چراغِ حرم نبوی ﷺ: امُ المومنین سیّدہ عائشہ صدیقہؓ

مولانا مجیب الرحمن انقلابی  جمعـء 30 اپريل 2021
حضرت عائشہ صدیقہؓ  کا اخلاق نہایت ہی بلند تھا، آپؓ نہایت سنجیدہ، فیاض، قانع، عبادت گزار اور رحم دل تھیں۔فوٹو : فائل

حضرت عائشہ صدیقہؓ  کا اخلاق نہایت ہی بلند تھا، آپؓ نہایت سنجیدہ، فیاض، قانع، عبادت گزار اور رحم دل تھیں۔فوٹو : فائل

ام المومنین حضرت سیّدہ عائشہ صدیقہؓ وہ خوش قسمت ترین خاتون ہیں کہ جنہیں حضور نبی کریم خاتم الانبیاء ﷺ کی زوجہ محترمہ اور ’’ام المومنین‘‘ ہونے کا شرف اور ازواج مطہراتؓ میں ممتاز حیثیت حاصل ہے۔

قرآن و حدیث اور تاریخ کے اوراق آپؓ کے فضائل و مناقب سے روشن ہیں۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ پر اﷲ تعالیٰ کا یہ خاص انعام ہے کہ انہوں نے کبھی کفر و شرک کی آواز تک نہیں سنی، چناں چہ وہ خود ہی ارشاد فرماتی ہیں:

’’جب سے میں نے اپنے والد کو پہچانا ان کو مسلمان پایا۔‘‘ (بخاری)

حضرت سیّدہ عائشہ صدیقہؓ سے شادی سے قبل حضور ﷺ نے خواب میں دیکھا کہ ایک فرشتہ ریشم کے کپڑے میں کوئی چیز لپیٹ کر آپؐ کے سامنے پیش کر رہا ہے۔ آپؐ نے پوچھا: یہ کیا ہے؟ اس نے جواب دیا: آپ ﷺ کی بیوی ہے۔ آپؐ نے کھول کہ دیکھا تو حضرت عائشہؓ ہیں۔ (از صحیح بخاری مناقب عائشہؓ)

امُ المومنین حضرت سیّدہ عائشہ صدیقہؓ خود فرماتی ہیں کہ اﷲ تعالیٰ نے مجھے نو باتیں ایسی عطا فرمائی ہیں جو دنیا میں میرے سوا کسی کو عطا نہیں ہوئیں۔

(1) خواب میں حضور ﷺ کے سامنے فرشتے نے میری تصویر پیش کی۔

(2) جب میں سات برس کی تھی تو آپ ﷺ نے مجھ سے نکاح کیا۔

(3) نو برس کی عمر میں میری رخصتی ہوئی۔

(4) میرے سوا آپ ﷺ کی خدمت میں کوئی اور کنواری بیوی نہ تھی۔

(5) حضور ﷺ جب میرے پاس ہوتے تب بھی وحی آتی تھی۔

(6) میں آپ ﷺ کی محبوب ترین بیوی تھی۔

(7) میری شان میں قرآنی آیات نازل ہوئیں۔

(8) میں نے حضرت جبرائیلؑ کو اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھا ہے۔

(9) آپؐ نے میری گود میں سر مبارک رکھے ہوئے دنیا سے پردہ فرمایا۔ (مستدرک حاکم)

آپؐ کو حضرت عائشہ صدیقہؓ سے بہت محبّت تھی، ایک مرتبہ حضرت عمرو ابن عاصؓ نے حضور ﷺ سے دریافت کیا کہ آپؐ دنیا میں سب سے زیادہ کس کو محبوب رکھتے ہیں؟ آپؐ نے فرمایا کہ عائشہؓ کو۔ عرض کیا گیا کہ اے اﷲ کے رسول ﷺ! مردوں کی نسبت سوال ہے! آپؐ نے فرمایا کہ عائشہ کے والد (ابُوبکر صدیقؓ) کو۔ (صحیح بخاری)

آپؓ کا نام عائشہ، لقب صدیقہ اور حمیرا، خطاب ام المؤمنین اور کنیت اُم عبداﷲ ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ کا ’’کاشانہ نبوتؐ‘‘ میں حرم نبوی ﷺ کی حیثیت سے داخل ہونے کے بعد قرآن مجید کا ایک بڑا حصہ نازل ہوا۔ آپؓ کو کم و بیش دس سال حضور اکرم ﷺ کے ساتھ رہنے کا شرف حاصل ہوا۔ آپؓ خود صاحبِ قرآن ﷺ سے قرآن سنتیں، جس آیت کا مطلب سمجھ میں نہ آتا، اس کا مفہوم سمجھ لیتیں۔ آپؓ نے کلامِ الٰہی کی معرفت، ارشاداتِ رسالت ﷺ کا علم، رموز و اسرار دین کی عظیم الشان واقفیت حاصل کی۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ علم دینیہ کے علاوہ تاریخ، ادب اور طب کے علوم کی بھی ماہر تھیں۔ اﷲ رب العزت نے آپؓ کی ذاتِ اقدس میں علم انساب، شاعری، علوم دینیہ، ادب و تاریخ اور طب جیسے علوم جمع فرما دیے تھے۔

حضرت عائشہ صدیقہؓ کا سات سال کی عمر میں حضورؐ سے نکاح ہوا، اور نو برس کی عمر میں رخصتی ہوئی۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ جس گھر میں دلہن بن کر آئی تھیں، وہ کوئی عالی شان اور بلند و بالا عمارت پر مشتمل نہ تھا، مسجد نبویؐ کے چاروں طرف چھوٹے چھوٹے متعدد حجرے تھے ان ہی میں ایک حجرہ حضرت عائشہ صدیقہؓ کا مسکن تھا۔ یہ حجرہ مسجد کی شرقی جانب تھا، اس کا دروازہ مسجد کے اندر کھلتا تھا، گھر یا حجرے کا صحن ہی مسجد نبوی ﷺ کا صحن تھا۔ حضور ﷺ اسی دروازے سے مسجد میں تشریف لے جاتے، جب آپ ﷺ مسجد میں اعتکاف کرتے تو سر مبارک حجرے کے اندر کر دیتے، حضرت عائشہؓ اسی جگہ سے بالوں کو کنگھا کردیتی۔ (صحیح بخاری بہ حوالہ سیّدہ عائشہؓ)

حجرے کی وسعت چھے، سات ہاتھ سے زیادہ نہ تھی، دیواریں مٹی کی تھیں، چھت کو کھجور کی ٹہنیوں سے ڈھانک کر اوپر کمبل ڈال دیا گیا تھا کہ بارش سے محفوظ رہے۔ بلندی اتنی تھی کہ آدمی کھڑا ہوتا تو ہاتھ چھت کو لگ جاتا۔ گھر کی کل کائنات ایک چارپائی، ایک چٹائی، ایک بستر، ایک تکیہ (جس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی) آٹا اور کھجوریں رکھنے کے لیے دو برتن تھے۔ پانی کے لیے ایک بڑا برتن اور پانی پینے کے لیے ایک پیالا تھا۔ کبھی کبھی رات کو چراغ جلانا بھی استطاعت سے باہر تھا، چالیس، چالیس راتیں گزر جاتیں اور گھر میں چراغ نہیں جلتا تھا۔ (از مسند طیالسی)

ام المومنین حضرت سیّدہ عائشہ صدیقہؓ کو حضور ﷺ سے ناصرف محبّت تھی بل کہ شغف و عشق تھا۔ ام المومنین حضرت سیّدہ عائشہ صدیقہؓ، حضور ﷺ کی اطاعت و فرماں برداری اور آپ ﷺ کی مسرت و رضا کے حصول میں شب و روز کوشاں رہتیں۔ اگر ذرا بھی آپ ﷺکے چہرے پر حزن و ملال کا اثر نظر آتا تو بے قرار ہوجاتیں۔ حضور ﷺ کے قرابت داروں کا اتنا خیال تھا کہ ان کی کوئی بات نہیں ٹالتی تھیں۔

ام المومنین حضرت سیّدہ عائشہ صدیقہؓ نے بچپن سے جوانی تک کا زمانہ اس ذاتِ اقدس ﷺ کی صحبت میں بسر کیا جو دنیا میں مکارم اخلاق کی تکمیل کے لیے آئی تھی۔ چناں چہ حضرت عائشہ صدیقہؓ کا اخلاق نہایت ہی بلند تھا، آپؓ نہایت سنجیدہ، فیاض، قانع، عبادت گزار اور رحم دل تھیں۔ آپؓ زہد و قناعت کی وجہ سے صرف ایک جوڑا پاس رکھتی تھیں، اسی کو دھو دھو کر پہنتی تھیں۔ آپؓ عام مسلمانوں کے بچوں کو اور زیادہ تر یتیموں کی پرورش کیا کرتی تھیں، ان کی تعلیم و تربیّت کرتی اور ان کی شادی بیاہ کے فرائض انجام دیتی تھیں۔

حضرت عائشہ صدیقہؓ عبادت الٰہی میں اکثر مصروف رہا کرتی تھیں، دیگر نمازوں کے ساتھ نماز تہجّد کا بھی اہتمام کیا کرتی تھیں۔ حضور ﷺ نے ایک سوال کے جواب میں فرمایا کہ عورتوں کے لیے حج ہی جہاد ہے، اس لیے حضرت عائشہ صدیقہؓ حج کی بہت زیادہ پابندی فرمایا کرتی تھیں اور تقریباً ہر سال حج کے لیے تشریف لے جاتیں۔ (بخاری شریف)

حج کے بعد عمرہ بھی ادا کرتیں، جب حضور نبی کریم ﷺ اعتکاف فرماتے تو حضرت عائشہ صدیقہؓ بھی اتنے ہی دن صحن میں خیمہ نصب کروا کر اعتکاف میں گزارتیں۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ کی ذات اقدس میں قناعت کی صفت بہ درجہ اتم موجود تھی۔ آپؓ کی تقریباً ساری زندگی ہی عسرت و تنگی اور فقر و فاقہ میں گزر گئی۔ حضرت عائشہؓ خود فرماتی ہیں کہ ہم پر پورا مہینہ گزر جاتا اور گھر میں آگ تک نہ جلاتے، ہماری غذا پانی اور چھوہارے ہوتے تھے مگر کہیں سے تھوڑا سا گوشت آ جاتا تو ہم کھالیتے۔ (بخاری شریف)

ام المومنین حضرت سیّدہ عائشہ صدیقہؓ کے اخلاق کا سب سے ممتاز جوہر ان کی فیاضی اور کشادہ دستی تھی۔ جو موجود ہوتا سائل کی نذر کر دیتیں۔

حضرت سیّدہ عائشہ صدیقہؓ کی صفائی میں سترہ قرآنی آیات نازل ہوئیں۔ اسی طرح غزوہ ذات الرقالح کے موقع پر بھی حضرت عائشہ صدیقہؓ کی وجہ سے تیمم کا قرآنی حکم نازل ہوا۔ ام المومنین حضرت سیّدہ عائشہ صدیقہؓ کا امت مسلمہ پر بہت بڑا احسان ہے کہ ان کے مبارک توسط سے امت کو دین کا بڑا حصہ نصیب ہوا، صحابہ کرام ؓ کی ربانی جماعت کے وہ قابل فخر و ناز افراد جنھوں نے حضور اکرم ﷺ کے ارشادات و فرمودات اور آپؐ کی قدوسی حرکات و سکنات کثرت سے نقل کیں، ان میں حضرت سیدہ عائشہؓ کا چھٹا نمبر ہے۔ حضرت عائشہؓ سے حضور اکرم ﷺ کی دو ہزار دو سو دس حدیثیں مروی ہیں۔

حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ فرماتے ہیں کہ ہم اصحابِ رسول ﷺ کو کوئی ایسی مشکل کبھی پیش نہیں آئی جس کو ہم حضرت عائشہؓ سے پوچھا ہو اور ان کے پاس اس کے بارے میں کوئی معلومات ہم کو نہ ملی ہوں۔

امام زہریؒ فرماتے ہیں کہ حضرت عائشہ صدیقہؓ تمام لوگوں میں سب سے زیادہ عالم تھیں، بڑے بڑے صحابہؓ ان سے پوچھا کرتے تھے۔

58 ھ میں حضرت سیّدہ عائشہ صدیقہؓ کی عمر67 سال کی ہوچکی تھی۔ اسی سال ہی رمضان المبارک میں آپؓ بیمار ہوئیں، چند روز علیل رہیں اور17 رمضان المبارک کی رات، رحمت دو عالم ﷺ کی حرم اور تمام مسلمانوں کی ماں حضرت عائشہ صدیقہؓ اپنے فرزندوں پر بے شمار احسانات کی بارش فرما کر رخصت ہوگئیں۔ سیّدنا حضرت ابوہریرہؓ نے نماز جنازہ پڑھائی اور آپؓ کو وصیت کے مطابق جنّت البقیع میں سپرد خاک کیا گیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔