عین ممکن ہے کہ مشرق وسطی سے آنے والے مہاجر قوم نوحؑ سے تعلق رکھتے ہوں جنھیں شاید قران پاک میںصابئین کہا گیا۔

ویدوں میں حضرت نوحؑ کا ذکر
یجر وید میں ’’منو‘‘نامی ایک شخصیت کا ذکر ملتا ہے۔یہ حضرت نوحؑ سے بہت مماثلت رکھتی ہے کیونکہ منو بھی ایک عظیم سیلاب سے بچ نکلتا ہے۔یجر وید کے مطابق خدا نے منو کو خبردار کیا کہ سیلاب آنے والا ہے۔چناں چہ اس نے کشتی بنائی اور خدا کی مدد سے بچ نکلا۔بعد ازاں منو سے نسل انسانی کا ازسرنو آغاز ہوا۔جو علما سمجھتے ہیں کہ ویدوں میں حضرت نوح ؑ کی تعلیم کا حصہ موجود ہے،وہ منو کو انہی کی شخصیت بتاتے ہیں۔یہ بات قابل ذکر ہے،جنوبی ہند میں منو کو ’’مہانوو‘‘کہا جاتا ہے۔نوو کا لفظ نوح سے بہت ملتا جلتا ہے۔ایک اور اہم بات یہ کہ ہندوئوں کے موجودہ دور’’کُل یگ‘‘کا آغاز عظیم سیلاب سے شروع ہوتا ہے۔

درج بالا معلومات سے آشکارا ہے کہ ممکن ہے، ویدوں میں قدیم رسولوں کی فرمائی توحید الہی کی تعلیم موجود ہو۔مگر آج برہمن مت المعروف بہ ہندومت بھارت میں چھا چکا۔لہذا وید مت وہاں سے تقریباً مٹ گیا ہے اور اس کی جگہ بت پرستی نے لے لی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔