- گجرات میں اسپتال کی چھت گرنے سے خاتون سمیت تین افراد جاں بحق
- سعودی فرمانروا طبی معائنے کیلیے اسپتال میں داخل
- امریکی سیکریٹری اسٹیٹ سرکاری دورے پر چین پہنچ گئے
- ہم یہاں اچھی کرکٹ کھیلنے آئے ہیں، جیت سے اعتماد ملا، مائیکل بریسویل
- پچھلے میچ کی غلطیوں سے سیکھ کر سیریز جیتنے کی کوشش کرینگے، بابراعظم
- امریکا میں ٹک ٹاک پر پابندی کا بل سینیٹ سے بھی منظور
- محمد رضوان اور عرفان خان کو نیوزی لینڈ کے خلاف آخری دو میچز میں آرام دینے کا فیصلہ
- کے ایم سی کا ٹریفک مسائل کو حل کرنے کیلئے انسداد تجاوزات مہم کا فیصلہ
- موٹروے پولیس اہلکار کو روندنے والی خاتون گرفتار
- ہندو جیم خانہ کیس؛ آپ کو قبضہ کرنے نہیں دیں گے، چیف جسٹس کا رمیش کمار سے مکالمہ
- بشری بی بی کو کچھ ہوا تو حکومت اور فیصلہ سازوں کو معاف نہیں کریں گے، حلیم عادل شیخ
- متحدہ وفد کی احسن اقبال سے ملاقات، کراچی کے ترقیاتی منصوبوں پر تبادلہ خیال
- کراچی میں سیشن جج کے بیٹے قتل کی تحقیقات مکمل،متقول کا دوست قصوروار قرار
- غزہ کے اسپتالوں میں اجتماعی قبروں نے اقوام متحدہ کو بھی خوفزدہ کردیا
- ایکس کی اسمارٹ ٹی وی ایپ متعارف کرانے کی تیاری
- جوائن کرنے کے چند ماہ بعد ہی اکثر لوگ ملازمت کیوں چھوڑ دیتے ہیں؟
- لڑکی کا پیار جنون میں تبدیل، بوائے فرینڈ نے خوف کے مارے پولیس کو مطلع کردیا
- تاجروں کی وزیراعظم کو عمران خان سے بات چیت کرنے کی تجویز
- سندھ میں میٹرک اور انٹر کے امتحانات مئی میں ہونگے، موبائل فون لانے پر ضبط کرنے کا فیصلہ
- امریکی یونیورسٹیز میں اسرائیل کیخلاف ہزاروں طلبہ کا مظاہرہ، درجنوں گرفتار
گزشتہ 20 برس سے صحرازدگی سے نبردآزما جوڑا
منگولیا: صحرازدگی کا عفریت پوری دنیا کو نگل رہا ہے۔ اس ضمن میں باہمت چینی جوڑے نے ریگستان کو روکنے کے لئے گزشتہ 20 برس میں سینکڑوں ہیکٹر بنجر زمین پر شجرکاری کا بیڑہ اٹھایا ہے۔
70 سالہ ٹوبو باٹو اور ان کی بیگم نے دنیا کے تیسرے سب سے بڑے ریگستان، بادین جاران کو سرسبز بنانے کا مشن شروع کیا تھا جو اب بھی جاری ہے۔ یہ صحرا منگولیا کے صحرائے گوبی سے متصل ہے۔ 2002 میں اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے کئی اقسام کے شجرلگا کر ریگستان کی پیشقدمی روکنے کا آغاز کیا ہے۔
سب سے پہلے 50 پودے لگائے گئے اور اب وہ ہزاروں پودے سالانہ لگاتے ہیں۔ اس طرح لق و دق ریگستان میں 266 ہیکٹر کا ایک نخلستان وجود میں آچکا ہے۔ ان میں لاکھوں درخت ایسے ہیں جو صحرازدگی کے سامنے کسی چٹان کی مانند کھڑے ہیں۔ وہ اپنے قائم شدہ جنگل سے 100 کلومیٹر دور رہتے ہیں اور ایک طویل سفر طے کرکے یہاں پہنچتے ہیں۔
شروع میں ٹوبو باٹو اوران کی بیگم کا بہت مذاق اڑایا گیا۔ کئی لوگوں نے پہلے ہی ان کی ناکامی کی پیشگوئی کردی لیکن دونوں میاں بیوی نے ہمت نہیں ہاری اور اپنا مشن جاری رکھا۔ اب 19 برس میں وہ ہزاروں لاکھوں درخت لگاچکے ہیں۔ اب یہ جنگل ان کی آمدنی کا ذریعہ بن چکا ہے اور ایک نباتاتی دوا ساڑھے پندرہ ڈالر فی کلوگرام فروخت ہوتی ہے جس سے اچھی آمدنی ہوجاتی ہے۔
واضح رہے کہ شدید کمزوری اور امراض کے باوجود بھی یہ دونوں شجرکاری میں مصروف ہیں۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔