حقوق العباد

فاطمہ نقوی  جمعـء 23 اپريل 2021
fnakvi@yahoo.com

[email protected]

ایک صاحب سے کسی نے پوچھا کہ ’’آپ روزے رکھتے ہیں؟‘‘ اُن صاحب نے جواب دیا’’نہیں میری طبیعت روزہ رکھنے سے خراب ہو جاتی ہے‘‘ پھر انھوں نے معلوم کیا ’’کیا نماز پڑھتے ہو؟‘‘ جواب آیا’’ کبھی کبھی‘‘ پھر سوال ہوا ’’سحری اور افطاری کرتے ہو؟‘‘ اُن صاحب نے جواب دیا’’ الحمد للہ میں مسلمان ہوں ،کیا ان سے محروم رہ کرکافر بن جاؤں؟‘‘ اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ مسلمانوں کا سارا زور افطاری اور سحری کے لوازمات پر ہوتا ہے جتنی مہنگائی بڑھ رہی ہے، بازاروں کا رش بڑھتا جا رہا ہے۔

اکثر شاپنگ مالز میں تو دیکھا گیا کہ لوگ آپس میں گتھم گتھا ہیں کہ سارا مال ہماری ہی دسترس میں آجائے۔ نفسا نفسی کے اس عالم میں کسی کو اس بات کا ہوش نہیں کہ روزے کو تو جسمانی عبادت میں افضل قرار دیا گیا ہے کہ حالت روزہ میں نفس پرکنٹرول حاصل ہوتا ہے۔

دنیا کی نعمتیں ہمارے سامنے ہیں لیکن جب تک حکم الٰہی نہیں آئے گا ہم ان نعمتوں سے مُستفید نہیں ہوں گے ، اگر ہم اس طرح کا رویہ پورے سال اپنا لیں تو ہماری زندگیاں اسلام کی روح کے مطابق ہو جائیں گی مگر ہوتا اس کے برعکس ہے ہم تو یہ دیکھتے ہیں کہ مسجدیں لوگوں سے بھری پڑی ہیں مگر دل احساس سے خالی ہیں باقاعدگی کے ساتھ جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنے کے باوجود پھر ناجائز منافع وصول کرنے میں لگ جاتے ہیں۔

رمضان آتے ہی پورے سال کا منافع ایک ماہ میں کمانے کی تگ ودو جاری رہتی ہے۔ چھوٹی دُکان سے لے کر بڑے شاپنگ مالز تک کہیں بھی جائز منافع نہیں لیا جا رہا ہے ہمارے مذہب نے زندگی گزارنے کا جو ضابطہ حیات مقررکیا۔ ہم اُس راستے کو چھوڑ کر دنیا کے راستے پر چل نکلے ہیں بلکہ دنیاوی فائدوں کے لیے اپنے ہی اصول مرتب کر لیے ہیں نماز ، روزہ ،حج وغیرہ کو تو اپنا لیا لیکن دینی معاملات کو پیچھے کہیں چھوڑ دیا ہے ،اگر ہم قرآن پاک کا بغور مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ عبادات کے ساتھ ساتھ دیگر دینی معاملات کو بھی شامل کیا گیا ہے اگر کسی کے ساتھ کسی کا معاملہ خراب ہے تو جب تک وہ معاف نہ کر دے تو آخرت میں بھی معافی نہیں ملے گی مگر اکثریت نے تو اس بات کو ہی کتاب زندگی سے نکال دیا ہے۔

نرم لہجہ گفتگو میں اللہ پاک کا متواتر ذکر، حلیہ ایسا کہ فرشتے وضو کریں اور جب اعمال دیکھیں تو یہ ہی لوگ دوسروں کے حقوق مار رہے ہوں گے چوری کر رہے ہوں گے، اپنے ارد گرد نظر ڈالیں تو اکثر لوگ یہ ہی کرتے نظر آ رہے ہوں گے۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ ہم نے دین کو لبادے کے طور پر اُوڑھ لیا ہے مگر اس کی روح سے ناواقف رہ گئے ہیں۔

آج ہمیں یہ فکر ہے کہ دوسروں کی اصلاح کردیں مگر اپنی اصلاح سے محروم ہیں کیونکہ ہر شخص یہ سمجھ رہا ہے کہ میں درست ہوں مجھ سے غلطی ہو ہی نہیں سکتی سوچ کے اس معیارکی وجہ سے ہمارا معاشرہ تنزلی کی اُس سطح پر چلا گیا ہے کہ سمجھ ہی نہیں آ رہا کہ ہم درست سمت کی طرف کیسے بڑھیں۔ کوئی سرا سمجھ نہیں آرہا کہ اس الجھی ڈور کو کیسے سلجھائیں۔

ہر سال رمضان آتا ہے مختلف شخصیت سازی کے کورسز ، ورکشاپس اور پروگرام رکھے جاتے ہیں ، ہزاروں کی تعداد میں لوگ شرکت کرتے ہیں مگر سر دُھننے کے باوجود اپنی زندگی میں کوئی تبدیلی لانے کو تیار نہیں۔ ہم بے حسی کی اس انتہا پر پہنچ چکے ہیں کہ سوائے اپنے مفادات کے کسی اور کے مفادات کی اہمیت تسلیم کرنے کو تیار ہی نہیں ہیں۔

ایک منی بس میں اخلاقی درس کے بارے میں ریکارڈ لگا ہوا تھا، ڈرائیور کنڈیکٹر اور بس میں بیٹھنے والے دوسرے لوگ دل لگا کر سُن رہے تھے، کنڈیکٹر اپنے کام میں بھی لگا ہو تھا، جب ایک بوڑھی عورت نے کرایہ میں پانچ روپے کم دیے تو کنڈیکٹر کے مُنہ سے جو خرافات نکلیں الامان الحفیظ۔ اس غریب بوڑھی خاتون کو بس سے اُتار دیا گیا مگر بس میں بیٹھنے والوں کی جُرأت نہ ہوئی کہ ان حضرات سے باز پرس کر لیں۔ بوڑھی خاتون کو بس سے اُتارنے کے بعد پھر درس لگا دیا گیا اور پھر سب لوگ درس پر جھومنے لگے۔ بات ساری یہ ہے کہ جب تک اخلاص نہیں ہوگا رمضان آتے رہیں گے، جاتے رہیں گے اور مسلمان افطاری اور سحری میں لگے رہیں گے۔

اسی طرح ناجائز منافع خوری کریں گے کہیں، غریب بچے بھوک سے بلبلاتے رہیں گے، تعلیم سے ترستے رہیں گے، حکومتیں پناہ گاہیں بنا کر لوگوں کو بھکاری بناتی رہیں گی مگر کوئی ایسا کام نہیں کریں گے جس سے ان تمام مسائل کا کوئی مستقل حل نکل آئے۔ ہم کافروں کو انگریزوں کو بُرا بھلا کہتے ہیں کہ ان کے پاس ایمان نہیں۔ مگر یہ نہیں سوچتے کہ معاملات میں وہ ہم سے اچھے ہیں، وہ ہمارے خلفاء راشدین اور ہماری کتابوں سے فائدہ اُٹھا کر اس مقام تک پہنچے ہیں اور ہم اس کو چھوڑ کر ذلت کی گہرائیوں میں ڈوب چکے ہیں۔

قرآن پاک میں جتنی بھی قوموں کی تباہی کا ذکر ہے، ان میں سے ایک بھی قوم کی تباہی کی وجہ روزہ ، حج ، زکوۃ چھوڑنا نہیں تھی … بلکہ کم تولنا ،رشوت ستانی ، انصاف نہ کرنا ، کسی کا حق کھانا ، ملاوٹ کرنا ، کسی کو ناحق قتل کرنا، اگر سادہ الفاظ میں کہوں تو معاملہ حقوق العباد کا تھا ۔

ہم ہر وقت تنقید کرتے ہیں کہ مسلمانوں پر یہ آفات ہیں ہم دنیا میں ذلیل و خوار ہو رہے ہیں مگر یہ سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے کہ اس کی وجہ کیا ہے۔ طائف میں آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو لہو لہان کر دیا گیا مگر بد دعا نہیں دی مسلمانوں کو شر انگیزی پر آمادہ نہیں کیا گیا اپنے عمل سے ثابت کیا کہ جو کچھ تعلیمات دی جا رہی ہیں وہ عام انسانوں کے لیے بھی تقلید کا باعث ہیں مگر ہم نے اُن کو چھوڑ دیا۔

دنیا میں پچاس سے زیادہ مسلم ممالک ہیں اگر سب مل کر ایک آواز ہو کر مغربی ممالک کی مصنوعات کا بائیکاٹ کردیتے، ہم ایک آواز ہو کرگستاخانہ خاکوں پر اعتراض کرتے تو ہماری بات سُنی جاتی، نقار خانے میں طوطی کی آواز کوئی نہیں سُنتا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔