- نیب کا قومی اسمبلی سیکریٹریٹ میں غیر قانونی بھرتیوں کا نوٹس
- رضوان کی انجری سے متعلق بڑی خبر سامنے آگئی
- بولتے حروف
- بغیر اجازت دوسری شادی؛ تین ماہ قید کی سزا معطل کرنے کا حکم
- شیر افضل کے بجائے حامد رضا چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نامزد
- بیوی سے پریشان ہو کر خودکشی کا ڈرامہ کرنے والا شوہر زیر حراست
- 'امن کی سرحد' کو 'خوشحالی کی سرحد' میں تبدیل کریں گے، پاک ایران مشترکہ اعلامیہ
- وزیراعظم کا کراچی کے لیے 150 بسیں دینے کا اعلان
- آئی سی سی رینکنگ؛ بابراعظم کو دھچکا، شاہین کی 3 درجہ ترقی
- عالمی و مقامی مارکیٹ میں سونے کی قیمت میں اضافہ
- سویلین کا ٹرائل؛ لارجر بینچ کیلیے معاملہ پھر پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کو بھیج دیا گیا
- رائیونڈ؛ سفاک ملزمان کا تین سالہ بچے پر بہیمانہ تشدد، چھری کے وار سے شدید زخمی
- پنجاب؛ بےگھر لوگوں کی ہاؤسنگ اسکیم کیلیے سرکاری زمین کی نشاندہی کرلی گئی
- انٹرنیشنل ہاکی فیڈریشن نے پی ایچ ایف کے دونوں دھڑوں سے رابطہ کرلیا
- بلوچ لاپتہ افراد کیس؛ پتہ چلتا ہے وزیراعظم کے بیان کی کوئی حیثیت نہیں، اسلام آباد ہائیکورٹ
- چوتھا ٹی20؛ رضوان کی پلئینگ الیون میں شرکت مشکوک
- ایرانی صدر کا دورہ اور علاقائی تعاون کی اہمیت
- آئی ایم ایف قسط پیر تک مل جائیگی، جون تک زرمبادلہ ذخائر 10 ارب ڈالر ہوجائینگے، وزیر خزانہ
- حکومت رواں مالی سال کے قرض اہداف حاصل کرنے میں ناکام
- وزیراعظم کی وزیراعلیٰ سندھ کو صوبے کے مالی مسائل حل کرنے کی یقین دہانی
سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے تین سوال پوچھ لیے
اسلام آباد: سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے تین سوال پوچھ لیے۔
جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے دس رکنی فل کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ صدارتی ریفرنس نظرثانی کیس کی سماعت کی۔
جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی اہلیہ سرینہ عیسیٰ نے دلائل دیے کہ گزشتہ دو برس کے دوران ہزاروں بار مرچکی ہوں، میرے خاوند ایف بی آر کے سامنے ہیں نہ میں سپریم جوڈیشل کونسل کے سامنے ہوں، سپریم کورٹ سے اپنا حکم واپس لینے کی استدعا کرتی ہوں۔
جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے دلائل دیے کہ ایف بی آر شہزاد اکبر اور جنرل عاصم سلیم باجوہ کی ملکیت ہے، میرے دین اور عدالت پر حملہ ہو تو جذباتی ہوں، 12 مئی کے واقعہ پر تحقیقات ہوتی تو آج ذمہ دار دبئی میں نہ ہوتا۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ کا واحد دفاع ہے کہ اہلیہ کے اثاثوں سے کوئی تعلق نہیں ہے، آپ کہتے تھے کہ اہلیہ کے اثاثوں کا انہیں سے پوچھیں، خود کو بری کرنا ہے تو صاف کہیں لندن جائیدادوں میں آپ کا پیسہ شامل نہیں، آپ کو بتانا ہوگا اکاؤئنٹ سے ہونے والے اخراجات سے آپ کا کوئی تعلق نہیں، ثابت کرنا ہو گا کہ رقم منتقل کرنے کے اکاؤنٹ سے آپ کا تعلق نہیں۔
جسٹس فائز عیسی نے کہا کہ آپ مجھے پہلے ہی بری کر چکے ہیں، میں نے عدالت نہیں حکومت کے خلاف باتیں کیں ہیں۔
جسٹس عمر عطابندیال نے کہا کہ حکومت کو کچھ کہنا ہے تو باہر جاکر کہیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کہا کہ عدالت سے معذرت خواہ ہوں۔
ملاقات
جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ معذرت کرنے سے کچھ نہیں ہوتا، ہماری ایک ملاقات بھی ہوئی تھی۔ جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کہا کہ باہر کی باتیں نہ کریں لوگ غلط سمجھیں گے۔
جسٹس عمر عطابندیال نے کہا کہ آپ جذباتی ہوتے ہیں لیکن میں ابھی تک خاموش ہوں، جو پوچھا جائے کل سوچ کر اس کا جواب دیں۔
سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے تین سوال پوچھ لیے۔ کیا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اپنی اہلیہ کے بینک اکاؤنٹ سے مکمل لاتعلق ہیں؟۔ بیرون ملک جائیدادیں خریدنے کیلئے جو رقم باہر بھیجی گئی کیا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا اس سے کوئی قانونی تعلق نہیں؟۔ کیا جائیداد کی خریداری کیلئے جو اخراجات کیے گئے ان کا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے کوئی تعلق نہیں؟۔
سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت کل ساڑھے نو بجے تک ملتوی کردی۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔