حکومت اور اپوزیشن دونوں کا اندرونی انتشار کیا رنگ لائے گا ؟

ارشاد انصاری  بدھ 5 مئ 2021
اگر بڑی سیاسی جماعتیں سیاست سے اس گند کو صاف کرنے پر متفق ہو جائیں تو یہ کسی انقلاب سے کم نہیں ہوگا۔

اگر بڑی سیاسی جماعتیں سیاست سے اس گند کو صاف کرنے پر متفق ہو جائیں تو یہ کسی انقلاب سے کم نہیں ہوگا۔

 اسلام آباد:  دنیا میں سیاست سے رہنمائی لی جاتی ہے اور سیاست دان اپنی عوام کی رہنمائی کرتے ہیں لیکن افسوس ہمارے ہاں سیاست کو گالی ، جھوٹ اور پتہ نہیں کس کس چیز سے جوڑا جاتا ہے اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں ایسے لوگ سیاست میں آئے جن لوگوں کا سیاست سے دور دور کا تعلق نہیں تھا۔

یہ وہ لوگ تھے جو پیراشوٹ سے سیدھے سیاست میں انٹری کرتے اور اقتدار کے مزے اڑاتے چلے جا رہے ہیں، ان کا نظریہ صرف اور صرف اقتدار ہے اور اقتدار سے باہر رہنما ان کیلئے ایسے ہی جیسے ماہی بے آب ہو یہ فصلی بٹیرے ہواوں کا رخ دیکھ کر اڑان بھرتے ہیں، یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے سیاست کو پراگندہ کر رکھا ہے۔

اگر بڑی سیاسی جماعتیں سیاست سے اس گند کو صاف کرنے پر متفق ہو جائیں تو یہ کسی انقلاب سے کم نہیں ہوگا۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال ہے ملکی سیاست ایک عرصے سے ٹو پارٹی سسٹم کے گرد گھوم رہی تھی پھر 2018 کے انتخابات میں سیاست نے کروٹ لی اور پاکستان تحریک انصاف تیسری سیاسی قوت بن کر سامنے آئی اور اقتدار کا ہما عمران خان کے سر بیٹھا اور عوام کو ان سے بہت امیدیں وابستہ تھیں لیکن پچھلے اڑھائی تین سال میں جو ہوا اس نے پاکستان میں تین پارٹی سسٹم کی بقاء پر سوال اٹھادیا ہے۔

اب یوں لگ رہا ہے کہ یہ تجربہ بھی ناکام ہونے جا رہا ہے اور یہ سسٹم مشکل ہی سے چل سکے گا ، دوبارہ سے ٹو پارٹی سسٹم لایا جا رہا ہے، لگ یہی رہا ہے  پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن ہی ایک دوسرے کے آمنے سامنے کھڑے ہوں گے اور یہ دونوں پارٹیاں ہی پاکستانی سیاست میں کردار ادا کر رہی ہوںگی جس کی جھلک ملک میں ہونے والے حالیہ ضمنی انتخابات میں واضح دکھائی دی ہے۔

ان ضمنی انتخابات میں حکمران جماعت بری طرح عوامی غیض و غضب کا شکار ہوئی اور عوام نے جس طرح سے پی ٹی آئی کو ضمنی انتخابات میں مسترد کیا ہے وہ یقینی طور پر پی ٹی آئی کی قیادت کیلئے لمحہ فکریہ ہے اور اسے گرتی ہوئی عوامی ساکھ بچانے کیلئے عوام کی نبض پر ہاتھ رکھنا ہوگا اور جتنی جلدی  ممکن ہو سکے ریلیف دینا ہوگی اور ساتھ ہی ساتھ پارٹی پر گرفت بھی مضبوط کرنا ہوگی اور اندرونی اختلافات کی بھڑکتی آگ پر پٹرول ڈالنے کی بجائے پانی ڈالنا ہوگا۔

ورنہ صورتحال مزید خراب ہوگی، کیونکہ جہانگیر ترین کی قیادت میں پی ٹی آئی کا ایک مضبوط دھڑا اپنے پورے قد کے ساتھ میدان میں کھڑا ہے اور اب جہانگیر ترین  نے عید کے بعد اپنے لائحہ عمل کا اعلان کرنے کا کہا ہے۔ تحریک پہلے ہی بہت سے محاذوں پر برسر پیکار ہے ایسے میں جہانگیر ترین گروپ کی لٹکتی ہوئی تلوار مزید مشکلات سے دوچار کرے گی۔ ادھر اپوزیشن بھی اسی قسم کی سیاسی توڑ پھوڑ اور انتشار کا شکار ہے اورحکومت کے خلاف بننے والا اپوزیشن کا اتحاد پی ڈی ایم پہلے ہی اپنا وجود کھو چکا ہے۔

اس اتحاد کی دو بڑی سیاسی جماعتیں پیپلز پارٹی اور ن لیگ آپس میں ایک دوسرے کے خلاف مورچہ زن دکھائی دے رہے ہیں اور پھر ن لیگ کو بھی آپسی اختلافات کا سامنا ہے لیکن اس صورتحال میں بھی مولانا فضل الرحمن اب اس اتحاد کے مردہ گھوڑے میں پھر سے جان ڈالنے کیلئے کوشاں ہیں، انہوں نے ایک جانب تو یہ کہا ہے کہ اب پی ڈی ایم میں ن لیگ کی قیادت میاں شہباز شریف کریں گے تو دوسری طرف  پیپلز پارٹی اور اے این پی کو بھی رجوع کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں اور اتحاد کو فعال بنانے کیلئے عید کے بعد پی ڈی ایم کا اجلاس بھی بلائے جانے کا امکان ہے۔

مسلم لیگ ن کے رہنما شہباز شریف رہائی کے بعد سیاست میں بھرپور انٹری کر رہے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کاکہنا ہے کہ وزیراعظم کی سرپرستی میں قوم کا آٹا چینی نہ لوٹا جاتا تو آج قوم آٹا چینی کے لیے یوں دھکے نہ کھا رہی ہوتی۔ (ن) لیگ کے ارکان پارلیمنٹ سے گفتگو کرتے ہوئے شہباز شریف نے کہا کہ صرف تماشے جاری ہیں،حکومت اب بھی کورونا، معیشت، مہنگائی اوربے روزگاری جیسے سنگین مسائل پر توجہ دینے میں سنجیدہ نہیں ہے۔

دوسری جانب مسلم لیگ (ن) نے الیکشن کمیشن سے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 249 میں دوبارہ پولنگ کی استدعا کر دی ہے ۔ چیف الیکشن کمشنر کی سربراہی میں چار رکنی کمیشن نے این اے 249 میں دوبارہ ووٹوں کی گنتی کے لیے (ن) لیگ کے مفتاح اسماعیل کی درخواست پر سماعت کی۔ مفتاح اسماعیل کے وکیل سلمان اکرم راجا نے موقف اختیار کیا کہ بڑی تعداد میں پریزائیڈنگ افسران کی جانب سے فارم 45 پر دستخط نہیں کیے گئے، 167 پولنگ اسٹیشنز کے فارم 45 پر دستخط موجود نہیں تھے، ہمارے پولنگ ایجنٹس کو فارم 46 بھی جاری نہیں کیے گئے۔

پریذائیڈنگ افسران دستخط شدہ فارم 45 اور 46 پولنگ ایجنٹس کوفراہم کرنے کے پابند ہیں، تصدیق شدہ فارم 45 اور 46 نہ ہونے سے پورا الیکشن مشکوک ہوگیا۔(ن) لیگ کے وکیل نے الیکشن کمیشن سے این اے 249 میں بے ضابطگیوں پرتحقیقات کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ 180 پولنگ اسٹیشنز میں پولنگ کے بعد جو کارروائی ہوئی وہ قانون کے مطابق نہیں تھی، حلقے میں ووٹوں کی صرف دوبارہ گنتی کافی نہیں الیکشن کمیشن کو مداخلت کرنا ہوگی۔

الیکشن کمیشن کے پاس آرٹیکل 218 کے تحت وسیع اختیارات ہیں، درخواست سے آگے بڑھ کر حلقے میں دوبارہ پولنگ کی استدعا کر رہا ہوں، این اے 249 ضمنی انتخاب میں ووٹوں کی دوبارہ گنتی ہمارا پہلا مطالبہ ہے، اگر مطمئن نہ ہوئے تو ووٹوں کی دوبارہ گنتی سے آگے بھی مطالبہ کر سکتے ہیں، دوبارہ انتخابات کیلئے باضابطہ درخواست بھی دائر کروں گا۔ ممبر پنجاب الطاف قریشی نے ریمارکس دیئے کہ آپ کی درخواست دوبارہ گنتی کی تھی، دوبارہ پولنگ کی درخواست آئے گی تب دیکھیں گے۔ (ن) لیگ کے وکیل کے دلائل مکمل ہونے کے بعد پیپلز پارٹی کے لطیف کھوسہ نے اپنے دلائل دیئے، انہوں نے کہا کہ پولنگ کے دوران (ن) لیگ نے کسی فورم پر کوئی شکایت نہیں کی،صرف یہ کہنا کافی نہیں کہ بے ضابطگیاں ہوئی ہیں۔

نشاندہی کرنا ہوتی ہے کہ کہاں کیا بے ضابطگی ہوئی ہے، ریٹرننگ افسر دوبارہ گنتی کی درخواست منظورکرنے کا پابند نہیں۔ چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ انتخابی اصلاحات کے لیے بنیاد ی کام اسٹیبلشمنٹ کا الیکشن میں کردار ختم کرنا ہے ۔ الیکشن اصلاحات وقت کی ضرورت ہے، الیکشن میں دھاندلی ختم کرنے کے لیے قانون سازی کی بھی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ ن لیگ نے ایک سیٹ ہاری ہے تو چاہ رہی ہے فوج مداخلت کرے، یہ غیر ذمہ دارانہ مطالبہ  ہے کہ پولنگ باکسز فوج کے حوالے کیے جائیں، اس سے الیکشنز بھی متنازع ہوتے ہیں اور فوج بھی متنازع ہوتی ہے۔

مالی سال 22-2021 کا وفاقی بجٹ جون کے دوسرے ہفتے میں پیش کیا جائے گا اور موجودہ حالات میں وزیر خزانہ شوکت ترین کیلئے یہ بجٹ بہت بڑا چیلنج ہوگا کیونکہ ملک اس وقت بری طرح معاشی و سیاسی مسائل میں گھرا ہوا ہے اور وزیر خزانہ شوکت ترین نے آئی ایم ایف پروگرام پر نظر ثانی کا عندیہ دیا ہے۔

یہ بھی ایک بہت خطرناک فالٹ لائن ہے اگر بات نہ بنی اور آئی ایم ایف حکومت کو ریلیف دینے پر آمادہ نہ ہوئی تو پروگرام دوبارہ ڈی ٹریک ہونے کا خطرہ ہے جس کے نتائج خوفناک ہونگے کیونکہ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے حالیہ اجلاس میں وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے بجلی کی قیمتوں میں اضافے کا مطالبہ ناجائز قرار دیتے ہوئے عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف)کے پروگرام پر نظر ثانی کا عندیہ دیدیا ، وزیر خزانہ نے کمیٹی کو بتایا کہ ہمارے ملک میں شارٹ، میڈیم اور لانگ ٹرم معاشی پالیسی نہیں، معیشت کی بحالی اور استحکام کیلئے سخت فیصلے کرنا ہوں گے۔

حکومت جن اداروں کو نہیں چلا سکتی ان کی نجکاری کر دی جائے گی۔آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن (اپٹما) کے سربراہ ا گوہر اعجاز نے وزیراعظم عمران خان کے نام خط لکھا ہے جس میں انہوں نے عید تعطیلات کے فیصلے پرنظرثانی کا مطالبہ کیا ہے، گوہر اعجاز کا کہنا ہے کہ ہمارا ملک اتنی چھٹیوں کا متحمل نہیں ہو سکتا، عید کی چھٹیاں صرف13 سے16مئی تک4 دن کی ہونی چاہییں۔گوہر اعجازکا کہنا ہے کہ کاروباری برادری کورونا ایس اوپیز پر مکمل عمل درآمدکر رہی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔