حقیقی جمہوری حکومت کی ضرورت

ناصر الدین محمود  جمعـء 7 مئ 2021

یوں تو سرد جنگ کے خاتمے کے بعد پاکستان میں برسرِ اقتدار آنیوالی دونوں جماعتوں کی حکومتوں نے پاک بھارت تعلقات میں کشیدگی کم کرکے حالات معمول پر لانے کی اپنی سی متعددکوششیں کیں لیکن پاکستان مسلم لیگ (ن) نے اس سلسلے میں بہت آگے بڑھ کر اتنی زیادہ کوششیں کیں کہ ان کی قیادت پر بھارتی ایجنٹ ہونے کے الزامات تک لگائے جانے لگے۔

90 کی دہائی کے آخری عشرے میں میاں محمد نواز شریف کی کاوشوں کے نتیجے میں بھارتی انتہا پسند جماعت بی جے پی کے رہنما بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی پاکستان کے دورے پر لاہور آئے۔ اس موقع پر دونوں پڑوسی ایٹمی طاقتوں کے وزرائے اعظم نے مسئلہ کشمیر کو دونوں ممالک کے درمیان ایک متنازع موضوع تسلیم کرتے ہوئے پاکستان اور بھارت کے درمیان کئی عشروں پر محیط تناؤ کے شکار تعلقات کو معمول پر لانے اور تجارت سمیت تمام پابندیاں نرم کرنے کے معاہدہ ’’ اعلان لاہور‘‘ پر دستخط کر دیے۔

اس کے نتیجے میں جنوبی ایشیا میں پائیدار امن اور ترقی و استحکام کے نئے امکانات روشن ہوئے لیکن ایک مخصوص سوچ کی جانب سے سیاسی معاہدے کو قومی مفاد کے خلاف تصور کیا گیا اور آخر کار میاں محمد نواز شریف کی حکومت کا خاتمہ کرکے آئین معطل کر دیا گیا ، اسمبلیاں تحلیل کردی گئیں اور ملک کو ایک بار پھر جمہوریت سے محروم کردیا گیا۔

میاں محمد نواز شریف جب تیسری بار اقتدار میں آئے ، تب انھوں نے جنوبی ایشیا میں پائیدار امن کے خواب کی تعمیل میں ایک بار پھر بھارت کے ساتھ برابری کی بنیاد پر تعلقات میں کشیدگی کم کر کے حالات کو سازگار بنانے کے عمل کا آغازکیا تھا۔ اس بار پھر بھارت میں ہندو انتہا پسند جماعت بی جے پی کی حکومت تھی۔ وزیر اعظم نواز شریف جنگی جنون میں مبتلا جنوبی ایشیا کی دونوں پڑوسی ایٹمی طاقتوں کے درمیان یورپ کی طرز کے تعلقات کے خواہش مند تھے تاکہ دونوں پڑوسی ممالک اپنے وسائل ریاست کی جدید تشکیل اور عوامی فلاح کے منصوبوں پر خرچ کرکے اپنے اپنے ملک کے عوام کے معیار زندگی کو بہتر بناسکیں۔

اسی مقصد کے حصول کے لیے انھوں نے بھارتی وزیراعظم کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھایا نتیجے میں بھارتی ہم منصب وزیراعظم نریندر مودی اپنے افغانستان کے دورے سے واپسی پر اچانک پاکستان آگئے۔ جس سے پورے پاکستان میں کہرام مچ گیا۔ افواہوں اور الزامات کا نہ رکنے والا سلسلہ ایک بار پھر شروع ہو گیا اور بدقسمتی سے ایک مرتبہ پھر وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف اور ان کی جماعت الزامات کی زد میں آگئی۔ وزیر اعظم نواز شریف اور ملک کی طاقت ور قوتوں کے مابین سرد مہری کا شکار تعلقات مزید کشیدہ ہو گئے۔

ان کے خلاف پاناما کیسزکہ جس میں ان کا کوئی ذکر ہی نہ تھا لیکن ملکی تاریخ کی سب سے طاقت ور جے آئی ٹی تشکیل دی گئی اور انھیں اس کا سامنا کرنا پڑا۔ اگرچہ جے آئی ٹی ان کے خلاف بدعنوانی کا کوئی الزام درست ثابت نہیں کر سکی لیکن پھر بھی وزیراعظم کو ایک مفروضہ کی بنیاد پر جرم کا مرتکب قرار دیا اور پھر بلیک ڈکشنری کا سہارا لے کر انھیں نا اہل قرار دیتے ہوئے ان کو اقتدار سے معزول کر دیا۔ 2017 میں تیز رفتاری سے ترقی کرتے ہوئے پاکستان اور اس کے عوام ششدر رہ گئے۔

اس سانحہ کے بعد ملکی ترقی سست روی کا شکار ہوئی لیکن 2018 کے انتخابات میں آر ٹی ایس سسٹم بیٹھا کر بنائی جانیوالی حکومت کے پہلے سال ہی معیشت تنزلی کا شکار ہونے لگی۔ 5.8 فیصد کی شرح نمو سے ترقی کرتی ہوئی معیشت محض دو برسوں میں منفی 1.5 فیصد کو جا پہنچی۔ خیر اپنے تیسرے دور حکومت میں وزیر اعظم نواز شریف نے پاک بھارت تعلقات میں کشیدگی کم کرکے انھیں معمول پر لانے کی جتنی کوششیں کیں سب پر شدید اعتراض کیا گیا اور سنگین الزامات عائد کیے گئے لیکن جب سے عمران خان نے اقتدار سنبھالا ہے۔

اس کے بعد سے یہ تواتر سے دیکھنے کو ملا کہ ہر وہ کام جو نواز شریف بطور وزیراعظم، ملکی وقار اور احترام کو ملحوظ رکھتے ہوئے پاکستان کے استحکام اور عوام کی خوشحالی کے لیے کرنا چاہتے تھے موجودہ حکومت نے اس سے کہیں بڑھ کر اس طرح کیے کہ نا صرف پاکستان اس کے فوائد حاصل کرنے سے محروم رہا بلکہ عالمی تنہائی کا احساس زیادہ نمایاں ہوتا گیا۔ یورپی یونین نے پاکستان کے خلاف قرارداد ایک ایسے موقع پر منظور کی ہے کہ جب چند ماہ بعد ایف اے ٹی ایف کی جانب سے ہماری کارکردگی کو جانچنے کے اجلاس کا وقت بھی قریب آ پہنچا ہے۔

ان ہی عالمی دشواریوں کے پیش نظر چند روز قبل کئی سینیئر صحافیوں کو پاکستان کے بھارت کے ساتھ تجارت کھولنے کے فوائد سے آگاہ کیا گیا لیکن حیرت انگیز طور پر موجودہ حکومت کو اس اہم پیش رفت سے بے خبر رکھا گیا۔ سوال یہ ہے کہ اگر اب اس حقیقت کا ادراک ہو چکا ہے کہ پڑوسی ملکوں سے تعلقات بہتر بنائے بغیر ملکی ترقی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا تو پھر انھیں اس حقیقت کو بھی تسلیم کرلینا چاہیے کہ آج کے عالمی حالات میں اس طرح کی پیش قدمی عوامی تائید سے محروم قوتوں کے ساتھ زیادہ کامیاب اور معنی خیز نہیں ہو سکتی اس کے لیے ایک مقبول ، حقیقی منتخب جمہوری حکومت کا قیام لازمی امر ہے۔

آج کی تبدیل شدہ دنیا جنوب ایشیا بالخصوص پاک بھارت تعلقات کو معمول پر لانے اور اسے کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے عوام کی ایک حقیقی منتخب کردہ جمہوری حکومت سے مذاکرات کی خواہاں ہوگی۔ چین کی ایران کی جانب بڑھتی ہوئی دوستی اور 400 ارب ڈالرزکی سرمایہ کاری سے ایران کے جدید انفرااسٹرکچر کی تعمیر ، افغانستان سے اسی سال امریکی افواج کا انخلاء اور اس کے پاکستان پر اثرات ، پاکستان میں سست روی کا شکار سی پیک منصوبہ، ہماری عالمی سطح کے ساتھ ساتھ اسلامی امہ میں تنہائی اور سب سے بڑھ کر ملک پر بڑھتے ہوئے قرضے اور شدید ابتری کا شکار معیشت اس بات کی متقاضی ہے کہ پاکستان کے استحکام اور ترقی کے لیے ایک آزاد اور خود مختار الیکشن کمیشن کی زیر نگرانی منصفانہ انتخابات منعقد کروائے جائیں اور اس کے نتیجے میں منتخب ہونے والی حکومت کی دانش اور ان کی حب الوطنی پر اعتماد کرتے ہوئے اب اقتدار کے ساتھ ساتھ اختیارات بھی انھیں منتقل کیا جائے۔

ہمیں ترقی یافتہ یورپ سے بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے لیکن کم ازکم یہ ضرورکہ وہ کس طرح آپس میں اپنے پڑوسی ممالک سے برسوں پر پھیلے ہوئے کشیدہ تعلقات کو معمول پر لائے ، پھر اپنے غیر ضروری اخراجات میں کمی لاکر اپنی باہمی تجارت کو فروغ دیا اور آج ساری دنیا کی توجہ کا مرکز ہے۔

ہم پاکستان میں حقیقی متحمل مزاج جمہوری حکومت کے ذریعے بھارت کو ماضی کی طرح جنوبی ایشیا میں پائیدار امن اور استحکام کے لیے مجبور کرسکتے ہیں۔ اسی طرح پاکستان پورے خطے کو امن و آشتی اور ترقی و خوشحالی کا گہوارہ بنانے کے عمل کی رہنمائی کرسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔