- اسمگلنگ کا قلع قمع کرکے خطے کو امن کا گہوارہ بنائیں گے ، شہباز شریف
- پاکستان میں دراندازی کیلیے طالبان نے مکمل مدد فراہم کی، گرفتار افغان دہشتگرد کا انکشاف
- سعودی دارالحکومت ریاض میں پہلا شراب خانہ کھول دیا گیا
- موٹر وے پولیس اہل کار کو ٹکر مارنے والی خاتون جوڈیشل ریمانڈ پر جیل روانہ
- کراچی میں رینجرز ہیڈ کوارٹرز سمیت تمام عمارتوں کے باہر سے رکاوٹیں ہٹانے کا حکم
- اوگرا کی تیل کی قیمتیں ڈی ریگولیٹ کرنے کی تردید
- منہدم نسلہ ٹاور کے پلاٹ کو نیلام کر کے متاثرہ رہائشیوں کو پیسے دینے کا حکم
- مہنگائی کے باعث لوگ اپنے بچوں کو فروخت کرنے پر مجبور ہیں، پشاور ہائیکورٹ
- کیا عماد، عامر اور فخر کو آج موقع ملے گا؟
- سونے کی قیمتوں میں معمولی اضافہ
- عمران خان، بشریٰ بی بی کو ریاستی اداروں کیخلاف بیان بازی سے روک دیا گیا
- ویمنز ٹیم کی سابق کپتان بسمہ معروف نے ریٹائرمنٹ کا اعلان کردیا
- امریکی یونیورسٹیز میں ہونے والے مظاہروں پر اسرائیلی وزیراعظم کی چیخیں نکل گئیں
- پولیس یونیفارم پہننے پر مریم نواز کیخلاف کارروائی ہونی چاہیے، یاسمین راشد
- قصور ویڈیو اسکینڈل میں سزا پانے والے 2 ملزمان بری کردیے گئے
- سپریم کورٹ نے اسپیکر بلوچستان اسمبلی عبدالخالق اچکزئی کو بحال کر دیا
- مرغی کی قیمت میں کمی کیلیے اقدامات کر رہے ہیں، وزیر خوراک پنجاب
- عوام کو کچھ نہیں مل رہا، سارا پیسہ سرکاری تنخواہوں میں دیتے رہیں گے؟ چیف جسٹس
- وزیراعلیٰ بننے کیلئے خود کو ثابت کرنا پڑا، آگ کے دریا سے گزر کر پہنچی ہوں، مریم نواز
- کلین سوئپ شکست؛ ویمنز ٹیم کی سلیکشن کمیٹی میں بڑی تبدیلیاں
باتھ روم میں گھنٹوں بیٹھنے والے ملازم کی تنخواہ میں کٹوتی
تائیوان: گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پر ’’مسٹر اے‘‘ نامی ایک تائیوانی شہری نے اپنی دکھ بھری داستان بیان کرتے ہوئے کہا کہ اس کی کمپنی نے بیت الخلاء میں دیر تک بیٹھنے پر اس کی تنخواہ کاٹ لی ہے جو سراسر ظلم ہے۔
اس پر لوگوں کی بڑی تعداد نے اس سے اظہارِ ہمدردی کیا لیکن بعض لوگوں نے پورا قصہ تفصیل سے معلوم کرنا چاہا، جس کے جواب میں ’’مسٹر اے‘‘ نے کچھ یہ بتایا:
اس نے تائیوان کی ایک کمپنی میں 22 دن کام کیا، اس کا معاوضہ 160 یوآن فی گھنٹہ طے کیا گیا تھا جبکہ اس نے وہاں مجموعی طور پر 195 گھنٹے ملازمت کی۔ تاہم ’’مسٹر اے‘‘ نے یہ اعتراف بھی کیا کہ اس نے ان 22 دنوں میں دفتری اوقات کے 49.5 گھنٹے بیت الخلا میں گزارے۔
تنخواہ دیتے وقت کمپنی نے 4400 یوآن کاٹ لیے اور کہا کہ قواعد و ضوابط کی رُو سے وہاں پر کوئی بھی ملازم روزانہ زیادہ سے زیادہ ایک گھنٹہ ہی بیت الخلاء میں گزار سکتا ہے۔ اس لحاظ سے ’’مسٹر اے‘‘ نے اپنی مدتِ ملازمت کے دوران مقررہ حد سے پورے 27.5 گھنٹے زیادہ گزارے، جن کی کٹوتی کردی گئی ہے۔
’’مسٹر اے‘‘ نے اسے سراسر ظلم و زیادتی قرار دیتے ہوئے دیگر سوشل میڈیا صارفین سے پوچھا کہ اب اسے کیا کرنا چاہیے۔
جواب میں اکثر لوگوں نے کمپنی کی جانب سے تنخواہ کٹوتی کا اقدام بالکل درست اور جائز قرار دیا۔
زیادہ تر لوگوں کا یہی کہنا تھا کہ اگر ملازمین اپنا زیادہ وقت بیت الخلا میں گزارنے لگیں تو پھر کام کون کرے گا؟
ایک سوشل میڈیا صارف نے تو یہاں تک لکھ دیا کہ اگر کسی شخص کا زیادہ وقت دفتر کے بجائے بیت الخلاء میں گزر رہا ہے تو اسے اپنی کمپنی کو برا بھلا کہنے کے بجائے اسپتال جا کر اپنا علاج کروانا چاہیے۔
البتہ، سوشل میڈیا صارفین کی ایک اچھی تعداد ایسی بھی تھی جنہوں نے ’’مسٹر اے‘‘ سے ہمدردی کرتے ہوئے کہا کہ اسے تائیوان میں انسانی حقوق اور محنت کشوں سے متعلق سرکاری ادارے میں اپنی کمپنی کے خلاف رپورٹ درج کروانی چاہیے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔