شہر قائد کی باہمت خاتون

شکیلہ شیخ  اتوار 9 مئ 2021
زندگی مشکل ہوئی تو فاطمہ نازش نے تندور لگاکر جینے کا سامان کرلیا۔ فوٹو: فائل

زندگی مشکل ہوئی تو فاطمہ نازش نے تندور لگاکر جینے کا سامان کرلیا۔ فوٹو: فائل

پاکستان کی لاکھوں محنت کش خواتین شہری اور دیہی علاقوں میں صنعتی اور زرعی سیکٹر میں سخت محنت کے ساتھ اپنے فرائض انجام دے رہی ہیں۔

فیکٹریوں کی مزدور خواتین، بھٹا مزدور خواتین، کھیت مزدور خواتین، گھریلو ملازم خواتین، بیوٹی پارلروں کی ورکرز، آفس ورکرز سمیت پاکستان میں خواتین مختلف شعبوں میں کام کر رہی ہیں، مگر انھیں مناسب اجرت بھی نہیں ملتی، زچگی اور صحت کی سہولتوں کی فراہمی کا کوئی بہتر انتظام موجود نہیں، انھیں قلیل اجرت، ہراسانی، جبری مشقت سمیت متعدد مسائل کا سامنا ہے، ایسے میں بہت سی خواتین اپنی زندگیوں میں بہتری پیدا کرنے کے لیے کوشاں ہیں اور نہ صرف اپنی زندگی کے لیے بلکہ اپنے خاندان کے لیے بے شمار مشکلات برداشت کرتی ہیں۔

تمام خواتین مختلف ہوتی ہیں، لیکن پھر بھی کسی نہ کسی سطح پر ان کے اندر مالی خودمختاری کی خواہش موجود ہوتی ہے، کراچی سے تعلق رکھنے والی ایک باہمت خاتون فاطمہ نازش نے مالی پریشانیاں دور کرنے کے لیے تندور و اور پکوان مرکز کھولا ہے۔ وہ چار بچوں کی ماں ہیں، شوہر سے علیحدگی کے بعد انھوں نے اپنے بچوں کی اچھی پرورش اور مالی حالات بہتر کرنے کے لیے اپنا کام شروع کیا اور تندور لگا کر اپنے بزنس کا آغاز کیا۔

کھانے پکانے میں ماہر ہنرمند خاتون نازش نے پہلے اپنے گھر سے چھوٹے پیمانے سے آن لائن پکوان کا کام شروع کیا۔ بہت ہی کم عرصے میں آن لائن بہت زیادہ کام ملنے لگا جس کی وجہ سے انھوں نے دوسری خواتین کو روزگار کا موقع فراہم کیا اور اپنے ساتھ کام پر رکھا نازش نے بتایا کہ انھیں پکوان سے متعلق آن لائن کام کا اچھا تجربہ رہا تھا لاک ڈاؤن کے دوران لوگ فون کالز کرکے مجھ سے مختلف قسم کے کھانے بنواتے تھے کوئی نرگسی کوفتے بنواتا تھا تو کوئی بریانی اور کوئی چکن سے بنی ہوئی مختلف کھانے جس کا فیڈ بیک بہت زبردست آتا تھا اسی دوران انھوں نے سوچا کہ کیوں نہ تندور اور پکوان کا بزنس شروع کیا جائے اور انھوں نے اس بارے میں لوگوں سے مشورے کرنا شروع کردیئے بات چیت کرنے پر ملے جلے تاثرات سننے کو ملتے تھے لوگوں کا کہنا تھا کہ تندور سراسر مردوں سے تعلق والا کام ہے اس میں آپ کو مشکلات پیش آئیں گی مگر کچھ لوگوں نے بہت ہی مثبت سوچ دی اور بتایا کہ یہ اتنا بھی مشکل نہیں ہے اور بس میں نے معلومات جمع کرنا شروع کردی اور پھر اس کے بعد انھوں نے باقاعدہ دکان کرائے پر لے کر تندور اور پکوان سینٹر کھولنے کا ارادہ کیا جس پر سب نے تنقید کی کہ گھر سے کام کرنے میں اور روڈ پر کھڑے ہوکر کام کرنے میں بہت فرق ہے تم یہ نہیں کر سکو گی مگر ان کا جواب ہمیشہ یہی ہوتا تھا کہ کوئی بھی کام مشکل ضرور ہوتا ہے مگر ناممکن نہیں ہوتا اور اسی سوچ پر عمل پیرا ہوتے ہوئے انھوں نے ایک تندور اور پکوان سینٹر کھول ہی لیا اور آج کام یابی سے اپنا کاروبار چلارہی ہیں اور دوسری خواتین کے لیے مثال بنی ہوئی ہیں۔

وہ بتاتی ہیں کہ تندور لگانے کے بارے میں جب ان کی فیملی کو پتا چلا تو کسی نے ان کی حوصلہ افزائی نہیں کی بلکہ الٹا ان کو باتیں سنائیں لیکن وہ ٹھان چکی تھیں کہ وہ یہ کاروبار ضرور کریں گی۔ اس کے لیے سب سے پہلے انھوں نے دکان دیکھی، دکان لینے میں بھی انھیں دشواری پیش آئی کیوںکہ ایگریمینٹ کے وقت ان سے کہا گیا کہ کسی مرد کو لائیں یہ کام عورتیں نہیں کرتیں۔ دکان کے مالک کی یہ باتیں بھی نازش کے حوصلے کو پست نہ کرسکیں۔ نازش دکان کرائے پر لینے کے لیے روز ان کے پاس جاتیں اور انھیں یقین دلاتیں کہ وہ یہ کام اچھے طریقے سے کرسکتی ہیں۔ دکان کے مالک نے نازش کے پختہ ارادے کو دیکھتے ہوئے دکان کرائے پر دینے کا فیصلہ کرلیا۔

یوں نازش نے اپنے چھوٹے سے کاروبار کا آغاز کیا، اس کے باوجور لوگ یہی کہتے رہے کہ کوئی عورتوں والا کام کرو مگر انھوں نے یہی کرنے کی ٹھانی ہوئی تھی، اس لیے تمام تنقید اور مشکلات کے باوجود آج کام یابی سے اپنا کاروبار کررہی ہیں اور دوسروں کے روزگار کا ذریعہ بھی بنی ہوئی ہیں۔ اس تندور کے ذریعے فاطمہ نازش اپنے چار بچوں کی تعلیم و تربیت کا اہتمام کررہی ہیں اور خاندان کو بھی مالی تعاون فراہم کررہی ہیں۔ نمائندے سے بات کرتے ہوئے نازش کا کہنا تھا کہ اگر کوئی خاتون کچھ کرنے کی ٹھان لیتی ہے تو راہ میں آنے والی ہر رکاوٹ کو توڑتی ہوئی اپنی منزل تک جاپہنچتی ہے۔

انھوں نے بتایا کہ وہ بہت اچھی بائیک رائیڈر بھی ہیں۔ آن لائن کام کے دوران اکثر مجھے اشیاء کی خریداری کے لیے باہر جانا پڑتا تھا تو مجھے ٹرانسپورٹ میں سفر کرنا مہنگا پڑتا تھا اور مشکل بھی۔ پھر میں نے اس مسئلے کا حل یہ تلاش کیا کہ میں نے خود موٹرسائیکل چلانا سیکھی، جس کے بعد میں کسی کی محتاج نہیں رہی۔ اب مجھے اپنے پکوان سینٹر جانا ہو یا کسی دوسرے کام سے، اپنی بائیک کا استعمال کرتی ہوں۔

ایک سوال کے جواب میں انھوں نے بتایا کہ شروع شروع میں مجھے بائیک چلاتے دیکھ کر اکثر مرد حضرات آوازیں لگاتے تھے مگر اب معاشرے میں بدلاؤ آرہا ہے لوگوں میں سمجھ آرہی ہے اور کراچی کی ٹرانسپورٹ کا حال بھی سب کے سامنے ہی ہے۔ اب لوگ بائیک چلانے پر حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور کئی لوگوں نے مجھ سے تو درخواست کی ہے میں ان کی بیٹیوں اور بہنوں کو بائیک چلانا سکھا دوں۔

نازش کا کہنا ہے کہ میں نے سوچ لیا ہے کہ اب یہاں پر نہیں رکنا ہے جیسے ہی میرا یہ اسٹارٹ اپ مستحکم ہوتا ہے اس کے بعد سپر ہائی وے پر ایک اچھا ریسٹورنٹ کھولنے کا ارادہ ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ مجھے یقین ہے کہ آنے والا وقت بہت اچھا ہوگا۔ بے شک خواتین کو سماجی اور معاشی چیلینجز کا سامنا ہے مگر وہ ہمت اور جذبے کے ساتھ اپنے خاندان و معاشرے کے لیے بہترین معاون ثابت ہورہی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔