بلدیہ کراچی، سال بہ سال

ڈاکٹر توصیف احمد خان  بدھ 21 اپريل 2021
tauceeph@gmail.com

[email protected]

بشیر سدوزئی جب طالب علم تھے تو تخلیقی کاموں میں گہری دلچسپی لیتے تھے۔ وہ سابقہ وفاقی اردو کالج کے رسالہ ’’برگ گل‘‘ کے ایڈیٹر کے عہدہ پر فائز ہوئے۔

بلدیہ کراچی تعلقات عامہ کے شعبہ سے منسلک ہوئے اور اس شعبہ کے ڈائریکٹر کے عہدہ پر فائز ہوئے۔ اس شعبہ کی سربراہی کئی سینئر صحافیوں اور افسران نے کی مگر بشیر سدوزئی واحد افسر تھے جنھوں نے تحقیق کرنے اور کتابیں تحریر کرنے کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لیا۔ بشیر سدوزئی کی کتاب بلدیہ کراچی سال بہ سال 1844 تا 1979 شایع ہوئی۔ یہ کتاب جو 743 صفحات پر مشتمل ہے کراچی شہرکی تاریخ پر مشتمل ہے۔

انھوں نے کتاب کا انتساب بلدیہ کراچی کے سابق ڈائریکٹر سیف الرحمن گرامی کے نام منسوب کیا ہے۔ سیف الرحمن گرامی صرف ایک سرکاری افسر ہی نہیں تھے بلکہ شہر کی ایک متحرک سماجی شخصیت بھی تھے، اپنے افسر کو یاد کر کے بشیر سدوزئی نے ثابت کیا ہے کہ جس شخص نے ان کے ساتھ بہتر سلوک کیا۔ اس شخص کو وہ فراموش نہیں کرسکے۔

یہ کتاب تین ابواب پر مشتمل ہے۔ اس کتاب کا آغاز باب اول سے پہلے کے عنوان سے ہوتا ہے۔ مصنف کا کہنا ہے کہ کراچی میں باہر سے آنے والوں کا سلسلہ 1729 میں شروع ہوا جب پہلے ہندو تاجر بھوجومل نے اپنے ساتھیوں سمیت یہاں قدم رکھا۔ مصنف پیشگوئی کرتے ہیں کہ یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک کراچی میں دم خم ہے۔

مؤرخین کے حوالوں سے لکھتے ہیں کہ کراچی میں آبادی کے آثار زمانہ قبل از تاریخ سے ملتے ہیں اور زمانہ قبل از مسیح میں ہیں۔ مصنف یہ خیال کرتے ہیں کہ شاید یہ دنیا کا واحد شہر ہے جس کے ہزاروں سال کے نشیب و فراز لگتے ہیں۔ اس دوران کراچی کے نام بگڑتے سنورتے رہے۔ 1729 میں سیٹھ بھوجومل نے فصیل تعمیر کر کے ایک نئے شہرکی بنیاد رکھی۔ جب انگریزوں نے 1839 میں کراچی پر قبضہ کر کے جدید شہر بنانا چاہا تو اس کی آبادی میں ایک مرتبہ پھر تیزی سے اضافہ ہوا۔ جب 1947 میں برصغیر تقسیم ہوا تو کراچی میں بیک وقت ہزاروں نہیں لاکھوں لوگ نقل مکانی کر کے پہنچے۔

پاکستان بننے کے بعد ملک کے طول و عرض سے بے شمار غریبوں اور مزدوروں نے سلسلہ روزگار کے لیے کراچی کا رخ کیا۔ مصنف کا مدعا ہے کہ بھوجو مل کھارک یا کھڑہ بندر کا تاجر تھا۔ یہ بندرگاہ دریائے حب کے اس کونے پر واقع تھی جہاں دریا سمندر میں گرتا ہے۔ تیز سمندری ریلے کے باعث دریا نے اس بندرگاہ کو مکمل طور پر سمندر سپرد کردیا۔ بھوجومل نے بوجھل دل کے ساتھ اپنا بچا کچا سرمایہ اٹھایا اور نئے ٹھکانے کی تلاش میں کراچی کا رخ کیا۔ بھوجومل نے کراچی کی بندرگاہ سے تجارت شروع کی مگر یہاں کے قذاقوں اور اغواء کاروں سے وہ سخت تنگ آگیا تھا۔ یہاں مقامی باشندے کیماڑی، منوڑہ اور ساحل سمندر کے قریب ترین 20,25 جھونپڑوں پر مشتمل ایک گاؤں میں رہتے تھے۔

کبھی جھگیاں سمندر کی تیز ہواؤں کی نذر ہوجاتیں اور کبھی بارش اور آندھی اور طوفانوں سے متاثر مچھیرے گھاس پھونس جمع کر کے دوبارہ جھگیاں بناتے۔یہ کھیل صدیوں سے جاری تھا۔ بھوجومل اپنے سرمایہ اور ساتھیوں سمیت یہاں آیا۔ مقامی لوگوں نے کراچی آنے والے پہلے مہاجر کو خوش آمدید کہا اور علاقہ کی ایک بڑی بوڑھی خاتون نے قذاقوں سے محفوظ رہنے کے لیے فصیل تعمیر کرنے کا مشورہ بھی دیا۔ بھوجومل نے اپنے ساتھ تاجروں کی مدد سے فصیل شہر تعمیر کرائی۔ ان حقائق کی روشنی میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ بھوجومل ہی کراچی شہر کا بانی ہے۔

مصنف لکھتے ہیں کہ جب انگریزوں نے 1846 میں میونسپل بورڈ اور بعد ازاں 1852 میں میونسپل کمیشن کا قیام عمل میں لایا، اس کمیشن کے قیام کوکراچی بطور شہرکا آغاز کہا جاسکتا ہے۔ کتاب کا پہلا باب 1844 سے 1900 کی تاریخ پر مشتل ہے۔ ’’کراچی سندھ کا صدر مقام ‘‘کے عنوان سے اس باب میں بتایا گیا ہے کہ میروں کے دور اقتدار تک حیدرآباد ہی سندھ کا دارالحکومت رہا۔ انگریزوں نے چارلس نیپیئر کو گورنر مقررکیا تو اس کو حیدرآباد کا موسم بہت گرم محسوس ہوا، وہ حیدرآباد سے صدر مقام کسی معتدل جگہ پر منتقل کرنا چاہتا تھا جہاں گرمی کم ہو۔

چارلس نیپیئر نے اپنے عملے کے ایک رکن رچرڈ برٹن جو ذہین اور عالم فاضل تھا کو ہدایت کی کہ وہ کراچی جائے اور مکمل سروے رپورٹ تیارکرے۔ رچرڈ برٹن نے کراچی کے سروے کے دوران منگھوپیر، لانڈھی، کورنگی اور ملیرکا دورہ کیا۔ اس نے چارلس نیپیئر کو رپورٹ دی کہ کراچی ساحل پر واقع مچھیروں کی ایک چھوٹی سی بستی ہے جہاں کا موسم حیدرآباد کے مقابلہ میں بہت معتدل ہے۔ اس نے یہ بھی رپورٹ میں لکھا کہ یہاں سے سمندر کے راستہ خلیج فارس کے ساتھ تجارتی سرگرمیوں کو بھی فروغ دیا جاسکتا ہے۔ سدوزئی لکھتے ہیں کہ انگریزوں نے ابتداء میں تو فوجیوں سے یہ کام لیا کہ وہ صبح سویرے شہر میں جھاڑو لگاتے اور صفائی ستھرائی میں مصروف ہوتے۔

1843 میں دارالحکومت کراچی منتقل ہونے کا پہلا سال تھا۔ کراچی میں دفاتر کا قیام ،نظام حکومت کا اجراء اور ترقیاتی کاموں کا آغاز 1844سے شروع ہوا۔ 1845میں فوجیوں کے لیے سول لائنز کا قیام عمل میں آیا اور کئی راستے تعمیر ہوئے۔

یہ راستے ابتداء میں کچے تھے جن کو بعد میں پختہ سڑکوں میں ترقی دی گئی اور آج یہ شہر کے معروف ترین تجارتی مراکز ہیں۔ اسی سال لیاری سے گزری تک ایک راستہ نکالا گیا۔  اس کتاب کے مطابق برصغیر میں بلدیاتی اداروں یعنی مقامی حکومتوں کا آغاز 1850 میں ہوا۔ لارڈ ہوزی نے پہلا آل انڈیا میونسپل ایکٹ (امپریل ایکٹ مجریہ 1850) منظور کیا جس کا دائرہ کار کراچی تک بڑھادیا گیا۔

اس ایکٹ میں صوبائی حکومتوں کو اختیار دیا گیا تھا کہ وہ ضرورت کے مطابق مجسٹریٹ اور کمشنر مقرر کریں۔ صوبائی حکومتوں کو قواعد و ضوابط کے مطابق اختیارات بھی دیے گئے اور لوکل گورنمنٹ کا نظام صوبائی حکومت کے ماتحت کر دیا گیا۔ اس قانون کے تحت خود مختار بااختیار بنیادی جمہوری مقامی اداروں کے قیام کا آغاز ہوا۔ ان میں بلدیہ کراچی بھی ایک ادارہ ہے جس نے اس عظیم الشان شہر کی تعمیر کی۔

مصنف کا کہنا ہے کہ بلدیہ کراچی کے ذمے داروں کی سمجھ میں یہ بات آئی کہ میونسپلٹی کے وسائل کو بڑہاوا دینے اور تجارتی سرگرمیاں بڑھانے کے لیے شہر کے مختلف علاقوں میں کمرشل مارکیٹیں تعمیر کی جائیں۔ اسی طرح باب دوئم میں بمبئی ڈسٹرکٹ ایکٹ کا ذکر ہے۔ 1901میں بمبئی ڈسٹرکٹ ایکٹ منظور ہوا۔ اس سال گورنر جنرل کی منظوری کے بعد یکم اپریل 1901 کو یہ ایکٹ بمبئی گورنمنٹ گزٹ میں شایع ہوا۔ اس ایکٹ کے تحت بلدیہ کراچی کو پہلے سے زیادہ اختیارات ملے اورکراچی شہر کی ترقی کا سفر تیز ہوا۔

مقامی افراد کو حکومتی ایوانوں میں مزید اختیارات حاصل ہوئے۔ اسی طرح 1901 تک بلدیہ کراچی شہر میں 20 سے زائد مارکیٹیں تعمیرکرچکی تھی ۔ اسی طرح تیسرے باب میں کراچی میں تعمیر ہونے والی نئی بستیوں کا خاص تفصیل سے ذکر ہے۔ بشیر سدوزئی نے انتہائی عرق ریزی سے تقریباً 200سال کا بلدیاتی کراچی کا ریکارڈ پیش کیا ہے اور اس ریکارڈ کے ساتھ حوالہ جات بھی ہیں۔ یہ کتاب کراچی کے بارے میں جاننے کا شوق رکھنے والے شہریوں، صحافیوں اور بلدیاتی اداروں پر تحقیق کرنے والوں کے لیے انتہائی معلوماتی کتاب ہے۔

وضاحت: آئی اے رحمن سے متعلق آرٹیکل میں، میری غلطی سے یہ شایع ہوگیا کہ انھیں صدر پرویز مشرف نے وزیر اعظم بننے کی دعوت دی تھی، دراصل پیپلز پارٹی کے وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف نے انھیں نگراں وزیر اعظم بننے کی دعوت دی تھی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔