سارا قصور منفی جذبات کا ہے

آفتاب احمد خانزادہ  جمعـء 23 اپريل 2021
aftabkhanzada2@yahoo.com

[email protected]

دنیا کے ماہرین نفسیات کے مطابق انسان میں چودہ قسم کے جذبات پائے جاتے ہیں، ان میں سے سات مثبت اور باقی سات منفی ہیں آپ کو پہلے سات منفی جذبات سے مطلع کرتے ہیں۔ (1) جذبہ خوف (2) جذبہ حسد (3) جذبہ نفرت (4) جذبہ انتقام (5) جذبہ لالچ (6) توہمات (7) غیض و غضب ۔ باقی سات جذبات مثبت ہیں وہ یہ ہیں۔ (1) جذبہ محبت (2) جذبہ جنسی (3)جذبہ امید (4)جذبہ یقین (5) جذبہ خواہش (6) جذبہ رجائیت (7) جذبہ وفاداری ۔ یہ ہی چودہ جذبات انسان کاسرمایہ ہیں ان ہی میں انسان کی کامیابی یا ناکامی کے اسباب پوشید ہ ہیں۔

ہر جذبہ اپنی جگہ بڑا اہم ہے اس کا تاثر نہایت شدید ہے اور اس کا اثر ہمارے انداز فکر پر پڑتاہے۔ انسان کا انداز فکر اس کی تمام زندگی کوکنٹرول کرتا ہے اور اس کے تمام افعال اور اعمال کا ذمے دار ہوتا ہے۔

پہلے روز سے لے کر آج تک ان ہی سات منفی جذبات کی ہمارے ملک پر مکمل حکمرانی قائم ہے ملک کے تمام اقتدار کے ایوانوں اور ہاؤسز پر ان کا مکمل قبضہ ہے، بس ان ایوانوں اور ہاؤسز میں داخل ہونے کی دیر ہوتی ہے جیسے ہی آپ ان میں داخل ہوتے ہیں دوسرے ہی لمحے آپ ان سات منفی جذبات کے مالک ہوچکے ہوتے ہیں آپ بھوتوں ، چڑیلوں اورجنوں کے نرغے سے بچ سکتے ہیں لیکن ان سات منفی جذبات کے نرغے میں نہ آنا آپ کے لیے ناممکن ہوتا ہے اورکرسی پر بیٹھتے ہی یہ سات جذبات آپ سے اس بر ی طرح چمٹتے ہیں کہ کرسی سے اترنے یا اتارے جانے کے بعد بھی یہ آپ کا پیچھا نہیں چھوڑتے ہیں۔

یاد رہے بھوت ڈر جاتے ہیں چڑیلیں بھاگ جاتی ہیں جن خو فزدہ ہو جاتے ہیں لیکن یہ سات منفی جذبات نہ تو آج تک کسی سے ڈر ے ہیں اور نہ ہی آیندہ کبھی ان کا کسی سے ڈرنے کا پروگرام ہے۔ بڑے بڑے عامل نامور سے نامور جادوگر بڑے بڑے ٹوٹکے والے ان کانام سنتے ہی خوف سے کانپنے لگ جاتے ہیں اگر آپ ان سے ان سات منفی جذبات کو بھگانے کی بات کرنے کی غلطی کر بیٹھیں تودوسرے ہی لمحے آپ اپنے آپ کو اکیلا پائیں گے اور عاملوں، جادوگروں کی جوتیاں آپ کے پاس پڑی ہوئی ہونگی، چاہے آپ کتنے ہی چلے کاٹ لیں چاہیں ایوانوں اور ہاؤسز میں کتنا ہی لوبان کیوں نہ جلا دیں۔

آپ ان سات منفی جذبات کا بال بھی بیکا نہیں کرسکیں گے۔ الٹا ایوانوں اور ہاؤسز میں بیٹھنے اور رہنے والوں کوکھانس کھانس کر لینے کے دینے پڑ جائیں گے اور ڈاکٹروں کو بلانا پڑجائے گا پھر ایمبولینس سڑکوں پر دوڑتی نظر آرہی ہونگی ۔

ایسا کیجئے آپ ایک چھوٹا سا تجربہ خود کرکے دیکھ لیجئے آپ پہلے روز سے لے کر آج تک کے حکمرانوں کی مکمل فہرست بنا کر اپنے سیدھے ہاتھ کی جانب رکھ لیجئے اور الٹے ہاتھ کی جانب ان سات منفی جذبات کی فہرست رکھ لیجئے اور پھر منفی جذبات کی فہرست کے مطابق اپنے حکمرانوں کا ایک ایک کرکے تفصیلی جائزہ لینا شروع کردیجئے جب آپ آج تک کے حکمرانوں کا تفصیلی جائزہ لے چکے ہونگے تو آپ کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی اور مارے حیرت آپ کی آواز بند ہوچکی ہوگی کہ ایک آدھ کوچھوڑ کر باقی تمام کے تمام حکمرانوں میں یہ ہی ساتوں منفی جذبات خون کے ساتھ ان کی رگوں میں دوڑتے پھرتے رہے ہیں۔ ان کے انداز حکمرانی ان کے اقدامات ان کے کرتوتوں ان کے کرتبوں کے پیچھے یہ ہی ساتوں منفی جذبات کھڑے زور زور سے قہقہے لگا رہے ہونگے تو جناب اعلیٰ ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ قصور ہمارے حکمرانوں کا نہیں بلکہ اصل میں سارا کا سارا قصور ان ساتوں منفی جذبات کا ہے۔

ہم خواہ مخواہ اپنے حکمرانوں کو برا بھلا کہہ کہہ کر اپنی آوازیں تک بٹھا چکے ہیں۔ ہمیں اصل میں سارا احتجاج تو ان منفی جذبات کے خلاف کرنا چاہیے تھا نہ صرف یہ کہ ان کا جلاؤ و گھیراؤ کرنا چاہیے تھا بلکہ ہڑتالوں سے بھی کام لینا چاہیے تھا کیونکہ ہمارے سارے مسائل چاہے وہ پانامہ لیکس کی شکل میں ہوں یا بجلی ، پانی اور گیس کی قلت ہو،کرپشن یا لوٹ مار ہو یا کمیشن کا مسئلہ ہو یا مہنگائی ، غربت ، بیروزگاری ، خود کشیوں ، انتہاپسندی ، دہشت گردی ، بدامنی ، بھتہ خوری ، چائنا کٹنگ کے عذاب ہوں ان سب عذابوں کی ماں اور باپ یہ ہی ساتوں منفی جذبات ہیں۔

آئیں! جوزف ایڈیسن کے کہے گئے الفاظ کو پڑھتے ہیں ’’ میں جب عظیم لوگوں کے مزاروں کو دیکھتا ہوں تو میرے اندر حسد کے تمام جذبات مرجاتے ہیں جب میں حسین لوگوں کے کتبے پڑھتا ہوں تو میری تمام نامناسب خواہشات دم توڑ دیتی ہیں، جب میں قبروں پر والدین کو غم سے روتے دیکھتا ہوں تو میرا دل فرط جذبات سے پگھل جاتا ہے اور جب میں والدین کی اپنی قبریں دیکھتا ہوں تو میں ان لوگوں کے دکھ اور ان کے بارے میں سوچتا ہوں کہ جن کے پیچھے پیچھے ہم نے بھی چلے جانا ہے جب میں بادشاہوں کو ان کی سازشوں کے ساتھ قبروں میں لیٹے دیکھتا ہوں فریقین کو زمین بوس دیکھتا ہوں اور یا پھر ان مذہبی جنونیوں کی قبریں ملا حظہ کرتا ہوں کہ  جنہوں نے اپنے لڑائی جھگڑوں کی وجہ سے دنیا کو کار زار بنا دیا تھا تو میں حیرانی اور غم کے ساتھ ان چھوٹے چھوٹے جھگڑوں ، مقابلوں ، فرقوں اور انسانیت کے بارے میں بحثوں کے بارے میں سو چتا ہوں جب میں کتبوں پر لکھی تاریخیں پڑھتاہوں جن میں سے کچھ کل فوت ہوئے تھے اورکچھ چھ سو سال پہلے تو میں اس عظیم دن کے بارے میں سوچتاہوں کہ جب ہم سب ہمعصر بن کر اکھٹے زندہ کیے جائیں گے۔

یاد رکھیں ، آپ اپنا سفر ’’ انجام کو ذہن میں رکھ کر شروع کریں ‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کو یہ علم ہونا چاہیے کہ آپ کہاں کھڑے ہیں اور آپ نے کہاں جانا ہے جہاں آپ کھڑے ہیں وہاں کوئی صدر ہوسکتا ہے ،کوئی وزیراعظم تو کوئی وزیر لیکن بہت جلد آپ نے وہاں چلے جانا ہے جہاں سب برابر ہوں گے اور آپ کے خلاف صرف آپ کے ہاتھ ، پاؤں، زبان کی گواہی نہیں دیں گے بلکہ ہر وہ شخص جو آپ کے اعمال، اقدامات سے متاثر یا زخمی ہوا ہوگا ، آپ کے خلاف گواہی دے رہا ہوگا۔

ذہن میں رہے وہاں نہ تو کوئی سازش کامیاب ہوسکے گی اور نہ ہی کوئی سفارش کام آئے گی وہاں نہ تو خرید وفروخت ہوسکے گی اورنہ ہی وہاں آپ کی اولادیں آپ کا ساتھ دیں گی اور نہ ہی وہاں آف شورکمپنیاں کام آئیں گی۔ کیونکہ وہاں سب کو اپنی اپنی پڑی ہوئی ہوگی وہاں صرف سچ اور حق ہوگا اور آپ ہونگے اس لیے آپ سے گذارش ہے اپنا سفر انجام کو ذہن میں رکھ کر شروع کریں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔