یادِ عمرِ رواں

رفیع الزمان زبیری  جمعـء 7 مئ 2021

عبیدہ اقبال رضوی کی کتاب ’’ یادِ عمرِ رواں‘‘ ان کی رودادِ زندگی ہے۔ وہ لکھتے ہیں ’’جہاں تک میرے ذہن نے اور میری یاد داشت نے میرا ساتھ دیا ، میں نے اپنی زندگی کے بہت سارے واقعات ، مصروفیات ، معمولات اور تجربات کو اس کتاب میں شامل کرنے کی حتی المقدورکوشش کی ہے۔

ممکن ہے پھر بھی بہت سی چیزوں کا احاطہ نہ کرسکا ہوں اور ایسا ہو بھی سکتا ہے کیونکہ میں کوئی مستند مصنف یا ادیب نہیں ہوں۔ بس یہ تو یوں ہی ذہن میں آیا کہ کیوں نہ ملازمت سے فراغت کے بعد اپنی یاد داشتوں اور تجربات کو قلم بند کرلوں اور اس میں ہمارے خاندانی بزرگوں کا ذکر بھی ہو جائے اور ساتھ ہی ساتھ اس دورکا ایک روشن پہلو بھی دکھا دوں جو اب آہستہ آہستہ معاشرے میں معدوم ہوتا جا رہا ہے، یہاں تک کہ جو ماحول ہمیں نوکری کے شروع کے زمانے میں ملا تھا وہ اختتامِ ملازمت میں تقریباً ناپید ہوتا جا رہا ہے۔

’’ میری اس کتاب میں بہت سارے ایسے واقعات ہیں جن سے اگر ہماری نئی نسل روشناس ہوگی اور ان کے ذہن میں تبدیلی کا باعث بنے گی اور اگر ساتھ ہی ساتھ ان کی تربیت کو بھی تبدیل کرنے میں مدد دی تو شاید میں اپنی زندگی کا قرض اتارنے میں کامیاب ہوں گا کیونکہ جو واقعات میں نے قلم بند کیے ہیں ان کا بڑا تعلق ہمارے گھریلو ماحول سے رہا ہے اور پھر ہمارے دفتری معمولات کے دوران میری نظر سے گزرے یا میرے تجربے میں آئے۔ میرے خیال میں ان تجربات سے نئی نسل کا واقف ہونا بہت ضروری ہے۔

اس لیے کہ عمارت ایک دن میں نہیں بنتی ہے۔ بستی بسنا کھیل نہیں، بستے بستے بستی ہے۔ اسی طرح ایک نسل کو بنانے میں بھی بے انتہا وقت درکار ہوتا ہے ، جو واقعات میں اپنی یاد داشت سے اس کتاب کے صفحے پر لایا ہوں: میرے خیال میں تمام لوگ جو میری عمر کے ہیں وہ اگر انھیں موقعہ ملے تو اپنے بچوں کے ساتھ ضرور پڑھیں یا ان کو اس تحریر سے آگاہ کریں تاکہ شاید ان بچوں کی کردار سازی میں یہ واقعات ایک اہم کردار ادا کریں۔‘‘

عبیدہ اقبال لکھتے ہیں ’’میں تو پیشے کے لحاظ سے ایک بینکار رہا اور تقریباً تمام عمر ہی بینکاری میں گزری اور اس درمیان میں اتنے سارے لوگوں سے ملنے کا اتفاق ہوا ، وہ میرے مشاہدے میں آئے جس سے خود میری تربیت ہوئی اور میں یہ کہنے میں خوشی محسوس کر رہا ہوں کہ آج جو میں ہوں وہ یقینا میری پہلی شخصیت سے بہت بدل چکی ہے۔ ہرچند کہ کوئی بھی انسان مکمل نہیں ہوتا کئی شخصی کمزوریاں مجھ میں بھی موجود ہوں گی ، اگر یہ لوگ میری زندگی میں نہ آتے تو یقینا میں ایک ناتراشیدہ کندہ ہوتا۔ میں ان تمام لوگوں کا اور اپنے رب کا شکر گزار ہوں کہ آج جب میں اپنی زندگی کے سفر کا جائزہ لے رہا ہوں تو اپنے آپ کو بہت مطمئن پاتا ہوں۔‘‘

عبیدہ رضوی کے والدین کا تعلق ہندوستان کے صوبہ بہار کے شہر پٹنہ سے تھا۔ ان کا خانوادہ ان کی پیدائش سے پہلے رؤسا میں شمار ہوتا تھا ، وقت کی شکست و ریخت نے انھیں بلندی پر رہنے نہیں دیا۔ اس پر سے ایک اور انقلاب آگیا۔ پاکستان بننے کے بعد خاندان کے بیشتر لوگ پاکستان منتقل ہونے لگے۔ رضوی کے ننھیال میں تعلیم اور نوکری کا عنصر نمایاں تھا۔

رضوی کے والدین پہلے ہجرت کرکے مشرقی پاکستان گئے اور جب وہاں کی صورتحال خراب ہونے لگی تو ڈھاکا سے کراچی چلے آئے۔ یہاں سے زندگی کا ایک نیا دور شروع ہوا۔ رضوی نے پرائیویٹ امتحان دے کر میٹرک پاس کیا اور پھر گورنمنٹ کامرس کالج جوائن کر لیا۔

عبیدہ اپنے کامرس کالج کے دنوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔ ’’مجھے چونکہ شعر و شاعری سے لگاؤ تھا لہٰذا میں کالج کی بیت بازی کی ٹیم میں شامل رہتا اور معیاری اشعار اور پڑھنے کے انداز سے مقابلے میں نمایاں رہتا۔ میری ان صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے کچھ طلبا نے جن میں ناصر علی شاہ بخاری پیش پیش تھے ایک بیت بازی کی ٹیم تشکیل دی جس میں کالج کے بہترین طالب علم کو چنا گیا ، تین لڑکیاں اور تین لڑکے اور اس ٹیم سے میرا تن تنہا مقابلہ کرایا گیا۔ الحمدللہ میں نے اس بہترین منتخب ٹیم کو شکست دے کر ٹرافی جیت لی۔‘‘

کالج سے نکل کر عبیدہ نے چارٹرڈ اکاؤنٹس کی پڑھائی کی کوشش کی۔ انھیں ایک مشہور سی اے فرم میں آرٹیکل شپ مل گئی اور آرٹیکل مکمل ہوتے ہی ایک کالج و اسپتال میں ملازمت مل گئی۔ یہاں کام کرتے ہوئے انھیں ڈھائی سال ہوئے تھے کہ ’’بی سی سی آئی‘‘ میں ملازمت کا اشتہار دیکھا، درخواست دی، انٹرویو ہوا اور منتخب ہوگئے۔ یہ 1984 کی بات ہے جب انھوں نے یونیورسٹی کو خیرباد اور ’’بی سی سی آئی‘‘ کو جوائن کرلیا۔ یہیں سے ان کے بینکنگ کریئر کی ابتدا ہوئی اور یہ آگے ہی بڑھتے رہے۔ 1991 میں اچانک بی سی سی آئی بند ہو گیا اور عبیدہ بے روزگار ہوگئے۔

پھر جیساکہ اللہ کا وعدہ ہے کہ ایک دروازہ بند ہوتا ہے تو دس دروازے کھل جاتے ہیں۔ انھیں چھ مہینے بعد ہی ایک اور بینک میں ملازمت مل گئی۔ یہاں کا ماحول ان کا پسندیدہ نہیں تھا تاہم وہ خوش تھے کہ روزگار تو ہے۔ پھر یہ ہوا کہ یونین بینک کے نام سے ایک نیا بینک قائم ہوا۔ انھوں نے اپنے سابقہ مہربانوں کے توسط سے وہاں جانے کی کوشش کی اور کامیاب ہوئے اور یہ وہاں پہنچ گئے۔ اس بینک کی سب سے اہم برانچ کے آپریشن منیجر ہوگئے۔ پھر ’’اے وی پی‘‘ سے ’’وی پی‘‘ بنا دیے گئے اور بہت سی مراعات معہ کار کے مل گئیں۔

عبیدہ اقبال 2005 کے آخر تک یونین بینک سے منسلک رہے پھر جب دبئی اسلامک بینک قائم ہوا تو وہاں پہنچ گئے۔ یہ اسی سال کی بات ہے۔ قابل ذکر یہ ہے کہ یہ اس بینک کی پہلی برانچ کے جو آواری ٹاور میں کھلی تھی آپریشن منیجر تھے۔ جنرل مشرف نے اس کا افتتاح کیا تھا اور پہلا اکاؤنٹ ان کا بینک میں انھوں نے کھولا تھا۔ چار سال یہاں گزار کر عبیدہ ’’بینک الفلاح‘‘ میں پہنچ گئے اور پھر اسے چھوڑ کر حبیب میٹرو بینک جوائن کرلیا۔ یہ ان کے بینکنگ کریئر کی آخری منزل تھی۔

عبیدہ اقبال رضوی لکھتے ہیں ’’ اس گزری ہوئی زندگی کی کہانیاں تو اتنی ساری ہیں کہ کہاں تک لکھوں اور کہں تک سناؤں۔ میری شریک حیات، شاہدہ فاطمہ کا اصرار ہے کہ میں کچھ اپنی نوجوانی کے قصے بھی اس کتاب میں لکھوں تاکہ ان کے پاس میرے خلاف ایک تحریری سند ہو اور انھیں یہ کہنے میں لطف آئے کہ بڑے میاں اپنے وقت میں کتنے دیوانے تھے۔ ان کے علم میں یہ نہیں کہ پیار نہ ہو جس مورکھ کو وہ مورکھ انسان نہیں۔ لہٰذا کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس نے پیار نہیں کیا۔

اگر نہ زہرہ جبینوں کے درمیاں گزرے

تو پھر یہ کیسے کٹے‘ زندگی کہاں گزرے

ادب اور شاعری سے لگاؤ ہونے کی وجہ سے ہمیں تو چاند میں بھی محبوب کا چہرہ نظر آتا ہے، اس لیے سبھی چہرے مجھے اپنے لگتے تھے اور میں پیارکی طلب کی خواہش ہر ایک سے رکھتا تھا، خاص طور پر چہرہ سادہ اور معصوم ہو۔ لیکن اس ابتدائی محبت کا ایک عجیب اور دلکش نتیجہ یہ نکلا کہ آہستہ آہستہ سب محبتوں پر حاوی اللہ اور اس کے رسولؐ کی محبت نے دل میں بے پناہ جگہ بنا لی اور اب دل کا کوئی حصہ کسی اور کے لیے خالی نہیں ہے۔ اب مجھے صرف وہی چیزیں اچھی لگتی ہیں جن چیزوں کو آپؐ سے نسبت ہے۔ جب سے اس جام محبت کا لطف آیا ہے قسم خدا کی کسی اور چیز میں کشش محسوس نہیں ہوتی۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔