- فوج نے جنرل (ر) فیض حمید کیخلاف الزامات پر انکوائری کمیٹی بنادی
- ٹی 20 ورلڈ کپ: ویرات کوہلی کو بھارتی اسکواڈ میں شامل کرنے کا فیصلہ
- کراچی میں ڈاکو راج؛ جماعت اسلامی کا ایس ایس پی آفسز پر احتجاج کا اعلان
- کراچی؛ سابق ایس ایچ او اور ہیڈ محرر 3 روزہ ریمانڈ پر پولیس کے حوالے
- شمالی وزیرستان میں پاک-افغان سرحد پر دراندازی کی کوشش کرنے والے7دہشت گرد ہلاک
- کیا یواے ای میں ریکارڈ توڑ بارش ’’کلاؤڈ سیڈنگ‘‘ کی وجہ سے ہوئی؟ حکام کی وضاحت
- اسلام آباد میں غیرملکی شہری کو گاڑی میں لوٹ لیا گیا
- بیلف اعظم سواتی کو ایف آئی اے سائبر کرائم سے برآمد کراکے پیش کرے، عدالت
- بلوچستان کے مختلف اضلاع میں طوفانی بارش کا سلسلہ جاری، ندی نالوں میں طغیانی
- قومی ٹیم میں تمام کھلاڑی پرفارمنس کی بنیاد پر آتے ہیں، بابراعظم
- فوج کی کسی شخصیت کا نام لینا اور ادارے کا نام لینا علیحدہ باتیں ہیں، بیرسٹر گوہر
- قائد اعظم یونیورسٹی شعبہ جاتی کارکردگی میں عالمی سطح پر بہترین جامعات میں شامل
- سابق ٹیسٹ کپتان سعید انور جعلی سوشل میڈیا اکاؤنٹ سے پریشان
- کنگنا رناوت کی بکواس کا جواب دینا ضروری نہیں سمجھتی؛ پریانکا گاندھی
- سائفر کیس میں وزارتِ خارجہ کے بجائے داخلہ مدعی کیوں بنی، چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ
- اسٹاک مارکیٹ میں مندی کا رجحان، انڈیکس 70 ہزار 333 پوائنٹس پر بند
- 19 ویں صدی کے قلعہ سے 100 برس پُرانی برطانوی ٹرین کار دریافت
- وزن کم کرنیوالی ادویات اور خودکشی کے خیالات میں تعلق کے متعلق اہم انکشاف
- مصنوعی ذہانت کے سبب توانائی کی کھپت میں اضافے کا خطرہ
- امریکا کی ایران کو نئی پابندیاں عائد کرنے کی دھمکی
ممتازاداکارہ خورشید بانو کومداحوں سے بچھڑے 20برس گزر گئے
لاہور: ممتاز اداکارہ خورشید بانو کو اپنے مداحوں سے بچھڑے 20 برس گزر گئے۔ گلوکارہ اوراداکارہ خورشید بانو 14اپریل 1914کو قصور میں پیدا ہوئیں۔
پاکستان منتقل ہونے سے پہلے انہوں نے 1931 میں مشہور فلم لیلا مجنوں میں کام کیا۔ بھارت میں خورشید بانو نے تیس فلموں میں کام کیا۔
خورشید بانو جنہیں عام طور پر صرف خورشید کے نام سے جانا جاتا ہے بھارتی سنیما کی ایک گلوکارہ اور اداکارہ تھیں۔ 1948ء میں پاکستان ہجرت کرنے سے قبل ان کا کیریئر 1930ء اور 1940ء کی دہائیوں پر مشتمل تھا۔
ان کی پہلی فلم لیلی مجنوں (1931ء) تھی۔ اس فلم کے کئی گانے سپر ہٹ۔ہوئے۔ ان کی دیگر فلمیں مفلس عاشق (1932ء)، نقلی ڈاکٹر (1933ء)، بم شیل اور مرزا صاحباں (1935ء)، کمیاگر (1936ء)، ایمان فروش (1937ء)، مدھر ملن (1938ء) اور ستارہ (1939ء) تھیں۔
1931ء سے 1942ء کے دوران انہوں نے کلکتہ اور لاہور کے اسٹوڈیوز کی بنائی ہوئی فلموں میں کام کیا وہ گلوکارہ واداکارہ کے طور پر پہچانی جاتی تھیں تاہم اس دور کی ان کی فلمیں فلم بینوں پر کوئی خاص اثر نا چھوڑ سکیں۔ ان کے عروج کا دور اس وقت آیا جب وہ رنجیت مووی ٹون فلمز میں کندن لال سہگل اور موتی لال کے مد مقابل کام کے لیے بمبئی منتقل ہو گئیں۔
کندن لال سہگل کے ساتھ چتوربھوج دوشی کی فلم جگت سورداس اور اس کے بعد تان سین میں کام کرنے بعد وہ اپنے عروج پر پہنچیں۔ انہیں’پہلی گلوکار ستاروں کی جوڑی‘ کے طور پر جانا جاتا تھا۔
پاکستان نقل مکانی کرنے سے قبل ان کی ہندوستان میں آخری فلم پپیہا رے (1948ء) تھی جو ایک زبردست ہٹ فلم تھی۔1948ء میں وہ اپنے شوہر کے ساتھ پاکستان آ گئیں اور کراچی میں رہائش پذیر ہوئیں۔انہوں نے 1956ء میں دو فلموں فنکار اور منڈی میں کام کیا۔خورشید بیگم 18اپریل 2001 میں اس دار فانی سے رخصت ہو گئیں۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔