اقبال کی شاعری: اسلام کی آفاقی عالمگیریت کا اظہار

ڈاکٹر یاسمین سلطانہ فاروقی  بدھ 21 اپريل 2021
شاعرمشرق ڈاکٹر علامہ اقبال ؒ برصغیر کے عظیم فلاسفر تھے جنہوں نے برصغیر کے مسلمانوں میں اپنی شاعری کے ذریعے بیداری پیدا کی۔

شاعرمشرق ڈاکٹر علامہ اقبال ؒ برصغیر کے عظیم فلاسفر تھے جنہوں نے برصغیر کے مسلمانوں میں اپنی شاعری کے ذریعے بیداری پیدا کی۔

چیئرپرسن، میڈیا سائنس، علما یونی ورسٹی، کراچی

علامہ اقبال کی زندگی پر ابتدائی تعلیم سے ہی مذہبی اثرات بہت نمایاں تھے۔ مولوی سیّد میر حسن ( 18 اپریل 1844 ء۔ 25 ستمبر 1929 ء ) علامہ اقبال کے استاد تھے، وہ عالمِ قرآن، محدث، عربی و فارسی کے ماہر تھے۔ علامہ اقبال نے آپ سے عربی و فارسی تعلیم حاصل کی۔ میر حسن ہی تھے جنھوں نے اقبال میں جذبۂ شاعری بیدار کیا ۔

علامہ کی ابتدائی شاعری میں میر حسن کی تعلیمات کا اثر نظر آتا ہے۔ 1923ء میں تاجِ برطانیہ نے علامہ اقبال کو ’سر‘ کا خطاب دینے کا اعلان کیا تو اُنھوں نے مطالبہ کیا کہ اُن کے استاد مولوی میر حسن کو بھی ’سر‘ کا خطاب دیا جائے۔ گورنر نے اصرار کیا کہ اُنھوں نے ہنوز کوئی کتاب تصنیف نہیں کی جس کے پیشِ نظر خطاب دیا جائے۔ علامہ اقبال نے فرمایا، ’’میں خود ان کی تصنیف ہوں۔‘‘ اس پر برطانوی حکومت نے مولوی میر حسن کو ’’شمس العلماء‘‘ کا خطاب دیا ۔

اقبال 28 برس کی عمر میں 1905)ء ) میں انگلستان چلے گئے، پھر وہاں سے جرمنی گئے اور وکالت اور پی ایچ ڈی کرکے وطن واپس لوٹے۔ جیسے کہ ڈاکٹر اسرار احمد نے ایک جگہ فرمایا، میرا مشاہدہ ہے کہ ایسا نوجوان یا بچہ جس کی تربیت بچپن میں دینی خطوط پر ہوئی ہو، وہ جب مخالف ماحول میں پہنچتا ہے تو اس کے اندر کی چنگاری شعلہ بن کر سامنے آتی ہے۔ دو چیزیں ہوتی ہیں یا تو وہاں کی تہذیب میں رنگ جاتا ہے یا جو بچ جاتا ہے اور جس کے اندر تھوڑی بہت حمیت باقی ہوتی ہے تو وہ پھر activist بن جاتا ہے اور دین کے لیے کام کرتا ہے۔ اقبال بھی اسی قسم میں سے تھے جس نے مبلغ کا کام کیا۔

مسلماں کو مسلماں کردیا طوفانِ مغرب نے

تلاطم ہاے دریا ہی سے ہے گوہر کی سیرابی

اپنی شاعری و نثر کے ذریعے انھوں نے اسلام کے نظامِ فکر اور فلسفہ و حکمت کو بیان کیا ہے۔ کلامِ اقبال خود تفسیرِ قرآن ہے۔ وہ دعویٰ کرتا ہے، میرا پیغام صرف قرآن ہے۔

گر دلم آئینۂ بے جوہر است

ور بحرم فم غیر قرآن مضمر اَست

پردۂ ناموسِ فطرت چاک کن

ایں خیال بہ رازِ خارم خاک کن

اقبال اپنے فلسفے میں کہتے ہیں:

ز شعر دلکش اقبال می تواں دریافت

کہ درس فلسفہ می داد و عاشقی ورزید

وائے قومے کز اجل گیرد برات

شاعرش و ابوسد از ذوق حیات

اقبال کی شاعری میں حسن و جمال اور زیبائش بھی ہے اور آرٹ بھی۔

میری نظر میں یہی ہے جمال و زیبائی

کہ سر بہ سجدہ ہیں قوت کے سامنے افلاک

دلبری بے قاہری جادوگری ست

دلبری باقاہری پیغمبری ست

آیا کہاں سے نالۂ نے میں سرورِ مے

اصل اس کی نے نواز کا دل ہے کہ چوب نے

جس روز دل کے رمز مغنی سمجھ گیا

سمجھو تمام مرحلہ ہائے ہنر ہیں طے

—–

فطرتِ شاعر سراپا جستجو ست

خالق و پروردگارِ آرزو ست

—–

شاعر اندر سینۂ ملت چو دل

ملتی بی شاعری انبارِ گل

—–

سوز و مستی نقش بند نے عالمے سِت

شاعری بے سوز و مستی ماتمے سِت

یہاں پر اقبال تجدید تہذیب اور اسلام کا علم بردار بن کر سامنے آئے ہیں:

منزل راہورواں دور بھی ہے دشوار بھی ہے

کوئی اس قافلے میں قافلہ سالار بھی ہے

یہ مالِ دولت و دنیا یہ رشتہ و پیوند

بتانِ وہم گماں لا الٰہ اللہ

نقش ہیں سب ناتمام خونِ جگر کے بغیر

نغمہ ہے سوداے خام خونِ جگر کے بغیر

اقبال کے ہاں ’’مردِ مومن‘‘ کا جو تصور ہے، وہ نہایت شان دار، جان دار اور غیرمعمولی ہے۔ ان کا مردِمومن زمان و مکاں سے آزاد ہے۔ اس کی نگاہ فلک پہ ہے اور اس پہ اللہ کی رحمت کا سایہ ہے۔

کوئی اندازہ کرسکتا ہے اس کے زورِ بازو کا

نگاہِ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں

—–

تیغوں کے سائے میں ہم پل کر جواں ہوئے ہیں

خنجر ہلال کا ہے قومی نشاں ہمارا

—–

ہو حلقۂ یاراں تو بریشم کی طرح نرم

رزمِ حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن

—–

جس سے جگرِ لالہ میں ٹھنڈک ہو وہ شبنم

دریاؤں کے دل جس سے دہل جائیں وہ طوفان

بازو تیرا توحید کی قوت سے قوی ہے

اسلام تیرا دیس ہے تو مصطفوی ہے

—–

جہاں میں اہلِ ایماں صورت خورشید جیتے ہیں

اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے، اُدھر ڈوبے اِدھر نکلے

اقبال اپنی زندگی میں دو شخصیات سے بہت متاثر رہے جہاں ایک طرف انھوں نے اپنا پیر و مرشد مولانا رومی کو مانا تو دوسری جانب وہ نطشے کے فلسفۂ خودی سے بھی متاثر ہوئے۔ انھوں نے نطشے کے فلسفۂ خودی کو اپنی ذات کے بہت قریب تر پایا۔ انھوں نے رومی کے فلسفہ دین اور روحانی حقائق پر کامل ایمان اور زندگانی کی حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کی۔

اقبال کے فلسفۂ قدیم و جدید کے مطالعے اور ان کی فلسفیانہ مزاج نے ان کی وسعت النظری میں اضافہ کیا۔ یہ بات تو روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ اگر کسی سے بھی اقبال کی شاعری کی خصوصیت پوچھی جائے تو وہ برملا کہے گا کہ ان کی شاعری ’’فلسفیانہ شاعری‘‘ ہے اور اس سے مراد یقینا ان کی شاعری کی ہمہ جہتی اور ہمہ گیریت ہے۔ اقبال کوئی خشک فلسفی یا دنیا سے بیزار شخص نہیں تھے۔ ان کی شاعری میں جو امید اور زندگی ہے، وہ انھیں کا خاصہ ہے۔ وہ شاعر بھی تھے اور حکیمِ نکتہ داں بھی۔ ان کے ہاں عشقِ حقیقی و مجازی دونوں ہیں جہاں ایک جانب حسن کی کرشمہ سازیاں ہیں تو دوسری جانب رندی و مستی کا بیان بھی ہے:

من بندۂ آزادم عشق است امامِ من

عشق است امامِ من عقل است غلامِ من

ہنگامۂ ایں محفل از گردشِ جامِ من

ایں کوکب شام من ایں ماہِ تمام من

جاں در عدم آسودہ بے ذوق تمنا بود

مستانہ نوا ہا زد در حلقۂ دام من

اس شعر میں اقبال کی جرأتِ رندانہ ملاحظہ کیجیے:

ہم عشق کشتیِ من، ہم عشق ساحلِ من

نہ غمِ سفینہ دارم نہ سرِ کرانہ دارم

اقبال اپنے خیالات و افکار میں کسی کا خوشہ چیں نہیں۔ وہ شاگرد تو داغ دہلوی کے تھے، متاثر غالب سے ہوئے مگر اس کے باوجود انھوں نے کسی کے رنگ کو اپنایا نہیں بلکہ اپنا ایک الگ جداگانہ انداز برقرار رکھا۔ یقینا اس کی وجہ اقبال کا علمی سرمایہ تھا۔ اقبال نے مشرق و مغرب کے علوم کا گہرا مطالعہ کیا ہے جو ان کے کلام کی گہرائی اور گیرائی سے جھلکتا ہے۔ انھوں نے ماضی کی تاریکیوں کو دور کرنے کے لیے مستقبل میں طلوع ہونے والے سورج کی نوید سنائی۔ ان سے قبل بہت بڑے اور نامور شعرا گزرے مگر جو فلسفہ اور صوفیانہ رنگ اقبال کے یہاں ہے، وہ کم ہی کسی کے پاس ہے۔ انھوں نے اپنی قوم کو خود شناسی کا شعور عطا کیا، خودی کو جاننے کی آگہی دی۔

اپنے من میں ڈوب کے پا جا سراغِ زندگی

تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن، اپنا تو بن

اقبال ایک ہمہ جہت شاعر تھے۔ ان کی شاعری گوناگونی اور تنوع لیے ہوئے ہے۔ ان کا ذہنی ارتقا، شعورِ مزاح، تصورِ عشق، اسلوبِ زبان و بیاں، تصورِ خودی اور سب سے بڑھ کر اسلام سے رغبت اور اس کی تعلیمات کا پرچار انھیں معاصرین سے ممتاز کرنے کے لیے کافی ہے۔ انھوں نے تعلیماتِ قرآن کے مطابق کائنات کو تسخیر کرنے کی بات کی۔ انھوں نے اپنے مضامین میں حصولِ علم تجسّس اور تحقیق پر زور دیا تاکہ نسلِ نو کسی بھی میدان میں پیچھے نہ رہے۔ اقبال نے فطرت، تعلیم اور مذہب کو علم کا ذریعہ قرار دیا۔ اقبال رومی سے کہتے ہیں:

علم و حکمت کا ملے کیوںکر سراغ

کس طرح ہاتھ آئے سوز و درد و داغ

رومی کہتے ہیں:

علم و حکمت زاید از نان حلال

عشق و رقت آید از نان حلال

اقبال نے اپنے لافانی کلام اور فکرِ رسا سے مسلمانوں کو خود آگاہی بخشی۔ ان کی شاعری رجائیت کی شاعری ہے۔ انھوں نے رنگ و نسل اور جغرافیائی امتیاز سے بالاتر ہو کر اسلام کی آفاقیت و عالمگیریت کا اظہار کیا:

مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا

مسلم قومیت کا تصور اقبال کے کلام میں جا بجا ملتا ہے:

بتانِ رنگ و خوں کو توڑ کر ملت میں گم ہوجا

نہ تورانی رہے باقی نہ ایرانی، نہ افغانی

ہوس نے ٹکڑے ٹکڑے کردیا ہے نوعِ انسانی کو

اخوت کا بیاں ہوجا محبت کی زباں ہوجا

—–

ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے

نیل کے ساحل سے لے کر تا بہ خاکِ کاشغر

—–

قوم مذہب سے ہے، مذہب جو نہیں تم بھی نہیں

جذبِ باہم بھی نہیں، محفلِ انجم بھی نہیں

مزید دیکھیے:

گفتارِ سیاست میں وطن اور ہی کچھ ہے

ارشادِ نبوتؐ میں وطن اور ہی کچھ ہے

عرفانِ حقیقی اور قربِ خداوندی کے حصول کی وہ راہ جہان انسان اپنے سماجی رشتوں اور نسبتوں کے حوالے سے روحانی ارتفاع کی جانب بڑھتا ہے، شریعت کا راستہ ہے۔ جس کا نفاذ فرد اور معاشرے دونوں پر ہوتا ہے۔ کیف و وجدان اور روحانی تسکین کے سوتے کامل شخصیات سے پھوٹتے نظر آتے ہیں۔ اسی لیے تشنگانِ معرفت ان کی طرف بڑھے اور پھر طریقت نے جو شکل اختیار کی۔ اسے خانقاہ کا نام دیا گیا۔ مگر رفتہ رفتہ کچھ ایسے عناصر یہاں داخل ہوگئے جنھوں نے خانقاہ کے تقدس کو پامال کیا اور پھر مذموم مقاصد کے لیے یہ متبرک جگہیں استعمال ہونے لگیں۔ اقبال کو اسی لیے خانقاہ شکن صوفی بھی کہا گیا۔ کیوںکہ وہ اس نامناسب رویے کے خلاف تھے:

نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسمِ شبیری

کہ فقرِ خانقاہی ہے فقط اندوہ و دلگیری

—–

مکتبوں میں کہیں رعنائیِ افکار بھی ہے

خانقاہوں میں کہیں لذتِ اسرار بھی ہے

مگر اس کا معنی یہ نہیں کہ وہ اپنے عہد کو صوفیہ و فقرا سے خالی گردانتے ہیں۔ انھوں نے خود کہا:

تمنا دردِ دل کو ہو تو کر، خدمت فقیروں کی

نہیں ملتا یہ گوہر، بادشاہوں کے خزینوں میں

—–

نہ پوچھ ان خرقہ پوشوں کی ارادت ہو تو دیکھ ان کو

یدِ بیضا لیے بیٹھے ہیں اپنی آستینوں میں

—–

تمدن، تصوف، شریعت، کلام

بتانِ عجم کے پجاری تمام

اقبال محض شاعر نہیں تھے، نہ محض فلسفی۔ آپ ایک فلسفی شاعر تھے۔ اقبال کی فکر میں رنگا رنگی ہے اور اس کے ہزارہا پہلو ہیں۔یہ اشعار ملاحظہ فرمایئے:

پریشاں کاروبار آشنائی

پریشاں تر مری رنگیں نوائی

کبھی میں ڈھونڈتا ہوں لذتِ وصل

خوش آتا ہے کبھی سوزِ جدائی

—–

کوئی دیکھے تو میری نے نوازی

نفس ہندی مقامِ نغمہ تازی

—–

نگہ آلودہ انداز افرنگ

طبیعت غزنوی، قسمت ایازی

—–

صد نالۂ شب گیرے، صد صبح بلاخیزے

صد آہ شرر ریزے، یک شعر دل آویزے

اقبال کا فلسفہ اور فکر دوسروں سے جداگانہ تھا اور اس کا اظہار انھوں نے اپنی شاعری کے ذریعے کیا۔ رضی الدین صدیقی نے اقبال کے نظامِ فکر کو بیان کرتے ہوئے چند نکتوں کی طرف اشارہ کیا ہے۔

۱۔ اہلِ مشرق اور خصوصاً مسلمانوں کی پستی اور کمزوری کے اسباب اور ان کا ازالہ۔۲۔ نظریۂ حیات اور زندگی کی اعلیٰ اقدار۔ موت اور حیات بعد الموت کی حقیقت۔۳۔ فرد اور جماعت کے حقوق و فرائض۔ خودی و بے خودی کا تصور۔۴۔ موجودہ تہذیب کی دشواریوں سے نوعِ انساں کی نجات کا طریقہ۔

اقبال قوم اور جماعت کو ترقی کا ضامن سمجھتے تھے۔ وہ ideology پر یقین رکھتے تھے۔ کسی بھی قوم کی تہذیبی و ملی روایات ہی اس کا اصل نصب العین ہوتی ہیں۔ وہ کہتے ہیں:

زندہ فرد از ارتباطِ جان و تن

زندہ قوم از حفظِ ناموسِ کہن

اقبال کے نزدیک ذہنی غلامی موت ہے۔ دوسروں کے افکار و خیالات اور سیاسی محکومیت کو اپنانا اپنے مقصدِ حیات کو فراموش کرنا ہے۔ وہ ایک جاگتے ذہن اور فکرِ رسا کے مالک تھے۔ اُن کی آنکھ بینا تھی، ذہن بیدار تھا۔ صحیح معنوں میں دیدہ ور تھے۔ خود کہتے ہیں:

’’بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا‘‘

—–

عروجِ آدمِ خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں

کہ یہ ٹوٹا ہوا تارہ مہِ کامل نہ بن جائے

احترامِ آدمیت ہی دراصل اصل تہذیب ہے ان کے نزدیک۔

بر تر از گردوں مقامِ آدم است

اصلِ تہذیب احترامِ آدم است

اقبال نے مشرق کی فکر کو مغرب کی فکر کے امتزاج کے ساتھ بھی پیش کیا ہے۔ انھوں نے مخصوص اسلامی فکر کو جدیدیت کے رنگ کے ساتھ بھی پیش کیا۔ اور ایشیا کی اسلام کی فکر کو جدید ترین فکر سے ہم آہنگ کیا۔

جب مئے درد سے ہو خلفت شاعر مدہوش

آنکھ جب خون کے اشکوں سے بنے لالہ فروش

—–

پرے ہے چرخ نیلی فام سے منزل مسلماں کی

ستارے جس کی گردِ راہ ہوں وہ کارواں تُو ہے

میری نوائے دو رنگی کو شاعری نہ سمجھ

کہ میں ہوں محرمِ رازِ درونِ مئے خانہ

غالب کے بعد اقبال وہ شاعر ہیں جن کی شاعری میں موضوعات کا تنوع اور وسعت نظر آتی ہے۔ ان کے اشعار کی طرزِ نگارش، سوچ و فکر سے ایک مکمل نظامِ حیات سامنے آیا۔ اُنھوں نے الفاظ کو نئے معنی عطا کیے۔ تشبیہات و استعارات کو نئے انداز سے برتا۔ ان کی شاعری روایتی بھی ہے اور انقلابی بھی۔ ان کے فارسی کلام میں بھی تازگی و توانائی نظر آتی ہے۔ کسی زمانے میں فارسی میں ہی اشعار کہے جاتے تھے اور اردو میں شعر کہنے والے شاعر کو کم مرتبہ سمجھا جاتا تھا۔ پھر فارسی کے ساتھ ساتھ اردو شاعری کو بھی قابلِ قبول سمجھا جانے لگا۔ اس زمانے میں شعرا نے اپنی اردو شاعری میں فارسی کی اتنی آمیزش کردی کہ نامانوس سا لگنے لگا اور اردو طبقے نے اس پر باقاعدہ احتجاج کیا۔ یہی اقبال نے بھی کیا تھا کہ اردو میں فارسی کی ضرورت سے زیادہ بہتات کرنا شروع کردی۔ مثلاً:

عشق از فریاد ما ہنگامہ با تعمیر کرد

ورنہ ایں بزمِ خموشاں بیچ غوغائے نداشت

—–

خود آگاہی نے سکھلا دی جس کو تن فراموشی

حرام آئی ہے اس مردِ مجاہد پر زرہ پوشی

فارسی اور اردو دونوں زبانوں میں اقبال کی جو مہارت اور تنوع تھی، وہ کہیں اور نہیں ملتی بلکہ اس معاملے میں اقبال کا کسی سے مقابلہ ہی نہیں ہے۔ کبھی ان کا انداز والہانہ ہوتا ہے تو کبھی وہ اپنے افکار کے حیات و تقدیر کے راز منکشف کرتے نظر آتے ہیں۔

نغمہ کجا و من کجا سازِ سخن بہانہ ایست

سوے قطار من کشم ناقہ بے زمام را

اقبال کے اشعار کا اعجاز یہ ہے کہ اس میں ’’ایمائیت‘‘ ہے یعنی اشاروں کنایوں میں باتیں کرنا۔ اقبال خود اسے گریز کہتے ہیں۔ مثلاً:

نہ بادہ ہے نہ صراحی نہ دورِ پیمانہ

فقط نگاہ سے رنگیں ہے بزمِ جانانہ

—–

مقامِ پروشِ آہ و نالہ ہے یہ چمن

نہ سیرِ گل کے لیے ہے نہ آشیاں کے لیے

اقبال کے ہاں صوفیانہ اصطلاحیں بکثرت استعمال ہوتی ہیں:

گراں بہا ہے تو حفظِ خودی سے ہے ورنہ

گہر میں آبِ گہر کے سوا کچھ اور نہیں

اقبال جس دور میں تھے، اس وقت ملکی سیاسی حالات بہت دگرگوں اور آزادی کا شور برپا تھا۔ اقبال کی نظمیں بھی ان ہی حالات کی ترجمانی کرتی ہیں کیوںکہ اقبال کا نصب العین اور مقصدِ حیات بہت بڑا تھا۔ وہ مسائل کا حل نکالنا چاہتے تھے۔ فرماتے ہیں:

تو شناسائے خراش عقدۂ مشکل نہیں

اے گل رنگیں تیرے پہلو میں شاید دل نہیں

مطمئن ہے تو، پریشاں مثل جو رہتا ہوں میں

زخمی شمشیرِ شوق جستجو رہتا ہوں میں

—–

تمدن، تصوف، شریعت، کلام

بتانِ عجم کے پجاری تمام

حقیقت خرافات میں کھو گئی

یہ امت روایات میں کھو گئی

اُن میں شروع سے ہی قومیت (Nationalism) کا عنصر غالب رہا اور اس کا اظہار انھوں نے جابجا کیا ہے۔

اس درجہ گہرا nationalism اقبال کے اندر موجود تھا۔

سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا

ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا

’’نیا شوالہ‘‘ میں جسے انھوں نے کہا:

پتھر کی مورتوں میں سمجھا ہے تو خدا ہے

خاکِ وطن کا مجھ کو ہر ذرہ دیوتا ہے

اقبال کی تمام تر سنجیدگی کے باوجود ان کے اندر ایک شوخیٔ طبع اور بذلہ سنجی بھی موجود تھی اور وہ بہت سلیقے سے فقرے بازی کرلیتے تھے اور شگفتگی کا اظہار بھی بہت عمدگی سے کیا کرتے تھے۔ ان کی شاعری میں کہیں کہیں داغ دہلوی کا رنگ بھی نظر آتا ہے، خاص طور پہ شوخی اور طنز وغیرہ کرتے ہوئے۔

مثلاً اقبال نے عطیہ فیضی کو بنگال کی تقسیم پر ایک قطعہ لکھ بھیجا:

مندمل زخم دلِ بنگال آخر ہوگیا

وہ جو تھی پہلے تمیز کافر و مومن گئی

تاج شاہی آج کلکتہ سے دہلی آگیا

مل گئی بابو کو جوتی اور پگڑی چھن گئی

’’بانگِ درا‘‘ سے ایک قطعہ ملاحظہ ہو:

عجب واعظ کی دین داری ہے یارب

عداوت ہے اسے سارے جہاں سے

بڑی باریک بیں واعظ کی چالیں

لرز جاتا ہے آوازِ اذاں سے

اقبال کے کلام میں طنزیہ و تنقیدی اسلوب بھی ملتا ہے:

رحمتیں ہیں تیری اغیار کے کاشانوں پر

برق گرتی ہے تو بے چارے مسلمانوں پر

—–

پھر بھی ہم سے یہ گلہ ہے کہ وفادار نہیں

ہم وفادار نہیں، تُو بھی تو دلدار نہیں

—–

کبھی ہم سے کبھی غیروں سے شناسائی ہے

بات کہنے کی نہیں، تُو بھی تو ہرجائی ہے

اقبال نے اپنے کلام میں عشق کو صحیح معنوں میں استعمال کیا ہے۔ اقبال کے نزدیک عشق ہی وہ قوتِ محرکہ ہے جو انسان کو اس کی منزل کی طرف جانے پہ اُکساتا ہے۔ اقبال کے نزدیک عشق کا جذبہ پوری کائنات میں کارفرما ہے۔ انھوں نے عشقِ مجازی سے زیادہ عشقِ حقیقی کو موضوع بنایا:

عشق دمِ جبرئیل، عشق دلِ مصطفی ؐ

عشق خدا کا رسولؐ، عشق خدا کا کلام

عشق کی مستی سے ہے پیکرِ گل تابناک

عشقؐ صہبائے خام، عشق ہے خاص الکرام

عشق فقیہہِ حرم، عشق امیر جنود

عشق ہے ابن السبیل اس کے ہزاروں مقام

کی محمدؐ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں

یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں

اقبال نے اپنے فن کو کوئی مشغلہ نہیں بنایا بلکہ اسے نسلِ انسانی کے لیے ایک وژن کی صورت میں پیش کیا۔ اقبال نے مشرقی و مغربی علوم سے جو اکتساب کیا تھا، وہ اسے اپنی قوم کی ذہنی و فکری آبیاری کے لیے استعمال کرنا چاہتے تھے۔ ان کی شخصیت میں مغرب و مشرق کے علم و حکمت کے دھارے آکے مل گئے تھے۔

وہ اپنی اس سوچ میں کامیاب بھی رہے، انھیں نہ صرف زندگی میں پذیرائی ملی بلکہ ان کے جانے کے بعد لوگوں نے ان کے کلام کو زیادہ سراہا اور اس منزل پہ پہنچا دیا جہاں اقبال کا کوئی ہمسر نہیں ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔