- عمران خان کی رہائش گاہ کا سرچ وارنٹ غیر مؤثر قرار
- مہسا امینی کی زیرحراست موت کی خبر دینے والی صحافی کیخلاف عدالتی کارروائی
- صدر مملکت دو روزہ دورے پر کوئٹہ پہنچ گئے
- پی ٹی آئی کے مزید رہنماؤں کو حراست میں لینے کا فیصلہ، فہرستیں تیار
- جسٹس اقبال حمید الرحمٰن چیف جسٹس فیڈرل شریعت کورٹ تعینات
- عمران خان کی اے ٹی سی اور ہائیکورٹ آمد، ضمانتی مچلکے جمع کروادیے
- 9 مئی؛ حمزہ کیمپ حملے میں ملوث 30 ملزمان کی شناخت پریڈ مکمل
- آڈیو لیکس کمیشن کے بینچ پر حکومتی اعتراض، تینوں ججز سے علیحدہ ہونے کی درخواست
- مہندر سنگھ دھونی نے فینز کے لیے کون سا بڑا اعلان کردیا؟
- مقبوضہ کشمیر میں ہندو یاتریوں کی بس کھائی میں گر گئی؛ 10 ہلاک اور55 زخمی
- 9 مئی کے واقعات پر خیبر پختونخوا میں 2528 افراد گرفتار ہوئے، رپورٹ
- سعودی بریگیڈیئر جنرل جوان بیٹے کو بچاتے بچاتے سمندر میں ڈوب گئے
- کراچی میں شادی کی تقریب کے دوران فائرنگ، مدرسے کا طالبعلم جاں بحق
- ایک اور بھارتی فوجی نے سرکاری رائفل سے اپنی جان لے لی
- ریاستی علامات پر حملہ کرنے والے مذاکرات کے حقدار نہیں، وزیراعظم
- جسٹس (ر) ثاقب نثار کے بیٹے نے مبینہ آڈیو لیکس تحقیقاتی کمیٹی کا قیام چیلنج کردیا
- میڈیکل رپورٹ پر پریس کانفرنس؛ عمران خان کا وزیر صحت کو10 ارب ہرجانے کا نوٹس
- جوڈیشل کمپلیکس ہنگامہ آرائی؛ اسد عمر کی دہشتگردی کے مقدمے میں مستقل ضمانت منظور
- ممنوعہ فنڈنگ کیس؛ الیکشن کمیشن نے دلائل دینے کیلیے پی ٹی آئی وکیل کو آخری موقع دیدیا
- سندھ ہائیکورٹ کا لاپتا افراد کی بازیابی کیلیے جے آئی ٹیز بنانے کا حکم
آخری سفر

میرا سیل فون بجا ،ان کا ہی فون تھا ، کچھ حیرانی اور مسرت بھی ہوئی’’ اور سنائیے کیا حال ہیں؟‘‘ اور پھر باتوں کا سلسلہ چل نکلا۔ وہ اکثر اسی طرح لمبی لمبی گفتگو کیا کرتے تھے باتیں دنیا بھر کی ہوتی تھیں ان کی زنبیل میں بہت کچھ تھا تجربے بھرے پڑے تھے، اخلاق کے مارے تھے دوستوں کے دوست تھے رشتے دار ہوں یا ملنے والے سب ان کے اچھے اخلاق اور شرافت کے گن گاتے۔ کچھ عرصے سے علیل تھے، اس طرح کہ زیادہ دیرگھر سے باہر نہیں رہ سکتے تھے۔
دوائیاں لے رہے تھے ڈاکٹرز کے یہاں چکر ذرا زیادہ لگنے لگے بیماری طول پکڑنے لگی بات مثانے کے آپریشن تک کی آگئی، شہر کے بڑے اسپتال اور بڑے ڈاکٹرز سے مستفید ہوئے اور ٹیسٹ پر ٹیسٹ شروع ہوگئے۔ لاکھوں روپے تو اس ابتدائی مرحلے پر ہی اٹھ چکے ہیں لیکن باہمت ہیں کہتے ہیں مرنے سے نہیں ڈرتا کہ مرنا تو ہم سب کو ہی ہے لیکن اچھا نہیں لگتا کہ میری وجہ سے سب پریشان ہوں، چھوٹا والا دل کا کمزور ہے، گھبراتا ہے اس کی جاب بھی ذرا سخت ہے روزانہ اسپتالوں کے چکر لگتے ہیں تو وہی میرے ساتھ رہتا ہے۔ بڑا والا ابھی دبئی گیا ہے اسی لیے مجھے ذرا ٹینشن ہوتی ہے کہ بچے پریشان ہو جاتے ہیں۔
’’تو کیا ہوا انکل! آپ کی اولاد ہیں ان کا فرض ہے اور آپ بھی تو سب کی فکر کرتے ہیں، کیا آپ نے اپنے والد کی خدمت نہیں کی تھی؟‘‘
’’نہیں بہت خدمت کی تھی، ان کے ساتھ اپنے آفس کے ایک بندے کی ڈیوٹی بھی لگائی تھی کہ سارا دن تمہیں ان کے ساتھ رہنا ہے، ان کا خیال رکھنا ہے اپنی اسکوٹر دی ہوئی تھی کہ جو کچھ لانا لے جانا ہو کرنا پر ان کو اکیلا نہ چھوڑنا۔‘‘
حالانکہ ان کے اور بھی بھائی تھے، پھر اپنی بیگم کا ذکر کرنے لگے۔
’’وہ بے چاری بھی ابھی کورونا سے شفایاب ہوئی ہے، بڑی دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ شادی میں گئی تھی پر میرے لندن والے ڈاکٹر بھائی ہیں نا ، ان کی بیٹی کے بچے کی شادی تھی کوئی بھی نہیں جا رہا تھا میں تو بیمار ہوں جا ہی نہیں سکتا تو اس نے کہا کہ غلط بات ہے وہ سب آئے تھے ہمارے یہاں شادی پر اورلاہور تک گئے اتنا کچھ دیا تو خیر میرے بھتیجے نے کہا کہ چچی آپ میرے ساتھ چلیے تو وہ اپنے بچوں کو ساتھ لے کر آیا اور اسے لے گیا بس وہاں سے واپس آئی تو بیمار ہوگئی ٹیسٹ کروایا تو کورونا مثبت نکلا۔ میرے بھتیجے اور اس کے بیٹوں کو بھی ہو گیا غرض کہ شادی میں شامل تمام مہمانوں کو ہو گیا، میری بڑی بہن اسلام آباد سے آئی تھیں ان کو بھی ہو گیا، اچھا ہمارے یہاں سب کے ٹیسٹ ہوئے، میرا بھی ہوا تو سب کا مثبت اور میرا نگیٹیو آیا۔‘‘
واقعی یہ یقین کرنا مشکل تھا کہ ایک بزرگ اور بیمار شخص کا ٹیسٹ منفی اورگھرکے سب لوگوں کا مثبت تھا۔
’’ اور دلہا دلہن کا؟‘‘
’’ہاں وہ تو شادی کے فوراً بعد ہی ناردرن ایریاز نکل گئے تھے وہ خیریت سے ہیں، البتہ دلہا کے والد جو بہت اچھی صحت کے مالک ہیں ان کی حالت ابھی تک صحیح نہیں ہے۔ اب وہ بے چارے اسپتال میں ہیں ان کے آکسیجن لگی ہے جب کہ کافی ٹائم ہو گیا غرض سارے لوگ جو اس شادی میں شامل تھے متاثر ہوگئے۔‘‘ حالانکہ شادی کی وہ تقریب شہرکے ایک اچھے بڑے شادی ہال میں منعقد تھی لیکن اس طرح کورونا مثبت نے ذہن میں ڈھیروں سوال پیدا کردیے۔ یقیناً اس شادی ہال میں یا وہاں کام کرنے والے ملازمین میں کوئی متاثر تھا ورنہ سارے مہمان۔
’’ہاں میں نے اپنے بھتیجے کو فون کیا کہ وہ بھی اپنا ٹیسٹ کروا لے تو وہ کہنے لگا چچا کس کس کا ٹیسٹ کرواؤں، یہاں تو خیر سے سات بندے ہیں اور سب میں ہی علامات ہیں۔‘‘
یعنی سب نے قرنطینہ میں وقت گزارا۔
ظاہر ہے لیکن شکر اس بات کا کہ کوئی سیریس حالت میں نہیں گیا، سوائے دلہا کے باپ کے اور مجھے تو لگتا ہے کہ کھانے کے ذریعے کچھ گیا ہے۔
ویسے یہ ہمارے اپنے اپنے اندازے تھے کہ اس خطرناک وائرس کی منتقلی کیسے ہوئی لیکن عجیب بات یہ ہے کہ یہ شادی اس دور میں ہوئی جب دوسری شادیاں بھی کھلے عام منعقد ہو رہی تھیں لیکن ایسے میں کسی اچھے علاقے کے بڑے مہنگے شادی ہال میں مدعو تمام مہمانوں کا متاثر ہونا کچھ حیران کن تھا، بات پھر کہیں سے کہیں چل نکلی تھی۔
’’اچھا اس منگل کو چھوڑ کر اگلے منگل کو میرا آپریشن ہے۔ بڑا والا بیٹا بھی دبئی سے آجائے گا کیونکہ چھوٹا ڈرتا ہے بس میرے لیے دعا کیجیے گا کہ میری یہ مشکل آسان ہو جائے۔‘‘
’’ انکل! آپ کیسی بات کرتے ہیں، یہ بھی کوئی کہنے کی بات ہے، آپ اللہ پر یقین رکھیے اور بالکل نہ ڈریے۔
بالکل مجھے اللہ پر یقین ہے کہ وہی یہ بیماری لے کر آیا ہے اور وہی اسے لے جانے پر قادر ہے۔‘‘
’’بالکل۔ دعا ہے کہ آپ کو اذیت نہ ہو، اور بیماری کو کبھی برا بھلا نہیں کہنا چاہیے۔‘‘
ہماری گفتگو اکثر اسی طرح ہوتی تھی لیکن ان کا ہمت حوصلہ محسوس کرکے بہت اچھا لگا، ایک بڑا مشہور شعر ہے:
موت کا ایک دن مقرر ہے
نیندکیوں رات بھر نہیں آتی
انسان ساری زندگی آرام آسائشوں میں گزارتا ہے اس آخری وقت کا سوچے بنا کہ اس وقت کو وہ کیسے ہینڈل کرے گا وہ چند مہینے چند دن یا چند ساعتیںجب انسان کو اپنے سامنے اپنی آخری منزل نظر آنے لگتی ہے، اسے سمجھ آجاتا ہے کہ اب سفر عدم کی تیاری کا وقت آچکا ہے، یقین جانیے یہ چند مہینے، چند دن اور چند ساعتیں ساری لمبی چوڑی زندگی پر بھاری ہوتے ہیں۔
ہمارے پیغمبران، ہمارا آقاؐ دو عالم نے اپنی عملی زندگی سے بتا دیا کہ اس وقت کو کیسے ہینڈل کرنا ہے اس کے لیے تو دراصل پوری زندگی کو ایسے گزارنا ہے جیساکہ حکم ہے تو اس دنیا سے آخری سفر آسانی سے گزر جاتا ہے لیکن ہم اس ہدایت کو تو بھول ہی بیٹھے ہیں۔ آج کل کی مصروف زندگی میں وقت ہی نہیں ملتا کہ اس بارے میں سوچیں، یہ وقت نزع نہایت اہم ہے آپ کی پوری زندگی کا رزلٹ ان چند ساعتوں پر مبنی ہے، بچپن میں اپنی والدہ کی پھوپھی کے بارے میں سنا تھا کہ اسپتال میں ان کے گرد کچھ ایسا دیکھا گیا تھا کہ جس نے ان کی ساری زندگی کی نیک کمائی کو ظاہر کردیا تھا۔
مرحومہ نہایت کم گو اور عبادت گزار تھیں پھر ابھی چند برس پہلے ایک بڑے بزنس مین کے بارے میں سنا کہ مرتے وقت ان کے چہرے پر مسکراہٹ تھی، مرحوم کینسر کا شکار تھے لوگوں کی مدد کرنا گویا ان کی عادت میں شامل تھا، کسی کو شادی کے لیے امداد چاہیے ہو یا اسپتال کا بل ہو، بچوں کی فیس ہو یا اپنے کام کے لیے امداد وہ کسی نہ کسی طرح سائل کو مایوس نہ کرتے، کاروباری حالات ذرا کمزور ہوئے تو بھی یہ سلسلہ نہ رکا یہاں تک کہ اچانک خود بیمار پڑ گئے تشخیص ہوئی تو پتا چلا کہ موذی مرض کینسر لاحق ہے اور اپنے وقت پر چلے گئے پر اس آخری وقت کو بہت خوشی سے جھیل گئے، تب شعور جاگا کہ یہ چند ساعتیں کس قدر اہم ہوتی ہیں، کچھ اسی طرح اپنی بڑی بہن کے ساتھ دیکھا، جب انھیں غسل دیتے ان کے چہرے پر مخصوص مسکراہٹ دیکھی تو یقین ہی نہ آیا کہ وہ مسکرا رہی ہیں اس قدر فریش اور خوبصورت تو ان چند دنوں کی سخت بیماری میں وہ کبھی نہ لگی تھیں، نقاہت اور کم کھانے سے کمزور ہو گئی تھیں۔
’’آپ کی بات مجھے بہت اچھی لگی بیٹا ! دراصل انھوں نے موت کے فرشتے کو بہت اچھی شکل میں دیکھا ہوگا، اس لیے ان کے چہرے پر مسکراہٹ آگئی۔‘‘
غسل دینے والی خاتون نے معلومات میں اضافہ کیا تو ان آخری چند ساعتوں کی اہمیت کچھ اور بھی واضح ہوگئی۔ تو دوستو! لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کریں ، اخلاق کا دامن کبھی نہ چھوڑیں اور اپنے رب سے اور اپنے آقاؐ سے محبت کا رشتہ کبھی ٹوٹنے نہ دیں کہ یہ رشتہ دنیا کی سب سے بڑی سچائی ہے بے شک جس انسان کا جانے کا وقت مقرر ہے اسے اسی وقت جانا ہے اس پر بحث فضول ہے لیکن یاد رکھیے یہ دنیا مادی ہے اس کی پرستش کرنا چھوڑ کر اپنے اصلی اور سچے رشتے کو مضبوط کریں کہ یہ دوستی ہی ہمارے نتیجے کو بنا سکتی ہے ورنہ بگاڑنے والے تو بہت ہیں۔ اپنے سچے دوست سے بنائیے کہ بات ابھی بگڑی نہیں ہے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔