جمہوریت اور سسٹم کی بے بسی

ایڈیٹوریل  اتوار 18 اپريل 2021
ملک جس قسم کے مالیاتی بحران کا شکار ہے، اس کا تقاضا ہے کہ غیرترقیاتی اخراجات میں کمی کی جائے۔ فوٹو: فائل

ملک جس قسم کے مالیاتی بحران کا شکار ہے، اس کا تقاضا ہے کہ غیرترقیاتی اخراجات میں کمی کی جائے۔ فوٹو: فائل

وزیر اعظم عمران خان نے وفاقی کابینہ میں ایک بار پھر رد و بدل کرتے ہوئے اپنے پونے 3 سالہ دور حکومت میں تیسرا وزیر خزانہ بھی تبدیل کر دیا ہے۔

حکومتی سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ حکومتی تبدیلیوں کا تسلسل ایک بڑے پیراڈائم شفٹ کی نشاندہی کرتا ہے، بظاہر وزیر اعظم سسٹم میں استحکام کی جنگ لڑتے نظر آتے ہیں لیکن اقتصادی دباؤ، پیچیدہ سیاسی صورتحال، پیدا شدہ معاملات نے عوام کو ایک ہیجانی کیفیت میں مبتلا کر دیا ہے۔

عوام محسوس کرتے ہیں کہ حکومت ان کے لیے کوئی بڑا ریلیف دینے میں پوری طرح کامیاب نہیں ہے، وہ ایک فیصلہ نہیں کرتی کہ دوسرے کئی اقدامات حکومت کی توجہ کو کسی نئی پیچیدہ صورتحال کی طرف موڑ دیتے ہیں۔

بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ حکومت کا کردار کہیں گم ہے، بحران کی بنیادی وجوہ مختلف النوع ہیں اور سیاسی، سماجی اور اقتصادی مسائل کے حل کے لیے کثیر جہتی عملیت پسندانہ سوچ اور بلاتاخیر عمل کے ذریعے ہم آہنگی پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔

سیاسی حلقوں کے مطابق حکومت بند گلی سے نکلنے کی ہر ممکن کوشش کر رہی ہے لیکن اس کے لیے خارجہ پالیسی اور مقامی حالات کے لیے سسٹم کو ایک ہنگامی صورتحال کے تحت دوررس فیصلے کرنا پڑیں گے جو عوام کو معاشی پریشانیوں سے نکالیں اور مربوط سیاسی اتفاق رائے کی سوچ کو اہمیت دیں۔

تبدیلی اور درست فیصلوں پر عملدرآمد کی ناگزیریت کی جدلیت کا ادراک کریں، کوئی کنفیوژن پیدا نہیں ہونا چاہیے، بہترین اور صائب استدلال یہی ہے کہ ارباب اختیار فہم و فراست سے کام لیں، عوام پر اعتماد کریں، اپنے اقدامات اور فیصلوں کے صائب اور ملک کے سیاسی و معاشی مستقبل کے لیے مفید ثابت کرنے کا سیاسی ماحول پیدا کریں، ملک میں بے یقینی ہے، لوگ اس فکر میں ہیں کہ کورونا کا انجام کیا ہوگا۔

کیا مہنگائی کی روک تھام ہو سکے گی، ویکسینیشن پر مایوس کن بیانات اور ہلاکتوں میں اچانک اضافہ کے اسباب سے پیدا ہونے والی مایوسی کو امید، حوصلہ، خوشی اور استقامت میسر ہو،اس وقت ضرورت معاملات کو ایک فکری وحدت میں پرونے کی ہے، گھن گھرج والے بیانیے کی جگہ سنجیدہ اور فہمیدہ عناصر کو ایک قومی پلیٹ فارم دے کر انھیں اس اعتماد کے ساتھ معاشی نشاۃ ثانیہ کا یقین دلانے کی ضرورت ہے کہ معیشت ضرور سنبھلے گی۔

اسد عمر، حفیظ شیخ کے بعد اب شوکت ترین کو بھی اسی بحرانی صورتحال سے اپنی اسٹرٹیجی کو لے کر چلنا ہوگا، ان کے لیے پالیسیوں کی دشواریاں موجود ہیں، قرضوں میں ملک ڈوبنے کی بات تو کچھ روز قبل وزیراعظم خود قوم سے کر چکے ہیں، اب بھی وزیر اعظم نے عوام کو اطمینان دلایا ہے کہ وہ معاشی حالات کی بہتری کی کوشش کر رہے ہیں۔

لیکن حکومت نے بہت سا قیمتی وقت اپنے بپھرے ہوئے بیانیہ کی نذر کر دیا ہے، ان کے لیے احتساب اعصابی شکنجہ نہیں بننا چاہیے، شفافیت کے بغیر کوئی جمہوریت چل نہیں سکتی، احتساب ضرور ہو لیکن جس طرح احتسابی عمل ہو رہا ہے، اس پر تو ملکی عدلیہ سوال اٹھا رہی ہے، احتساب بلاامتیاز ہونا شرط ہے، انتشار کے اندر سے قومی فکر کو قانون و ضمیر کا راستہ ملناچاہیے، معاشی محاصرے جیسی صورتحال جتنی جلدی ختم ہو اتنا ہی بہتر ہے، فکری عدم مرکزیت سمیت مہنگائی قابو سے باہر ہونے کے اندیشہ ہائے دور دراز روزافزوں ہیں۔

میڈیا کے مطابق شوکت ترین کو چھ ماہ کے عرصے میں سینیٹر منتخب کرانے کے بعد مستقل وزیر خزانہ لگایاجائے گا۔ عمر ایوب سے توانائی کی وزارت واپس لے کر وزیر اقتصادی امورلگایا گیا ہے۔ فواد چوہدری کو نیا وفاقی وزیر اطلاعات تعینات کر دیا گیا ہے، شبلی فراز کو وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی جب کہ خسرو بختیار کو وزیر صنعت و تجارت مقرر کیا گیا ہے۔ کابینہ ڈویژن نے وزارتوں میں رد و بدل کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا ہے۔

اگرچہ وزیر اعظم ملک کودرپیش تمام مسائل اور موجودہ اقتصادی بحران کا سبب 2008سے لے کر 2018 تک کی سابقہ حکومتوں کو قرار دیتے رہتے ہیں تاہم اب نئی تبدیلیوں کے بعد ایک دو کو چھوڑ کر وہی تمام چہرے شامل کر لیے گئے ہیں جو پیپلز پارٹی، (ن) لیگ اور (ق) لیگ کی حکومتوں کے دوران بھی وفاقی کابینہ کا حصہ رہ چکے ہیں۔

شوکت ترین پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں سینیٹر منتخب ہونے کے بعد وزیر خزانہ رہ چکے ہیں، اسی طرح حفیظ شیخ بھی پیپلز پارٹی کی یوسف رضا گیلانی کابینہ میںوزیر خزانہ تھے۔ وفاقی کابینہ میں حالیہ رد و بدل سے قبل ہی یہ قیاس آرائیاں پھیل چکی تھیں کہ بعض اہم وزراء کی تبدیلی ہو رہی ہے ۔

اب جب کہ حکومت کو تین سال گزرنے والے ہیں، حکومت کو اب عملی طور پر اپنی کارکردگی بھی ثابت کرنا ہوگی۔ وزیر اعظم اپنے دور حکومت میں اب تک کئی بار اپنی کابینہ میں تبدیلیاں کرچکے ہیں۔ ایک جانب انتظامی اتھل پتھل ہے اور دوسری مہنگائی کی لہر میں بھی ٹھہراو نظر نہیں آرہا۔

ماہ رمضان میں پھل مہنگے ہیں، اچھی کھجور مارکیٹ سے غائب یا غریب خریدنے سے معذور ہے۔ اچھاکیلا دو سو روپے درجن سے تین سے روپے درجن دستیاب ہے، بیوپاریوں کا کہنا ہے کہ کھانے کے قابل کیلا مزید مہنگا ہوگا۔ عالمی مالیاتی ادارہ کے مطابق پاکستان معاشی بحالی اور استحکام کے حصول کے لیے تیار ہے۔

وزیر اعظم عمران خان نے عزم ظاہر کیا ہے کہ چار سو چھیالیس ارب پیکیج سندھ کے لیے ہے، اس سے عوام کی معاشی حالت بہتر ہوگی، انھوں نے کہا کہ پنجاب میں بڑے مافیا سے مقابلہ تھا، اس لیے سندھ پر توجہ نہ دے سکا، اب پیکیج پر ایک ماہ میں عملدرآمد ہوگا۔

مگر بھوک سے بلبلاہٹ کا شکار عوام اب وعدوں پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں، حکومت زرعی شعبہ کی طرف توجہ نہیں دے رہی، اس حوالہ سے زرعی پالیسیاں کسان اور ہاری کے لیے لولی پاپ سے زیادہ نہیں، زرعی شعبہ میں بنیادی اصلاحات پر سنجیدگی نہیں دکھائی گئی، فیوڈل نظام کی چیرہ دستیوں کی بات اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں آئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ امیر امیر ترین ہوگئے اور محنت کش طبقہ کے لیے روکھی سوکھی ہی رہ گئی ہے، لہٰذا ارباب اختیار کو معاشی انصاف کے لیے ٹھوس اقدامات کرنا ہونگے، غربت پر پاکستانی سیاست میں زبانی جمع خرچ بہت ہوتا ہے لیکن سماجی و سیاسی نظام سے استحصال، بے انصافی، جبر و ستم، تشدد، جرائم کے خاتمہ کی پالیسیوں پر عمل ہوتا نظر نہیں آتا۔

عوام کو پہلی بار محسوس ہوا ہے کہ ان کی زندگی جمہوریت میں جمود زدہ ہے اور ایک آزاد معیشت کے دعوؤں میں بھی عوام دو وقت کی روٹی کو ترستے ہیں، آخر حکمرانوں کو ایک پائیدار اور مستحکم سیاسی، اقتصادی و معاشی نظام کی بنیاد ڈالنے میں کون سی رکاوٹ درپیش ہے، حقیقت میں عوام کشمکش زندگی اور سیاست کے دقیانوسی میوزیکل چیئر کے کھیل سے تنگ آ چکے ہیں۔ انھیں سمجھ نہیں آ رہی کہ ملک میں کیا ہو رہا ہے۔

حکومتی وزراء اپنے اخباری بیانوں اور ٹی وی پروگراموں میں ایسے باتیں کر رہے ہیں جیسے پورے ملک میں ہر طرف خوشحالی پھیلی ہوئی ہے۔ اسلامی فلاحی ریاست کے خواب کو تعبیر دینے کی باتیں مسلسل کی جا رہی ہیں، یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ زرمبادلہ کے ذخائر مستحکم ہیں، معیشت بہتر ہو رہی ہے لیکن زمین پر قدم رکھیں تو صورت حال مختلف نظر آ رہی ہے۔ کورونا وباء کی وجہ سے ہفتے اور اتوار کو کاروبار مکمل طور پر بند ہیں۔ مڈل کلاس تاجر طبقہ سخت مالی بحران سے دوچار ہے۔ ریسٹورانوں کا کاروبار مسلسل بند چلا آ رہا ہے۔

تھوڑا بہت چل بھی رہا ہے تو وہ معاشی سرگرمیوں میں تیزی کا باعث نہیں بن رہا۔ ادویات کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ حکومت جس کنسٹرکشن انڈسٹری میں بوم آنے کی باتیں کر رہی ہے، وہاں منظرنامہ یہ ہے کہ کنسٹرکشن میٹریل بہت زیادہ مہنگا ہو رہا ہے جس کی وجہ سے کنسٹرکشن کاسٹ میں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے۔ اگر اضافہ اسی طرح جاری رہا تو کنسٹرکشن انڈسٹری کی سرگرمیوں میں بھی کمی آ جائے گی۔ کنسٹرکشن میٹریل کے ریٹس پر بھی حکومت کا کوئی کنٹرول نہیں ہے۔ سریہ ہو یا سیمنٹ، ان کے نرخ روزانہ کی بنیاد پر مقرر ہوتے ہیں۔

ایک ہی چیز کے ایک جگہ نرخ مختلف ہیں۔ اسی طرح کنسٹرکشن انڈسٹری سے وابستہ دیگر آئٹمز بھی مہنگی ہو رہی ہیں۔ تنخواہ دار طبقے کی بات کریں تو اس کی حالت زار بھی سب پر عیاں ہے۔ صحت کی سہولتوں کو دیکھا جائے تو سرکاری اسپتالوں میں افراتفری کا عالم ہے۔ نجی اسپتال اور نجی لیبارٹریز اپنی مرضی کے نرخ وصول کر رہے ہیں۔ ایسی صورت حال میں حکومت کی ذمے داریاں بہت زیادہ بڑھ گئی ہیں۔ محض وزیر تبدیل کرنے سے کچھ نہیں ہو سکتا۔

ملک جس قسم کے مالیاتی بحران کا شکار ہے، اس کا تقاضا ہے کہ غیرترقیاتی اخراجات میں کمی کی جائے۔ ملک کے منتخب ارکان پارلیمنٹ کم از کم موجودہ حکومت کے آخری اڑھائی تین برس تک اپنی تنخواہوں اور دیگر مراعات سے دستبردار ہو جائیں۔حکومت اور عوام کے منتخب نمایندے اگر اس قسم کے ایثار وقربانی کا مظاہرہ کریں تو کم ازکم ملک کے عوام کو یہ تو تسلی ملے گی کہ حکومت اور ان کے منتخب نمایندے، ان کے ساتھ ہمدردی رکھتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔