- پنجاب گرمی کی لپیٹ میں، آج اور کل گرج چمک کیساتھ بارش کا امکان
- لاہور میں بچے کو زنجیر سے باندھ کر تشدد کرنے کی ویڈیو وائرل، ملزمان گرفتار
- پشاور؛ بس سے 2 ہزار کلو سے زیادہ مضر صحت گوشت و دیگر اشیا برآمد
- وزیراعلیٰ پنجاب نے نوازشریف کسان کارڈ کی منظوری دے دی
- بھارتی فوجی نے کلکتہ ایئرپورٹ پر خود کو گولی مار کر خودکشی کرلی
- چائلڈ میرج اور تعلیم کا حق
- بلوچستان؛ ایف آئی اے کا کریک ڈاؤن، بڑی تعداد میں جعلی ادویات برآمد
- قومی ٹیم کی کپتانی! حتمی فیصلہ آج متوقع
- پی ایس 80 دادو کے ضمنی انتخاب میں پی پی امیدوار بلامقابلہ کامیاب
- کپتان کی تبدیلی کیلئے چیئرمین پی سی بی کی زیر صدارت اہم اجلاس
- پاکستان کو کم از کم 3 سال کا نیا آئی ایم ایف پروگرام درکار ہے، وزیر خزانہ
- پاک آئرلینڈ ٹی20 سیریز؛ شیڈول کا اعلان ہوگیا
- برج خلیفہ کے رہائشیوں کیلیے سحر و افطار کے 3 مختلف اوقات
- روس کا جنگی طیارہ سمندر میں گر کر تباہ
- ہفتے میں دو بار ورزش بے خوابی کے خطرات کم کرسکتی ہے، تحقیق
- آسٹریلیا کے انوکھے دوستوں کی جوڑی ٹوٹ گئی
- ملکی وے کہکشاں کے درمیان موجود بلیک ہول کی نئی تصویر جاری
- کپتان کی تبدیلی کے آثار مزید نمایاں ہونے لگے
- قیادت میں ممکنہ تبدیلی؛ بورڈ نے شاہین کو تاحال اعتماد میں نہیں لیا
- ایچ بی ایف سی کا چیلنجنگ معاشی ماحول میں ریکارڈ مالیاتی نتائج کا حصول
باتھ روم میں گھنٹوں بیٹھنے والے ملازم کی تنخواہ میں کٹوتی
تائیوان: گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پر ’’مسٹر اے‘‘ نامی ایک تائیوانی شہری نے اپنی دکھ بھری داستان بیان کرتے ہوئے کہا کہ اس کی کمپنی نے بیت الخلاء میں دیر تک بیٹھنے پر اس کی تنخواہ کاٹ لی ہے جو سراسر ظلم ہے۔
اس پر لوگوں کی بڑی تعداد نے اس سے اظہارِ ہمدردی کیا لیکن بعض لوگوں نے پورا قصہ تفصیل سے معلوم کرنا چاہا، جس کے جواب میں ’’مسٹر اے‘‘ نے کچھ یہ بتایا:
اس نے تائیوان کی ایک کمپنی میں 22 دن کام کیا، اس کا معاوضہ 160 یوآن فی گھنٹہ طے کیا گیا تھا جبکہ اس نے وہاں مجموعی طور پر 195 گھنٹے ملازمت کی۔ تاہم ’’مسٹر اے‘‘ نے یہ اعتراف بھی کیا کہ اس نے ان 22 دنوں میں دفتری اوقات کے 49.5 گھنٹے بیت الخلا میں گزارے۔
تنخواہ دیتے وقت کمپنی نے 4400 یوآن کاٹ لیے اور کہا کہ قواعد و ضوابط کی رُو سے وہاں پر کوئی بھی ملازم روزانہ زیادہ سے زیادہ ایک گھنٹہ ہی بیت الخلاء میں گزار سکتا ہے۔ اس لحاظ سے ’’مسٹر اے‘‘ نے اپنی مدتِ ملازمت کے دوران مقررہ حد سے پورے 27.5 گھنٹے زیادہ گزارے، جن کی کٹوتی کردی گئی ہے۔
’’مسٹر اے‘‘ نے اسے سراسر ظلم و زیادتی قرار دیتے ہوئے دیگر سوشل میڈیا صارفین سے پوچھا کہ اب اسے کیا کرنا چاہیے۔
جواب میں اکثر لوگوں نے کمپنی کی جانب سے تنخواہ کٹوتی کا اقدام بالکل درست اور جائز قرار دیا۔
زیادہ تر لوگوں کا یہی کہنا تھا کہ اگر ملازمین اپنا زیادہ وقت بیت الخلا میں گزارنے لگیں تو پھر کام کون کرے گا؟
ایک سوشل میڈیا صارف نے تو یہاں تک لکھ دیا کہ اگر کسی شخص کا زیادہ وقت دفتر کے بجائے بیت الخلاء میں گزر رہا ہے تو اسے اپنی کمپنی کو برا بھلا کہنے کے بجائے اسپتال جا کر اپنا علاج کروانا چاہیے۔
البتہ، سوشل میڈیا صارفین کی ایک اچھی تعداد ایسی بھی تھی جنہوں نے ’’مسٹر اے‘‘ سے ہمدردی کرتے ہوئے کہا کہ اسے تائیوان میں انسانی حقوق اور محنت کشوں سے متعلق سرکاری ادارے میں اپنی کمپنی کے خلاف رپورٹ درج کروانی چاہیے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔