رؤف طاہرمرحوم ، ایک طرح دار صحافی

اصغر عبداللہ  جمعـء 30 اپريل 2021
mohammad_asghar_abdullah@yahoo.com

[email protected]

یہ لاہور کے دو جرائد کا مشترکہ دفتر ہے۔ اس کا منظر بڑا ہی دلچسپ ہے۔ ایک  بڑا سا کمرہ ہے، جس کی دیواروں پر پینٹ پہلی یا آخری بار شاید اسی وقت ہوا تھا، جب اس کی تعمیر ہوئی تھی۔

partition کے تکلف کے بغیر ہی اس میں دونوں جرائد کا عملہ سمایا ہوا ہے، ایڈیٹرز، کاتب، آرٹ ایڈیٹرز، آرٹسٹ، منیجرسرکولیشن اورمنیجر ایڈورٹائزمنٹ اور ان کا اسٹاف۔ یہ کمرہ دفتر کے لیے اسٹور کا کام بھی دے رہا ہے اور ایک کونے میں چائے کے لیے پانی گرم کرنے کا بندوبست بھی موجو ہے۔ ایک  اے سی موجود ہے، جو گرمیوں میں ٹھنڈک کم پہنچاتا ہے اور شور زیادہ مچاتا ہے۔

1989 میں، میں جب اس منظر نامے کا حصہ بنا تو تنویر قیصر شاہد صاحب وہاں کام کرتے تھے۔ روف طاہر صاحب کو  پہلی بار میں نے یہاں ہی دیکھا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ اس روز کاپیاں پریس جا رہی تھیں، لہذا دفتر میں آپا دھاپی کی کیفیت تھی۔

ساری تحریریں اور رپورٹیں آ چکی تھیں،بلکہ ان کی کتابت بھی ہوچکی تھیں۔ صرف لاہور کی سیاسی ڈائری نہیں آئی تھی، جو روف طاہر صاحب لکھتے تھے۔ وہ ان دنوں  مستقل طور پر تو جماعت اسلامی کے روزنامہ سے  وابستہ تھے؛ مگر اس ہفت روزہ کے لیے بھی ڈائری لکھتے تھے۔ شام ہونے کو آ رہی تھی۔  تنویر قیصر شاہد صاحب بار بار گھڑی دیکھ رہے تھے کہ روف طاہر صاحب کی آمد  ہوئی، روف طاہر صاحب نے کمرے میں داخل ہوتے ہی باآواز بلند کہا:’’السلام علیکم حضرات ! ‘‘…..

اس سے پہلے کہ تنویر صاحب کچھ بولتے، انھوں نے کہا، ’’میرے بھائی! بس آپ سمجھیں ڈائری لکھی جا چکی ہے، صرف دو منٹ دیں۔ ‘‘۔ ’’میرے بھائی‘‘ ، قریب قریب ان کا تکیہ کلام بن چکا تھا اور غالباً ان کے جمعیت کے دنوں کی یادگار تھا۔ اس کے بعد وہ ایک طرف گوشے میں سرکولیشن منیجر، جو اس وقت موجود نہیں تھے، کی میز پر بیٹھ گئے اور واقعی چند منٹوں میں ڈائری لکھ کر تنویر صاحب کے حوالے کر دی۔ مزید حیرت یہ ہوئی کہ ڈائری میں سوائے ایک آدھ لفظ کے،کوئی لفظ کاٹ کر دوبارہ سے نہیں لکھا گیا تھا ۔ جیسے ڈائری لکھتے وقت جو لفظ ان کو درکار ہوتا، صرف وہی لفظ ان کی نوک قلم پر آتا تھا۔

دلچسپ بات یہ تھی کہ جب تک ڈائری لکھتے رہے، بالکل خاموش رہے، مگر جیسے ہی ڈائری مکمل کر لی، توکمرے میں ایک بار پھر انھی کی آواز گونج رہی تھی۔ کچھ دیر وہ مسلسل اسی طرح بولتے رہے اور پھر یہ کہہ کے کہ ’’ میرے بھائی! مجھے  ابھی  اپنے روزنامے کے دفتر پہنچ کر کراچی خبریںبھجوانی ہیں۔ ‘‘ جیسے طوفانی انداز سے آئے تھے، ویسے ہی طوفانی انداز میں چلے گئے ۔

پھر معلوم ہوا کہ ہارون آباد ( جنوبی پنجاب) سے ان کا تعلق ہے۔ 1973 میں لاہور میں ایل ایل بی کرنے آئے اور پھر یہیں کے ہو کر رہ گئے۔ زمانہ طالب علمی میں اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستہ رہ چکے ہیں۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد جماعت ہی کے اخبارات و جرائد سے صحافت شروع کردی اور اب بھی اسی کے ترجمان اخبار سے بطور بیوروچیف اور رپورٹر وابستہ ہیں۔ مگر جس زمانہ میری ان سے واقفیت ہوئی،جماعت سے ان کا سیاسی رومانس قریب قریب ختم ہو چکا تھا، اور وہ شعوری یا غیر شعوری طور پر نوازشریف کمیپ کی طرف کھنچ رہے تھے۔

اسی زمانہ میں ایک دفعہ ان کے فلیٹ پر جانے کا اتفاق بھی ہوا۔  دو صحافتی  اداروں میں بیک وقت کام کرنے کے باوجود ( بلکہ ریڈیو سے بھی جزوقتی تعلق تھا ) بس گذارا ہی چل رہا تھا۔ درویشی کا عالم یہ تھا کہ جو موٹر سائیکل ان دنوں ان کے زیراستعمال تھی، اس کی حالت اتنی خستہ تھی کہ آثارقدیمہ کا نمونہ معلوم ہوتی تھی۔ مجھے  اس جریدہ میں روف طاہر صاحب سے حقیقتاً بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔ انٹرویو کرنے کا سلیقہ بھی انھی سے سیکھا۔ کئی انٹرویوز  ہم نے اکٹھے کیے۔1993میں، میں مسلم لیگی نظریات کے علمبردار ایک قومی اخبار سے وابستہ ہو گیا، مگر ان سے رابطہ برابر قائم رہا،کافی عرصہ ہم دونوںنے اکٹھے بھی کام کیا، وہ سیاسی رپورٹر تھے، جب کہ میں سنڈے میگزین کا ایڈیٹر تھا۔

یہ رفاقت مگر اس وقت ختم ہو گئی، جب وہ  جدہ چلے گئے۔ معلوم ہوا کہ کوئی پارٹی وہاں سے اردو  ہفت روزہ نکال رہی ہے اور روف صاحب کو اس کے ایڈیٹر کی ذمے داری سونپی گئی ہے۔ اس دوران میں جب کبھی وہ پاکستان آتے تو گاہے ان سے ملاقات ہو جاتی تھی، مگر بس سرسری سی۔ روف صاحب بنیادی طور پر ایڈیٹر نہیں، بلکہ رپورٹر تھے، تاہم اس ملازمت سے ان کے مالی حالات بہت بہتر ہو گئے۔ ایک روز میں ابھی واپس گھر پہنچا ہی تھا کہ ڈور بیل بجی۔ باہر آیا تو دیکھا کہ روف طاہر صاحب کھڑے ہیں۔ معلوم ہوا کہ واپڈا ٹاؤن لاہور میں اپنے گھر کے لیے جگہ دیکھ رہے تھے۔

انھوں نے یہ بھی بتایا کہ وہ مستقلاً وطن واپسی کا پروگرام بنا رہے ہیں، مگر اس سے پہلے یہاں اپنا گھر بنانا چاہتے ہیں۔ کچھ عرصہ بعد معلوم ہوا کہ یہاں ہمارے گھر کے قریب ہی انھوں نے اپنا گھر بنا لیا ہے۔  یہاں منتقل ہونے پر انھوں نے دوست احباب کے اعزاز میںجو دعوت دی، اس میں بھی شرکت کا موقع ملا۔ اب وقتاً فوقتاً سرراہ بھی ان سے ملاقات ہو جاتی تھی۔ جدہ میں نوازشریف سے ان کی کافی اچھی علیک سلیک ہو گئی تھی۔ چنانچہ واپسی پر محکمہ ریلوے میں ان کو اچھی ملازمت بھی مل گئی۔ تاہم واپڈا ٹاؤن میں رہایش ان کو راس نہیں آئی۔ پہلے پے در پے ڈکیتی کی دو وارداتیں ہوئیں، پھر اہلیہ کی موت کے صدمے سے گزرنا پڑا۔ تنگ آکے انھوں نے اس گھر کو بیچ دیا، جو انھوں نے خود بڑی محبت سے بنوایا تھا۔

روف طاہر صاحب شروع شروع میں پیپلزپارٹی کی مخالفت میں نوازشریف کمیپ کی طرف آئے، مگر بتدریج نوازشریف کی محبت  اس طرح ان کے دل میں گھر کر گئی کہ جب نواز شریف اور پیپلزپارٹی نے ماضی کو بھلا کر ایک دوسرے کو گلے لگا لیا تو روف طاہر صاحب پہلے سے بھی بڑھ کر نوازشریف پر فریفتہ ہو گئے؛ مگر مسئلہ یہ ہوا کہ نوازشریف کیمپ میں وہ گروپ، جو ماضی میں پیپلزپارٹی کا حامی تھا اور اب نواز شریف کے بھی بہت قریب تھا، وہ روف طاہر کو اب بھی’’ اندر سے جماتیا‘‘ ہی قرار دیتا تھا۔ لہذا سیاسی طور پر وہ نوازشریف کیمپ میں پاوں نہ جما سکے۔

محکمہ ریلوے سے فراغت کے بعد ان کو کسی اور حکومتی ذمے داری کا مستحق نہ سمجھا گیا۔ ناچار روف طاہر صاحب پھر سے صحافت کی طرف لوٹ آئے اور اب کالم نگاری شروع کردی اور آخری وقت تک نوازشریف کا دفاع بھرپور اورجارحانہ انداز میں کرتے رہے، نوازشریف کے ساتھ ان کے تعلق خاطر کی دلیل ہے۔

آخری دنوں میں وہ  ظفر علی ٹرسٹ کے سیکریٹری جنرل کے طور پر خدمات انجام دے رہے تھے۔ فون پر ان سے گفتگو ہوتی رہتی تھی،  آخری بار دسمبر کے وسط میں ان کا فون آیا۔ وٹس اپ پر وہ باقاعدگی سے اپنا کالم بھیجتے تھے۔ آخری وٹس اپ میسج پر 2جنوری کی تاریخ درج ہے، اور یہ ان کا آخری کالم ’’ وفا کا نام بھی زندہ ہے ، میں بھی زندہ ہوں‘‘ تھا۔ روف طاہر صاحب واپڈا ٹاؤن کے اپنے گھر کی بدشگونی سے گھبرا کے لیک سٹی کے نئے گھر  پہنچے تھے، لیکن کیا معلوم تھا کہ وہاں اجل ان کی منتظر تھی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔