ناجائز منافع خوروں اور ذخیرہ اندوزوں کے خلاف سخت کارروائی کرنا ہوگی!!

’’ماہ رمضان میں مہنگائی اور حکومتی اقدامات‘‘ کے موضوع پر منعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں شرکاء کا اظہار خیال

’’ماہ رمضان میں مہنگائی اور حکومتی اقدامات‘‘ کے موضوع پر منعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں شرکاء کا اظہار خیال

ماہ رمضان کا آغاز ہوچکا ہے مگر افسوس ہے کہ اس کے شروع ہوتے ہی اشیائے خورونوش کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگی ہیں جس کے باعث عوام شدید مشکل سے دوچار ہیں۔

مہنگائی پر قابو پانے اور عوام کو سستی و معیاری اشیاء کی فروخت یقینی بنانے اورحکومتی اقدامات کا جائزہ لینے کیلئے ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک خصوصی مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومت، سول سوسائٹی اورتاجروں کے نمائندوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

شوکت بسرا
(ترجمان پنجاب حکومت )
اس وقت ملک کا سب سے بڑا مسئلہ مہنگائی ہے اور وزیراعظم اسے سنجیدگی سے لے رہے ہیں۔ اس حوالے سے وزیراعظم ہر منگل کو میٹنگ بلاتے، جائزہ لیتے اور ہدایات جاری کرتے ہیں۔ وزیراعظم نے اپنی سیاسی ٹیم، ٹائیگر فورس، اراکین اسمبلی ودیگر کو حکم دیا ہے کہ مہنگائی پر قابو پانے میں کردار اد اکریں ، اب جس جگہ بھی حکومت کے مقررکردہ ریٹ سے زائد پر اشیاء فروخت ہونگی تو اس کے ذمہ دار مقامی انتظامیہ اور ایم پی اے ہوگے۔ حکومت کا کام ہے کہ وہ انتظامیہ اور سیاسی ڈھانچے کے ذریعے پرائس کنٹرول کمیٹیاں بنا کر نہ صرف اشیاء کی قیمت طے کرے بلکہ اس پر فروخت بھی یقینی بنائے۔

یہ درست ہے کہ ہم مقررہ قیمت پر فروخت یقینی بنانے میں ناکام ہوئے ہیں جس میں انتظامیہ کی کمزوری ہے تاہم اب سختی سے کام لیا جا رہا ہے۔حکومت نے رمضان میں ناجائز منافع خوروں اور ذخیرہ اندوزوں کے خلاف بڑے کریک ڈائون کا فیصلہ کر لیا ہے جس کے بعد اب کوئی بھی قانون کی گرفت سے نہیں بچ سکے گا۔

پنجاب میں ناجائز منافع خوروں کے خلاف بلاتفریق کریک ڈائون جاری ہے۔ گزشتہ 6ماہ کے دوران پنجاب کے مختلف اضلاع میں 183 ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کارروائی کی گئی، 44 گودام سیل کیے گئے جبکہ 17 ایف آئی آرز کا اندراج اور 2,076,500 روپے جرمانہ عائد کیا گیا۔ گزشتہ 6ماہ کے دوران ذخیرہ اندوزوں سے 47 ہزار 627چینی کے تھیلے، 3ہزار 69 چاول کے تھیلے، 40ہزار 920کلو گرام گھی اور 1لاکھ 35ہزار 321 لیٹر کوکنگ آئل برآمد کیا گیا۔

پنجاب حکومت نے رمضان المبارک میں عوام کو ریلیف دینے کیلئے 7ارب روپے کا تاریخی پیکیج دیا ہے۔ صوبہ بھر میں 313 رمضان بازار قائم کئے گئے ہیں جن میں 10کلو آٹے کا تھیلا مارکیٹ پرائس سے 120روپے سستا یعنی375روپے میں دستیاب ہے۔ سستے آٹے کی فراہمی کیلئے پنجاب حکومت 3ارب 50کروڑ روپے سبسڈی دے رہی ہے۔

رمضان بازاروں میں چینی 65روپے کلو، گھی، چکن اور انڈے مارکیٹ ریٹ سے 10تا 15روپے کم قیمت پر دستیاب ہیں۔ رمضان بازاروں میں معیاری اور سستی اشیاء کی فراہمی اور مانیٹرنگ کیلئے کنٹرول روم بھی قائم کیاگیا ہے اور عوامی سہولت کیلئے رمضان بازاروں میں اشیاء کی فراہمی یقینی بنائی جارہی ہے۔تمام اضلاع اور تحصیلوں کی سطح پر بھی میں مانیٹرنگ کا سسٹم بنایا گیا ہے اور وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار خود اس کی مانیٹرنگ کر رہے ہیں۔

حکومت سخت اقدامات کر رہی ہے تاہم ناجائز منافع خوروں کی حوصلہ شکنی کرنے کیلئے عوام کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے، شہری دکاندار سے ریٹ لسٹ طلب کریں اور زائد پیسے لینے والے کی شکایت کریں۔ہم نے ناجائز منافع خوری پر جرمانہ ڈبل کر دیا ہے، ایف آئی آر کا اندراج یقینی بنایا ہے، گرفتاریاں بھی ہوئی ہیں مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ناجائز منافع خور سزا سے بچ جاتے ہیں اور عدالت میں انہیں صرف جرمانہ ہوجاتا ہے لہٰذا اس حوالے سے پرائس کنٹرول ایکٹ میں ترمیم کرنے جارہے ہیں۔

اس میں سخت سزاکی تجویز زیر غور ہے لہٰذا اب جرمانے کے بجائے قید کی سزا کو یقینی بنایا جائے گا۔ ایسا کرنے سے ناجائز منافع خوروں اور ذخیرہ اندوزوں کو نہ صرف کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا بلکہ ان جیسے مزید عناصر کی حوصلہ شکنی بھی ہوگی۔

چودھری عظمت
(جنرل سیکرٹری کریانہ مرچنٹ ایسوسی ایشن )
مہنگائی کا بحران مصنوعی ہے اور اس وقت ملک میں کسی چیز کی کوئی کمی نہیں ہے۔ اشیائے خورونوش کی مہنگے داموں اور من مانی قیمتوں پر فروخت وفاقی و صوبائی حکومتوں، وزراء اور مشیران کا قصور ہے جنہوں نے کبھی زمینی حقائق جاننے اور لوگوں کے پاس جاکر مسائل معلوم کرنے کی کوشش نہیں کی اور نہ ہی ایسے اقدامات اٹھائے جن سے مصنوعی مہنگائی جیسے مسائل پر قابو پایا جاسکے۔

گزشتہ دور حکومت کے مقابلے میں اب اجناس و دیگر اشیائے خورونوش کی قیمت کم ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے دور میں دال چنا 166 روپے فی کلو ہے جو اب 120 روپے فی کلو ہے، اسی طرح سفید چنا 176 فی کلو تھا جو اب 120 روپے فی ہیں، یہی صورتحال دیگر اجناس کی ہے مگر دکاندار مہنگائی کا بہانہ بنا کر اور تبدیلی کو برا بھلا کہہ کر لوگوں سے اپنی مرضی کی قیمت وصول کر رہے ہیں۔ حکومت کو سمجھنا چاہیے کہ یہ مہنگائی ہے اور نہ ہی قلت بلکہ مسئلہ ناجائز منافع خوری کا ہے۔

دکانداروں اور تاجروں کو ان کی مرضی کی قیمت دیں تو ہر چیز مل جاتی ہے مگر وہ سرکاری ریٹ پر اشیاء فروخت کرنے پر تیار نہیں ہیں۔ اس صورتحال کے حوالے سے جامع حکمت عملی بنا کر موثر اقدامات کرنا ہوں گے۔ گزشتہ دور حکومت میں بیوروکریسی متحرک تھی اور خصوصاََ ماہ رمضان سے قبل حرکت دکھائی دیتی تھی مگر اب ماہ رمضان کا آغاز ہوچکا ہے لیکن مکمل خاموشی ہے۔ افسوس ہے کہ مہنگائی کے مسئلے کو درست طریقے سے ہینڈل نہیں کیا جا رہا، عوام کو ریلیف دینے کیلئے ناجائز منافع خوری کا خاتمہ کرنا ہوگا۔

ہم ناجائز منافع خوری کرنے والوںکا دفاع نہیں کریں گے ، دکانداروں کو بھی چاہیے کہ مہنگی اشیاء فروخت نہ کریں۔ حکومتی حکم پر شوگر ملز سستی چینی فراہم کر رہی ہیں مگر اس کا طریقہ کار پیچیدہ ہونے کی وجہ سے دکاندار خریدنے سے ڈرتے ہیں۔ اس کے برعکس وہ مہنگی چینی خرید کر مہنگی فروخت کر رہے ہیں لہٰذا حکومت کو چاہیے کہ ڈی سی آفس میں اس کا طریقہ کار آسان بنا ئے۔

آمنہ ملک
(نمائندہ سول سوسائٹی )
ماہ رمضان میں مہنگائی کا طوفان نیا نہیں ہے۔ مہنگائی کا جن کافی دیر سے ہی سر پر کھڑا ہے جو ماہ رمضان میں مزید طاقتور ہوگیا ہے۔ گزشتہ برس جو اشیاء 5ہزار روپے میں آتی تھی اب ساڑھے 12 ہزار روپے میں مل رہی ہیں ۔ مہنگائی کی وجہ سے لوگوں کے گھر کا بجٹ پورا نہیں ہورہا اور وہ اپنی ضروریات پوری کرنے کیلئے راشن میں کمی لا رہے ہیں۔

مہنگائی کی وجہ سے لوگ شدید مسائل کا شکار ہیں، انہیں اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کیلئے مشکلات کا سامنا ہے لہٰذا اگر مہنگائی کم نہ ہوئی تو لوگ ڈپریشن اور مایوسی کا شکار ہوجائیں گے جو کسی بھی طور معاشرے کیلئے بہتر نہیں ہوگا۔

مہنگائی کی صورتحال یہ ہے کہ ایک ہفتہ قبل جو لیموں 400 روپے کلو تھے اب 650 روپے فی کلو میں فروخت ہورہے ہیں اسی طرح آلو، پیاز و دیگر سبزیوں کی قیمتوں میں بھی 200 گنا اضافہ ہو اہے جو ہوشربا ہے مگر حکومت مہنگائی پر قابو پانے میں ناکام دکھائی دے رہی ہے۔مہنگائی پر قابو پانے کیلئے ڈریپ طرز کی ریگولیٹری اتھارٹی یا کمیٹی بنائی جائے اور اس میں خواتین کو لازمی شامل کیا جائے کیونکہ مہنگائی سے براہ راست خواتین متاثر ہوتی ہیں اور ان کیلئے کچن و دیگر معاملات چلانا مشکل ہوجاتا ہے۔

اس وقت پرائس کنٹرول کمیٹیاں تو موجود ہیں مگر ان کے چیک اینڈ بیلنس کا کوئی نظام نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ جو صورتحال گزشتہ رمضان میں تھی وہی آج بھی ہے لہٰذا بہترین نظام بنا کر مسائل حل کرنا ہوں گے۔18 ویں ترمیم سے صوبوں کو اختیارات تو ملے مگر مختلف مسائل بھی پیدا ہوئے جن میں ایک بڑا مسئلہ چینی کا ہے، اس کے حل کیلئے ملک بھر میں ایک ہی قیمت مقرر کی جائے۔ گزشتہ برس لگائے جانے والے رمضان بازاروں میں اشیاء غیر معیاری تھی جبکہ دیگر مسائل بھی درپیش تھے۔ اب بھی رمضان بازار لگائے گئے ہیں لہٰذا وہاں اشیاء کا معیار یقینی بنانے کیلئے موثر اقدامات کرنا ہوں گے۔

رمضان بازارلگانے کا اقدام اچھا ہے تاہم کرونا کی صورتحال دیکھتے ہوئے اور مہنگائی کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ بازار آن لائن کیے جائیں اور لوگوں کو گھر پر ہی سستی اور معیاری اشیاء کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔ ایسا کرنے سے نہ صرف لوگوں کی صحت یقینی بنائی جاسکتی ہے بلکہ ان کی آمد و رفت کے اخراجات میں بھی کمی لائی جاسکتی ہے جس سے یقینا ان کی جیب پر بوجھ کم ہوگا۔ آٹا، چینی و دیگر اجناس کی کوئی کمی نہیں ہے، رمضان سے پہلے مصنوعی قلت پیدا کر دی جاتی ہے جو افسوسناک ہے۔ ماہ رمضان میں آٹا، چینی و دیگر اجناس وافر مقدار میں مارکیٹ میں موجود ہیں اور دکاندار اپنی من مانی قیمتوں پر فروخت کر رہے ہیں، حکومت کو ناجائز منافع خوروں اور ذخیرہ اندوزوں کے خلاف سخت کارروائی کرنا ہوگی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔