معنی سمجھا کرلفظوں سے روشناس کرائیے۔۔۔

شائستہ سعید  منگل 20 اپريل 2021
بچوں کو رَٹوا کر ’پڑھنا‘ سکھانے کا عمل مفید نہیں۔ فوٹو: فائل

بچوں کو رَٹوا کر ’پڑھنا‘ سکھانے کا عمل مفید نہیں۔ فوٹو: فائل

بیسوی صدی کے مشہور و معروف فلسفی کارل پوپر (Karl Pauper) اپنی سوانح حیات میں لکھتے ہیں۔ ’انسان کے ذہنی ارتقا کا پہلا اہم ترین مرحلہ پڑھنا سیکھنا ہے اور اس سے ذرا کم درجے کا حامل لکھنا سیکھنا ہے۔‘

کارل پوپر اپنی پرائمری کی استاد ایما گولڈ برگر کے بہت شکر گزار ہیں کہ انھوں نے انھیں پڑھنا، لکھنا سکھایا۔ یہی وہ تین بنیادی مہارتیں ہیں جن کو انگریزی میں تین آر (R) کہا جاتا ہے، یعنی Writing, Reading, Arithmatic۔

کارل پوپر کہتے ہیں کہ یہی وہ بنیادی مہارتیں ہیں، جو بچے کو سب سے پہلے اور جس قدر جلد ہو سکے سکھا دینا چاہئیں۔ ان کے بقول بعض غیر معمولی بچے یہ سب اپنے شوق سے سیکھ سکتے ہیں اور پھر بچے ماحول اور پڑھنے اور سوچنے سے سیکھتے ہیں۔

بچوں کو پڑھنا سکھانے کا مسئلہ ہر والدین اور اساتذہ کے لیے بہت اہم مرحلہ ہوتا ہے اور اس پر بہت تحقیق بھی کی جا رہی ہے۔ ایک بہت ہی جامع تحقیق جو ایک لاکھ امریکی بچوں پر کئی سال کے عرصے میں کی گئی۔ یہ تحقیق امریکا کے نیشنل ریڈنگ پینل (NRL) کے ماہرین نے کی تھی۔

جس کی بنیاد پر نئے اصول متعارف کرائے گئے کہ جن سے استاد، ماں، باپ اور تعلیمی پالیسی ونصاب بنانے والوں کو بچوں کو پڑھنا سکھانے میں بھرپور مدد مل سکے۔ ان ماہرین نے ابتدائی سے تیسری جماعت کے ایک لاکھ بچوں پر مختلف تجربات کیے اور پڑھنا سکھانے کے مراحل کو تفصیلی انداز میں واضح کیا۔ پڑھنا سکھانے کے ایسے طریقے اور مہارتیں وضع کیں جن کو استعمال کرکے پڑھنا سکھانے والوں کو کامیابی حاصل ہو سکتی ہے۔ ان ماہرین کے تجزیے کا خاکہ پانچ مدارج میں واضح کیا جا سکتا ہے۔

1۔ حروف کی صوتی پہچان:

بولنے اور سننے والے الفاظ میں ان کے حروف کی صوتی پہچان اور ان کا رد و بدل کرنا، پڑھنا سیکھنے کی پہلی کڑی ہے۔ ہمارے یہاں بھی آواز اور ہجے سے ہی بچے کو لفظ کی پہچان کرائی جانے لگی ہے۔ اس طرح حرف کی آواز سے پہچان میں آسانی ہو سکتی ہے۔

ہمارے یہاں پرانے زمانے میں خاص طور پر لفظ کے ہجے پر بہت زور دیا جاتا تھا۔ اب بھی اگر بچوں کو بار بار حروف کی آوازوں کی پہچان کرائی جائے، تو وہ جلد پڑھنا سیکھ سکتے ہیں، لیکن عام طور پر دیکھا یہ گیا ہے کہ ماں باپ اور استاد بھی بعض اوقات پڑھنا سکھانے کی عجلت کی بنا پر پورے جملے رٹوا کر پڑھنا سکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ حالاں کہ حرف کی پہچان اور بار بار ہجے کرنے سے بچے کی سمجھ میں ترکیب آئے گی جو وہ خود بھی دوبارہ استعمال کرسکے گا۔ الفاظ کے جوڑ توڑ آنے سے پڑھنے میں آسانی ہوگی۔ والدین اور استاد بھی یہ طریقہ اپنانے سے آسانی سے بچوں کو پڑھا سکیں گے۔ حروف کی پہچان آواز کے ذریعے اور اس کی مختلف اشکال یعنی چند اشکال سمجھ میں آنے کے بعد بچہ پڑھنے کی کوشش کرے گا۔

2۔ پڑھنے کے لیے صوتی ہدایات

بچہ پہلے بولنا شروع کرتا ہے اور پھر اس کے پڑھنے کا مرحلہ آتا ہے۔ اس طریقے سے بچے کو بولنے اور پڑھنے والے الفاظ میں تعلق قائم کرنے میں مدد ملتی ہے۔ صوتی انداز سے پڑھنا سکھانے کی اہمیت یہ ہے کہ بچے کو بولنے میں جو الفاظ استعمال ہوتے ہیں اور پڑھنے میں الفاظ سکھائے جاتے ہیں ان کا صحیح طور پر اندازہ ہوتا ہے۔ پہلے بچے کو چند الفاظ کے جوڑ توڑ کے بارے میں بتایا جائے، ان کے صحیح طریقے سے استعمال کے لیے ہدایات دی جائیں۔ بچہ کسی بھی کہانی میں کسی عبارت میں وہ لفظ دیکھے تو فوراً پہچان جائے اور اس کو صحیح طرح استعمال کرسکے۔

اس طرح کے لیے بہت اچھی صورت یہ ہے کہ جب بچے کو پڑھنا سکھایا جائے تو عبارت اس کے ماحول سے ہم آہنگ ہو۔ ہمارے یہاں بہت دفعہ یہ مشکل ہوتی ہے کہ بچہ جو سبق پڑھ رہا ہوتا ہے اس ماحول میں وہ خود کو شامل نہیں کرپاتا۔ سبق جتنا ماحول سے قریب ہوگا الفاظ کا استعمال، ان کی جوڑ توڑ ان کی صحیح آواز بچہ جلد سیکھ سکے گا۔

3۔ پڑھنے میں روانی کے لیے ہدایات

پڑھنا سکھانے کے لیے سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ بچہ تحریر کو سمجھ کر صحیح طرح اور روانی سے پڑھے۔ روانی سے اور صحیح جب ہی پڑھا جا سکتا ہے، جب معنی سمجھ میں آئیں۔ سبق میں جو الفاظ استعمال ہوئے ہوں، ان کا مطلب پہلے بتا دیا جائے۔ پھر گھر میں والدین کے ساتھ یا پھر اسکول میں بھی بچوں سے سبق پڑھوایا جائے۔ جتنی دفعہ بچہ سبق کو پڑھے گا اتنا ہی اس کی سمجھ میں آئے گا اور اس کے لیے آسانی پیدا ہوگی۔

ہمارے یہاں اسکولوں میں عام طور پر سبق کو کلاس میں ہر بچے سے تھوڑا تھوڑا پڑھوایا جاتا ہے۔ ساتھ ساتھ استاد بھی پڑھ کر سنا دیں، تو جملوں کے اتار چڑھاؤ کا بھی بچوں کو اندازہ ہو سکے گا۔ کیوں کہ ایک ہی جملے کو اگر اس کے الفاظ کو صحیح انداز میں نہ پڑھا جائے تو مطلب ختم ہو سکتا ہے۔ سبق کے علاوہ اگر پڑھنے میں روانی پیدا کرنے کے لیے چھوٹی چھوٹی کہانیاں بھی بچے کو پڑھنے کے لیے دی جائیں، تو اس سے روانی بہت بڑھ سکتی ہے۔

مذکورہ تحقیق میں یہ بات واضح کی گئی ہے کہ پڑھنا سیکھنے والے بچوں کو 50 سے 200 الفاظ تک کی کہانی پڑھنے کو دی جائے اور بچے کی آسانی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اگر 20 میں سے ایک لفظ بچے کی سمجھ میں نہیں آرہا، تو بچہ مدد لے کر پڑھ سکتا ہے، بشرطے کہ کہانی اس کے ماحول سے ہم آہنگ ہو، لیکن اگر 10 الفاظ یا اس سے کم میں بچے کو کسی لفظ کا مطلب نہیں آرہا, تو وہ بچے کے لیے مشکل قرار دیا جائے گی۔ یہ بھی اندازہ لگایا گیا کہ حرف نثری نہیں نظم سے بھی پڑھنے میں روانی تیز ہو سکتی ہے۔ نظم ترنم کر پڑھی جاتی ہے، جو بچے بہت شوق سے گاتے ہیں اور تیزی سے پڑھ سکتے ہیں، کیوں کہ دُہرانے کا عمل زیادہ ہو جاتا ہے۔ یہ بات بھی اس ریسرچ میں سامنے آئی کہ روانی پیدا کرنے کے لیے ہر سبق کہانی یا عبارت کو کم از کم تین دفعہ بلکہ پانچ دفعہ دُہرانا ضروری ہے تاکہ پکی یاد ہو سکے۔

4۔ ذخیرۂ الفاظ کی اہمیت

پڑھانا سیکھنے کے لیے الفاظ کے ذخیرے کی ضرورت تو مانی ہی گئی، لیکن ساتھ ساتھ ان کے معنی بھی بہت اہمیت کے حامل ہوئے۔ کسی بھی سبق یا عبارت کا مطلب سمجھ میں آنا بہت ضروری ہے، ورنہ وہ پڑھنے والے کے سر سے گزر جائے گی۔ یہ بات ثابت ہوئی کہ صرف ہجے، آواز، حروف کی پہچان ہی کافی نہیں، بلکہ ہر جملے کے الفاظ کے معنی سیاق و سباق کے ساتھ معلوم ہونا چاہئیں، کیوں کہ ایک ہی لفظ کے مختلف طریقۂ استعمال سے مختلف معنی بھی ہو سکتے ہیں۔

پڑھنے والے کو جتنے زیادہ الفاظ کے معنی معلوم ہوں گے، اتنا ہی اس کو یاد کرنے اور سمجھنے میں آسانی ہوگی۔ اس کے ساتھ ساتھ انھیں دُہرانے کی بھی بہت ضرورت ہے۔ مائیں یا باپ گھر پر بچوں کو پڑھانے کی کوشش کرتے ہیں تو بعض دفعہ وہ یہ امید کرتے ہیں کہ اسکول میں الفاظ کے معنی تو سمجھا ہی دیے گئے ہوں گے، لیکن نہیں، پڑھانے کے لیے یہ ضروری ہے کہ معنی ضرور بتائے جائیں، ہمارے یہاں رٹا لگانے کی بھی وبا پھیلی ہوئی ہے۔

بعض بچے پوری پوری کتاب فر فر پڑھ کر سنا دیں گے، لیکن کہیں روک کر کوئی لفظ پوچھ لیا جائے تو پھر اگلا پچھلا سب غائب۔ اس کی وجہ یہی ہوتی ہے کہ بغیر معنی معلوم ہوئے زبانی یاد کرلیا، چاہے سمجھ میں آیا یا نہیں۔ ابتدائی کلاسوں میں اس کی بہت زیادہ اہمیت ہے کہ بچے کی سمجھ میں آئے کہ وہ کیا پڑھ رہا ہے، تاکہ آئندہ یہ عادت پختہ ہوتی چلی جائے۔ الفاظ کے معنی ہی عبارت کے سمجھنے میں مدد دیتے ہیں۔

5۔ تحریر کو سمجھنے کی صلاحیت

یہ بات اس تحقیق میں واضح کی گئی ہے کہ بچے کو پڑھنا سیکھنے کے لیے پہلے اس کا مطلب سمجھنا بہت ضروری ہے۔ سبق جتنا بچے کے اپنے گردو پیش سے ملتا جلتا ہوگا۔ اس کے روزمرہ کے مشاہدے کے قریب ہوگا۔ بچہ اتنا ہی اس کو سمجھنے میں آسانی محسوس کرے گا، پھر سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اس کی فہم کے مطابق ہو۔ جتنی سلیس زبان ہوگی اتنی ہی آسانی سے سمجھ میں آئے گی۔ یہ بھی ضروری ہے کہ پہلے یہ بتایا جائے کہ یہ سبق ہے کیا؟ کس چیز کے متعلق ہے؟ سمجھانے کے لیے اگر اس سے متعلق کوئی چیز دکھا بھی دی جائے، تو بچے کے لیے سمجھنے میں اور آسانی پیدا ہو سکتی ہے۔ بچہ اگر سمجھے گا تو ساتھ ساتھ اس کے سوچنے کی صلاحیت بھی ابھرے گی۔

اس ساری تحقیق میں پڑھنا سکھانے کے بارے میں جو باتیں بتائی گئیں، جیسے حروف کی صورتی پہچان ، پڑھنے کے لیے صوتی ہدایات ، پڑھنے میں روانی پیدا کرنے کا عمل، الفاظ کے ذخیرے کی اہمیت اور تحریر کو سمجھنے کی صلاحیت یہ ساری تفصیل ہمارے یہاں پڑھانے کے عمل میں یک ساں طور پر اہمیت کی حامل ہیں۔ پڑھانے والے کو خاص طور پر بچے کو حروف کی آواز بتانا ان کا مختلف انداز میں آواز بدلنے کی کیفیت کا اندازہ کرنا ضروری عمل ہے، تاکہ وہ آواز کے عمل سے ہر طرح کے لفظ کو استعمال کرنا سیکھیں۔ ان تمام ہدایات کو استعمال کرنے سے بچے کی پڑھنے کی صلاحیت ابھرتی ہے اور بچہ روانی سے پڑھنے کے قابل ہو جاتا ہے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ ماں باپ ہوں یا اساتذہ بہت صبر و استقامت کے ساتھ بچے کی پڑھنے میں مدد کریں۔ بچے کو پڑھانا اسے بار بار مطلب سمجھانا، یاد کرانا بہت زیادہ برداشت کا کام ہے، کیوں کہ بعض بچے توجہ قائم رکھنے سے تقریباً قاصر ہوتے ہیں، لیکن زبردستی توجہ قائم رکھوانا اس پوری کوشش کا قاتل ثابت ہو سکتا ہے۔ دہرانا، دہرانا اور پھر دہرانا پڑھنا سکھانے کا دراصل وہ نکتہ ہے جس سے بچے تھک جاتے ہیں اور بڑے برداشت کھو بیٹھتے ہیں، جب کہ اچھے استاد کی پہچان ہی یہ ہے کہ اس کے اندر برداشت کا مادّہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہو، نہ جانے کون سا بچہ استاد کے صبر کا امتحان لے بیٹھے۔ نتیجہ یہ کہ بچہ پڑھنے میں ناکام اور استاد پڑھانے میں۔

بچوں کو پڑھنا سکھانا ہر خاندان، ہر معاشرے ہر ملک کی ضرورت ہے۔ اس پر بہت ساری تحقیق کی جا رہی ہے اور اس قسم کی تحقیقات سے ہم اپنے بچوں کو پڑھانے میں استفادہ کر سکتے ہیں۔ ایسا نہیں کہ یہ طریقے ہم لوگ استعمال نہیں کرتے، لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ اس کو گہرائی اور گیرائی کے ساتھ استعمال کیا جائے۔ جب بچے کو پڑھنا آجاتا ہے، تو ایک بہت بڑی دنیا اس کے آگے کھلتی چلی جاتی ہے۔ اسی وجہ سے ہر انسان کی زندگی میں ابتدائی کلاسوں میں پڑھانے والے استادوں کی بہت زیادہ اہمیت ہوتی ہے۔ وہیں سے پڑھنے کا شوق اجاگر ہوتا ہے یا وہیں سے پڑھائی سے بوریت شروع ہو جاتی ہے۔ جو ساری زندگی مصیبت میں ڈالے رکھتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔