اعلیٰ تعلیم کی راہ میں رکاوٹ

ڈاکٹر توصیف احمد خان  جمعرات 22 اپريل 2021
tauceeph@gmail.com

[email protected]

گزشتہ ماہ ہائر ایجوکیشن کمیشنHECکے سربراہ کو ہٹانے کے لیے کمیشن کی ہیت میں تبدیلی کے لیے ایک آرڈیننس کا سہارا لیا گیا۔

ایچ ای سی کے چیئرمین ڈاکٹر طارق بنوری کی مدت ملازمین میں ابھی کئی سال باقی تھے کہ صدر ڈاکٹر عارف علوی کے دستخطوں سے ایک آرڈیننس کا اجراء ہوا۔ کمیشن کے چیئرمین کی معیاد دو سال کی گئی اور کمیشن کے اراکین کی معیاد چار سال کردی گئی۔

ایچ ای سی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹرکے تقررکا اختیار کمیشن بورڈ کے بجائے مجاز اتھارٹی کو منتقل ہوا، یوں ڈاکٹر طارق بنوری فارغ ہوئے۔ ڈاکٹر طارق بنوری کا ایک بیوروکریٹ اورپروفیسر کی حیثیت سے شاندار کیریئر ہے۔ وہ بنیادی طورپر انجنیئر ہیں، پشاور انجنیئرنگ کالج جس کو اب یونیورسٹی کا درجہ مل چکا ہے سے فارغ التحصیل ہیں۔

وہ اس کالج کی طلبہ سیاست میں خاصے فعال تھے اور کالج کی طلبہ یونین کے صدر منتخب ہوئے تھے۔ اسلام آباد میں قائم پالیسی ساز ادارہ S.D.P.I کے بانی اراکین میں سے ایک ہیں۔ ڈاکٹر طارق بنوری ہمیشہ سے طلبہ یونین کی بحالی کے حق میں  رہے ہیں۔

پاکستان میں اعلی تعلیم کی اہمیت زیادہ نہیں رہی۔ اگرچہ ملک میں پہلی پنجاب یونیورسٹی 19ویں صدی کے وسط میں قائم ہوئی تھی ، پاکستان کے قیام کے بعد کراچی یونیورسٹی، ڈھاکہ یونیورسٹی، سندھ یونیورسٹی اور پشاور یونیورسٹی قائم ہوئیں مگر برسر اقتدار حکومتوں نے یونیورسٹیوں کی فنڈنگ اور ورکنگ اور ترقی کے لیے 1972 سے پہلے کوئی ادارہ جاتی طریقہ کار اختیار نہیں کیا تھا۔

پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت میں یونیورسٹی گرانٹ کمیشن قائم ہوا۔ یونیورسٹی گرانٹ کمیشن وزارت تعلیم کے ماتحت ایک ادارہ تھا۔ یونیورسٹی گرانٹ کمیشن کے ذریعہ امریکا، برطانیہ اور یورپی ممالک کے غیر ملکی تعلیمی منصوبوں کے تحت گرانٹ دی جاتی تھی ، اگرچہ پیپلز پارٹی کی پہلی تعلیمی پالیسی میں وائس چانسلر کی حیثیت وفاقی سیکریٹری کے مساوی کی گئی تھی اور وائس چانسلر کے لیے اسپیشل گریڈ کا طریقہ کار اختیار کیا گیا تھا اور یونیورسٹی اساتذہ کی ملازمت کاآغاز لیکچرار گریڈ 17 سے ہونے لگا تھا جو سپیریئر سروس میں شامل ہونے والے نوجوان افسروں کا ہوتا ہے۔

یونیورسٹی کے بنیادی اداروں سینٹ ، سنڈیکیٹ اور اکیڈمک کونسل وغیرہ میں اساتذہ اور طلبہ یونین کی نمائندگی کو قانونی تحفظ فراہم کیا گیا تھا مگر برسر اقتدار حکومتوں نے یونیورسٹیوں کو ان کی ضروریات کے مطابق گرانٹ دینے پر توجہ نہ دی۔ اس طرح تحقیق کے لیے بیرون ممالک پی ایچ ڈی کی تعلیم اور تحقیق کے لیے محدود پیمانہ پر اسکالرشپ مہیا ہوتے تھے۔

جنرل پرویز مشرف کے دور صدارت میں امریکا میں اعلیٰ تعلیم کے بارے میں ایک ٹاسک فورس قائم ہوئی۔ ایسی ہی ٹاسک فورس پاکستان میں بھی بنائی گئی اور پھر ہائر ایجوکیشن کمیشن کا قیام عمل میں آیا۔ ایچ ای سی کو مکمل خودمختار بنایا گیا اور ایچ ای سی کے پہلے چیئرمین ڈاکٹر عطاء الرحمن کو وزیر مملکت کا درجہ دیا گیا۔ ایچ ای سی نے اعلی تعلیم کے شعبہ میں بہت سی اصلاحات کیں۔

پاکستان میں اس دور میں پبلک سیکٹر یونیورسٹیوں کا جال بچھایا گیا اور نجی شعبہ نے بھی  سندھ، پنجاب اور خیبرپختون خوا میں یونیورسٹیاں قائم کیں۔ سیکڑوں افراد کو جن میں اساتذہ بھی شامل ہیں اسکالرشپ پر اعلیٰ تعلیم کے لیے یورپ اور امریکا بھیجا گیا۔ پاکستان میں قائم ہونے والے اداروں میں کوئی ادارہ آئیڈیل حیثیت نہیں رکھتا ہے، یوں ایچ ای سی کی کچھ پالیسیاں بہت بہتر ثابت ہوئیں اور کچھ سے کئی مسائل پیدا ہوئے۔ ایچ ای سی کے قیام کے بعد اساتذہ کے گریڈ بڑھا دیے گئے۔

اساتذہ کی اہلیت کے بارے میں مختلف پالیسیاں نافذ ہوتی رہیں۔ اب اساتذہ کے تقرر اور ترقیوں کے لیے پی ایچ ڈی کی سند اور ریسرچ پیپرز کی شرائط عائد ہوئیں جن میں اساتذہ انجمنوں کے دباؤ پر ترامیم ہوتی رہیں۔ مگر یونیورسٹیوں میں تحقیق کے کلچر کو فروغ دینے کے لیے نہ تو خاطرخواہ گرانٹ دی گئی اور نہ ہی دیگر اقدامات اٹھائے گئے۔

ایچ ای سی نے انڈر گریجویٹ اور ایم ایس / ایم فل اور پی ایچ ڈی کے نصاب تبدیل کیے۔ انڈر گریجویٹ کے لیے بی ایس کا نظام آیا، یونیورسٹی میں ہر سطح پر داخلوں کے لیے انٹری ٹیسٹ کا طریقہ کار رائج ہوا۔ پورے ملک کی یونیورسٹیوں میں بی ایس پروگرام کو نافذ کیاگیا۔ ایم ایس اور پی ایچ ڈی کے پروگراموں میں تبدیلیاں کی گئیں مگر کراچی یونیورسٹی میں صاحبان علم و دانش نے ایچ ای سی کے خلاف مزاحمتی تحریکیں منظم کیں، یوں کراچی یونیورسٹی کے طلبہ کی قسمت پسماندہ نصاب سے جڑی رہ گئی۔

مگر ایچ ای سی نے امریکا سے درآمد شدہ ماڈل یونیورسٹی آرڈیننس کو یونیورسٹیوں میں نافذ کرنے کی کوشش کی۔ یہ آرڈیننس پاکستان کے کلچر اور ضروریات سے متصادم ہے، یوں اساتذہ کی مزاحمتی تحریکوں کے نتیجہ میں صرف وفاقی اردو یونیورسٹی کے علاوہ اس پر کہیں عملدرآمد نہ ہوا اور یہ وفاقی یونیورسٹی اس قانون کی بناء پر مسلسل پسماندگی کی شکار ہے۔

ڈاکٹر طارق بنوری کو میاں نواز شریف کے آخری دور میں ایچ ای سی کی سربراہی سونپی گئی۔ پھر عمران خان وزیر اعظم کے عہدہ پر براجمان ہوئے اور ملک میں معاشی بحران شدید ہوا۔ موجودہ حکومت نے ماضی کی روایات پر عملدرآمد کرتے ہوئے ایچ ای سی کے بجٹ میں کمی کردی۔ ڈاکٹر طارق بنوری نے کئی پالیسیاں تبدیل کی اور کچھ پرانی پالیسیوں پر عملدرآمد کا بیڑا ٹھایا، یوں کالجوں میں ایسوسی ایٹ بی ایس اور پی ایچ ڈی پروگرام میں تبدیلیاں کی گئیں۔

انھوں نے وفاق کی گرانٹ سے چلنے والے 20کے قریب اداروں کی کارکردگی کو جانچنے اور کارکردگی کی بنیاد پر گرانٹ جاری کرنے کے لیے کچھ سوالا ت اٹھائے، شاید یہ پالیسی ان کی برطرفی کا باعث بن گئی۔ اس وقت کچھ دلچسپ صورتحال ہے۔ ایچ ای سی کے دو سابق سربراہ ڈاکٹر طارق بنوری کی رخصتی کا خیرمقدم کرہے ہیں جب کہ ملک کی سب سے بڑے پرائیوٹ یونیورسٹیLUMS کے بانی بابر علی اور ڈاکٹر پرویز ہود بھائی جو ماضی میں ایچ ای سی کی پالیسیوں کے سب سے بڑے ناقد رہے ڈاکٹر طارق بنوری کی کارکردگی کا دفاع کررہے ہیں۔

بنیادی سوال یہ ہے کہ حکومت نے ایک فرد کو ایچ ای سی سے خارج کرنے کے لیے قانونی طریقہ کار اختیار کرنے کے بجائے ادارہ کی ہیت کو تبدیل کرنے کی کوشش کی ہے۔ اگر ڈاکٹر طارق بنوری پر کوئی الزام ہے تو قانونی تقاضوں کے مطابق احتساب ہونا چاہیے۔ اب ایچ ای سی چیئرمین کی معیاد دو سال کرنے سے مستقبل میں آنے والے چیئرمین کوئی طویل منصوبہ بندی نہیں کرپائیں گے اور اس کی حیثیت اس وفاقی سیکریٹری جیسی ہوگی جو اپنے تقرر کے بعد  سے ہی فوری تبادلہ کا منتظر رہتا ہے۔ یہ صورتحال اعلیٰ تعلیم کے لیے بہت زیادہ بری ثابت ہوگی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔